• 26 اپریل, 2024

میرے والد مکرم لطف المنان خان کی کچھ سنہری یادیں

پیارے پاپا جی مکرم لطف المنان خان ہمارے لئے بہت بیش قیمت تھے جوکہ 6 جنوری 2020ء کو عصر کے وقت ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللّٰہ و انا الیہ راجعون اُن کی وفات ہم سب کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا لیکن ہمارے لبوں پہ بس یہی الفاظ تھے

راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہو

اُن کی دعائیں، ان کی باتیں اور ان کی یادیں ہم سب کے ساتھ ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ میرے پاپا جی کی زندگی میرے لئے ایک مثالی زندگی تھی جس پر کوئی بھی اولاد فخر کرسکتی ہے۔ اُن کی زندگی کے ہر پہلو کو میں نے اپنی پیدائش سے لے کر اُن کی وفات تک جیسے دیکھا اور اُن کی وفات کے بعد اُن کے ملنے والوں سے اُن کی خوبیوں کا جو تذکرہ سُنا اُس میں سے چند باتیں اور یادیں تحریر میں لا رہی ہوں۔ آپ خدا کے فضل سے پیدائشی احمدی تھے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 74 سال تھی اور آپ حلقہ جوہر ٹاؤن لاہور پاکستان میں رہائش پذیر تھے ۔آپ کی تدفین، ھانڈوگجرقبرستان میں 7جنوری 2020ء کو عمل میں آئی۔ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 19 مارچ 2020ء کو نماز ظہر سے قبل مسجد مبارک اسلام آباد ٹلفورڈ میں آپ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔

آپ 1945ء کو قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے پاکستان بننے کے بعددوسال کی عمر میں اپنے والدین اور فیملی کے ساتھ پاکستان آگئے چونکہ آپ کے والد عبدالرحمٰن خان کا تعلق پشاور آرمی سے تھا اس لیے آپ کا بچپن پاکستان کے مختلف شہروں میں گزرا۔ مستقل سکونت آپ نے لاہور ہی میں اختیار کی۔ آپ کی تعلیم ماسٹر ان لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس تھی اس کے علاوہ آپ نے Computer Application میں مختلف ڈپلومہ کورسز کرنے کے ساتھ مختلف زبانوں میں بھی ڈپلومہ کورسز کئے ۔ آپ پنجاب یونیورسٹی کے 19سکیل کے ریٹائیر ڈپٹی چیف لائبریرین تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعدسے لے کراپنی وفات سے ایک دن پہلے تک آپ پنجاب گروپ آف کالجز میں چیف لائبریرین کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔

آپ کے والد عبدالرحمٰن خان بہت مخلص اور نیک احمدی تھے۔جنہوں نے جماعت اور غیراز جماعت کے بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے قرآن مجید ترجمے کے ساتھ لکھا ۔ جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تحریک جدید کاا علان کیا تو آپ کے والد صاحب کا نام تحریک جدیدکے چندہ دینے والے پہلے 300 مخلص احمدیوں میںسے تھا۔ آپ کے نانا مستری گوہر دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعودؑ تھے جن کو مینارہ المسیح قادیان کا دروازہ بنانے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ بشریٰ عزیز کا تعلق سنوری خاندان سے ہے ۔ حضرت عبداللہ سنوری ان کے پڑنانا تھے۔ مرحوم ڈاکٹر چوہدری ناصر احمد صاحب سابق افسر جلسہ سالانہ (یو۔کے) کے ہم زلف تھے۔ مکرم مولوی منور احمد (اللہ ان کے درجات بلند فرمائے) سابق مبلغ افریقہ آپ کے حقیقی پھوپھا جان تھے اور مکرم مبارک احمد سیکرٹری مجلس نصرت جہاں آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔

جماعت سے آپ کو بہت لگاؤ تھا ہر وقت جماعت کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کر نے کے لیے تیار رہتے جب بھی جماعت کی طرف سے کوئی پراجیکٹ یا Assignment ملتی جب تک مکمل کر نہ لیتے چین سے نہ بیٹھتے۔ آپ کو رضاکارانہ طور پر 2007ء میں دارالذکر گڑھی شاہو مسجد کی لائبریری کو سیٹ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔

جماعتی اجلاسات میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے ۔جماعتی چندہ جات باقاعدگی سے ادا کرتے تھے بلکہ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ سال کے شروع میں ہی تمام سال کا چندہ ادا کردیں اب بھی انہوں نے سال کا پورا چندہ ادا کر دیا تھا۔وفات سے ایک دن پہلے سخت طبیعت کی خرابی کے باوجود اپنے چندہ جات کی ادائیگی کو جاری رکھنے کی تلقین کی۔

آپ کو ذہانت و فراست میں کمال حاصل تھا۔ کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے لکھانے اور خطاطی کا بہت زیادہ شوق تھا۔ جماعتی مقالہ جات لکھتے تھے۔ مقالہ جات لکھنے کا اہتمام بہت لگن اور شوق سے کرتے تھے۔ آپ کو مقالہ لکھنے کا خاص وصف آتا تھا جیسے ایک کتاب کو لکھنے کے لیے ٹیکنیکل عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے ویسے ہی آپ بھی اپنے مقالہ جات میں ان کا خیال رکھتے تھے۔ آپ کے مقالہ جات میں شامل مواد بہت اعلیٰ اور معیاری ہوتا تھا۔ جیسے کہ پی ایچ ڈی کی سطح پرہوتا ہے۔ جس دن جماعت کی طرف سے مقالہ لکھنے کی تحریک ہوتی اسی دن سے ہی آپ دن رات اس کام میں لگ جاتے اس سلسلے میں مواد جمع کرنے کے عمل سے لے کر اپنے ہاتھ سے لکھ کر رف ڈرافٹ تیار کرنا، کمپیوٹر پرٹائپنگ، پروف ریڈنگ اور فائنل ڈرافٹ تیار کرنے کے سارے عمل کو بہت لگن اور شوق سے سر انجام دیتے ۔ نہ صرف مقالہ خود لکھتے بلکہ گھر میںہی مقالے کی جلد بھی خود ہی کرتے اس مقصد کے لیے ان کے پاس مختلف مارکر، قلم، سکیل اور دیگر ا سٹیشنری اشیاء کے علاوہ ٹول کٹ بیگ بھی تھا۔ Artistic sense بہت اچھی ہونے کی وجہ سے آپ نے اپنے تمام مقالہ جات کے Title Page خود Design کیے۔ معیاری اعلیٰ میٹریل اور خوبصورت Title Page Design ہونے کی وجہ سے آپ نے مسلسل دو مرتبہ مقالہ جات میں اول پوزیشن حاصل کی۔

2010ء میں لاہور میں احمدیہ مساجد پر حملے کے نتیجے میں زخمی ہونیوالے احمدی احباب لاہور کے جن ہسپتال میں ایڈمٹ تھے اسی دن آپ نے جا کر سب کی فرداً فرداً عیادت کی۔ 2010ء سے ہی رضاکارانہ طور پر جماعت سے متعلق خبروں واقعات پر مشتمل Print & Electronic Media Newspaper Clipping کا کام شروع کیا جو آخری دم تک جاری تھا ۔حضور انور نے آپ کے بنائے ہوئے Newspaper Clipping Print & Electronic Media کوبہت پسند فرمایا اور ازراہِ شفقت انعام سے چھ مرتبہ نوازا۔

آپ کی ساری زندگی جدوجہد، کوشش، امید ایمان، خلوص، وفاداری اور محبت کی علامت تھی۔ آپ نے اپنے آس پاس کے لوگوں کی ان کی معاشرتی و دینی حیثیت سے قطع نظر غیر مشروط رہنمائی کی۔ آپ نے اپنے پانچوں بیٹیوں کی پرورش انتہائی سمجھداری سے کی۔ انہیں دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ کیا۔ اللہ سے ساری زندگی آپ نے کبھی شکوہ نہیں کیا کہ صرف پانچ بیٹیاں کیوں دیں بیٹا کیوں نہیں دیا۔باپ کی حیثیت سے ان کی خدمات بہت بےغرض،بےلوث، مخلص اور لازوال ہیں ۔آپ تربیت اولاد کے گر بہت اچھی طرح سے جانتے تھے آخری دم تک اپنی ذمہ داریوں کو ایک ذمہ دار اور فرض شناس باپ کی حیثیت سے نبھایا۔ یہی وجہ ہے آپ کی ساری بیٹیوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تین بیٹیاں پاکستان کے اچھے Educational Institutions میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ پانچ بیٹیوں میں سے ابھی دو کی شادی ہوئی ہے ۔دونوں شادی شدہ کے شوہروں کے ساتھ بہت محبت کرتے تھے۔ بحیثیت شوہر اپنی اہلیہ کے لیے آپ نے اپنے آپ کو اپنے عہد، عمل اور الفاظ کے ذریعے ایک محبت کرنے والا، وفا شعار اور ذمہ دار شوہر ثابت کیا۔ فیاض باپ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک محبت کرنے والے نانا بھی تھے اپنے سب نواسوں اور نواسی کے ساتھ یکساں شفقت کا سلوک کرتے تھے آپ کا کوئی نواسہ یا نواسی آسانی سے فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کس سے زیادہ محبت کرتے تھے۔

آپ نے ہمیشہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی ادا کئے ۔ اپنے سے جڑے ہر رشتے کو بہت عزت اور احترام دیا۔ آپ والدین کا فرمانبردار بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بہن بھائیوں کے لیے بےلوث، مخلص محبت کرنے والے بھائی تھے ۔ آپ ہمیشہ اپنے غمزدہ دل سے اپنے وفات شدہ والدین بہنوں اور بھائیوں کو یاد کرتے تھے۔ اپنے سے چھوٹی دو حیات بہنوں سے بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ اپنی اہلیہ سے منسلک ہر رشتے (والدین،بہن بھائی اور رشتے دار) کے ساتھ بہت بے لوث اخلاص، محبت، احترام اور عزت سے پیش آتے۔

ساری زندگی بہت محنت،لگن،سچائی،ایمانداری اور فرض شناسی سے کام کیا۔ اور اپنے بچوں کو بھی یہی تلقین کی کم کھا لو،فاقہ کر لو لیکن ہمیشہ ایمانداری، سچائی، لگن ،فرض شناسی اور محنت سے کام کرو ۔کام سے کبھی چھٹی نہیں کی کبھی آرام نہیں کرتے تھے۔ حتیٰ کہ طبیعت کی خرابی کے باوجود اپنی وفات سے ایک دن پہلے تک اپنے کام پر گئے۔نمازوں کے پابند اورقرآن پاک کی تلاوت میں باقاعدہ تھے ۔ طبیعت نہایت سادہ تھی اور مزاج میں نرمی، عاجزی اور دھیماپن ان کا خاص وصف تھا ۔ نہایت درجہ خلیق اور ملنسار تھے۔ غیر از جماعت احباب جو تعزیت کے لئے آئے ان کی اس خوبی کا باربار ذکر کرتے رہے۔

آپ کے ماتحت کام کرنے والے عملے نے آپ کی اتنی خوبیاں بیان کی ہیں کہ لکھنا شروع کروں تو صفحے بھر جائیں ،اپنے دفتر میں ہمیشہ اپنے ساتھ سب کام کرنے والوںکے ساتھ بہت بے غرض بے لوث محبت کرتے تھے۔ سب کے مسئلے پریشانیاں بہت تحمل پیار سے سنتے اور ان کو بہت پیار سے حل کرتے اپنے سب ماتحت عملے کے ساتھ رعب دارآفیسر کی بجائے دوستانہ رویہ تھا تبھی کسی کے لئے آپ شفیق باپ تھے تو کسی کے لئے پیار کرنے والے نانا اور دادا ،کسی کے بڑے بھائی تھے تو کسی کے چھوٹے بھائی اور کسی کے مخلص دوست۔

قارئین کرام ! یہ تو میرے پیارے پاپا جی کی زندگی کے چند پہلو ہیں ورنہ سنہری یادوں کے اتنے اوراق ہیں کہ اگر صفحہ قرطاس پر لکھنے بیٹھوں تو ان کا شمار ممکن نہیں اور

ؔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

یہ دنیا عارضی ہے اور ہر چیز کو فنا ہے۔ ہمیں بھی وہیں جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ میرے پیارے پاپا جی سے مغفرت کا سلوک فرمائے، اِن کو اپنی رحمتوں کی چادر سے ڈھانپ لے، اِن کواپنے پیاروں کے قرب میں جگہ دے اور اپنے جوار رحمت کا سایہ عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور اِن کی ساری اولاد کو ہمیشہ اِن کی نیکیوں کو جاری رکھنے اور اِن کی خوبیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین

بُلانے والا ہے سب سے پیارا
اُسی پہ اے دل! توُ جاں فدا کر

(درثمین خان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 05 جون 2020ء