ہمہ دم اپنی آنکھوں میں نمی محسوس ہوتی ہے
فضا ہی بلکہ ساری شبنمی محسوس ہوتی ہے
وہ دل جو گرمیٔ جذبات سے سرگرم رہتا تھا
اب اس پر برف کی تہہ سی جمی محسوس ہوتی ہے
نظر میں گھومتے جب ہیں سکوتِ ساز کے لمحے
تو اپنی نبض بھی اس پل تھمی محسوس ہوتی ہے
جہاں فرقت ہمارے بیچ میں حائل ہے صدیوں کی
وہیں پہ ایک قربت باہمی محسوس ہوتی ہے
نہ جانے کیا کیا میں نے نہ جانے کیا ہوا مجھ سے
مزاجِ دوستاں میں برہمی محسوس ہوتی ہے
لگائے لاکھ کوئی خود پہ صبر و ضبط کے پہرے
اذیّت درد کی تو لازمی محسوس ہوتی ہے
بہت سے زخم پہلے بھی لگے جو بھر گئے لیکن
کسک جو دل میں اب ہے دائمی محسوس ہوتی ہے
عجب احساسِ تنہائی اتر آیا مرے دل میں
مجھے تو آج اپنی بھی کمی محسوس ہوتی ہے
(صاحبزادی امۃ القدوس)