• 27 اپریل, 2024

تربیت اولاد کے طریق۔ سچ بولنا ،جھوٹ سے نفرت اور لغویات سے اجتناب

اداریہ

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ (المومنون:4)

ترجمہ: اور وہ جو لغو سے اِعراض کرنے والے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا (الاحزاب:71)

ترجمہ: اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔

  • حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے۔

نبی صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا: ’’چارخصلتیں (ایسی) ہیں جس شخص میں وہ ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور جس شخص میں اُن میں سے ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی حتّٰی کہ وہ اُسے چھوڑ دے (اور وہ یہ ہیں) جب اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب عہد کرے تو اُسے پورا نہ کرے اور جب جھگڑا کرے تو بدزبانی کرے۔‘‘

(صحیح بخاری)

  • حضرت ابن مسعودؓ بیان کر تے ہیں۔

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: بلا شبہ سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بلاشبہ نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے حتّٰی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ’’صدیق‘‘ ( سچا) لکھ دیا جاتا ہے اور بلا شبہ جھوٹ گناہوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے تا کہ وہ الله تعالیٰ کے ہاں ’’کذاب‘‘ (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘

(صحیح بخاری)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’قرآن شریف نے جھوٹ کوبھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ (الحج :31) دیکھو یہاں جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بُت ہی ہے۔ ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے ۔ جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اُسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمّع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے تو جلدی سے دُور نہیں ہوتا۔ مدت تک ریاضت کریں۔ تب جا کر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہوگی۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 266)

  • پھر آپؑ فرماتے ہیں۔

’’انسان جب تک کوئی غرض نفسانی اس کی محّرک نہ ہو جھوٹ بولنا نہیں چاہتا اور جھوٹ کے اختیار کرنے میں ایک طرح کی نفرت اور قبض اپنے دل میں پاتا ہے۔ اسی وجہ سے جس شخص کا صریح جھوٹ ثابت ہو جائے اُس سے ناخوش ہوتا ہے اور اُس کو تحقیر کی نظرسے دیکھتا ہے لیکن صرف یہی طبعی حالت اخلاق میں داخل نہیں ہوسکتی بلکہ بچے اور دیوانے بھی اس کے پابند رہ سکتے ہیں ۔ سو اصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان اُن نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو جوراست گوئی سے روک دیتے ہیں تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیںٹھہر سکتا۔کیونکہ اگر انسان صرف ایسی باتوں میں سچ بولے جن میں اس کا چنداں حرج نہیں اور اپنی عزت یا مال یا جان کے نقصان کے وقت جھوٹ بول جائے اور سچ بولنے سے خاموش رہے تو اُس کو دیوانوں اور بچوں پر کیا فوقیت ہے۔ کیا پاگل اور نابالغ لڑکے بھی ایسا سچ نہیں بولتے؟ دُنیا میں ایسا کوئی بھی نہیں ہوگا کہ جو بغیر کسی تحریک کے خوانخواہ جھوٹ بولے۔ پس ایسا سچ جو کسی نقصان کے وقت چھوڑا جائے حقیقی اخلاق میں ہرگز داخل نہیں ہوگاسچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبروکا اندیشہ ہو۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ360)

  • آپؑ مزید فرماتے ہیں۔

’’مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ امرتسر ایک مضمون بھیجا۔ اُس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا۔ رُلیا رام کے وکیل ہنداخبار کے متعلق تھا۔ میرے اس خط کو خلاف قانون ڈاکخانہ قرار دے کر مقدمہ بنایا گیا۔ وکلاء نے بھی کہا کہ اس میں بجز اس کے رہائی نہیں جو اس خط سے انکار کر دیا جاوے۔ گویا جھوٹ کے سوا بچاؤ نہیں مگر میں نے اس کو ہرگز پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ اگر سچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو جھوٹ نہیں بولوں گا ۔ آخر وہ مقد مہ عدالت میں پیش ہوا۔ ڈاک خانوں کا افسر بحیثیت مدعی حاضر ہوا۔ مجھ سے جس وقت اُس کے متعلق پوچھا گیا تو میں نے صاف طور پر کہا کہ یہ میرا خط ہے مگر میں نے اس کو جزوِ مضمون سمجھ کر اس میں رکھا ہے۔ مجسٹریٹ کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور اللہ تعالیٰ نے اُس کو بصیرت دی۔ ڈاکخانوں کے افسر نے بہت زور دیامگر اُس نے ایک نہ سنی اور مجھے رخصت کر دیا۔میں کیونکر کہوں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں۔ ایسی باتیں نری بیہودگیاں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سچ کے بغیر گزارہ نہیں۔ میں اب تک بھی جب اپنے اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک مزا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پہلو کو اختیار کیا۔ اُس نے ہماری رعایت رکھی اور ایسی رعایت رکھی جو بطور نشان کے ہوگئی۔ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّـٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق: 4)‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 636)

  • حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں۔

’’انسان کو جھوٹ سے بہت ہی بچنا چاہئے دیکھو کہ نفاق جیسے گندے گناہ اور مرض کا سبب یہی جھوٹ ہے پھر نفاق بھی ایسا کہ جس کی نسبت فرمایا ہے فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْن (پس وہ رجوع نہ کریں گے) اور جہاں پر آنحضرت ﷺ نے نفاق کے علامات بیان فرمائے ہیں وہاں پر فرمایا ہے کہ منافق کے پاس جب امانت رکھو تو خیانت کرے گا اور جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ دیتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف کرتا ہے اور جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور قرآن مجید میں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت آئی ہے اور آنحضرت ﷺ سے جب دریافت کیا گیا کہ مومن سے فلاں فلاں گناہ ہو سکتے ہیں۔ فرمایا ہاں۔ لیکن جب جھوٹ کی نسبت دریافت کیا گیا تو فرمایا۔ نہیں۔ الغرض کہ جھوٹ بہت بُرا مرض ہے مومن کو اس سے ہمیشہ بہت ہی بچنا چاہئے۔

(حقائق الفرقان، جلد اول صفحہ91تا92)

  • حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔

’’جھوٹ بولنے والوں کے بچے بھی جھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ مت خیال کرو کہ بچہ سمجھ نہیں سکتا کہ اُس کے سامنے جھوٹ بولا جارہا ہے……… بچہ کو دھوکہ دینا بہت مشکل ہے……… بہت نگرانی کرنی چاہئے کہ بچہ جھوٹ نہ بولے۔ اُسے دلیر بنانا چاہئے اور اُسے اچھی طرح سمجھادینا چاہئے کہ اگروہ صحیح صحیح اپنے قصور کا اعتراف کر لے گا تو اُسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی ۔ جب بچہ کو سچ بولنے کی عادت ہو جائے تو اُس کا کیریکٹر ایسا مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ دُنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہوسکتا…….. کوشش کرو کہ بچے بڑوں کے ساتھ بھی تعلقات میں جھوٹ سے پرہیز کریں اور خدا تعالیٰ سے تعلق کے سلسلہ میں نماز کے عادی ہو جائیں۔ اگر ان دونوں اُمور کی نگرانی کی جائے تو بہت حد تک اصلاح ہوتی ہے۔‘‘

(خطبات محمودجلد13صفحہ645)

  • حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتےہیں۔

’’اگر کسی پر جھوٹ باندھا جائے تو علاوہ اورنقصانات کے اس کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے چنانچہ فرمایا کہ کسی پرجھوٹ نہیںباندھنا خواہ وہ دہریہ ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو، ہندوہو، پارسی ہو، بدھ مذہب کاہو، کوئی ہو، لامذہب ہو یا بد مذہب ہو، غر ض کوئی ہوتم نے اُس پر جھوٹ نہیں باندھنا، افتراء نہیں کرنا، تہمت نہیں لگانی یہ ساری چیزیں علاوہ اور خرابیوں کے جذبات کو ٹھیس لگانے والی ہیں کوئی بھی ہواُس کے جذبات کا احترام کرنا ہے یہاں تک کہ اُس کے اموال جو ہیں اُن کی حرمت کوقائم کرنا ہے، اُس کی عزت کو قائم کرنا ہے۔ اُس کی جان کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ بحیثیت انسان ہونے کے ضروری ہے۔ یہ نہیں کہا کہ ایک مسلمان کی جان کی حفاظت توہردوسرے مسلمان پر فرض ہے لیکن غیر مسلم کی جان کی حفاظت فرض نہیں ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ ہم جان کی حرمت قائم کرتے ہیں اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اُمّت مسلمہ پر ڈال دی اور اس میں عربی پر عجمی کو فضیلت نہیں اورعجمی کو عربی پر فضیلت نہیں اور مسلمان پر غیرمسلم کو فضیلت نہیں اورغیر مسلم پر مسلمان کوکوئی فضیلت نہیں سب کو جذبات کے لحاظ سے ایک ہی مقام پر کھڑا کردیا ہے اوریہ بڑی چیز ہے۔ اس واسطے بات کرتے وقت بڑی ہدایتیں دی گئی ہیں ہم بعض دفعہ بڑی لاپرواہی کرجاتے ہیں اوراپنے بھائی سے ایسا مذاق کردیتے ہیں جو اس کو چُبھنے والا ہوتا ہے۔ ایسا کرنامنع ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتی ہے پس انسان کے اُوپر اس کے جذبات کا اتنا خیال رکھنے کی وجہ سے کتنا بڑا احسان کیا گیا ہے۔‘‘

(خطبات ناصر جلدسوم صفحہ 74)

  • حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔

’’یہ سچائی ہی ہے جو انسانی زندگی کے کام آتی ہے۔ سچائی سے ہی دُنیا بنتی ہے اور سچائی سے ہی دین بنتا ہے سچائی سے ہی مادی ترقیات نصیب ہوتی ہیں اور سچائی ہی کے ساتھ روحانی ترقیات نصیب ہوتی ہیں۔ جھوٹ کے تو نہ یہاں قدم ٹکتے ہیں۔ نہ وہاں قدم ٹکتے ہیں اس لئے اے بچو! آپ کی دنیاوی ترقی کا راز بھی اس بات میں مضمر ہے کہ آپ سچے ہو جائیں۔ آپ کی دینی ترقی کا راز بھی اس بات میں ہے کہ آپ سچے احمدی بن جائیں اور سچ کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کریں اور جھوٹی بات کو سننا بھی برداشت نہ کریں۔ اگر کوئی بچہ مذاق میں بھی جھوٹ بولتا ہے تو اس کے جھوٹ پربھی آپ بالکل نہ ہنسیں۔ بلکہ حیرت سے دیکھیں اور اُسے کہیں کہ یہ تم کیا بات کر رہے ہو۔ یہ مذاق کا قصّہ نہیں ہے۔ مذاق کرنا ہے تو سچے مذاق کرو۔ ایک دوسرے کولطیفے سناؤ اور اس قسم کی باتیں کروجن سے حاضر جوابی کا مظاہرہ ہوتا ہو۔ جھوٹ بولنے سے مذاق کا کیاتعلق۔ یہ تو گندگی ہے۔ جہاں بھی جھوٹ دیکھیں وہاں اُس کو دبائیں اور اُس کی حوصلہ شکنی کریں۔ بلکہ اگر آپ کے ماں باپ میں یہ عادت ہے تو اُن کوبھی ادب سے کہیں کہ ابااُمّی آپ نے تو ہمیں سچائی سکھانی تھی۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں یا کیا کہہ رہے ہیں؟ احمدی والدین ہو کر جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ بات آپ کو سجتی نہیں۔ پس اگر سارے بچے سچ بولنے کی عادت ڈالیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ اُن کو الله تعالیٰ کی طرف سے کتنی نعمتیں اور کتنے فضل نصیب ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُن لوگوں ہی کو ملتا ہے جو سچے ہوں۔ اگر آپ سچے بن جائیں گے تو اس بچپن کی عمر میں بھی آپ کو خدا مل جائے گا اگر اس عمر میں جھوٹ بولنے کی عادت پڑ گئی تو بڑے ہوکر نہ خودخدا کے فضل حاصل کر سکو گے، نہ دنیا کو خدا کی طرف بلاسکو گے۔ اس لئے میں سب بچوں کو بہت تاکید کرتا ہوں کہ ہمیشہ سچ بولیں اور سچائی کو بڑی مضبوطی کے ساتھ پکڑیں۔‘‘

(مشعل راہ جلد3 صفحہ200)

  • سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔

’’پھر ایک بُرائی ہے جھوٹ، کوئی شخص اگر ذراسی مشکل میں بھی ہو تو اس سے بچنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لے لیتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جھوٹ کو برائی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ جھوٹ ایسی بُرائی ہے جو سب بُرائیوں کی جڑ ہے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے کسی ایک بُرائی سے چھٹکارہ پانے کی درخواست کرنے والے کو یہی فرمایا تھا کہ اگر ساری برائیاں نہیں چھوڑ سکتے تو ایک برائی چھوڑ دو اور وہ ہے جھوٹ اور یہ عہد کرو کہ ہمیشہ سچ بولو گے۔ اب بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ صرف اتنا ہے کہ عدالت میں غلط بیان دے دیا۔ اگر چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تو جھوٹ بول کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔ اگر کوئی غیراخلاقی حرکت کی تو جھوٹ بول دیا۔ یا کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دے دی اور بلاوجہ کسی کو مشکل میں مبتلا کردیا۔ یقیناً یہ سب باتیں جھوٹے ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی غلط بیانیاں کرنا بھی جھوٹ ہے۔

آنحضرت صلى الله علیہ وسلم نے ہمیں ایک مثال دی ہے۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جھوٹ کی تعریف کیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا آؤ میں تمہیں کچھ دیتا ہوں اور اسے دیتا کچھ نہیں تو جھوٹ میں شمار ہوگا۔ یہ جھوٹ کی تعریف ہے۔ اب اگر ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے تو پتہ چلے گا کہ ہم روزانہ کتنی دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹ بول جاتے ہیں۔ مذاق مذاق میں ہم کتنی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جھوٹ ہوتی ہیں۔ تو آنحضرت صلى الله عليہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اگر ہم اس بارے میں گہرائی میں جا کر توجہ کریں گے۔ تب ہم اپنے اندر سے اور اپنے بچوں کے اندر سے جھوٹ کی لعنت کو ختم کر سکتے ہیں۔

(خطبات مسرور جلد سوم صفحہ287)

  • پھر حضور انور فرماتے ہیں۔

’’بچوں کو سکولوں میں سچ بولنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے اس معاشرہ میں اور اس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے سکولوں میں بتایا جاتا ہے کہ سچ بولنا ہے۔ تو جب بچہ گھر آتا ہے تو ایسی مائیں یا باپ جن کو نہ صرف سچ بولنے کی آپ عادت نہیں ہوتی بلکہ بچوں کو بھی بعض دفعہ ارادۃً یا غیر ارادی طور پر جھوٹ سکھا دیتے ہیں۔ مثلاً اسی طرح کہ گھر میں آرام کر رہے ہیں۔ کوئی عہدیدار سیکرٹری مال یا صدر یا کوئی مرد آیا یا کوئی عورت لجنہ کی آ گئی تو کسی کام کے لئے۔ تو بچہ کو کہہ دیا چلو کہہ دو جا کے کہ گھر میں نہیں ہے۔ یہ تو ایک مثال ہے۔ اس طرح کی اور بہت ساری چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں۔ چاہے یہ بہت تھوڑی ہی تعداد میں ہوں مگر ہمیں یہ بہت تھوڑی تعداد بھی برداشت نہیں جو سچ پر قائم نہ ہو۔ کیونکہ اس تھوڑی تعداد کے بچے اپنے گھر سے غلط بات سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ خود مذہب سے دور جارہے ہوتے ہیں کہ سکول میں تو ہم کو سچ بولنا سکھایا جارہا ہے اور گھر میں جہاں ہمارے ماں باپ ہمیں کہتے ہیں کہ مذہب اصل چیز ہے نمازیں پڑھنی چاہئیں نیک کام کرنے چاہئیں۔ اور اپنا عمل یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی بات پر، کسی کو نہ ملنے کے لئے جھوٹ بول رہے ہیں۔ سیدھی طرح صاف الفاظ میں یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ میں اس وقت نہیں مل سکتی۔ پھر ایسا بچہ اپنے ماحول میں بچوں کو بھی خراب کر رہا ہوتا ہے۔ کہ دیکھو یہ کیسی تعلیم ہے کہ ایک ذرا سی بات پر میری ماں نے جھوٹ بولا؟ یا میرے باپ نے جھوٹ بولا۔ تو جب یہ عمل اپنے ماں باپ کے بچہ دیکھتا ہے تو دور ہٹتا چلا جاتا ہے۔ تو اس لئے اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے ان باتوں کو چھوٹا نہ سمجھیں۔‘‘

(مشعل راہ جلد 5 حصہ اول صفحہ 78-77)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 10 جون 2020ء