حاصل مطالعہ
اخلاقِ فاضلہ اپنانے سے متعلق احبابِ جماعت کو نصائح
(حضرت مسیح موعود ؑ کے ملفوظات سے ماخوذ)
اعمال میں اخفاء اچھا ہے
یہ دُنیا کیا ہے۔ ایک قسم کی دارالابتلاء ہے۔ وہی اچھا ہے جو ہرایک امرخفیہ رکھے اور ریاء سے بچے۔ وہ لوگ جن کے اعمال للّٰہی ہوتے ہیں وہ کسی پر اپنے اعمال کو ظاہر ہونے نہیں دیتے۔ یہی لوگ متقی ہیں۔
میں نے تذکرۃ الاولیاء میں دیکھا ہے کہ ایک مجمع میں ایک بزرگ نے سوال کیاکہ اُس کو کچھ روپیہ کی ضرورت ہے۔ کوئی اُس کی مددکرے۔ ایک نے صالح سمجھ کراُس کوایک ہزارروپیہ دیا۔اُنہوں نے روپیہ لے کر اُس کی سخاوت اور فیاضی کی تعریف کی۔ اس بات پر وہ رنجیدہ ہواکہ جب یہاں ہی تعریف ہو گئی تو شاید ثواب آخرت سے محرومیت ہو۔تھوڑی دیرکے بعد وہ آیا اور کہا کہ وہ روپیہ اس کی والدہ کا تھا جودینانہیں چاہتی،چنانچہ وہ روپیہ واپس دیا گیا۔ جس پر ہر ایک نے لعنت کی اور کہاکہ جھوٹاہے۔ اصل میں یہ روپیہ دینا نہیں چاہتا۔جب شام کے وقت وہ بزرگ گھرگیا تو وہ شخص ہزارروپیہ اُس کے پاس لایا اور کہاکہ آپ نے سرعام میری تعریف کرکے مجھے محروم ثواب آخرت کیا،اس لئے میں نے یہ بہانہ کیا۔اب یہ روپیہ آپ کا ہے۔لیکن آپ کسی کے آگے نام نہ لیں۔ بزرگ رو پڑا اور کہا کہ اب تو قیامت تک موردِلعن طعن ہوا ،کیونکہ کل کاواقعہ سب کومعلوم ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ تونے مجھے روپیہ واپس دے دیاہے۔
ایک متقی تو اپنے نفس امّارہ کے برخلاف جنگ کرکے اپنے خیال کوچھپاتاہے اور خفیہ رکھتاہے ،لیکن اللہ تعالیٰ اس خفیہ خیال کو ہمیشہ ظاہر کردیتاہے۔ جیسا کہ ایک بدمعاش کسی بدچلنی کا مرتکب ہوکرخفیہ رہنا چاہتا ہے ،اسی طرح ایک متقی چھپ کرنماز پڑھتاہے اور ڈرتا ہے کہ کوئی اُس کونہ دیکھ لے۔ سچا متقی ایک قسم کا ستر چاہتاہے۔ تقویٰ کے مراتب بہت ہیں،لیکن بہر حال تقویٰ کے لئے تکلّف ہے اور متقی حالت جنگ میں ہے اور صالح اس جنگ سے باہرہے۔ جیسے کہ میں نے مثال کے طور پر اُوپر ریاء کا ذکر کیاہے جس سے متقی کو آٹھوں پہر جنگ ہے۔
(ملفوظات جلد اول ص19۔20،ایڈیشن2016ء)
صدق و صبر تقویٰ کی شرط ہے
جولوگ بے صبری کرتے ہیں، وہ شیطان کے قبضہ میں آجاتے ہیں۔ سو متقی کو بے صبری کے ساتھ بھی جنگ ہے۔ بوستان میں ایک عابدکا ذکر کیا گیاہے کہ جب کبھی وہ عبادت کرتاتوہاتف یہی آواز دیتا کہ تو مردود و مخذول ہے۔ ایک دفعہ ایک مرید نے یہ آواز سن لی اور کہا کہ اب توفیصلہ ہوگیااب ٹکریں مارنے سے کیا فائدہ ہوگا۔وہ بہت رویا اور کہاکہ میں اس جناب کو چھوڑکرکہاں جاؤں۔ اگر ملعون ہوں توملعون ہی سہی۔ غنیمت ہے کہ مجھ کو ملعون تو کہاجاتاہے۔ ابھی یہ باتیں مرید سے ہوہی رہی تھیں کہ آواز آئی کہ تو مقبول ہے۔ سو یہ سب صدق وصبر کا نتیجہ تھاجومتقی میں ہونا شرط ہے۔
(ملفوظات جلد اول ص21،ایڈیشن 2016ء)
ولی بننے کے لئے ابتلا ضروری ہیں
بہت سے لوگ یہاں آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پھونک مارکرعرش پر پہنچ جائیں اور واصلین سے ہوجاویں۔ ایسے لوگ ٹھٹھا کرتے ہیں۔ وہ انبیاء کے حالات کو دیکھیں۔ یہ غلطی ہے جو کہاجاتاہے کہ کسی ولی کے پاس جاکرصدہا ولی فی الفور بن گئے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتاہے۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ (العنکبوت:3) جب تک انسان آزمایانہ جاوے فتن میں نہ ڈالا جاوے، وہ کب ولی بن سکتا ہے۔
ایک مجلس میں بایزیدؒ وعظ فرمارہے تھے۔ وہاں ایک مشائخ زادہ بھی تھا جو ایک لمبا سلسلہ رکھتا تھا۔اس کو آپ سے اندرونی بغض تھا۔ اللہ تعالیٰ کایہ خاصہ ہے کہ پرانے خاندانوں کو چھوڑکر کسی اور کولے لیتا ہے۔ جیسے بنی اسرائیل کوچھوڑ کر بنی اسماعیل کولے لیا۔کیونکہ وہ لوگ عیش وعشرت میں پڑکرخداکو بھول گئے ہوتے ہیں۔ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ (اٰل عمران:141) سو اس شیخ زادے کو خیال آیاکہ یہ ایک معمولی خاندان کا آدمی ہے۔ کہاں سے ایسا صاحب خوارق آ گیا کہ لوگ اس کی طرف جھکتے ہیں اور ہماری طرف نہیں آتے۔یہ باتیں خداتعالیٰ نے حضرت بایزید ؒپرظاہر کیں تو اُنہوں نے ایک قصّہ کے رنگ میں یہ بیان شروع کیا کہ ایک جگہ مجلس میں رات کے وقت ایک لیمپ میں پانی سے ملا ہو تیل جل رہا تھا۔تیل اور پانی میں بحث ہوئی۔ پانی نے تیل کوکہاکہ تو کثیف اورگندہ ہے اور باوجود کثافت کے میرے اوپر آتا ہے۔ میں ایک مصفّا چیز ہوں اور طہارت کے لئے استعمال کیا جاتا ہوں لیکن نیچے ہوں۔ اس کاباعث کیا ہے؟ تیل نے کہا کہ جس قدرصعوبتیں میں نے کھینچی ہیں تونے وہ کہاں جھیلی ہیں، جس کے باعث یہ بلندی مجھے نصیب ہوئی۔ ایک زمانہ تھا جب میں بویا گیا، زمین میں مخفی رہا،خاکسارہوا۔پھرخداکے ارادہ سے بڑھا۔ بڑھنے نہ پایا کہ کاٹا گیا۔ پھر طرح طرح کی مشقتوں کے بعدصاف کیاگیا۔ کولہو میں پیسا گیا۔پھر تیل بنا اور آگ لگائی گئی۔ کیا ان مصائب کے بعد بھی میں بلندی حاصل نہ کرتا؟یہ ایک مثال ہے کہ اہل اللہ مصائب وشدائد کے بعد درجات پاتے ہیں۔ لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ فلاں شخص فلاں کے پاس جا کربلامجاہدہ وتز کیہ ایک دم میں صدیقین میں داخل ہو گیا۔ قرآن کو دیکھو کہ خدا کس طرح تم پر راضی ہو،جب تک نبیوں کی طرح تم پر مصائب و زلازل نہ آویں، جنہوں نے بعض وقت تنگ آکر یہ بھی کہہ دیا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ (البقرہ: 215) اللہ کے بندے ہمیشہ بلاؤں میں ڈالے گئے پھرخدانے اُن کو قبول کیا۔
(ملفوظات جلد اول ص22۔23،ایڈیشن2016ء)
نیکی کا اجر ضائع نہیں ہوتا
ایک نیکی سے دوسری نیکی پیدا ہوتی ہے۔ مجھے یاد آیا تذکرۃ الاولیاء میں میں نے پڑھا تھا کہ ایک آتش پرست بڈھا نوے برس کی عمر کا تھا۔ اتفاقاً بارش کی جھڑی جو لگ گئی تو وہ اس جھڑی میں کوٹھے پر چڑیوں کے لئے دانے ڈال رہا تھا۔ کسی بزرگ نے پاس سے کہا کہ ارے بڈھے تو کیا کرتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ بھائی چھ سات روز متواتر بارش ہوتی رہی ہے۔ چڑیوں کو دانہ ڈالتا ہوں۔ اُس نے کہا کہ تو عبث حرکت کرتا ہے۔ تو کافر ہے۔ تجھے اَجر کہاں۔ بوڑھے نے جواب دیا۔ مجھے اس کا اجر ضرور ملے گا۔ بزرگ صاحب فرماتے ہیں کہ میں حج کو گیا تو دور سے کیا دیکھتا ہوں کہ وہی بڈھا طواف کر رہا ہے۔ اُس کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا اور جب میں آگے بڑھا تو پہلے وہی بولا کیا میرے دانے ڈالنا ضائع گیا۔ یا ان کا عوض ملا؟ اب خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کافر کی نیکی کا اَجر بھی ضائع نہیں کیا۔ تو کیا مسلمان کی نیکی کا اجر ضائع کر دے گا؟ مجھے ایک صحابی کا ذکر یاد آیا۔ کہ اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں نے اپنے کفر کے زمانہ میں بہت سے صدقات کئے ہیں کیا ان کا اَجر مجھے ملے گا۔ آپ نے فرمایا کہ وہی صدقات تو تیرے اسلام کا موجب ہو گئے ہیں۔
(ملفوظات جلد اول ص63،ایڈیشن2019ء)
لفاظی اور لسانی کام نہیں آسکتی جب تک کہ عمل نہ ہو
مسلمان وہی ہے جو اَسْلَمَ وَجْھَہٗ للِّٰہِ کا مصداق ہو گیا ہے۔وَجْہٌ مونہہ کو کہتے ہیں۔ مگر اس کا اطلاق ذات اور وجود پر بھی ہوتا ہے۔ پس جس نے ساری طاقتیں اللہ کے حضور رکھ دی ہوں۔ وہی سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے۔ مجھے یاد آیا کہ ایک مسلمان نے کسی یہودی کو دعوت اسلام کی کہ تو مسلمان ہو جا۔ مسلمان خود فسق و فجور میں مبتلا تھا۔ یہودی نے اس فاسق مسلمان کو کہا کہ تو پہلے اپنے آپ کو دیکھ اور تو اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تو مسلمان کہلاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اسلام کا مفہوم چاہتا ہے نہ نام اور لفظ۔ یہودی نے اپنا قصّہ بیان کیا کہ میں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا۔ مگر دوسرے دن مجھے اسے قبر میں گاڑنا پڑا۔ اگر صرف نام ہی میں برکت ہوتی تو وہ کیوں مرتا؟ اگر کوئی مسلمان سے پوچھتا ہے کہ کیا تو مسلمان ہے؟ تو وہ جواب دیتا ہے۔ الحمد للہ۔
پس یاد رکھو کہ صرف لفاظی اور لسانی کام نہیں آ سکتی۔ جب تک کہ عمل نہ ہو۔اور باتیں عنداللہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں۔ چنانچہ خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ
(الصف:4)
(ملفوظات جلد اول ص65 ایڈیشن2106ء)
تقویٰ کا رُعب دوسروں پر بھی پڑتا ہے
اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ہندو سر رشتہ دار نے جس کا نام جگن ناتھ تھا اور جو ایک متعصب ہندو تھا۔ بتلایا کہ امرتسر یا کسی جگہ میں وہ سر رشتہ دار تھا جہاں اور ایک ہندو اہلکار درپردہ نماز پڑھا کرتا تھا۔ اور بظاہر ہندو تھا۔ میں اور دیگر سارے ہندو اسے بہت بُرا جانتے تھے اور ہم سب اہلکاروں نے مل کر ارادہ کر لیا کہ اس کو موقوف کرائیں۔اورسب سے زیادہ شرارت میرے دل میں تھی۔ میں نے کئی بار شکایت کی کہ اس نے یہ غلطی کی ہے اور یہ خلاف ورزی کی ہےمگر اس پر کوئی التفات نہ ہوتی تھی لیکن ہم نے ارادہ کر لیا ہوا تھا کہ اُسے ضرور موقوف کرائیں گےاور اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہونے کے لئے بہت سی نکتہ چینیاں بھی جمع کر لی تھیں اور میں وقتاً فوقتاً ان نکتہ چینیوں کو صاحب بہادر کے روبرو پیش کر دیا کرتا تھا۔ صاحب اگر بہت ہی غصہ ہو کر اس کو بلا بھی لیتا تھا۔ تو جب وہ سامنے آجاتا۔ گویا آگ پر پانی پڑ جاتا۔معمولی طور پر نہایت نرمی سے فہمائش کر دیتا۔ گویا اس سے کوئی قصور سرزد ہی نہیں ہوا۔
اصل بات یہ ہے کہ تقویٰ کا رُعب دوسروں پر بھی پڑتا ہے۔ اور خداتعالیٰ متقیوں کو ضائع نہیں کرتا۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جو بڑے اکابر میں سے ہوئے ہیں۔ اُن کا نفس بڑا مطہر تھا۔ ایک بار اُنہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میرا دل دنیا سے بہت برداشتہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی پیشوا تلاش کروں جو مجھے سکینت اور اطمینان کی راہیں دکھلائے۔ والدہ نے جب دیکھا کہ یہ اب ہمارے کام کا نہیں رہا۔ تو اس کی بات کو مان لیا اور کہا کہ اچھا میں تجھے رخصت کرتی ہوں یہ کہہ کر اندر گئی اور اسّی80 مہریں جو اُس نے جمع کی ہوئی تھیں اُٹھا لائی اور کہا کہ ان مہروں سے حصہ شرعی کے موافق چالیس مہریں تیری ہیں اور چالیس تیرے بڑے بھائی کی۔ اس لئے چالیس مہریں تجھے بحصہ رسدی دیتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ چالیس مہریں ان کی بغل کے نیچے پیراہن میں سی دیں اور کہا کہ امن کی جگہ پہنچ کر نکال لینا اور عندالضرورت اپنے صرف میں لانا۔ سید عبدالقادر ؒ نے ماں سے کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کرو۔ اُسں نے کہا بیٹا جھوٹ نہ بولنا۔ اس سے بڑی برکت ہو گی۔ اتنا سن کر آپ ؒ رخصت ہوئے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جس جنگل میں سے ہو کر آپ ؒ چلے اس میں چند قزاق راہزن رہتے تھے۔ جو مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔اب دُور سے اُن پر بھی اُن کی نظر پڑی۔ قریب آئے تو اُنہوں نےایک کمبل پوش فقیر سا دیکھا۔ ایک نے ہنسی سے کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟یہ ابھی تازہ نصیحت سن کر آئے تھے کہ جھوٹ نہ بولنا۔ فی الفور بولے کہ ہاں چالیس مہریں میری بغل کے نیچے ہیں۔ جو میری ماںنے کیسہ کی طرح سی دی ہیں۔ اس نے سمجھا ٹھٹھا کرتا ہے۔ دوسرے نے جب پوچھا تو اس کو بھی یہی جواب دیا۔ الغرض ہر ایک چور کو یہی جواب دیا۔ وہ انہیں امیردزداںکے پاس لے گئے کہ بار بار یہی کہتا ہے۔ امیر نے کہا اچھا اس کا کپڑا دیکھو تو سہی۔ جب تلاشی لی گئی تو چالیس مہریں برآمد ہوئیں۔ وہ حیران ہوئے کہ یہ عجیب آدمی ہے ہم نے کبھی ایسا آدمی نہیں دیکھا۔ امیر نےکہا کہ کیا وجہ ہے کہ تو نے اس طرح پر اپنے مال کا پتہ بتا دیا؟ آپؒ نے کہا کہ میں خدا کے دین کی تلاش میں جاتا ہوں۔ والدہ نے نصیحت کی تھی کہ جھوٹ نہ بولنا۔ یہ پہلا امتحان تھا۔ جھوٹ کیوں بولتا۔ یہ سن کر امیر دزداں رو پڑا کہ آہ! میں نے ایک بار بھی خدا تعالیٰ کا کہنا نہ مانا۔ چوروں سے کہا کہ اس کلمہ اور اس شخص کی استقامت نے میرا تو کام تمام کر دیا۔ اب میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا اور توبہ کرتا ہوں۔ اس پر چوروں نے بھی توبہ کی۔ میں ’’چوروں قطب بنایا ای‘‘ اسی واقعہ کو سمجھتا ہوں۔ الغرض سید عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ پہلے بیعت کرنے والے چور ہی تھے۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا (اٰل عمران:201) صبر ایک نقطہ کی طرح پیدا ہوتا ہے اور پھر دائرہ کی شکل اختیار کر کے سب پر محیط ہو جاتا ہے۔ آخربدمعاشوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دے اور تقویٰ کی راہوں پر مضبوط قدم مارے۔ کیونکہ متقی کا اثر ضرور پڑتا ہے اور اس کا رُعب مخالفوں کے دل میں بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
(ملفوظات جلد اول ص66 تا 68، ایڈیشن2016ء)
اخلاق عظیمہ بہت بڑا اور گہرا اثر کرتے ہیں
اخلاقی کرامت میں بہت اثر ہوتا ہے۔ فلاسفر لوگ معارف اور حقائق سے تسلی نہیں پا سکتے۔ مگر اخلاق عظیمہ ان پر بہت بڑا اور گہرا اثر کرتے ہیں۔ حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ آپؐ ایک درخت کے نیچے سوئے پڑے تھے کہ ناگاہ ایک شور و پکار سے بیدار ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جنگلی اعرابی تلوار کھینچ کر خود حضور پر آپڑا ہے۔ اس نے کہا۔ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) بتا اس وقت میرے ہاتھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟ آپؐ نے پورے اطمینان اور سچی سکینت سے جو حاصل تھی فرمایا کہ اللہ۔ آپؐ کا یہ فرمانا عام انسانوں کی طرح نہ تھا۔ اللہ جو خدائے تعالیٰ کا ایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کاملہ کا مستجمع ہے۔ ایسے طور پر آپ کے منہ سے نکلا کہ دل سے نکلا اور دل پر ہی جا کر ٹھہرا۔ کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیںلیکن جس کو وہ اللہ یاد ہی نہ ہو، وہ اس سے کیا فائدہ اُٹھائے گا۔ الغرض ایسے طور پر اللہ کا لفظ آپؐ کے منہ سے نکلا کہ اس پر رُعب طاری ہو گیا اور ہاتھ کانپ گیا۔ تلوار گر پڑی۔ حضرت نے وہی تلوار اٹھا کر کہا کہ اب بتلا۔ میرے ہاتھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟ وہ ضعیف القلب جنگلی کس کا نام لے سکتا تھا۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھایا اور کہا جا تجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ مروت اور شجاعت مجھ سے سیکھ۔ اس اخلاقی معجزہ نے اس پر ایسا اثر کیا کہ وہ مسلمان ہوگیا۔
سِیَرمیں لکھا ہے کہ ابوالحسن خرقانی کے پاس ایک شخص آیا۔ راستہ میں شیر ملا۔ اور کہا کہ اللہ کے واسطے پیچھا چھوڑ دے۔ شیر نے حملہ کیا اور جب کہا۔ ابوالحسن کے واسطے چھوڑ دے تو اس نے چھوڑ دیا۔ شخص مذکور کے ایمان میں اس حالت نے سیاہی سی پیدا کر دی اور اس نے سفر ترک کر دیا۔ واپس آکر یہ عقدہ پیش کیا۔ اس کو ابوالحسن نے جواب دیا کہ یہ بات مشکل نہیں۔ اللہ کے نام سے تو واقف نہ تھا۔ اللہ کی سچی ہیبت اور جلال تیرے دل میں نہ تھا اور مجھ سے تو واقف تھا۔ اس لئے میری قدر تیرے دل میں تھی۔ پس اللہ کے لفظ میں بڑی بڑی برکات اور خوبیاں ہیں بشرطیکہ کوئی اس کو اپنے دل میں جگہ دے اور اس کی ماہیت پر کان دھرے۔
اسی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی معجزات میں ایک اور معجزہ بھی ہے کہ آپؐ کے پاس ایک وقت بہت سی بھیڑیں تھیں۔ ایک شخص نے کہا اس قدر مال اس سے پیشتر کسی کے پاس نہیں دیکھا۔ حضورؐ نے وہ سب بھیڑیں اس کو دے دیں۔ اُس نے فی الفور کہا کہ لاریب آپ سچے نبی ہیں۔ سچے نبی کے بغیر اس قسم کی سخاوت دوسرے سے عمل میں آنی مشکل ہے۔ الغرض آنحضرت ؐ کے اخلاق فاضلہ ایسے تھے کہ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم:5) قرآن میں وارد ہوا۔ پس ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ85،86)
انسان سے کتپن نہیں ہوتا
انسان میں نفس بھی ہے اور اس کی تین قسم ہیں۔ امّارہ، لوّامہ،مطمئنہ۔ امّارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوش کو سنبھال نہیں سکتا اور اندازہ سے نکل جاتا اور اخلاقی حالت سے گر جاتا ہے۔ مگر حالت لوّامہ میں سنبھال لیتا ہے مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستان میں لکھی ہے کہ ایک بزرگ کو کتے نے کاٹا۔ گھر آیا تو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتے نے کاٹ کھایا ہے۔ ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی وہ بولی آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا؟ اُس نے جواب دیا بیٹی! انسان سے کتپن نہیں ہوتا۔ اسی طرح سے انسان کو چاہئے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے۔ نہیں تو وہی کتپن کی مثال صادق آئے گی۔ خدا کے مقرّبوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔ بہت بُری طرح ستایا گیا، مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَ (الاعراف:200) کا ہی خطاب ہوا۔ خود اس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں،بدزبانی اور شوخیاں کی گئیں ،مگر اس خلق مجسّم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا۔ اُن کے لئے دُعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا،تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح و سلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے! چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضورؐ کے مخالف آپؐ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپؐ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ88،87 ،ایڈیشن2016ء)
انسان تبدیل اخلاق پرقادر ہے
ہماری جماعت ہو یا کوئی ہو وہ تبدیل اخلاق اسی صورت میں کر سکتے ہیں جبکہ مجاہدہ اور دُعا سے کام لیں ورنہ ممکن نہیں ہے۔ حکماء کے تبدیل اخلاق پر دو مذہب ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ انسان تبدیل اخلاق پرقادر ہے اور دوسرے وہ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ وہ قادر نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسل اور سستی نہ ہو اور ہاتھ پیر ہلاوے تو تبدیل ہو سکتے ہیں۔ مجھے اس مقام پر ایک حکایت یاد آئی ہے اور وہ یہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یونانیوں کے مشہور فلاسفر افلاطون کے پاس ایک آدمی آیا اور دروازہ پر کھڑے ہو کر اندر اطلاع کرائی۔ افلاطون کا قاعدہ تھا کہ جب تک آنے والے کا حلیہ اور نقوش چہرہ کو معلوم نہ کر لیتا تھا اندر نہیں آنے دیتا تھا۔ اور وہ قیافہ سے استنباط کر لیتا تھا کہ شخص مذکور کیسا ہے کیسا نہیں۔ نوکر نے آکر اس شخص کا حلیہ حسب معمول بتلایا۔ افلاطون نے جواب دیا کہ اس شخص کو کہہ دو کہ چونکہ تم میں اخلاق رذیلہ بہت ہیں۔ میں ملنا نہیں چاہتا۔ اس آدمی نے جب افلاطون کا یہ جواب سنا تو نوکر سے کہا کہ تم جا کر کہہ دو کہ جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ٹھیک ہے مگر میں نے اپنی عادات رذیلہ کا قلع قمع کر کے اصلاح کر لی ہے۔ اس پر افلاطون نے کہا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس کو اندر بلایا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ اس سے ملاقات کی۔ جن حکماء کا یہ خیال ہے کہ تبدیل اخلاق ممکن نہیںوہ غلطی پر ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ملازمت پیشہ لوگ جو رشوت لیتے ہیں جب وہ سچی توبہ کر لیتے ہیں پھر اگر ان کو کوئی سونے کا پہاڑ بھی دے تو اس پربھی نگاہ نہیںکرتے۔توبہ دراصل حصول اخلاق کے لئے بڑی محرک اور موید چیز ہے اور انسان کو کامل بنا دیتی ہے۔ یعنی جو شخص اپنے اخلاق سیئہ کی تبدیلی چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ سچے دل اور پکے اردے کے ساتھ توبہ کرے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ118۔119)
حضرت عکرمہ ؓ کا پاک نمونہ
عکرمہ کا حال تم نے سنا ہو گا۔ احد کی مصیبت کا بانی مبانی یہی تھا اور اس کا باپ ابوجہل تھا۔ لیکن آخر اسے صحابہ کرام ؓ کے نمونوں نے شرمندہ کر دیا۔ میرا مذہب یہ ہے کہ خوارق نے ایسا اثر نہیں کیا جیسا صحابہ کرام ؓ کے پاک نمونوں اور تبدیلیوں نے لوگوں کو حیران کیا۔ لوگ حیران ہو گئے کہ ہمارا چچازاد کہاں سے کہاں پہنچا۔ آخر انہوں نے اپنے آپ کو دھوکہ خوردہ سمجھا۔ عکرمہ نے ایک وقت ذات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا اور دوسرے وقت لشکر کفار کو درہم برہم کیا۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ نے جو پاک نمونے دکھائے ہیں۔ ہم آج فخر کے ساتھ ان کو دلائل اور آیات کے رنگ میں بیان کر سکتے ہیں۔ چنانچہ عکرمہ ہی کا نمونہ دیکھو کہ کفر کے دنوں کفر۔ عجب وغیرہ خصائل بد اپنے اندر رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ بس چلے تو اسلام کو دنیا سے نابود کر دے، مگر جب خدائے تعالیٰ کے فضل نے اُس کی دستگیری کی اور وہ مشرف بااسلام ہوا تو ایسے اخلاق پیدا ہوئے کہ وہ عجب اور پندار نام تک کو باقی نہ رہا اور فروتنی اور انکسار پیدا ہوا کہ وہ انکسار حجۃ الاسلام ہو گیا اور صداقت اسلام کے لئے ایک دلیل ٹھہرا۔ ایک موقع پر کفار سے مقابلہ ہوا۔ عکرمہ لشکر اسلام کا سپہ سالار تھا۔ کفار نے بہت سخت مقابلہ کیا۔ یہاں تک کہ لشکر اسلام کی حالت قریب شکست کھانے کے ہو گئی۔ عکرمہ نے جب دیکھا تو گھوڑے سے اُترا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کیوں اُترتے ہیں۔ شاید اِدھر اُدھر ہونے کا وقت ہو تو گھوڑا مدد دے۔ تو اُس نے کہا۔ اُس وقت مجھے وہ زمانہ یاد آگیا ہے جب میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کرتا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ جان دے کر گناہوں کا کفارہ کروں۔ اب دیکھئے کہ کہاں سے کہاں تک حالت پہنچی کہ بار بار محامد سے یاد کیا گیا۔ یہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی رضا اُن لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے جو اُس کی رضا اپنے اندر جمع کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جابجا اُن لوگوں کو رضی اللہ عنہم کہا ہے۔ میری نصیحت یہ ہے کہ ہر شخص ان اخلاق کی پابندی کرے۔
(ملفوظات جلد اول ص128۔129)
دُعا کرانے والے کیلئے آداب اور طریق
بعض لوگ دُعاکی درخواست کرتے ہیں کہ میرے لئے دُعا کرو۔مگر افسوس ہے کہ وہ دُعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے۔ عنایت علی نے دُعا کی ضرورت سمجھی اور خواجہ علی کو بھیج دیا کہ آپ جاکر دُعا کرائیں۔کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا۔جب تک دُعا کرانے والا اپنے اندر ایک صلاحیت اور اتّباع کی عادت نہ ڈالے دُعا کارگر نہیں ہوسکتی۔مریض اگر طبیب کی اطاعت ضروری نہیں سمجھتا ممکن نہیں کہ فائدہ اُٹھا سکے۔جیسے مریض کو ضروری ہے کہ استقامت اور استقلال کے ساتھ طبیب کی رائے پر چلے تو فائدہ اُٹھائے گا۔ایسے ہی دُعا کرانے والے کے لئے آداب اور طریق ہیں۔ تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ سے کسی نے دُعا کی خواہش کی۔ بزگ نے فرمایا کہ دودھ چاول لاؤ وہ شخص حیران ہوا۔ آخر وہ لایا۔ بزرگ نے دُعا کی اور اس شخص کا کام ہوگیا۔آخر اُسے بتلایا گیا کہ یہ صرف تعلق پیدا کرنے کیلئے تھا۔ ایسا ہی باوا فرید صاحب کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک شخص کا قبالہ گم ہوا اور وہ دُعا کے لئے آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے حلوہ کھلاؤ اور وہ قبالہ حلوائی کی دُکان سے مل گیا۔ اُن باتوں کے بیان کرنے سے میرا یہ مطلب ہے کہ جب تک دُعا کرنے والے اور کرانے والے میں ایک تعلق نہ ہومتاثر نہیں ہوتی۔غرض جب تک اضطرار کی حالت پیدا نہ ہو اوردُعا کرنے والے کا قلق دُعا کرانے والے کا قلق نہ ہو جائے کچھ اثر نہیں کرتی ۔بعض اوقات یہی مصیبت آتی ہے کہ لوگ دُعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے اور دُعا کا کوئی بین فائدہ محسوس نہ کرکے خدائے تعالیٰ پر بد ظن ہوجاتے ہیں اور اپنی حالت کو قابلِ رحم بنالیتے ہیں۔ بالآخر میں کہتا ہوں کہ خود دُعا کرو یا دُعا کرواؤ ۔پاکیزگی اور طہارت پیدا کرو۔استقامت چاہواور توبہ کے ساتھ گر جاؤ کیونکہ یہی استقامت ہے۔اس وقت دُعا میں قبولیت ،نماز میں لذت پیدا ہو گی۔ ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَّشَآءُ۔
(ملفوظات جلد اول ص158-157،اشاعت 2016ء)
فتح تقویٰ سے ہے
یادرکھوکہ تمہاری فتح تقویٰ سے ہے۔ ورنہ عرب تو نرے لکچرار اور خطیب اور شاعرہی تھے۔اُنہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ خداتعالیٰ نے اپنے فرشتے اُن کی امداد کے لے نازل کئے۔ تاریخ کو اگر انسان پڑھے تو اُسے نظر آئے گا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین نے جس قدرفتوحات کیں وہ انسان کی طاقت اور سعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک بیس سال کے اندر ہی اندر اسلامی سلطنت عالمگیرہوگئی۔ اب ہم کو کوئی بتاوے کہ انسان ایسا کرسکتا ہے؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ باربار فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ (النحل:129) اللہ تعالیٰ متّقیوں کے ساتھ ہے اور صرف تقویٰ محبتِ الٰہی کو جذب نہیں کرتا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ بھی ہوں۔
متّقی کے معنی ہیں ڈرنے والا۔ ایک ترکِ شرہوتا ہے اور ایک اِفاضۂ خیر۔متّقی ترک شر کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے اور محسن افاضۂ خیرکو چاہتا ہے۔مَیں نے اس کے متعلق ایک حکایت پڑھی ہے کہ ایک بزرگ نے کسی کی دعوت کی اور اپنی طرف سے مہمان نوازی کا پورا اہتمام کیااور حق ادا کیا۔ جب وہ کھانا کھاچکے تو بزرگ نے بڑے انکسار سے کہا کہ مَیں آپ کے لائق خدمت نہیں کرسکا۔ مہمان نے کہا کہ آپ نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ مَیں نے احسان کیا ہے کیونکہ جس وقت تم مصروف تھے میں نے تمہارے مکان آگ نہیں لگا دی اگر تمیں تمہاری املاک کو آگ لگادیتا تو کیا ہوتا۔ غرض متّقی کاکام یہ ہے کہ بُرائیوں سے بازآوے۔ اس سے آگے دوسرا درجہ افاضۂ خیر کا ہے۔جس کو یہاں محسنون کے لفظ سے ادا کیاگیا ہے کہ نیکیاں بھی کرے۔ پورا راستباز انسان تب ہوتاہے۔ جب بدیوں سے پرہیز کرکے یہ مطالعہ کرے کہ نیکی کون سے کی ہے؟
کہتے ہیں کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نوکر چائے کی پیالی لایا۔ جب قریب آیا تو غفلت سے وہ پیالی آپؓ کے سرپرگر پڑی۔آپؓ نے تکلیف محسوس کرکے ذرا تیز نظر سے غلام کی طرف دیکھا۔ غلام نے آہستہ سے پڑھا وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ (آل عمران:125) یہ سُن کر امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کَظَمْتُ۔ غلام نے پھر کہا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ۔ کَظْم میں انسان غصّہ دبالیتا ہے اور اظہار نہیں کرتا ہے۔ مگر اندر سے پوری رضامندی نہیں ہوتی۔ اس لئے عفو کی شرط لگادی ہے۔ آپ نے کہا کہ مَیں نے عفو کیا۔ پھر پڑھا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ محبوب الٰہی وہی ہوتے ہیں جو کَظْم اور عفو کے بعد نیکی بھی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جا آزاد بھی کیا۔ راستبازوں کے نمونے ایسے ہیں کہ چائے کی پیالی گرا کر آزاد ہوا۔ اب بتاؤ کہ یہ نمونہ اُصول کی عمدگی ہی سے پیداہوا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ۔ (ھود:113) یعنی سیدھا ہو جا۔ کسی قسم کی بد اعمالی کی کجی نہ رہے۔ پھر راضی ہوں گا۔ آپ بھی سیدھا ہو جا اور دوسروں کو بھی سیدھا کر۔
(ملفوظات جلد اول ص165۔166)
انسان اچھی باتوں کی کیوں پیروی نہیں کرتے
کوئی عمدہ سے عمدہ بات قابل پذیرائی اور واجب التعمیل نہیں ہو سکتی۔جب تک اس کے اندر ایک چمک اور جذبہ نہ ہو۔اس کی درخشانی دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہےاور جذب اُن کو کھینچ لاتا ہے اور پھر اس فعل کی اعلیٰ درجہ کی خوبیاں خود بخود دوسرے کوعمل کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔دیکھو۔حاتم کا نیک نام ہونا سخاوت کے باعث مشہور ہے۔گو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ خلوص سے تھی۔ایسا ہی رستم واسفند یار کی بہادری کے فسانے عام زبان زد ہیں۔ اگرچہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ خلوص سے تھے۔میرا ایمان اور مذہب یہ ہے کہ جب تک انسان سچا مومن نہیں بنتا ۔اس کے نیکی کے کام خواہ کیسے ہی عظیم الشان ہوں لیکن وہ ریا کاری کے ملمّع سے خالی نہیں ہوتے۔ لیکن چونکہ ان میں نیکی کی اصل موجود ہوتی ہے اور یہ وہ قابل قدرجوہر ہے جو ہر جگہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اس لئے بایں ہمہ ملمّع سازی وریا کاری وہ عزت سے دیکھے جاتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے میرے پاس ایک نقل بیان کی تھی اور خود میں نے بھی اس قصّہ کو پڑھا ہے کہ سرفلپ سڈنی ملکہ الزبتھ کے زمانہ میں قلعہ زلفن ملک ہالینڈ کے محاصرہ میں جب زخمی ہوا۔ تو اس وقت عین نزع کی تلخی اور شدّتِ پیاس کے وقت جب اُس کے لئے ایک پیالہ پانی کا جو وہاں بہت کمیاب تھامہیا کیا گیا۔ تو اُس کے پاس ایک اور زخمی سپاہی تھا جو نہایت پیاسا تھا۔ وہ سر فلپ سڈنی کی طرف حسرت اور طمع کے ساتھ دیکھنے لگا۔سڈنی نے اُس کی یہ خواہش دیکھ کر پانی کا وہ پیالہ خود نہ پیا بلکہ بطور ایثار یہ کہہ کر اُس سپاہی کو دے دیا کہ ’’تیری ضرورت مجھ سے زیادہ ہے‘‘ مرنے کے وقت بھی لوگ ریا کاری سے نہیں رکتے۔ ایسے کام اکثر ریا کاروں سے ہو جاتے ہیں۔جو اپنے آپ کو اخلاق فاضلہ والے انسان ثابت کرنا یا دکھانا چاہتے ہیں۔ غرض کوئی انسان ایسا نہیں ہے کہ اس کی ساری باتیں بُری حالت کی اچھی ہوں۔لیکن سوال یہ ہے کہ انسان اچھی باتوں کی کیوں پیروی نہیں کرتے۔
(ملفوظات جلد اول ص196۔197، ایڈیشن2016ء)
والدہ کی تعظیم
پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی ہے کہ والدہ کی عزت کرے۔ اویس قرنی کے لئے بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یمن کی طرف کو منہ کر کے کہا کرتے تھے۔ کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آ سکتا بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں۔ مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے۔ صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے۔ مگر میں دیکھتا ہوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی یا اویس کو یا مسیحؑ کو۔ یہ ایک عجیب بات ہے۔ جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمرؓ ان سے ملنے کو گئے۔ تو اویس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اُونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں۔ ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی۔ ایک وہ ہیں جو پیسہ پیسہ کے لئے مقدمات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بُری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قومیں چُوہڑے چمار بھی کم لیتے ہوں گے۔ ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے۔ اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کرکے اس کو ماننا نہیں چاہتا تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونے سے دوسروں کو ٹھوکر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے۔ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ مادر پدر آزاد کبھی خیر و برکت کا منہ نہ دیکھیں گے۔ پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور وفاداری کے رنگ میں خدا رسول کے فرمودہ پر عمل کرنے کو تیار ہو جاؤ۔ بہتری اسی میں ہے۔ ورنہ اختیار ہے۔ ہمارا کام صرف نصیحت کرنا ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 270ایڈیشن 2016ء)
(محمد انور شہزاد)