سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے ایک عظیم پوتے کی بشارت دی جس کو حضرت مرزا مبارک احمد صاحب کا نعم البدل قرار دیا گیا۔ آپؑ کو یہ الہام ہوا ’’إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةً لَّکَ‘‘ (حقیقہ الوحی ص95) یعنی ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا۔ حضرت خلیفہ المسیح الثالث ؒ کی پیدائش 16 نومبر 1909ء کو قادیان میں ہوئی۔ آپ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے فرزند اکبر تھے۔ آپ نے 13برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا۔ خلافت سے قبل آپ متعدد اہم جماعتی عہدوں پر خدمات بجا لاتےرہے جن میں پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان، صدر مجلس خدام الاحمدیہ، صدر مجلس انصار اللہ، پرنسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان، لاہور اور ربوہ، صدر صدر انجمن احمدیہ شامل ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات کے بعد 8نومبر 1965ء کو جماعت احمدیہ کے تیسرے خلیفہ منتخب ہوئے۔ آپؒ کی وفات 8 اور 9جون 1982ء کی درمیانی شب اسلام آباد پاکستان میں ہوئی۔ اس مضمون میں ہمارے پیارے خلیفہ المسیح کی سیرت کی چند حسین جھلکیاں دکھائی دی گئی ہیں۔
عشق الہٰی و توکّل علی اﷲ
اللہ تعالیٰ کی ہستی سے عشق اور توکّل آپ کی ذات کا خلاصہ تھا۔ حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ عشق الٰہی کے جذبے میں پور پور ڈوبے ہوئے تھے۔ آپؒ کی عبادات کے بارہ میں گھر کے ایک چوکیدار کی گواہی ہے کہ ’’سارا دن آپ سخت کام کرتے اور رات گئے تک کام کرتے رہتے۔ اور پھر ڈرائنگ روم میں تہجد ادا کرتے اور مناجات کرتے یہاں تک کہ باہر تک آوازیں آتیں۔‘‘
ایک جرمن عیسائی Mr Joachim نے آپ سے ملنے کے بعد کہا ’’مسائل کا علم نہیں ہے مگر میں مرزا ناصر احمد صاحب کے متعلق حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ یہ خدا کا بند ہ ہے۔ اس کا خدا سے زندہ تعلق ہے۔‘‘
عشقِ محمد مصطفی ﷺ
آپ کو پیا رے آقا سیدنا حضرت محمدﷺ سے بہت عشق تھا۔ آپ کے ایک بیٹے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی سیرت کا جب بھی کوئی واقعہ بیان کر تے تو عجیب کیفیت ہو جاتی اور آنحضور ﷺ کے چھوٹے چھوٹے احکام پر عمل کرنے کا ہمیشہ خیال رکھتے۔
ایک دفعہ آپؒ نے فرمایا ’’جب تم لوگ کسی کو تبلیغ کرو تو قرآن اور آنحضرت ﷺ کی باتیں بتا یا کرو اگر ان دونوں سے عشق و محبت نہ ہو تو کیا تبلیغ کرو گے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں دو ہی چیزیں غالب رہیں عشق قر آن اور عشق رسولﷺ۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ سے عقیدت
آپ کو حضرت مسیح موعودؑ سے بہت عشق تھا۔ آپ اصحاب حضرت مسیح موعودؑ سےاکثر ملنے جاتے۔ان سے دعا کیلئے عرض کرتے۔ جب بھی آپ کے پاس کسی موسم کا پھل آتا بطور ِخاص ان کو بھجوایا کرتے۔حضرت حافظ شاہ جہان پوری کوآم بہت پسند تھے۔ جب بھی آموں کا موسم آتا ان کو خصوصاً آم بھجواتے تھے۔
اطاعت امام
خلیفہ وقت اور اطاعت امام کا ایک واقعہ پیش ہے۔1927ء میں جلسہ کے موقع پر جلسہ گاہ چھوٹی ہو گئی۔ یہ دیکھ کر حضرت مصلح موعودؓ بہت ناراض ہوئے۔ تمام کارکنان بہت پریشان تھے کہ اب کیا ہو گا۔حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر صاحب نے ایک تجویز دی کہ اس کو فوری طور پر وسیع کیسے کیا جائے۔ پھر اپنے ساتھ کئی رضاکاروں کو لے کرریتی چھلہ سے شہتیریاں اٹھا کر لائے اور راتوں رات پرانی سیڑھیاں توڑ کر نئی اور بڑی سیڑھیاں بنا دیں۔ حضور ؓنے صبح یہ کام دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔
عائلی زندگی
حدیث النبیﷺ ہے۔ فرمایا ’’خَیْرُ کُمْ خَیْرَکُمْ لِاَھْلِہٖ‘‘ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ سے بہتر ہے۔ انسان کے اخلاق کی سب سے مضبوط گواہ اس کی زوجہ ہوتی ہے۔ آپ کی زوجہ محترمہ آپ کے متعلق فرماتی ہیں کہ ’’میں اپنے ذاتی تجربہ سے گواہی دیتی ہوں کہ آپ نے اپنے آقا حضرت محمد ﷺ کے اسوہ پر بھر پور عمل کیا۔ اگر میں حضورﷺ کا اپنی ازواج سے حسن سلوک کا کوئی واقعہ پڑھتی ہوں تو مجھے فوراً حضور کی محبت کا ویسا ہی واقعہ یاد آ جاتا ہے۔‘‘
بچوں سے محبت کے نظارے
کرنل داؤد احمد صاحب کہتے ہیں کہ میرے نواسے عید پر آتے تو بڑے اہتمام سے تیاری کرتے اور حضورؒ سے ملاقات کیلئے جاتے ایک دفعہ وقت کی کمی کے باعث نہ جانے کا ارادہ ہوا (فلائٹ لیٹ ہو رہی تھی) تو میرے نواسے کہنے لگے آپ نے جانا ہے تو جائیں ہم تو حضورؒسے مل کر جا ئیں گے۔
آپ کی بیٹی لکھتی ہیں ابا کو بچے بہت پیارے لگتے اور بچوں کو بھی آپ سے بہت محبت تھی۔ جہاں جاتے بچوں کا ایک جم غفیر آپ کے گرد جمع ہو جاتے … ہربچے کیلئے ابا کی شخصیت انتہائی پرکشش تھی … آپ ماں باپ کو ہمیشہ یہی نصیحت کر تے بچوں سے پیار سے بات کیا کرو…اکثر بچے شیر ہو کر آپ سے والدین کی شکا ئتیں بھی لگا دیتے۔
خدمت گاروں سے محبت کے انداز
حضرت مرزا ناصر احمدصاحب ؒ ’’اماں عائشہ‘‘ (حضرت اماں جان کی ایک خادمہ) کے بچوں کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے۔ ان کی ہر خوشی غمی میں شریک ہوتے۔اسی طرح اماں رکھی (خادمہ) جنہوں نے حضور کو کھیلایا تھا … آپ کو ان کا بہت خیال ہوتا۔ بڑی عزّت سے ان سے پیش آتے۔ جب بھی وہ بیمار ہوتیں تو عیادت کیلئے جاتے۔
دوستوں سے حسن سلوک
آپ ؒحضرت مسیح موعودؑ کا یہ مقولہ اکثر دہراتے ’’ہم ایک بار جسے دوست کہہ دیں اس سے ہمیشہ دوستی نبھا تے ہیں۔‘‘ صاحبزادی امۃ الشکور صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ’’آپؒ اپنے دوستوں سے بے حد محبت کرتے اور دوستی نبھانے والے دوستوں کے کام آنے والے تھے۔ غیر احمدی دوستوں سے بھی حسن سلوک کرتے اور فرماتے کہ دوستی دیکھ بھال کر کرنی چاہئے۔‘‘
طلباء سے شفقت کے انداز
چوہدی محمد علی صاحب کالج کے دور کے بارہ میں کہتے ہیں ‘‘مجھے یاد ہے کہ آپؒ ہوسٹل تشریف لا تے اور آدھی آدھی رات تک بیمار طلباء کے سرہانے بیٹھ کر چمچ کے ساتھ خود دوائی پلایا کرتے اور تسلیاں دیتے۔ اس عنایت کو دیکھ کر دوسرے طلباء کہتے ہمارا بھی بیمار پڑنے کو دل کر تا ہے۔’’ حضور جب بھی طلباء سے ملتے تو عزّت وتکریم سے ملتے۔ انٹر ویو کے وقت کھڑے ہو کر مصافحہ کرتے۔ آپ نے طلباء کی ذہنی ترقی کیلئے ان کو دودھ اور سویا بین کے استعمال کا مشورہ دیا اور اس کا انتظام بھی فرمایا۔
ایک دفعہ ایک طالب علم کو بدنی سزا دی۔ پھر کچھ دیر کے بعد اسے ساتھ لے گئے پیار سے گلے لگایا۔ ٹک شاپ پر لے جا کر اسے دودھ پلوایا اور بڑی محبت کا اظہار فرمایا۔
زہدو تقویٰ
1974ء کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے آپؒ نے ایک موقع پر فرمایا ’’میرا خیال ہے کہ دو مہینے میں بالکل نہیں سو سکا تھا۔ کئی مہینے دعاؤں میں گزرے۔‘‘
مجسمِ شرم وحیا
اﷲ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی شرم وحیا سے نوازا تھا۔ ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓنے فرمایا ’’اسلام کی نشأة اُولی ٰکے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان میں شرم وحیا بے انتہا تھی ۔یہی حال میاں ناصر احمد کا ہے۔ وہ بھی مجسمِ شرم و حیا ہے۔‘‘
مکرم نسیم سیفی صاحب لکھتے ہیں کہ جب حضورؒ کا رخصتانہ ہوا تو میں حضور کو پہلی مرتبہ دیکھنے گیا۔ حضور نے سیاہ چشمہ لگایا ہوا تھا اور لوگ یہ باتیں کر رہے تھے کہ چونکہ حضور کی طبیعت شرمیلی ہے اس لئے آپ نے سیاہ چشمہ لگایا ہوا ہے وہ نظارہ ہمیشہ نظروں کے آگے رہا اور حضور کی حیادار طبیعت نے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔
شجاعت وبہادری
اَلَا ا ِنَّ اَوْلِیَاءَ اﷲ ِلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ کے ایک مصداق حضرت میاں ناصر احمدصاحب ؒکے بچپن کا واقعہ ہے کہ آپ اور آپ کی ایک بہن موم بتی سے کھیل رہے تھے کہ اچانک آپ کی بہن کے بالوں کو آگ لگ گئی تو فوراًآپ نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے ہی آگ کو بجھا دیا اور اپنی بالکل پروا نہ کی۔
ایک دفعہ آپ کے ایک کلاس فیلو ڈاکٹر عبدالرشید تبسم دشمنوں کی سازش اور اپنی غلط فہمی کے باعث کے باعث سینکڑوں غیر احمدی لوگوں میں پھنس گئے جو ان کو مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ حضور نے اپنے ساتھیوں کو ساتھ لیا اور ہاکیاں لے کر ڈاکٹر صاحب کو بچانے نکلے اور بغیر لڑائی کے ان کو صحیح سلامت واپس لے آئے۔
ایثار وقربانی
عبدالسلام صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ بھمبر میں ایئر فورس میں تھے اور فرقان بٹالین کا محاذ وہاں تھا۔ایک دن میاں ناصر احمدصاحب وہاں کچھ لوگوں کے ساتھ آئے اور کچھ گھوڑے طلب کئے۔ ان کو چار گھوڑے مل سکے۔ آپ نے وہ تمام دوسرے لوگوں کو دے دیے اور خود ان کے ساتھ پیدل چل پڑے۔ واپس آئے تو رات ایک ایسے چھوٹے کمرے میں رہنا پڑا جہاں چار پائی بھی نہ تھی۔ اگلے روز چارپائی دی گئی پھر بھی زمین پر کمبل بچھا کر لیٹے رہے۔
عجز و انکساری
چوہدری شبیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور سفر میں اپنے سب ہم سفرخدام سے برابری کا سلوک فرماتے ’’تقریر کرتے تو سراسر عاجزی کا بیان ہوتا اور اسی کی تلقین فرماتے۔ صدر مجلس انصاراﷲ ہونے کے باوجود پروگراموں میں دوسروں سے امامت کر واتے۔ ایک دفعہ ساہیوال میں ایک تقریب میں صدر مجلس انصاراﷲ ہونے کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ رات کو سونے کے وقت سب لوگوں کے ساتھ ایک ہی جگہ پر سو گئے اور کسی امتیازی جگہ پر سونا پسند نہ کیا۔‘‘
صبر وتحمل
ایک دفعہ آپ نے واقعہ سنایا کہ زمانہ طالب علمی کے دوران میں ریل میں لاہور سے قادیان جا رہے تھے اور ایک سخت مخالف ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ لاہور سے امرتسر تک وہ سخت بدزبانی کرتا رہا۔ میں اس کو مسکرا مسکرا کر جواب دیتا رہا۔ جب وہ امرتسر اترنے لگا تو اس خوش خلقی کا اس پر یہ اثر ہواکہ مجھے کہنے لگا اگر آپ جیسے مبلغ دو سو آپ کو مل جائیں تو آپ لوگ ہم کو جیت لیں گے کیونکہ میں نے آپ کو غصّہ دلانے کی کوشش کی مگر آپ تھے کہ ہنستے چلے جا رہے تھے۔
مےِ خانہ ہستی کا حسین پیرِ مغاں تھا
وہ شخص کہ اِدراک کا زندہ جہاں تھا
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پیارے آقا کے ان حسین اخلاق کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
(ماخوذ از حیات ناصر)
(شہود آصف۔گھانا)