• 14 جولائی, 2025

بندہ کند تدبیر خندہ زندتقدیر

لاک ڈاؤن کے دنوں میں ایک روز بس یونہی خیال آیا کہ ہر کام میں خدا کی حکمت ہوتی ہے ۔ اس میں کیا حکمت ہے ۔ تو یہ شعر زبان پر جاری ہوا۔

ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلاء ہو
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہو

بہر حال دماغ سوچتا رہا ۔ بہت سے خیالات آئے ۔بہت غور کیا ۔ نقصان تو کوئی نظر نہیں آیا ۔ فوائد ہی نظر آئے ۔ نقصان تو تب ہوتا اگر ہم اپنے پیارے خلیفہ کی تصوری اور آواز نہ سن سکتے۔ یا براہ راست خطبہ جمعہ سننے سے محروم ہو جاتے ۔ مگر الحمد للہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ اس لاک ڈاؤن کے فوائد اگر تفصیلاً لکھے جائیں تومضمون بہت طویل ہو جائے گا میں صرف ایک واقعہ بیان کروں گی ۔ اور اس سے جو سبق حاصل ہوتا ہے وہ ہمارے لئے مشعل ِ راہ ہے۔

’’کبھی ایسا بھی ہو تا ہے‘‘ یا
’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ِ ایام تو‘‘

یو کے میں میری بھتیجی کی شادی اپریل میں ہونا قرار پائی تھی ۔ تاریخ طے کرنے کے ساتھ ہی دونوں خاندانوں میں بھر پور تیاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ دونوں گھروں میں پہلے پہلے بچہ کی شادی تھی ۔اور یہ تو بہت ہی اہم ہوتی ہے۔ شادی کارڈ چھپوائے گئے ۔ تقسیم کرنے شروع کر دیئے ۔ دونوں فیملیز نے دسمبر میں ہی رخصتی اور دعوتِ ولیمہ کے لئے ہال بک کروا لئے تھے۔ جو تقریباً چار، چار سو افرا د کے لئے تھے ۔

16مارچ کو میں بھی ربوہ سے یو کے شادی میںشمولیت کے لئے پہنچ گئی ۔ شاید میںنے اپنی پوری زندگی میں کسی شادی کے لئے اتنی بھر پور تیاری نہیں کی تھی جتنی اس موقع پر کی ۔ مگروہی ہوتاہے جو منظور خدا ہوتا ہے ۔

20مارچ کو کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہو گیا ۔ بارڈر بند۔ فلائٹس بند۔ تمام سرگرمیاں ختم۔شادی کی تاریخ وقتی طور پر کینسل کر دی گئی اور عزیز و اقارب کو مطلع بھی کردیا گیا۔

گھر جب روزانہ خبریں سنتے تو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا کہ یہ سلسلہ تو جلد ختم ہو نے والا نہیں ۔ رجسٹری آفس بھی بند ہو گیا اور لیٹر بھی آ گیا۔ تو اس موقع پر جبکہ ہر گھر مسجد بن چکا تھا ۔ دُعاؤں کا سلسلہ بہت زیادہ زور پکڑ گیا ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فریقین کے دل میں ایک خواہش پیدا کی کہ اپنی دنیاوی خواہشات کو چھوڑو ۔ وقت ضائع نہ کرو اور سادگی کے ساتھ مقررہ تاریخ پر رخصتی کر دو ۔

اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا
ترک رضائے خویش پئے مرضئی خدا

دونوں طرف بچوں (دلہا، دلہن) سے مشورہ کیا گیا تو دونوں نے بخوشی والدین کے فیصلے کو قبول کیا ۔ جماعتی کاروائی کے بعد نکاح کی اجازت مل گئی جو کہ پہلے سے رخصتی کی مقررہ تاریخ تھی ۔

چار افراد مسجد میں گئے ۔ دلہا،ولی اور دو گواہ۔ نکاح ہوا اور اس کے بعد تین افراد دُلہن کے گھر رخصتی لینے آگئے ۔دلہن آف وائٹ سادہ لباس میں ملبوس بغیر مہندی کے ہاتھ ۔ سادہ سا میک اپ اور لائٹ سی جیولری ۔ دلہا بجائے شیروانی اور ٹربن کے صرف کوٹ پتلون پہنے آیا ۔ دونوں کو بٹھایا ۔ دُعا کی اور رخصت کر دیا ۔

شادی ہوگئی ۔ دلہن پیا دیس سدھار گئی ۔ دل غمگین تھے ، آنکھیں اشکبار تھیں ۔ بچی کی رخصتی کے موقع پر ایسا ہوتا ہے مگر اِس موقع پر کچھ زیادہ ہی ہوا ۔ مگر آفرین ہے ان بچوں کے جنہوں نے ان حالات میں ایک مثالی قربانی دے کر ایک لازوال داستان امر کردی ۔ جسے آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی کہ شادی کے لئے دو لاکھ کا جوڑا ، روایتی اند از میں سجا ہوا خوبصورت بیش قیمت سٹیج ، دلہن کے جوڑے کے ہم رنگ شیروانی میں ملبوس دلہا،ایک مخصوص انداز میںدلہا دلہن کی اینٹری ،چارسو لوگوں کی موجودگی ،چٹ پٹے کھانوں کا لمبا چوڑا menu، ویڈیوگرافی یا outdoor فوٹو شوٹ ضروری نہیں ہے ۔ نکاح ضروری ہے ۔اور چار لوگوں کی موجودگی میں بھی رخصتی ہو جاتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دنیاوی خرافات سے بچا کر قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ دین میں آسانیاں ہیں اور ہمیں ان آسانیوں کو اپنانے کی توفیق دے ۔ آمین

(مسز نسیم مرزا ۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 12 جون 2020ء