• 14 جولائی, 2025

صداقت حضرت مسیح موعودؑ

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ

(المائدہ:68)

ترجمہ: اے رسول! اچھی طرح پہنچا دے جو تیرے ربّ کی طرف سے تیری طرف اتارا گیا ہے۔ اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو گویا تو نے اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔ یقیناً اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے لکھ چھوڑا ہے کہ باوجود مخالفت کے اور اعترضات کے میں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ

(المجادلہ: 22)

’’اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔‘‘

پہلی آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیوی شر سے یعنی لوگوں کے استہزاء سے بچائے گا (وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ) اور جس موعود نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے فیض پا کر مسیح محمدی کا اعلان کیا ہے وہ بھی اس آیت سے فیض پاکر ایک الہٰی جماعت کا بانی بنا۔

دوسری آیت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ نہ صرف خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ حمایت کرے گا بلکہ عموماً تمام رسولوں کے ساتھ بھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں رسول کی جمع یعنی رُسُل کاستعمال کیا ہے جو الحمد للّٰہ علی ذالک حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی حیاتِ قدسی پر بھی چسپاں ہوتا ہے۔

مخالفین کی کوششیں ناکام ہوتی چلیں گئیں اور ہر اعتراض کا جواب ان کو حضرت مسیح موعودؑ نے مدلّل اور مسکّت کی شکل میں دیا۔

پہلا اعتراض

جماعت احمدیہ کے خلاف وائٹ پیپر کی طرح پر جو رسالہ شائع کیا ہے اس میں ایک اعتراض بالکل وہی ہے جو فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ پر کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’مرزا صاحب عربی الفاظ کے صحیح تلفظ سے قاصر تھے۔ وہ قریب المخرج عربی حروف کو الگ الگ لہجے میں نہ بول سکتے تھے مثلاً ’ق‘ اور ’ک‘ کو۔ بعض اوقات ان کے ملاقاتی ان کی اس کمزوری پر اعتراض کرتے تھے مگر مرزا صاحب اپنی صفائی میں کچھ نہ کہہ سکتے تھے۔‘‘

(قادیانیت ۔اسلام کے لیے سنگین خطرہ صفحہ 12)

جواب

یہ حوالہ انہوں نے درج کیا ہے اور رسالہ کا عنوان ہے ’’قادیانیت، اسلام کے لئے سنگین خطرہ‘‘ تعجب کی بات یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی زبان میں لکنت تھی۔ آپ صحیح تلفظ ادا نہیں کر سکتے تھے تو اس سے اسلام کو کیا خطرہ لاحق ہو گیا؟ اسلام کو اتنا شدید خطرہ کہ حضرت مسیح موعودؑ کی زبان میں لکنت تھی۔ نادانی کی بھی کوئی حد ہے کوئی واقعی خطرہ کی بات ہو تو انسان مانے بھی کہ ہاں یہ عنوان درست ہے۔ ایسے لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر بزرگوں اور انبیاء کی زبان میں لکنت ہو یا وہ غیر فصیح ہوں تو کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے حضرت موسیٰ ؑ کے متعلق یہ لفظ بھی استعمال فرمایا ہے اور ان کی زبان سے اقرار کروایا کہ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّی (القصص: 35) میں فصیح الکلام نہیں، ہارون مجھ سے زیادہ فصیح کلام کرسکتا ہے۔ اگر واقعی لکنت قابل اعتراض امر ہے تو اللہ تعالیٰ نے کم فصیح کو کیوں چن لیا؟ لکنت والے کو کیوں چن لیا؟ پس قرآن کریم تو حضرت موسیٰ ؑ کی زبان سے خود غیر فصیح ہونے کا اقرار کروا رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ دین الہٰی کے لئے کوئی خطرہ نہیں تھے لیکن جب یہ لوگ حضرت مسیح موعودؑ کے مقابل پر بات کرتے ہیں تو چونکہ مقدر یہ ہے کہ دشمن جو باتیں ماضی میں دُہراتے رہے ، وہی باتیں اب بھی دُہراتے رہیں ۔اس لئے فرعون نے جو اعتراض کیا کہ موسیؑ غیر فصیح ہے ، زبان میں لکنت ہے۔ وہی اعتراض آج ان کو دُہرانا پڑا اور انہوں نے تفاسیر میں بھی لکنت اور زبان کی دقت کے متعلق بہت سے قصے لکھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ تفسیر روح المعانی تفسیر سورۃ الشعرا میں لکھا ہے:

’’گھٹے گھٹے ماحول کی وجہ سے آپ (حضرت موسیؑ) کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی تھی اور یہ اسی طرح ہے کہ جیسے بعض اوقات فصحاء پر بھی جب غم شدّت اختیار کرتے ہیں اور ان کے سینوں میں گھٹن پیدا کرتے ہیں تو ان کی زبانوں میں بھی تردد پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مقصود کو بیان نہیں کرسکتے۔‘‘

(ترجمہ)

اس کے علاوہ ہم مزید دیکھتے ہیں کہ اسلام میں بھی ایسے مسلّمہ بزرگ ہیں جو عظیم الشان مقام رکھتے ہیں اور ان کے متعلق یہی گواہی پائی جاتی ہے کہ ان کی زبان میں لکنت تھی۔ کیا یہ لوگ حضرت بلال ؓ کو بھول گئے ہیں جن کو حضرت عمر ؓ سیدنا بلال ؓ کہا کرتے تھے اور جب وہ ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کی بجائے ’’اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ پڑھتے تھے تو صحابہؓ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ انہیں غصہ نہیں آتا تھا اور نہ وہ حضرت بلالؓ کو اس کے نتیجہ میں اسلام کے لئے سنگین خطرہ قرار دیتے تھے بلکہ وہ شدت غم سے تڑپتے اور بلکتے تھے کیونکہ انہیں یاد آجاتا تھا کہ حضرت بلال ؓ اسی آواز کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہی پڑھا کرتے تھے۔ حضرت حسین ؓ کی زبان میں بھی لکنت تھی۔

(تفسیر روح المعانی زیر تفسیر آیت:واحلل عقدۃ من لسانی)

’’حضرت حسین ؓ کی زبان میں لکنت تھی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’حسین ؓ نے یہ لکنت اپنے چچا حضرت موسیٰ ؑ سے ورثہ میں پائی ہے۔‘‘

حضرت امام مہدی ؑ کے متعلق کیا لکھا ہوا ہے:
’’یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مہدی منتظر کی زبان میں بھی لکنت ہوگی اور بعض دفعہ اس کی زبان جب کلام کو بیان کرنے سے پیچھے رہ جائے گی تو وہ اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر مارے گا۔‘‘

(تفسیر روح المعانی تفسیر آیت: یفقھوا قولی)

تو اگر امام مہدی نے پیشگوئیوں کے مطابق اس مزعومہ خطرہ کے ساتھ آنا تھا تو پھر اس خطرہ کو قبول کرنا پڑنا تھا۔ کیونکہ یہ تو اس کی سچائی کی علامت ہے۔

(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مورخہ 29 مارچ 1985ء)

دوسرا اعتراض

’’مرزا صاحب ’’ابن مریم‘‘ کس طرح ہو گئے آپ کی والدہ کا نام تو چراغ بی بی تھا۔‘‘

جواب نمبر:1

بخاری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے:

مَا مِنْ مَوْلُوْدٍیُّؤلَدُ إِلَّا وَ الشَّيْطَانُ یَمَسُّہُ حِيْنَ يُؤلَدُ، فيستهلُّ صارخًا من مسِّ الشيطان ، ایَّاہ الَّا مريم وابنھا

(بخاری کتاب التفسیر باب و إنی اعیذھابک۔۔۔ کتاب بدء الخلق باب قول اللّٰہ تعالیٰ و اذکر فی الکتاب مریم)

کہ ہر چیز پیدا ہونے والے بچے کو بوقتِ ولادت شیطان مس کرتا ہے اور بچہ جب اسے مسِ شیطان ہوتا ہے تو وہ چیختا ہے، چلاتا ہے مگر مریم اور ابن مریم کو مسِ شیطان نہیں ہوتا۔

اس پر طبعًا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب صرف مریمؑ اور ابن مریمؑ ہی مسِّ شیطان سے پاک ہیں تو پھر کیا باقی انبیاء کو عموماً اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خصوصاً مسِّ شیطان ہوا تھا؟ اس کا جواب علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں یہ دیا ہے:

مَعْنَاهُ أَنَّ كُلَّ مَوْلُوْدٍ يَّطْمَعُ الشَّيْطَان فِي إغْوائِهِ إلَّا مَرْيَم وَابْنَهَا، فَإنَّهُمَا كَانَا مَعْصُوْمَينِ، وَكَذٰلِكَ مَنْ كَانَ فِي صِفَتِهِمَا

(تفسیر کشاف زیر آیت واذکر فی الکتاب مریم)

کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ شیطان ہر بچہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ سوائے مریم اور ابن مریم کے۔ کیونکہ وہ دونوں پاک تھے اور اسی طرح ہو وہ بچہ (بھی اس میں شامل ہے) کو مریم اور ابن مریم کی صفت پر ہے۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدث میں ’’مریم‘‘ اور ’’ابن مریم‘‘ سے صرف 2 انسان ہی مراد نہیں بلکہ 2 قسم کے انسان مراد ہیں۔ گویا جو مریمی صفت میں اور ابن مریمی صفت میں مومن اور انبیاء ہوں وہ سب ’’مریم‘‘ اور ’’ابن مریم‘‘ کے نام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک پر یاد کئے گئے ہیں۔

ان صفات کی مزید تشریح قرآن مجید میں ہے:

وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ oوَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ

(التحریم: 12۔13)

ترجمہ: اور اللہ نے اُن لوگوں کے لئے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال دی ہے۔ جب اس نے کہا اے میرے ربّ! میرے لئے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔

اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی عصمت کو اچھی طرح بچائے رکھا تو ہم نے اس (بچے) میں اپنی روح میں سے کچھ پھونکا اور اس (کی ماں) نے اپنے ربّ کے کلمات کی تصدیق کی اور اس کی کتابوں کی بھی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی۔

ان آیات سے ما قبل کی ملحقہ آیات میں کافر مردوں کو 2عورتوں نوحؑ اور لوطؑ کی بیویوں سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ ان کے خاوند مومن تھے مگر وہ دونوں کافرہ تھیں۔ مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہوا کہ مومن 2 قسم کےہوتے ہیں: (1) آسیہ (زوجہ فرعون) صفت (2) مریمی صفت۔ پہلے وہ مومن جو کفر کے غلبہ کے نیچے دب چکے ہوں اور وہ اس سے نجات پانے کے لئے دست بدعا ہوں۔ اور دوسرے وہ مومن جن پر روزِ ازل سے ہی بدی غلبہ نہ پا سکی۔

وَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا (الانبیاء: 92) یہ دوسری قسم کا مومن قرآنی اصطلاح میں ’’مریم‘‘ کہلاتا ہے۔ پھر وہ مریمی حالت سے ترقی کر کے فَنَفَخۡنَا فِیۡہَا مِنۡ رُّوۡحِنَا (الانبیاء:92) کے مطابق “ابن مریم” کی حالت میں چلا جاتا ہے کیونکہ مقام ِمریمی صدیقیت ہے اور مقام ِابنِ مریم مقامِ نبوت۔ گویا ہر نبی پر 2 زمانے آتے ہیں۔ پہلے وہ مقامِ مریمی میں ہوتا ہے اور اسی حالت کے متعلق قرآن مجید نے اشارہ کیا۔

فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ

’’پس میں اس (رسالت) سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں۔‘‘

اور ان دونوں حالتوں یعنی صدیقیت اور نبوت کی حالتوں میں وہ مسِّ شیطان سے پاک ہوتا۔

سورۃ تحریم کی آیات سے ثابت ہوا کہ جس طرح حضرت مریم صدیقہؑ اپنی پاکیزگی کے انتہائی مقام پر پہنچ کر حاملہ ہوئیں اور اس حمل سے حضرت عیسیٰ ؑ جو خدا کے نبی تھے پیدا ہوئے۔ اسی طرح ایک مومن مرد بھی پہلے مریمی حالت میں ہوتا ہے اور پھر ایک روحانی اور مجازی حمل سے گزرتا ہوا مجازی ’’ابن مریم‘‘ کی ولادت کا باعث ہوتا ہے۔ وہ مومن مرد مجاز اور استعارہ کے رنگ میں ’’مریم‘‘ ہوتا ہے اور اور مجاز اور استعارہ ہی کے رنگ میں حمل سے گزرتا ہے۔ اور مجاز اور استعارہ ہی کے رنگ میں ‘‘ابنِ مریم’’ کی ولادت کا باعث ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے تمام کافروں اور مومنوں کو 4 عورتوں ہی سے تشبیہ دی ہے۔ مرد عورتیں تو نہیں ،ہاں استعارہ اور مجاز کے رنگ میں ان کو عورتیں قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ فرید الدین عطاؒ نے حضرت عباسیہ طوسیؒ کا یہ قول نقل کیا:

’’قیامت کے دن جب آواز آئے گی کہ اے مردو! تو مردوں کی صفت میں سے سب سے پہلے حضرت مریم ؑ کا قدم پڑے گا۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء ذکر حضرت رابعہ بصری نواں باب صفحہ51 شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈسنز لاہور و ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء صفحہ 55)

جواب نمبر2

اِطْلاقُ اِسْمِ الشَّیْءِ عَلٰی مَا یُشَابِھُہُ فِیْ اَکْثَرِخَوَاصِہ جَائِزٌ حَسنٌ

(تفسیر کبیر جلد2صفحہ689)

کہ ایک چیز کا نام دوسری چیز کو (جو اکثر خواص میں اس سے ملتی ہو) دینا جائز ہے۔

جواب نمبر3

اسم علم بھی بطور مجاز دوسرے کے لئے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ بلاغت کی کتاب تلخیص المفتاح صفحہ 59، 60 میں لکھا ہے ’’ولا تَکُونُ عَلَمًا۔۔۔ اِلاَّ اِذا تُضَمَّنَ نُوْعٌ وَّ صَفیَّۃٌ کَحَاتَمٍ …… کہ عَلَم استعارہ استعمال نہیں ہوتا ہاں جب کوئی صفت پائی جائے تب اسم علم بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ جیسے حاتم ہے۔‘‘

(تلخیص المفتاح از محمد عبد الرحمٰن قزوینی صفحہ59مطبع مجتبائی دہلی)

جواب نمبر4

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَّنْظُرَ اِلٰی عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِیْ زُھْدِہ فِلْیَنْظُرُ اِلٰی اَبی الدَّرْدَاءِ‘‘

(منصب امامت صفحہ 53 مصنفہ سید اسمٰعیل شہیدؒ)

کہ تم میں سے جو شخص عیسٰی بن مریم کو زہد کی حالت میں دیکھنا چاہے وہ حضرت ابو درداء کو دیکھے۔

(تمام جوابات کے حوالہ جات از مکمل تبلیغی پاکٹ بک صفحہ504۔602 اور صفحہ 807، مرتّبہ: جناب ملک عبد الرحمٰن خادم)

(ہارون احمد عطاء۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جون 2020

اگلا پڑھیں

عالمی اپڈیٹ Covid-19