• 28 اپریل, 2024

’’زمانہ جاہلیت‘‘ سے کیا مراد ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبات میں بدری صحابہؓ کا ذکرِ خیر فرما رہے ہیں جس میں اکثر ہم ایک لفظ ’’زمانہ جاہلیت‘‘ سنتے ہیں۔

مثلاً خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 12 جون 2020ء میں حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:

’’آپؓ کا نام زمانہ جاہلیت میں عبدِ عمرو یا عبدالکعبہ تھا۔ اسلام لانے کے بعد حضور ﷺ نے نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھ دیا اور آپ اُن گنتی کےافراد میں شامل تھے جنہوں نے زمانۂ جاہلیت میں بھی شراب کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا‘‘۔

لہذا خاکسار نے اس موضوع پر قلم اٹھانے کا ارادہ کیا ہے۔ وَمَا تَوفِیقِی اِلَّابِاللّٰہِ۔

قرآن کریم، احادیث، لغت وکتبِ تاریخ کے مطابق ’’الجاهلية‘‘

لوگ اسلام سے قبل عربوں کی تاریخ کو ’’التاریخ الجاھلی‘‘ یا ’’تاریخ الجاهلية‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔اس وجہ سے کہ عربوں پر خانہ بدوشی کا غلبہ رہا، اور ان میں سے اکثر خانہ بدوش قبائلی زندگی غفلت اور جہالت میں گزار تے رہے۔ ان کا تعلق بیرونی دنیا سے نہیں تھا، اور نہ بیرونی دنیا کا ان سے ،اور یہ ناخواندہ، بتوں کی پوجا کرنے والے تھے، اور ان کی کوئی جمع شدہ تاریخ نہیں تھی، لہذا یہ دور جواسلام سے قبل تھا ان کے نزدیک ’’الجاهلية‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔

(المفصل فی تاریخ العرب قبل السلام مؤلفہ جواد علی جلد01 صفحہ 37، دارالساقی بیروت)

بعض کے نزدیک الجاهلية کا زمانہ ’فترۃ‘ کا زمانہ ہے یعنی وہ زمانہ جو دو رسولوں (یعنی حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمدﷺ) کے درمیان تھا۔ کبھی اس کا اطلاق مطلق زمانہ کفر پر ہوتا ہے، کبھی فتح مکہ سے پہلے کے زمانے پر، اور کبھی اس زمانے پر جو ولادتِ نبوی اور بعثت کے درمیان ہے۔

قرآن کریم میں یہ لفظ مدنی سورتوں میں 4 مرتبہ استعمال ہوا ہےجو کہ مندجہ ذیل ہے:

ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا يَغْشٰى طَائِفَةً مِنْكُمْ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ۔

(سورۃ آل عمران:155)

پھر اس نے تم پر غم کے بعد تسکین بخشنے کی خاطر اونگھ اتاری جو تم میں سے ایک گروہ کو ڈھانپ رہی تھی ۔ ہاں کچھ وہ لوگ بھی تھے کہ انہیں اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی، وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق جاہلیت کے گمانوں کی طرح ناحق گمان کر رہے تھے۔

أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوْقِنُوْنَ

(سورۃالمائدۃ:51)

کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُوْلَى

(سورۃالاحزاب:34)

اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنےسنگھار کا ااظہار نہ کرو۔

إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ

(سورۃ الفتح:27)

جب کہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں حمیت کو جگہ دی اور حمیت بھی جاہلیت کی۔

معروف لغت دان اور نحوی ابن خالویہ (ابو عبد اللہ حسین بن احمدالہمذانی، المتوفی:370ھ) کےمطابق یہ ایک ایسا نام ہے جو بعہدِ اسلام وجود میں آیا اور اس سے بعثتِ نبوی ﷺ سے پہلے کا زمانہ مراد لیا جاتا ہے۔

(المزھر فی علوم اللغۃ و انواعھا از جلال الدین سیوطی جلد 01 صفحہ 240 دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

جبکہ امام ابن حجر عسقلانی (المتوفی:852ھ) بخاری کی شر ح میں لکھتے ہیں: جاہلیت سے بالعموم یہی مراد لی جاتی ہے اور قرآن کی یہ آیت انہی معنوں کی حامل ہے: يَظُنُّونَ بِاللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ’یہ لوگ عہدِ جاہلیت کے خیالات کی طرح اللہ کے متعلق غلط قسم کے خیالات رکھتے ہیں‘۔ لیکن نووی (محی الدین ابوذکریا یحییٰ بن شرف) کا مسلم کی شرح میں متعدد مقامات پر حتمی طور پر یہ کہنا ہے کہ جہاں کہیں بھی یہ لفظ آئے اس سے یہی مراد لی جاتی ہے غور طلب ہے، کیونکہ لفظ جاہلیت کا اطلاق گزشتہ زمانے پر ہوتا ہے اور مراد ما قبلِ اسلام کا زمانہ لیا جاتا ہے جس کا آخری زمانہ فتح مکہ لیا جاتا ہے۔

(فتح الباری زیرِ شرح کتاب المناقب باب ایام الجاھلیۃ)

ان تمام حوالہ جات سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ’’الجاهلية‘‘ کا لفظ کبھی توزمانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے (اور کتاب و سنت میں بھی بالعموم یہی معنی مراد لئے جاتے ہیں)، اور کبھی ذوالحال (یعنی وہ شخص یا لوگ جو اس حالت میں ہوں) مراد لی جاتی ہے۔

حضرت عمرؓ کا فرمانا: میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات اعتکاف میں بیٹھوں گا۔

(صحیح البخاری کتاب الاعتکاف)

اور حضرت عائشہ ؓ کا فرمانا: جاہلیت میں نکاح چار قسم کا تھا۔

(صحیح البخاری کتاب النکاح)

اور صحابہ کا یہ کہنا : یا رسول اللہ ﷺ ہم جاہلیت اور شر میں تھے (صحیح البخاری کتاب الفضائل) یعنی جاہلیت کی حالت یا طریقے یا عادت وغیرہ میں تھے۔

(یہ سب پہلے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں)۔ کیونکہ جاہلیت اگرچہ درحقیقت صفت ہے مگر کثرت استعمال کے باعث یہ اسم بن گیاہے اور یہ مصدرِ صناعی بھی ہے۔

دوسرے معنی (یعنی ذوالحال کے معنوں میں) ہم کہتے ہیں کہ طائفةٌجَاهِلِيَّةٌ اور شاعرٌجَاهِلِيٌّ اور یہ نسبت جہل کی طرف ہے ،جس کے معنی علم نہ ہونے کے یا علم کا اتباع نہ کرنے کے ہیں۔ چنانچہ جو شخص حق کے خلاف عقیدہ رکھے تو اس کا جہل، جہلِ مرکب ہے اور اگر حق کی بات کو جانتے ہوئے یا نہ جانتے ہوئے حق کے خلاف بات کرے تو وہ بھی جاہل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عباد الرحمٰن کے بارے میں فرمایا: وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا۔ (سورۃ الفرقان:64) کہ جب جاہل لوگ ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ انہیں سلام کہتے ہیں۔

اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : الصِّیَامُ جُنَّةٌ،فَلَایَرْفَثْ وَلَایَجْهَلْ۔ روزہ ڈھال ہے، پس جب تم میں سے کوئی شخص روزہ رکھے ہوئے ہو تو اسے چاہیے کہ نہ کوئی گندی بات کہے اور نہ جہالت کی بات

(صحیح البخاری کتاب الصیام)

نیز ایک مرتبہ جب حضرت ابوذر غفاری ؓ نے حضرت بلالؓ کو ان کی والدہ کے متعلق طعن کیا تونبی کریم ﷺ نے فرمایا:

اِنّکَ امْرُؤٌ فِیْکَ جَاهِلِيَّةٌ۔ کہ تو ایک ایسا شخص ہے جس میں جاہلیت پائی جاتی ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الادب)

اور انہی معنوں مین عمر بن کلثوم تغلبی اپنےقصیدے میں کہتا ہے:

اَلَا لَا یَجْھَلَنَّ اَحَدٌ علینا
فَنَجْھَلَ فَوْقَ جَھْلِ الجَاھِلینا

کہ خبردار کوئی ہم سے جاہلیت کا سلوک نہ کرے ورنہ ہم بھی پھر ان سے بڑھ کر جاہلیت دکھائیں گے۔ لہذا ان معنوں میں یہ لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے۔

اسی طرح جو شخص حق کے خلاف عمل کرے وہ بھی جاہل ہے خواہ اسے علم ہی کیوں نہ ہوکہ یہ حق کہ خلاف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّٰهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ

(سورۃالنساء:18)

یعنی اللہ تعالیٰ تو صرف ان کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت سے بر ا فعل کر بیٹھیں اور پھر جلد ہی توبہ کر لیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا قول ہے: ہر وہ شخص جو برا فعل کرے وہ جاہل ہے خواہ اسے اس بات کا علم ہی کیوں نہ ہو کہ وہ فعل حق کے خلاف ہے۔

(تفسیر ابنِ کثیر زیرِ آیت النساء:18)

جب یہ بات واضح ہو گئی تو یہ پتہ چلا کہ گویا وہ لوگ جو نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے تھے وہ حالتِ جاہلیت میں تھے ۔ یعنی ایسا جَھل جو جاہل کی طرف منسوب ہو کیونکہ جن اقوال و افعال کے وہ عادی بن چکے تھے انہیں ایجاد بھی کوئی جاہل ہی کرسکتا تھا اور ان پر عمل پیرا بھی کوئی جاہل ہی ہوسکتا تھا۔ اس طرح ہر وہ چیز جو رسولوں کے آوردہ احکام کے خلاف ہو خواہ اس کا تعلق یہودیت سے ہو، خواہ نصرانیت سے،جاہلیت ہے۔ یہ تو عام جاہلیت تھی لیکن نبی کریم ﷺ کی بعثت کے بعد مطلق زمانے کے لحاظ سے کوئی جاہلیت نہیں رہی۔ کیونکہ آپ ﷺ کی امت کے کچھ لوگ قیامت تک حق پر کاربند رہنے کے باعث غالب رہیں گے۔ البتہ مطلق جاہلیت کسی شہر میں ہوسکتی ہے اور کسی میں نہیں۔ اسی طرح جاہلیت کسی شخص میں ہوتی ہے، کسی میں نہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص اسلام لانے سے قبل جاہلیت میں ہوتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ دا رالاسلام میں مقیم ہو۔ اور جہاں تک مقید جاہلیت کی بات ہے، تو وہ بعض اسلامی ممالک اور بہت سے مسلمان افراد میں بھی میں بھی پائی جاتی ہے، جیسا کے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

اَرْبَعٌ فِی اُمَّتِی مِنْ اَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَایتركونَھُنّ الفَخْرُبِالاَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِی الاَنْسَابِ، وَ الاِسْتَسقَاءُ بِالنُّجُومِ وَ النِیَاحةُ۔

(صحیح المسلم کتاب الجنائز)

میری امت میں چار باتیں جاہلیت کی پائی جاتی ہیں جنہیں وہ نہیں چھوڑتے: حسب و نسب پر فخر کرنا، اَوروں کے نسب میں طعن کرنا، ستاروں سے بارش طلب کرنا، اور نوحہ کرنا۔

عربی ادب کی روشنی میں بلحاظِ زمانہ ’’الجاهلية‘‘ کی حد

معروف ادبی شخصیت ڈاکٹر شوقی ضیف اپنی تالیف ’’العصر الجاھلی‘‘ میں بلحاظِ زمانہ ’الجاهلية‘ کی حد مقرر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ذہن میں آسکتا ہے کہ جاہلیت میں اسلام سے پہلے کے تمام ادوار اور اوقات شامل ہیں، کیونکہ یہ سنِ عیسوی سے پہلے اور بعد میں، جزیرۃ العرب کی قدیم تاریخ کی نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن جو لوگ اسلام سے پہلے کے ادب کو تلاش کرتے ہیں وہ اس وسعت میں نہیں ڈھونڈتے، کیونکہ وہ ڈیڑھ صدی بعثتِ نبوی سے آگے نہیں بڑھتے ہیں، بلکہ اسی زمانہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ وہ دور ہے جس میں عربی زبان نے اپنی ابتدائی خصوصیات کو مربوط کردیا ہے، اور جس میں جاہلیت کی شاعری ہمارے پاس آئی تھی۔ اور الجاحظ (أبو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب الكنانی) نے اس بات کوبخوبی ملاحظ کیا ہے لہذا وہ کہتا ہے: وأما الشعر فحديث الميلاد، صغير السنّ، أوّل من نهج سبيله، وسهّل الطريق إليه: امرؤ القيس بن حجر، ومهلهل بن ربيعة. . . . فإذا استظهرنا الشعر، وجدنا له- إلى أن جاء الله بالإسلام- خمسين ومائة عام، وإذا استظهرنا بغاية الاستظهار فمائتي عام. یعنی جہاں تک (عربی) شاعری کی بات ہے تو ، سن عیسوی بہت کم عمر ہے ، اس کے راستے پر چلنے والے پہلے اور اس کے راستےکو آسان بنانے والے امرؤ القیس بن حجر اور مھلھل بن ربیعہ (ان شعراء کے قصائدخانہ کعبہ میں لٹکائے گئے، جنہیں سبعہ معلقات کہا جاتا ہے) .. . .ہیں۔ اگر ہم شاعری زبانی پڑھتے ہیں، توہم نےاسے پایا، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ مذہب ِاسلام کو لے آیا، ڈیڑھ سو سال، اور اگر ہم زبانی حفظ کی بہت زیادہ مدد بھی لیں تو دو سو سال بنتے ہیں (الحیوان للجاحظ طبع حلبی جلد 01 صفحہ74) اور الجاحظ کی یہ بات درست بھی ہے کیونکہ اس سے قبل عربی شاعری کی تاریخ مجہول ہے۔

(العصر الجاھلی لالدکتور شوقی ضیف ،دارالمعارف القاہرۃ صفحہ38)

لہذا ادبی لحاظ سے زمانہ جاہلیت کی حد بعثتِ نبویﷺ سے 150سال قبل تک بنتی ہے۔

الْجَاهِلِيَّةُ الْأُولٰى اور مفسرین

اللہ تعالیٰ سورۃ الاحزاب میں فرماتا ہے: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولٰى۔

ترجمہ: اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا ااظہار نہ کرو۔

اس آیت میں جاہلیت کے مفہوم کے متعلق مفسرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ بعض کہتے ہیں کہ جاہلیت اولیٰ اس زمانے میں تھی جس زمانے میں حضرت ابراھیمؑ کی پیدائش ہوئی۔ اس زمانے میں عورت موتیوں کی قمیص پہن کر راستے کے عین وسط میں چلتی اور اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتی تھی۔

حَکَمْ بن عُتَیْبۃ الکندی الکوفی (المتوفی: 115ھ) کہتے ہیں : جاہلیتِ اولیٰ آدمؑ اور نوح ؑ کے زمانے میں تھی اور یہ آٹھ سو سال کا عرصہ ہے۔ اس زمانے کے لوگوں کے اخلاق برے بیان کئے جاتے ہیں ۔

جبکہ ابن عباسؓ کہتے ہیں: یہ نوحؑ اور ادریسؑ کے درمیان کا زمانہ ہے ۔

اور محمد بن السائب الکلبی الکوفی (المتوفی:146ھ) کہتے ہیں : یہ نوح ؑ اور ابراھیمؑ کے درمیان کا زمانہ ہے، کہا جاتا ہے کہ عورت موتیوں کی قمیض پہنتی تھی جو دونوں جانب سے سلی ہوئی نہ ہوتی تھی، پتلے کپڑے پہنتی اور اپنے بدن کو ڈھانپا نہ کرتی تھی۔

ایک گروہ کہتا ہے : جاہلیتِ اولیٰ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کا درمیانی زمانہ ہے ۔

جبکہ ابو اسحاق حمد بن محمد بن ابراھیم النیشاپوری المعروف ثعلبی (المتوفی:427ھ) کے نزدیک یہ حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمدﷺ کے درمیان کا عہد ہے۔

(الکشف والبیان عن تفسیر القرآن زیرِ آیت ہذا)

جبکہ ابو عالیہ رفیع بن مہران الریاحی البصری (المتوفی:90ھ) کہتے ہے: یہ داؤدؑ اور سلیمان ؑ کا زمانہ ہے، اس زمانہ میں عورت جو قمیض پہنتی اس کی دونوں طرفیں سلی ہوئی نہ ہوتی تھیں اور عورتیں بدن کے اس حصے کو بھی ظاہر کردیتیں جس کا ظاہر کرنا قبیح معلوم ہوتا ہے۔

مجاہدبن جبر المکی (المتوفی:103ھ) کہتے ہیں: عورتیں مردوں کے درمیان چلا پھرا کرتی تھیں، جس کو قرآن کریم نے ’تبرج‘ سے تعبیر کیا ہے۔

جبکہ ابو محمد عبد الحق بن غالب بن عطیہ اندلسی غرناطی (المتوفی: 546ھ) المعروف ابن عطیہ کہتے ہیں : میرے نزدیک ظاہر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جاہلیت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا زمانہ انہوں (یعنی ازواجِ مطہرات) نے پایا۔ لہذا انہیں اسی جاہلیت کے اخلاق سے علیحدہ ہونے کا حکم دیا گیا اور یہ اخلاق وہ اخلاق تھے جو شریعت کے آنے سے پہلے کفار کا شعار تھے، کیونکہ ان میں کسی قسم کی غیرت نہ پائی جاتی تھی۔ اور عورتوں کے معاملے میں کسی قسم کا حجاب نہ تھا، اور اس جاہلیت کو ’اولیٰ‘ اس حالت کی نسبت سے کہا گیا جس پر وہ اس وقت یعنی بعہدِ اسلام تھیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کوئی اور جاہلیت بھی ہے۔ جاہلیت کا لفظ اسلام سے پہلے کی مدت کیلئے استعمال کیا گیا ہے، جیسا کے واضح ہے۔

(المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز از ابن عطیہ زیر آیت ھذا)

٭…٭…٭

(مبشر محمود ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 26 جون 2020ء