• 29 اپریل, 2024

حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے دور ِخلافت میں انگلستان میں باقاعدہ مشن کا آغاز حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ کے ذریعہ ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نگاہ جو ہر شناس نے جن لوگوں کو کندن بنایا ان میں سے چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ آسمان احمدیت کے وہ درخشندہ ستارے تھے جن کی چکاچوند نے برصغیر پاک و ہند کے علاوہ انگلستان کو ایک طویل عرصہ تک جگمگا ئے رکھا۔ آپ کے نام کی طرح ہر معر کے میں فتح و ظفر نے آپ کے قدم چومے۔ اخلاص و فا کے جن پیمانوں کو آپ نے متعارف کرایا وہ تاریخ احمدیت میں تاابد حصول منزل کے لئے ’’راہنما‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

حضرت الحاج مولانا نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول ؓنے جب ولایت میں احمدیہ مشن کا آغاز فرمانے کی خواہش کا اظہار فرمایا تو اس بات کی تحریک فرمائی کہ کوئی نوجوان اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے وقف کرے۔اس وقت ایک نوجوان نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا۔ خلیفہ وقت نے اس قربانی کو قبول فرمایا اور لندن روانگی کا ارشاد ہوا۔وہ نوجوان ہمارے ایک پیارے بزرگ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام تھے۔

حضرت فتح محمد سیال ؓصاحب کی پیدائش جوڑاکلاں تحصیل قصور میں 1887ء کو ہوئی۔1897ء میں جب آپ کےوالد محترم حضرت نظام الدین صاحبؓ قادیان تشریف لائے تو حضرت فتح محمد سیال ؓ صاحب بھی ساتھ تھے اور اسی وقت مسیح پاک ؑ کی بیعت حاصل کی ۔

(کتاب حضرت چوہدری فتح محمد سیال ؓ صاحب صفحہ4)

آپ کا بیان ہے’’والد صاحب کی بیعت کے بعد علاقہ اور گاؤں میں بہت شور اٹھا۔اس گاؤں میں میرا ایک کلاس فیلوبھی تھا ہم دونوں نے مشورہ کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو حق ہے وہ ہم پر واضح کرد ے۔چنانچہ ہم دعا کرتے رہے میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک عظیم الشان پہاڑ ہے جیسا کہ ہمالیہ کے پہاڑ ہیں اس میں سے کھود کر ایک تخت بنا یا گیا ہے اور اس کے سامنے ایک بڑا چشمہ نہایت ہی شفاف پانی کا بہہ رہا ہے جو اتنی تیزی سے بہہ رہا ہے کہ تیزی کی وجہ سے اس میں لہر اور تموج پیدا کرتا ہے اور حضور ؑ اس تخت پر چوکڑی مار کر بیٹھے ہیں۔۔۔ حضور نہایت ہی رقت سے اور وجد کی حالت میں فارسی کے کچھ اشعار پڑھ رہے ہیں جن میں یہ شعر بھی ہے

ایں چشمہء رواں کہ بخلق خدا دہم
یک قطرہ زبحر کمال محمد است

۔۔۔اس وقت میرے دل میں گویا یہ احساس ہے کہ حضور ؑ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم کے عشق میں یہ شعر پڑھ رہے ہیں اور آپؑ سچے ہیں ۔ چہرہ نہایت نورانی ہے پھر ایسا ہوا کہ میں نے جون 1899ء میں قادیان جا کر بیعت کی۔ میرے والد صاحب نے مجھے بھیجا تھا اس موقعہ پرحضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحبؓ کا عقیقہ بھی تھا ۔ قادیان میں مَیں کئی دن رہا اور حضور ؑکے ساتھ کھانا کھایا اور مجھے ایسا موقعہ مل گیا کہ گول کمرہ میں حضور مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے ۔ ایک دن میں ایسی جگہ بیٹھا کہ میرے اور حضور کے درمیان کوئی اور شخص نہیں تھا مستقل طور پر میں 1900ء کے دسمبر میں قادیان چلا گیا تھا اور وہاں سکول میں داخل ہوگیا تھا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد20ص770)

ابتدائی تعلیم

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں جوڑا میں حاصل کی اور پھر 1900ءمیں قادیان آگئے اور دسویں جماعت تک یہیں تعلیم حاصل کی۔ 1910ء میں آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی -اے کیا اور 1912ءمیں علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم -اے عربی کی ڈگری حاصل کی۔

(کتاب حضرت چوہدری فتح محمد سیال ؓ صاحب صفحہ 4)

اہلیہ و اولاد

حضرت چوہدری فتح محمد سیال ؓصاحب نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف اوقات میں کل سات شادیاں کیں جن کے اسماء درج ذیل ہیں:

1) مکرمہ رانو بیگم صاحبہ
2) مکرمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ (وفات1927ء) صاحبزادی مکرم حکیم مفتی فضل الرحمٰن صاحب
3) لندن میں ایک انگریز احمدی خاتون سے شادی کی لیکن جب آپ واپس تشریف لائے تو وہ ساتھ نہ آئیں کہ میں انڈیا نہیں رہ سکوں گی۔
4) مکرمہ صادقہ بیگم صاحبہ (وفات 1934ء صاحبزادی مرزا محمود بیگ صاحب آف پٹی
5) مکرمہ آپارقیہ بیگم صاحبہ (وفات1942ء بنت حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب پرنسپل تعلیم السلام سکول
6) مکرمہ صفیہ بیگم صاحبہ چھوٹی صاحبزادی مکرم مسیح الدین خان صاحب
7) مکرمہ آپا کلثوم بیگم صاحبہ بنت ماسٹر قادر بخش صاحب رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شادی کی آپ حضرت عبد الرحیم صاحب درد کی ہمشیرہ بھی تھیں۔ (شادی:1952ء کوئی اولاد نہیں)

(سیرت حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ؓ مصنفہ مکرمہ امتہ الشافی سیال صاحبہ صفحہ 56،55 کی کتاب میں حضرت چو ہدری فتح محمد سیال صاحب ؓ کی تیسری اہلیہ کےنام ذکر نہیں ملتا)

اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹے بھی عطا فرمائے اور بیٹیاں بھی۔

انگلستان کے لئے روانگی

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دور خلافت میں جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے ووکنگ میں کام شروع کر دیا۔یہ مسجد 1895ء میں ڈاکٹر لائیٹز نے بنائی تھی اور ان کی وفات کے بعد ویران پڑی تھی ۔مکرم خواجہ صاحب نے بڑی تگ و دو کے بعد اسے واگزار کیا اور اس کے پہلے امام مقرر ہوئے ۔جناب خواجہ صاحب نے کچھ عرصہ بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ تبلیغ کے کاموں میں ان کی معاونت کے لئے کسی کو بھجوادیا جا ئے تو حضرت چوہدری صاحب بیرون ملک جانے والے پہلے مربی سلسلہ تھے۔ آپ 22 جون 1913ء کو انگلستان کے لئے روانہ ہوئے ۔آپ نے تقریبا ً ایک سال جناب خواجہ صاحب کے ساتھ مل کر کا م کیا ۔ چونکہ خواجہ صاحب تبلیغ کے کاموں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کو استعمال نہیں کرتے تھے اور حضرت چو ہدری صاحب پر زور دیتےتھے کہ وہ تبلیغ کر یں لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا نام نہ لیں ۔یہ بات حضرت چوہدری صاحب کو گوار انہ تھی ۔ اس لئے حضرت چوہدری صاحب نے حضرت مصلح موعود ؓ کی زیر ہدایت ان سے علیحدگی اختیار کرلی اور لندن منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے جماعت کے نئے مشن کا قیام فرمایا۔ خلافت ثانیہ کے قیام کے سا تھ آپ نے احمدیہ مشن لندن کا قیام کیا۔ اپریل 1914ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے حکم کے تحت آپ کے ذریعہ لندن میں پہلا احمدیہ مرکز تبلیغ بھی قائم ہوا۔ اس دوران تقریباً دو سال کے عر صہ میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے آپ نے مختلف سوسائٹیوں، کلبوں او ر لائبر یر یوں میں ایک سو پچاس کے قریب لیکچر دئیے۔ کئی پمفلٹ شائع کئے ۔یہ مئی 1914ء کا واقعہ ہےکہ آپ نے لندن میں ایک مکان کرا یہ پر حاصل کیا اور وہاں سے دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا۔ آپ کے ذریعہ سب سے پہلے احمدی مسٹر کو ریو نامی ایک جر نلسٹ تھے جن کااسلامی نام بشیر کو ریو رکھا گیا ۔ آپ کی واپسی تک یعنی مارچ 1916ء تک ایک در جن سے زائد انگریز آپ کے ذریعہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہوچکے تھے۔ اگست 1919ء میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ کو دوبارہ انگلستان بھجوادیا گیا ۔لندن میں مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں تحریک کا آغاز ہوا ۔ حضرت چوہدری فتح محمد سیالؓ صاحب کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ؓ نے ارشاد فرمایا کہ مسجد کی تعمیر کے لئے لندن میں منا سب قطعہ زمین حاصل کریں ۔ حضرت چوہدری صاحب نے بڑی محنت اور تگ ودوکے بعد پٹنی ساؤتھ فیلڈز کے علاقہ میں ایک قطعہ زمین مع مکان کے 2223 پاونڈز (اس وقت کے لحاظ سے قر یبا ًتین ہزار روپیہ) اگست 1920ءمیں خرید لیا۔یہ قطعہ زمین دو مکانات اور ایک ایکڑ کے قریب باغ پر مشتمل تھا ۔ اگست 1919ءسے فروری 1921ءتک حضرت مولوی عبد الرحیم نیر صاحبؓ حضرت چوہدری صاحبؓ کے معاون کے طور پر کام کرتے رہے اور پھر مغربی افریقہ تشریف لے گئے۔

(الفضل 23 ستمبر 2013ء صفحہ 3)

واقعہ

مکرم چوہدری حمید نصر اللہ صاحب سابق امیر ضلع لاہور نے بتایا کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ جب چوہدری فتح محمد سیال صاحب ؓ لندن تشریف لے کر گئے تو آپ نے ایک پملفٹ بعنوان ’’وفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام‘‘ چھپوایا اور اس کو تقسیم کردیا ۔جب جناب خواجہ کمال الدین صاحب کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ تم نے یہ پمفلٹ کیوں شائع کیا ؟یہ تو تم نے غضب کردیا ہے ۔عیسائیوں کے ملک میں آکر جہاں پر ان کی حکومت بھی ہے وہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کرنا کس قدر فتنہ کا باعث ہوگا۔ کیونکہ عیسائیت کی بنیاد ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر چلے جانے پر ہے ۔ یہ تو گویا تم نے عیسائیت کی جڑ پر ہی تبر رکھ دیا ہے جوکہ بہت برے اور سنگین نتائج کی حامل بات ہوسکتی ہے ۔ ان کی تمام گفتگو سننے کے بعد چوہدری صاحب نے ان کوجواب دیا کہ اگر میں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کو ہی ثابت نہیں کرنا۔ تو پھر میرا لندن آنے کامطلب ہی کیا ہے؟‘‘

مکرم چوہدری حمید نصر اللہ صاحب نے ایک اور واقعہ بھی بیان فرمایا وہ بھی بڑا دلچسپ اور ایمان افروز ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ کا میں خود راوی ہوں ۔ حضرت اباجان نے خود مجھ سے بیان فرمایا تھا کہ میں ہائیڈپارک لندن میں جاکر روزانہ تبلیغ کرتا تھا ۔ ہائیڈپارک لندن کا طریق کاریہ ہے کہ وہاں پر جو شخص بھی چاہے اپنی ایک میز رکھ لیتا ہے اور اس پر کھڑے ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اور لو گ خود بخود اردگرد آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور تقریر سنتے ہیں ۔یہاں پر تقریر کرنے والوں پر کوئی پابندی نہیں ہوتی جس کا دل چاہے کہے اور اپنا نکتہ بیان کرے۔

لہٰذا حضرت ابا جان تقریر کر رہے تھے کہ ایک پادری صاحب جو انڈیا میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے پر مامور رہ کر لندن واپس گئے تھے کہنے لگے کہ میں آپ کی تقریر کا جواب دینا چاہتا ہوں ۔چنانچہ میں میز سے اتر گیا اور ان کو اپنے خیالات کےاظہار کا موقع دیا۔ پادری صاحب میز پر کھڑے ہوگئے اور یوں گویا ہوئے، کہ یہ شخص جویہ بیان کر رہا ہے کہ انڈیا میں ایک شخص حضرت مرزا غلام احمد(علیہ السلام ) آئے ہیں اور ان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے، ان کو الہام ہوتےہیں اور کشف میں نظارے نظر آتے ہیں ،وہ مسیح موعود علیہ السلام اور امام مہدی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ یہ لوگ گرم ملک کے رہنے والے ہیں اور گرمی کی وجہ سے بارشیں بھی بہت ہوتی ہیں۔مچھر بھی بہت ہوتےہیں اور سرکنڈوں کی چھپر کھٹ بنا کر پانی کے اوپر رکھ کر اُس پر سوتے ہیں ۔ لہٰذا ان کو نیند بھی اچھی طرح نہیں آتی اور نہ ہی ان کی صحت اچھی ہوتی ہے ۔ خراب صحت کی وجہ سے پھر ان کو عجیب عجیب قسم کی خواب آتے ہیں جس کو یہ پھر الہام اور کشف کا نام دیتے ہیں (غالباً یہ پادری صاحب بنگال میں رہ کر گئے ہوں گے۔) جب پادری صاحب اپنا بیان دے چکے اور میز سے اتر گئے تو میں پھر میز پر چڑھ گیا تو میں نے لوگوں کو کہا کہ جیسے ان پادری صاحب نے بیان کیا کہ ہم انڈیا کے لوگ ان اِن نامسا عد حالات اور خراب ترین موسم میں رہتے ہیں اور ہماری صحتیں نہایت خراب اور نا گفتہ بہ ہیں تومیں محترم پادری صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ یہاں میز پر میرے سامنے آکر کھڑے ہوجائیں اور میں ایک مکامار کر ان کے بتیس کے بتیس دانت نہ نکال دوں تو میں جھوٹا اور یہ سچے ہیں ۔میرے اس بیان کے بعد تمام حاضرین نے ان سے کہا کہ آپ میز پر کھڑے ہوجائیں مگر نہ مانے حتٰی کہ لوگوں نے پکڑ کرمیز پر چڑھانے کی کوشش کی مگر پادری صاحب بالکل بھی نہ مانے یوں جاء الحق و زھق الباطل کا نظارہ لوگوں نے دیکھا۔ مکرم چوہدری حمید نصر اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے اباجان سے پوچھا کہ ابا جان اگر وہ پادری میز پر چڑھ جاتا تو آپ کیا کرتے ۔ابا جان نے بڑے جلال سے فرمایا ’’میاں‘‘ میں اس کے بتیس کے بتیس دانت نکال دیتا۔ سبحان اللہ کتنا اعتماد تھا احمدیت کی سچائی پر اور کتنا اعتماد تھا اپنے مولیٰ کی ذات پر۔

(واقفین زندگی کے ساتھ الٰہی تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات صفحات240،239)

حضرت چوہدری صاحبؓ 1947ءمیں پنجاب اسمبلی ہندوستان کے رکن بھی رہے۔آپ تند ہی سے وطن کی خدمت کر رہے تھے کہ 12ستمبر 1947ءکو ایک جھوٹے قتل کے الزام میں آپ کو گرفتا ر کر لیا گیا اور بعض اور دوستوں کے ساتھ آپ کو قید و بند کی مشکلات سے گزرنا پڑا ۔ جیل کے قیام کے دوران حضرت چوہدری صاحب ؓنے دعوت الیٰ اللہ کوجیل میں بھی جاری رکھا جس کے ذریعہ 54 لوگ احمدیت میں داخل ہوئے۔ ایک دوست بٹالہ کے تھے انہوں نے چوہدری صاحب سے ایک دفعہ پوچھا کہ آپ اتنے مطمئن کیسے ہیں ۔چوہدری صاحب نے بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بشار ت دی ہے کہ بخیر و عافیت جیل سے رہا ہو جاؤگے۔ اس پر اس شخص نےکہاکہ آپ دعا کریں ۔کہ اللہ مجھے بھی ایسا اطمینان بخش نظارہ دکھا ئے ۔ چوہدری صاحب نے دعا کرنے کا وعدہ کرلیا، چند دن بعد اس شخص نے رؤیا ء میں دیکھا کہ وہ پاکستان چلے گئے ہیں اور جیل کے دروازے کھل گئے ہیں رشتہ دار لینے آئے ہیں اور مٹھا یاں تقسیم ہورہی ہیں ۔ اس کے بعد وہ دوست بھی احمدی ہوگئے ۔چوہدری صاحب کی شخصیت کا غیراحمدی قیدیوں پر بہت اثر تھا ۔ آپ نے انہیں اپنی ایک اور رویا بتائی کہ ’’ آموں کےموسم میں وہ ر ہاہوجائیں گے‘‘ وہ لوگ بہت حیران تھے کہ کس طرح ایک شخص اتنے یقین سے اپنے رویا ء کی بناء پر کہہ سکتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ آموں کےموسم میں رہا ہو جا ئینگے حالانکہ حالات نہایت ہی خطرناک تھے اور یہی سمجھا جاتا تھا کہ تمام قیدیوں کو اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائیگا۔ تعجب کی بات ہے کہ جب دونوں حکومتوں نے قیدیوں کاتبادلہ منظور کیا تو اس کے لئے کئی تاریخیں مقرر کی گئیں مگر جب تک آموں کا موسم نہ آیا وہ تاریخیں تبدیل ہوتی رہیں ۔ چنانچہ جب 7 اپریل 1948ءکو اس خواب کے مطابق سارے قیدی رہا کر دئیے گئے تو ان میں سے 54 لوگو ں نے بیعت کرلی۔

چوہدری صاحب کو جن مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق ملی ہے ان کی کچھ خدمات کا ذکر درج ذیل ہے :

1906ء انجمن تشحیذ الا ذہان کے اعزازی ممبر، 1913ء تا 1916ء انچارج لندن مشن برطانیہ ،1917ء تا 1919ء افسر صیغہ اشاعت، 1919ء تا جولائی 1921ء لندن مشن برطانیہ کے امیر، 1922ء میں آپ ناظر تالیف و اشاعت تھے، 1923ء تا 1924ء امیر وفد برائے شدھی تحریک، جولائی 1924ء کو چوہدری صاحب سیکرٹری تبلیغ کے طور پر حضور کےساتھ لندن گئے، دسمبر 1924ء تا 1950ء ناظر دعوت و تبلیغ رہے، 1931ء تا 1932ء ناظر تعلیم و تربیت کے طور پر کام کیا، فروری1937ء کو چوہدری صاحب نے نظارت علیا کا چارج لیا، 1940ء میں مجلس انصار اللہ کے سیکرٹری مقرر ہوئے اور آخری دم تک رہے، اکتوبر 1950ء میں ناظر دعوۃ تبلیغ و ناظر اعلیٰ کے ممتاز عہدوں پر رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے اور پھر 1954ء سے 1960ء (تاوفات) ناظر اصلاح وارشاد کے عہدہ پر فائز رہے ۔

(واقفین زندگی کے ساتھ الہٰی تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات صفحہ 238)

وفات نماز جنازہ

28 فروری 1960ء کو خلیفہ وقت کے یہ عظیم سلطان نصیر ا پنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے ۔ آپ کا وصیت نمبر 3480ہے۔ اسی روزسہ پہرساڑھے چار بجے کے بعد دارالضیافت کے سامنے والے گھا س کے میدان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم ۔ اےنے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بعد ازاں بہشتی مقبرہ میں قطعہ رفقاء تدفین عمل میں آئی۔

آپ کی وفات پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ انہیں اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور اس کے فرشتے ان کو لینے کے لئے آگے آئیں اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں ہمیشہ ان پر اور ان کے خاندان پر نازل ہوتی رہیں۔‘‘ (آمین)

(کتاب چوہدری فتح محمد سیالؓ صاحب صفحہ 19 اور واقفین زندگی کے ساتھ الہٰی تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات صفحہ 238)

٭…٭…٭

(ندیم احمد بٹ۔ مربی سلسلہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 2 جولائی 2020ء