• 10 مئی, 2025

محترم مولا بخش احمدی کا ذکر خیر و صحابہؓ ادرحماں کی کچھ یادیں

خاکسار آج مطالعہ کے لئے کچھ پُرانی کتابیں دیکھ رہا تھا جو کہ میرے دادا مرحوم مکرم مولوی مولا بخش احمدی کی تھیں تو کچھ تحریرات جو میرے دادا کی لکھی ہوئی تھیں نظر سے گزریں تو سوچا ان کا ایک مضمون بنا کر الفضل میں شائع کرنے کےلئے دوں تاکہ ان ایمان افروز واقعات کے پڑھنے سے لوگوں کو صداقت کے پھیلانے کے لئے امنگ اور شوق پیدا ہو اورزیادتی ایمان کا موجب ہو ۔

خاکسار کے دادا کا نام چوہدری مولابخش احمدی اور بعض تحریرات میں مولوی کا لفظ بھی ساتھ لکھا ہوا آیا ہے، آپ کی پیدائش 13 اگست 1913ء کو سرگودھا کے ایک قصبہ ادرحماں میں ہوئی۔ آپ کے والد حضرت مسیح موعودؑکے زمانہ میں احمدی ہوئے تھے اور صحابی تھے آپ کے والد کا نام حضرت چوہدری میاں محمد دین صاحبؓ ابن میاں عیسیٰ ابن میاں نورمحمد تھا ۔آپؓ کا تعلق زمیندار خاندان سے تھا اور یہ خاندان نور محمدانے سے مشہور تھا ۔

‘‘ادرحماں’’ کی وجہ تسمیہ اور کتب حضرت مسیح موعود میں اس کا ذکر :۔
آپ کا وطن عزیز ادرحماں ضلع سرگودھا تھا جو کہ سرگودھا سے مشرقی جانب قریباً چالیس میل دور ہے۔ گاؤں کو آپکے جدامجد میں سے ایک عبدالرحمن نامی شخص نے آباد کیا تھا جو مرور زمانہ کیساتھ ساتھ بدلتے بدلتے ادرحماں ہوگیا۔جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں ادرحماں کے بعض رفقاء کے نام کے ساتھ موضع عبدالرحمن ضلع شاہ پور لکھا ہے مثلاً «انجام آتھم» میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت میاں عبدالعلی صاحبؓ جو حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے برادر اکبر تھے کا نام یوں تحریر فرمایا ہے میاں عبدالعلی موضع عبدالرحمن ضلع شاہ پور۔

حالات زندگی

پیارے دادا جان پیدائشی احمدی تھے۔آپ کی ابتدائی تربیت والد صاحب کی زیر نگرانی ہوئی جو کہ صحابی تھے اورآپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤٍں ادرحماں وکوٹ مومن سے حاصل کی اس کے بعد قادیان چلے گئے جہاں مدرسہ احمدیہ میں پڑھتے رہے مکرم اسمعیل ذبیح صاحب مرحوم آپ کے کلاس فیلو تھے۔ آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے آپ بفضل خدا متقی پرہیزگار اور دعا گو انسان تھےخلافت سے خاص محبت اور پیار رکھنے والے تھے خاکسار کے والد صاحب بتاتے ہیں کہ اگر کوئی ان کے سامنے کوئی ایسی بات کرتا جو خلافت یا خلیفہ وقت کی بات کے خلاف ہوتی تو فوراً اس کو وہیں کاٹ دیتے اور اس سے سخت ناراض ہوتے ۔ اس کے علاوہ آپ نے بتایا کہ ابا جی صرف خلیفہ وقت کے پیچھے نماز جمعہ پڑھنے کے لئے ہر جمعہ کو لاہور سے ربوہ آتے اور ربوہ سے واپس جب لاہور جاتے تو اداس ہوتے جیسے کہ آپ کوئی بہت قیمتی چیز سے دور ہو گئے ہوں اور اس کی اداسی آپ کو کھا رہی ہوواللہ خلافت سے اتنی محبت تھی کہ بیماری کے باوجود آپ صرف خلیفہ وقت کی محبت میں اور انکے پیچھے نماز جمعہ کے لئے اتنا سفر طے کرتے۔

خاکسار بہت چھوٹا تھا جب میرے پیارے دادا جان کی وفات ہو گئی اس لئے ان کی باتیں اور ان کو دیکھنا یاد نہیں لیکن گھر والوں کا اور ڈاکٹر پھوپھو (پھوپھو صادقہ) کو ہمیشہ یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہ پورا ابا جی پر گیا ہوا ہے ۔ پیارا خدا مجھے ان جیسا بننے کی توفیق دے اور ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے والااور ان کی دعاؤں کا وارث بنائے (آمین) خاکسار کے دادا جان کا علم بہت پختہ تھا اگر کسی کتاب کو پڑھ لیتے تو وہ ان کو زبانی یاد ہو جایا کرتی تھی ۔ اور ان کو مطالعہ کا بھی بہت شوق تھا اس کا تو میں بھی گواہ ہوں کیوں کہ ان کی اپنی ایک الگ لائبریری تھی جو کہ اب بھی محفوظ ہے اور کم و بیش اس میں ایک ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں اور الفضل کی کثرت سے جلدیں بنا کر سنبھالی ہوئی تھیں جو والد صاحب نے خلافت لائبریری کو ہدیہ کر دیں ۔ اسی طرح آپ کو واقفین زندگی سے بھی بہت محبت تھی اسی لیے آپ نے اپنی تین بیٹیوں کی شادی مربیان سلسلہ کے ساتھ کی اور انکی بہت عزت کرتے۔ اورجب آپ نے نوکری چھوڑ دی تو آپ نے اپنے آپ کو بھی وقف عارضی کے طور پر بلا معادضہ پیش کیا ۔ آپ کو پرائیوٹ سیکرٹری کے آفس میں کام ملا بہت شوق سے کام کرتے۔ ایک بار حضور انور نے بھی آپ کی لکھائی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کی جائے کہ زیادہ خط اس لکھائی میں ہوں۔ تو آپ اس کے بعد زیادہ وقت دفتر رہتے اور کوشش کرتے کہ زیادہ سے زیادہ خط لکھوں۔ آپ کافی لمبا عرصہ پشاور بھی رہے جہاں آپ kaz radio company میں ملازمت کرتے رہے اس کے علاوہ مختلف جماعتی عہدوں پر بھی کام کیا جن میں جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری تبلیغ پشاور پر خدمات بجا لاتے رہے۔

نماز تہجد میں خشوع و خضوع

خاکسار کی پھوپھو اور آپ کی بیٹی محترمہ صالحہ محمود مرحومہ نے ایک دفعہ خاکسار کو ایک واقعہ سنایا کہ ابا جی کا یہ حال تھا کہ رات کو اٹھ کر رو رو کر دعائیں مانگتے۔ اور ایک بار پشاور میں جہاں محلہ کے تمام لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے انہوں نے ان کو گھیر لیا اور کہنے لگے ہم تو آپ کو بہت نیک اور باعزت سمجھتے تھے مگر آپ تو رات کو روز اپنی بیوی کو مارتے ہیں جس کے رونے کی آواز ہم روز سنتے ہیں۔ اور یہ ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ یہ سن کر والد محترم کو معلوم ہوا کہ وہ جو رات کو خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور روتے ہیں وہ تو پورا محلہ سنتا ہے اس سے ان کو شرمندگی بھی اور خوشی بھی ہوئی۔ اور انہوں نے محلہ والوں کو بتایا کہ میں تو تہجد کی نماز پڑھتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتا ہوں۔

مکرم قاضی محمد یوسف صاحب مرحوم سابق امیر جماعت احمدیہ سرحد اپنی کتاب تاریخ احمدیہ سر حد میں بھی آپ کے حالات لکھتے ہوتے فرماتے ہیں کہ دینی تعلیم کے شوق میں ہر محنت برداشت کی۔ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ بیعت گول کمرہ متصل مسجد مبارک قادیان میں کی۔آپ لکھتے ہیں کہ مجھے محترم مولوی مولا بخش صاحب سے اور ان کو خاکسار سے محبت اور اخلاص ہےمہمان نوازی اور چندہ وغیرہ کی ادائیگی میں سراپا اخلاص ہیں۔

محترم مولا بخش صاحب کی پہلی شادی مرزا غلام محمد صاحب چغتائی کے ہاں ہوئی جو محلہ دارالرحمت قادیان میں رہا کرتے تھے۔ مرزا صاحب موصوف نیک اور خاموش طبع انسان تھے۔ ان کی لڑکی نصیرہ بیگم صاحبہ سے نکاح ہوا اور ان کے بطن سے صادقہ بیگم صاحبہ اور بشریٰ بیگم صاحبہ تولد ہوئیں۔ نصیرہ بیگم اس وقت فوت ہوئی جب کہ مولوی صاحب فوج میں ملازم تھے اور گھر میں موجود نہ تھے۔ آپ کی اہلیہ موصیہ تھیں وہ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئی۔

دوسری شادی ڈاکٹر عبدالسمیع کپورتھلوی صاحب احمدی جو کہ صحابی ہیں اور کپور تھلہ کے رہنے والے ہیں ان کی لڑکی امۃ القدیر صاحبہ سے ہوئی۔ اس سے دو لڑکیاں (صالحہ محمود صاحبہ اور نصرت جہاں صاحبہ) اور ایک لڑکا (چوہدری خدابخش ناصر) پیدا ہوا ۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو اور انکی اگلی نسل کو مخلص احمدی اور صالح مومن بنائے۔ (آمین)

پیارے دادا جان کی وفات 25 فروری 1991 کو ہوئی پیارا رحیم و کریم خدا آپ کے درجات بلند کرتا چلا جائے اور جنت الفردوس کے اعلیٰ مقامات آپ کو عطاء ہوں اور ہم آپ کی نیکیوں کو آگے چلانے والے اورہمیں آپ کی دعاؤں کا وارث بنائے جو آپ ہمارے لئے ساری زندگی کرتے رہے آمین۔ اللھم اغفرہ وارحمہ۔

اب خاکسار اپنے دادا جان محترم مولا بخش احمدی مرحوم کی بعض روایات جو آپ نے اپنے والد صاحب اور دیگر اصحاب احمدیت ادرحماں کے حوالے سے تحریر کیں پیش خدمت ہیں۔

حضرت چوہدری محمد دین صاحبؓ

حضرت چوہدری محمد دین صاحبؓ نے دو شادیاں کی آپ کی پہلی شادی ایک نیک خاتون بیگماں سے ہوئی جس کے بطن سے ایک لڑکا شیر محمد اور ایک لڑکی مہر بی بی پیدا ہوئی۔ بیگماں بی بی کی وفات کے بعد آپ نے دوسری شادی میاں عطر دین کی لڑکی سے کی جس کا نام بہشت بی بی تھا جس سے چار لڑکے ( نواز احمد ، سردار محمد اوّل ، سردار محمد دوم ، مولا بخش) پیدا ہوئے اور ایک لڑکی طالعاں بی بی پیدا ہوئیں۔

خاکسار کے دادا مولوی مولابخش احمدی اپنے والد صاحب کی بیعت کا واقعہ کچھ یوں تحریرکرتے ہیں کہ:
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلاۃ والسلام نے جب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو اس گاؤں سے ابتداء میں ہی چند اشخاص نے آپ پر ایمان لانے میں سبقت اختیار کی ان میں ایک میرے والد صاحب بھی تھے اور آپ نے اپنے احمدیت میں داخل ہونے کا اقعہ مجھ سے یوں بیان کیا حضرت مولوی شیر علی ؓ صاحب کے والد مولوی نظام دین صاحب، ادرحماں میں درس وتدریس کا کام کرتے تھے اور انکے بھائی مولوی شیر محمد صاحبؓ ہجن ضلع سرگودھا میں رہتے تھے۔ ان کو کسی ذریعہ سے دعویٰ حضرت مسیح موعود ؑ کی خبر ملی تو انہوں نے احمدیت قبول کر لی اور اپنے بھائی کو پیغام پہنچانے کے لئے ادرحماں آئے ہر دو بھائی بہت بڑے عالم تھے۔ سارا سارا دن مسجد میں بحث و مباحثہ رہتا ۔یہاں تک کہ اس حالت میں کھانا بھی بھول جاتے اور والد صاحب بتاتے تھے کہ میں اور دیگر شاگردان مسجد میں مولوی صاحب کے زیر تعلیم تھے۔ اور مجھے مولوی صاحب نے کئی دفعہ اپنے گھر سے کتب جس کے حوالہ کی ضرورت ہوتی لینے بھیجوا دیتے۔ کہتے یہ مباحثہ کافی دن تک رہا۔ والد صاحب فرماتے تھے کہ میں نے قادیان جاکر مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنے کا پختہ ارادہ کر لیا آپ پیدل اکیلے گاؤں سے چل پڑے کیونکہ علاقہ میں دور دور تک آپ کی واقفیت تھی جہاں رات ٹھہرتے اپنے ارادہ کا ذکر کرتے واقف کار آپ کو کہتے کہ کیوں کافر ہونے چلے ہیں ان کی باتیں سنکر آپ پھر واپس لوٹ پڑتے۔ اور پھر راستہ میں ہی خیال آتا کہ دیکھنا تو چاہیئے مجھے خواہ مخواہ کوئی جبراً تو کافر نہیں بنا سکتا ۔ اس نیک ارادہ کی وجہ سے پھر سوئے قادیاں روانہ ہو جاتے ۔اللہ اللہ نیکی کا کیسا جذبہ تھا آپ اسی تگ و دو میں کئی روز کے بعد کچھ پیدل سفر طے کر تے ہوئے اور کچھ ریل پر سفر کرکے قادیان پہنچے وہاں جاکر حضور کا مبارک اور نورانی چہرہ دیکھ کر احمدیت قبول کر کے واپس لوٹے فالحمد للہ علی ذالک۔

تربیت اولاد کا خیال

مکرم قاضی محمد یوسف پشاوری صاحب مرحوم سابق امیر جماعت احمدیہ سرحد اپنی کتاب تاریخ احمدیہ سرحد میں لکھتے ہیں:
’’آپ ؓ چاہتے تھے کہ میرا بچہ ابتداء سے ہی دینی ماحول میں پرورش پائے۔ وہ ہمیشہ سالانہ جلسہ پر قادیان جایا کرتے تھے اور مولوی مولا بخش صاحب کو بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ بٹالہ سے قادیان 12 میل پا پیادہ جایا کرتے تھے اور مولا بخش کو کندھے پر سوا ر کرلیتے تھے۔

کسی دوست نے ایک دفعہ فرمایا کہ آپ اس خورد سال بچے کو گھر کیوں چھوڑ نہیں آتے۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر اب سے میں اپنے بچہ کو قادیان سے وابستہ نہ کرلوں تو میرے بعد کون اس کو وابستہ کرے گا۔ اللھم اغفرہ وارحمہ۔ مولوی مولا بخش ابھی بچہ ہی تھے کہ والد صاحب کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے۔‘‘

(تاریخ احمدیت سرحد صفحہ 293)

دادا جان مولوی مولا بخش احمدی آگے لکھتے ہیں کہ مناسب ہو گا کہ احمدیت کے ذکر کے ساتھ ابتدائی ایمان لانے والے فدایان احمدیت کا ذکر بھی کر دیا جائے۔ ہمارے گاؤں ادرحماں میں 1) حضرت میاں محمد حسن صاحبؓ 2) حضرت مولوی نظام دین صاحبؓ3) حضرت میاں خدابخش صاحبؓ 4) میاں احمد دین صاحب ابتدائی صحابہ میں شامل تھے۔

1) حضرت میاں محمد حسن صاحبؓ اور آپ کا شوق تبلیغ :آپؓ گاؤں میں کپڑا بننے کا کام کرتے تھے آپ کے اندر احمدیت کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی تبلیغ کا از حد شوق تھا گالیاں اور ماریں کھاتے مگر پیغام حق پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑتے غالباً اَ ن پڑھ تھے۔ مگر کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب خرید کر رکھی ہوئی تھیں ان کے متعلق مشہور ہے کہ سڑک پر ٹھنڈا پانی اور حقہ لیکر بیٹھ جاتے اگر کوئی مسافر وہاں سےگزرتا تو حقہ دیکھ کر حقہ پینے کے لئے بیٹھ جاتا تو آپؓ اس سے باتوں باتوں میں پوچھتے آپ کا کیا نام ہے اور کس گاؤں جانا ہے پھر کہتے کہ میرا ایک ‘‘سنیہہ’’ یعنی پیغام وہاں پہنچا دینا مسافر کی خاطر و مدارات پانی اور حقہ سے کی ہوتی تھی وہ خوش ہو کر کہتا کہ ضرور پیغام پہنچا دونگا آپ کہتے کہ نمبردار کو کہہ دینا کہ حسن محمد ؓ سکنہ ادرحماں نے کہا ہے کہ گاؤں میں بذریعہ ڈھنڈورا اعلان کردے یعنی منادی کرا دے کہ قادیان ضلع گورداسپور میں امام مہدی پیدا ہوگئے ہیں ان پر ایمان لے آؤ اگر ایسا نہ کیا تو گناہ آپ کے سر ہو گا ۔

ایک دفعہ اس طریق پر ایک شخص سے کہا وہ پہلے آپ سے اس قسم کی باتیں سن چکا تھا اس نے کہا حسن محمد خاموش رہو جو مرزائی ہوتا ہے اس کا ظاہری رنگ بھی سیاہ ہو جاتا ہے (میاں محمد حسن صاحبؓ کا رنگ بھی کالا تھا) آپ ؓ یہ بات سن کر فوراً قرآن کریم لائے اور اس شخص سے کہا کہ ان سفید جگہ کا درجہ بڑا ہے یا حروف دے سیاہ رنگ دا درجہ بڑا ہے معترض کھسیانا سا ہو گیا اور خاموش ہو گیا ۔

آپ لکھتے ہیں :
واقعات تو بہت سے ہیں ان کا ایک اور واقعہ بیان کئے دیتا ہوں تا کہ پڑھنے والوں کیلئے ان کے تبلیغی شوق کا علم ہو سکے اور صداقت کے پھیلانے کے لئے امنگ اور شوق پیدا ہو ۔آپ موضع ہلال پور میں بیاہے ہوئے تھے ایک روز اپنے سسرال کے ہاں گئے تو راستہ میں روساء ہلال پور بیٹھے حقہ وغیرہ پی رہے تھے یہ وہاں سے گزرے ان کو السلام علیکم نہ کہا ۔ انہوں نے کہا تم نے ہمیں السلام علیکم کیوں نہیں کیا آپ نے جواباً کہا کہ تم مہدی موعودؑ پر ایمان نہیں لائے لہذامیں آپ کے لئے دعا نہیں کر سکتا ۔ یہ سن کر وہ اشتعال انگیز ہو گئے اور آپ کو خوب مارا پیٹا پھر جب ان ظالموں سے چھٹکارا ملا تو آگے چل پڑےگلی میں حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب فاضل جو ان دنوں ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے بے خبر تھے ملے۔ فوراً پوچھا مولوی صاحب آپ کہا ں جا رہے ہیں؟ مولوی صاحب نے کہا تخت ہزارہ جا رہا ہوں۔ جو کہ وہاں سے تقریباَ دو اڑھائی میل جنوب کی طرف ایک قصبہ ہے فرمانے لگے میں نے بھی وہاں جانا ہے ایک ساتھ چلتے ہیں ان کے ساتھ ہو لئے راستہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب فتح اسلام پیش کی اور کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں مجھےیہ کتاب سنا دیں تا کہ معلوم ہو کہ اس میں کیا لکھا ہے مولوی صاحب کتاب پڑھتے گئے یہ چھوٹی سی کتاب تھی جب مولوی صاحب نے ختم کی تو فرمایا کہ اسلام کا ایسا درد رکھنے والا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا ۔ میں اس پر ایمان لاتا ہوں۔گویا آپ ایک اتنے بڑے عالم کو احمدیت کا پیغام پہنچانے والے ہوئے۔

آپ کی وفات اپنے گاؤں میں ہوئی ۔ اور گاؤں کے قبرستان میں ہی تدفین ہوئی۔ غالباً ان کی قبر کو گاؤں میں کوئی شخص نہیں جانتا ہو گا مگر ان کا کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں چاردیواری کے اندر ہے جہاں ہر روز کئی اشخاص دعا کیلئے حاضر ہوتے ہیں جلسہ سالانہ و دیگر اجتماعات میں تو یہ تعداد ہزاروں سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔

مجھ عاجزکی بھی دعا ہے کہ اے اللہ ان واقفین دین پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے (آمین)

2) حضرت مولوی نظام الدین صاحبؓ: خاکسار کہ دادا مکرم مولا بخش احمدی لکھتے ہیں کہ :
خاکسار نے اپنے بچپن کے زمانہ میں انہیں دیکھا ہوا ہے نہایت خوبصورت نورانی چہرہ قد آور جسم اور عالم باعمل تھے مسجد میں اکثر اوقات گزارتے آپ سلسلہ کے مشہور بزرگ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بی اے کے والد بزرگوار تھے آپ کی عمر اس وقت میرے اندازے کے مطابق سو سال سے تجاوز تھی مگر صحت بہت اچھی تھی زبان میں کچھ لکنت سی آگئی تھی ۔ان کی گفتگو سوائے ان کے پُرانے رفیقوں کے اور مشکل سے سمجھ سکتا تھا ۔مسجد میں بیٹھ کر ذکرو اذکار بہت کرتے اور دوسرے دوستوں کو بھی تلقین کرتے رہتے۔ آپ کی گفتگو میں ایک رعب اور دبدبہ تھا ۔ ان کے پورے حالات سے تو مجھ کو واقفیت نہیں کیونکہ میرا بچپن تھا ،لیکن ایک واقعہ یاد ہے کہ جب میں پرائمری سکو ل کی غالباً تیسری جماعت میں تھا تو ایک مولوی برکت علی مولوی فاضل پروفیسر اسلامیہ کالج بغرض مناظرہ ہمارے گاؤں آئے۔ ان سے مولوی نظام دین صاحب ؓ نے مناظرہ کیا ۔ان کے الفاظ کی ترجمانی میرے والد صاحب اور میاں خدا بخش صاحب کرتے تھے آخر کار مولوی صاحب مذکور رفع حاجت کے لئے جلسہ گاہ سے باہر گئے پھر دوبارہ نہ آئے گو یا کہ اپنی شکست پر مہر اپنے ہاتھوں ثبت کر گئے۔

خداتعالیٰ حضرت مولوی نظام دین صاحؓب کے درجات بلند کرتا چلا جائے اور ہم کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے آمین۔

3) حضرت میاں خدابخش صاحبؓ: آپ کے والد کا نام اللہ دتہ تھا گو آپ کی تعلیم معمولی تھی مگر دینی علم پر اسقدر عبور تھا کہ بڑے سے بڑا عالم بھی آپ کے آگے مذہبی گفتگو نہیں کر سکتا تھا۔سلسلہ کی کتب سے پوری واقفیت تھی آپ کا معمول تھا کہ مسجد میں ہر نماز سے قبل تشریف لاتے اور دوستوں کو مسائل عام فہم طریق پر سمجھاتے۔ ان کے زمانہ میں مسجد عبادت کے علاوہ دیہاتی مبلغین تیار کرنے کا مرکز تھی ۔ اور اگر کوئی مسجد میں نماز پڑھنے پر سستی کرتا تو اس کے گھر جا کر مسجد آنے کی تلقین احسن طریق سے کرتے ۔

غریب پروری :۔ کسی احمدی کو کوئی تکلیف ہوتی تو آپ اس کی مدد کے لئے بیقرار ہو جاتےاور اس وقت تک آپ کو تسلی نہ ہوتی جب تک اس کی تکلیف کو دور نہ کر لیتےاس حوالے سے واقعات تو بہت سے ہیں صرف ایک غریب احمدی کی مدد کا واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ادرحماں سے شمالاً پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک احمدی پاکستان بننے کے بعد آباد ہوا اسکی گندم پوری طرح پک چکی تھی لیکن وہ اکیلا اس کو کاٹ نہیں سکتا تھا غربت کیوجہ سے نیز احمدیت کی وجہ سے کوئی اس کی مدد کرتا نہیں تھا جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ بیقرار ہو گئے اور مسجد میں اعلان کر ڈالا کہ کون ہے جو خداتعالی کی مخلوق کی مدد کے لیے اپنے آپ کو پیش کرے ۔ بہت سے لوگوں نے نام لکھوادیئے جس میں خاکسار بھی تھا القصہ آپ نے اسکی گندم کٹوا کر اکٹھی کروادی اور اس طرح تعاونو علی البر کی مثال قائم کردی۔

آپ کی گفتگو بہت میٹھی اور شیریں ہوتی، سننے والا اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا آپ کی اولاد میں تین لڑکے اور ایک لڑکی تھی ۔ لڑکی بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی۔ ایک بیٹے اللہ بخش کو ہجرت کے بعد قادیان میں حفاظت مرکز کے لئے وقف کردیا وہ وہاں سے یوپی کے ایک قصبہ میں بطور مبلغ مقرر کیا گیا وہاں ایک جھیل تھی جس میں ایک بچہ ڈوب رہا تھا اس کو بچاتے ہوئے خود پانی میں ڈوب کر شہید ہوگے۔ انا للہ وانا الیہ رجعون۔ آپ نے اس صدمہ کو بڑے صبر سے برداشت کیا اور ہمیشہ اپنے اس بچہ پر فخر محسوس کرتے تھے جس نے دین کے راستہ میں اپنی جان دیدی۔ اب آپ کے دو لڑکے محمد عبداللہ اور احمد بخش حسین حیات ہیں اور سلسلہ کے مخلص رکن ہیں خداتعالیٰ انکی اولاد کو بھی سلسلہ کا خادم بنائے امین۔

ایک اور واقعہ بھی بیان کر دیتا ہوں جس میں بچوں کی تربیت کا خیال عملی طور پر ظاہر ہوتا ہے خاکسار چھوٹا تھا ایک دفعہ جمعہ کے روز مجھ سے فرمایا کہ جمعہ کا خطبہ تم دو میں نے بہت منت سماجت کی کہ میں اس قابل نہیں اور میں کس طرح بیان کر سکتا ہوں فرمانے لگے ہماری موجودگی میں کام کیا کرو تا کہ تمہاری ٹریننگ ہو سکے۔ اللہ اللہ کس قدر شوق تھا کہ ہمارے بچے صحیح رنگ میں دینی ماحول حاصل کریں اور دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب ہوں اے میرے رحیم و کریم خدا ان بزرگوں کی قبروں پر رحمت برسا اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے آمین۔

ادرحماں کے بعض صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام
1) حضرت مولوی نظام الدین صاحبؓ
2) حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ
3) حضرت حافظ مولوی عبدالعلیٰ صاحبؓ
4) حضرت بیگم بی بی صاحبؓہ زوجہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ
5) حضرت بیگم صاحبہؓ زوجہ حضرت حافظ مولوی عبدالعلیٰ صاحبؓ بنت دائم رانجھا۔ لورانوالی
6) حضرت حافظہ گوہر بی بی صاحبہؓ زوجہ حضرت مولوی نظام دین صاحبؓ
7) حضرت میاں محمد دین صاحبؓ ولد مکرم میاں عیسیٰ صاحب
8) حضرت میاں احمد دین صاحبؓ ولد مکرم عطردین صاحب
9) حضرت میاں احمد دین صاحبؓ پڈھیارولد محمد
10) حضرت عصمت بی بی صاحبہؓ زوجہ چوہدری محمد بخش پڈھیار
11) حضرت میاں حسن محمد صاحبؓ ولد مکرم احمد یار صاحب
12) حضرت شادی خان صاحب ؓ
13) حضرت محکم دین صاحبؓ
14) حضرت حافظ دل احمد بی ۔ اے ادراما (الحکم نمبر 46 جلد 3 ، 24 دسمبر 1899ء)
15) حضرت نذر محمد صاحب ؓ محرر ادرحمہ شاہ پور (بعد میں ڈیرہ غازی خان چلے گئے ) (الحکم نمبر 18جلد 5، 17مئی 1901ء)
16) حضرت میاں محمد دین صاحب ؓ ادرحمہ شاہ پور (الحکم نمبر 31جلد 6، 31اگست 1902ء)
17) حضرت میاں خدا بخش صاحب ولد اللہ دتہ صاحب ساکن ادرحمہ ڈاک خانہ بھابڑہ ضلع شاہ پور (البدر نمبر26جلد 2، 9اگست 1906ء)
18) حضرت پسران ولی صاحب ؓ ادرحمہ شاہ پور (البدر نمبر20جلد 6، 16مئی 1907ء)
19) حضرت روشن صاحب ؓ ادرحمہ شاہ پور (البدر نمبر20جلد 6، 16مئی 1907ء)
20) حضرت محمد صاحبؓ ؓ ادرحمہ شاہ پور (البدر نمبر20جلد 6، 16مئی 1907ء)
21) حضرت علی محمد صاحب ؓ ادرحمہ شاہ پور (البدر نمبر20جلد 6، 16مئی 1907ء)
22) حضرت اللہ دتہ صاحبؓ ادرحمہ بھیرہ (البدر نمبر21جلد 6، 23 مئی 1907ء)
23) حضرت میاں علی محمد صاحب ؓ ادرحمہ شاہ پور (البدر 26 ستمبر 1907ء)
24) حضرت میاں بدرالدین صاحب ؓ ادرحمہ شاہ پور (البدر 26 ستمبر 1907ء)
25) حضرت میاں غلام محمد صاحب ؓ ادرحمہ شاہ پور (البدر 26 ستمبر 1907ء)

٭…٭…٭

(عدیل ناصر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 4 جولائی 2020ء