• 28 اپریل, 2024

اصحاب احمد علیہ السلام کی جانثاری اور محبت کے لازوال نمونے

حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید نے ہندوستان اور افغانستان کی سرحدات کی تعیین کے کام سے واپس افغانستان جا کر اپنے ایک خاص اور لائق شاگرد حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب کو قادیان بھیجا اور پھر متعدد مرتبہ بھجواتے رہے۔ دسمبر 1900ء میں آخری مرتبہ جب حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب قادیان سے واپس کابل گئے تو علماء کے شکایت لگانے پر آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر علماء کے فتوی کے مطابق آپ کو قید میں ڈال دیا گیا اور اس قید کے دوران ہی آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر آپ کے سانس کو بند کر کے آپ کو شہید کر دیا گیا۔ یہ 1901ء کا واقعہ ہے۔یہ افغانستان میں کسی احمدی کی محض اللہ کے نام پر پہلی قربانی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہزاروں ہزار رحمتیں اس وجود پر فرمائے جس نے قید و بند کی صعوبتوں کو تو برداشت کر لیا مگر اپنے ایمان کو سلامت رکھا۔ آپ نے موت کو تو گلے لگا لیا مگر دین سے انحراف نہ کیا۔ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس دنیا کی زندگی تو عارضی ہے دائمی زندگی اس کے بعد کی ہے۔ اس لئے آپ نے اس عارضی حیات کو الوداع کہہ کر ہمیشہ کی زندگی کو اختیار کر لیا۔

حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوریؓ

آپ کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ ذکر ملتا ہے کہ
’’آپ نے قصبہ مرالی میں پہنچ کر اپنی بیعت کا اعلان کر دیا۔ اس پر قصبہ میں شور برپا ہوا اور شدید مخالفت کا آغاز ہو گیا۔ اہلحدیث مولویوں کی طرف سے مقاطعہ کرادیا گیا۔ لوگ آپ کو کھلے بندوں گالی گلوچ دیتے۔ ایسے کٹھن مرحلہ پر مولانا صاحب آستانہ الٰہی پر جھکنے اور تہجد میں گریہ وزاری میں مصروف ہونے لگے اور خداتعالیٰ نے آپ پر رؤیا و کشوف کا دروازہ کھول دیا۔ اور یہ امر آپ کے لئے بالکل نیا تھا۔ اس طرح آپ کے لئے تسلی کے سامان ہونے لگے…………سو اب آپ کے ایمان و عرفان میں ترقی ہونے لگی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق و وفا بھی بڑھنے لگا اور آپ دیوانہ وارتبلیغ میں لگ گئے۔ جس پر آپ کے ماموں نے جو خسر بھی تھے۔ آپ کو گھر سے نکل جانے پر مجبور کیا اور پولیس سے اس بارہ میں استمداد کی بھی دھمکی دی۔ اس لئے آپ موضع بقا پور چلے آئے۔ یہاں اپنی زمینداری کے باعث مقاطعہ تو نہ ہوا لیکن مخالفت پورے زور سے رہی عوام کے علاوہ آپ کے والدین اور چھوٹا بھائی بھی زمرہئ مخالفین میں شامل تھے۔ البتہ بڑے بھائی مخالف نہ ہوئے۔ ایک روز آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے کہا کہ آپ میرے بیٹے کو کیوں برا کہتے ہیں؟ وہ پہلے سے زیادہ نماز ی ہے۔ والد صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب کو جن کا دعویٰ مہدی ہونے کا ہے مان لیا ہے۔ والدہ صاحبہ نے کہا کہ امام مہدی کے معنی ہدایت یافتہ لوگوں کے امام کے ہیں۔ ان کے ماننے سے میرے بیٹے کو زیادہ ہدایت نصیب ہوگئی ہے جس کا ثبوت اس کے عمل سے ظاہر ہے اور مولوی صاحب کو اپنی بیعت کا خط لکھنے کو کہا۔ آپ تبلیغ میں مصروف رہے اور ایک سال کے اندر والد صاحب، چھوٹا بھائی اور دونوں بھاوجوں نے بھی بیعت کر لی اور بڑے بھائی صاحب نے خلافت احمدیہ اولیٰ میں بیعت کر لی۔

1905ء تا 1908ء تین سال بقا پور میں ہر طرح کے مالی اور بدنی ابتلاؤں کے گزرے۔ کئی کئی دن فاقہ کشی تک نوبت پہنچی‘‘۔

(اصحابِ احمد جلد10 ص 215)

حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ

آپ کا تاریخی نام ’’انظار حسین‘‘ تھا۔ آپ ۳۱۳ صحابہ میں سے تھے۔ آپ کا نام حضورؑ نے مہدی کے بارہ میں 313 صحابہ والی پیشگوئی کے پورا ہونے کے سلسلہ میں آئینہ کمالات اسلام اور انجام آتھم میں درج فرمایا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے بارے میں تحریر فرمایا:۔

’’حبی فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب: یہ جوان صالح کم گو اور خلوص سے بھرا دقیق فہم آدمی ہے۔ استقامت کے آثار و انوار اس میں ظاہر ہیں وفاداری کی علامات و امارات اس میں پیدا ہیں۔ ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے۔ اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدار حصول فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیرتیں ان میں پائی جاتی ہیں۔ جزاہم اللہ خیر الجزاء‘‘

(ازالہ اوہام صفحہ433, 432 روحانی خزائن: جلد نمبر3: صفحہ532,533)

حضرت نواب محمد علی خان صاحب ؓ

حضرت نواب محمد علی خان صاحب ایثار و قربانی کے پیکر، شریعت کے پابند، عاشق خدا، عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عاشق مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ دعا گو، صاحب کشف و الہام بزرگ تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا لقب ’’حجۃ اللہ‘‘ بتایا گیا۔

حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ساتھ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی صاحبزادی محترمہ زینب بیگم صاحبہ کے نکاح کی تجویز قرار پائی تو یہ موقع نواب صاحب کیلئے بڑے کڑے امتحان کا تھا۔ آپ کے تمام عزیز رشتہ دار اس رشتہ کے مخالف تھے۔ انہوں نے قادیان آ کر نواب صاحب کو اس کام سے روکا کیونکہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ اوّل تو ظاہری دنیوی مال و دولت کے اعتبار سے یہ امر مشکل ہے اور دوسرے یہ کہ اس طرح سے مالیر کوٹلہ کی جائیداد سے کچھ حصہ دینا پڑیگا۔ مگر نواب صاحب نے اس موقع پر نہایت اعلیٰ ایمان کا مظاہرہ کیا۔ آپ نے انہیں کہا کہ جب میں ایک شخص کو مسیح موعود مان چکا ہوں تو میں ان کو رشتہ دینے سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔ گویا اس وقت آپ بزبان حال اس شعر کے مصداق ہوگئے۔

جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا
آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا

آپ نے فرمایا:
’’جو میں نے دیکھا ہے وہ آپ کو نظر نہیں آ سکتا۔ اتنا آپ سن لیں کہ اگر شریف احمد ٹھیکرا لے کر گلیوں میں بھیک مانگ رہا ہوتا تب بھی شریف احمد کو ہی بیٹی دیتا‘‘۔

(اصحاب احمد: جلد دوم: صفحہ256)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 7 جولائی 2020ء