• 29 اپریل, 2024

تعارف سورۂ بنی اسرائیل (سترہویں سورہ)

(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 112 آیات ہیں)
اردو ترجمہ ازترجمہ قرآن انگریزی (حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ) ایڈیشن 2003ء
(مترجم: وقار احمد بھٹی)

وقت نزول اور سیاق و سباق

اس سورۃ کا نام بنی اسرائیل ہے کیونکہ یہ بنی اسرائیلیوں کے چند اہم تاریخی واقعات کو بیان کرتی ہے اور ان کے بعض حالات جن سے ان کو گزرنا پڑا۔ اس سورۃ کا ایک نام اسراء بھی ہے کیونکہ اس کا آغاز آپ ﷺ کی ایک رؤیا سے ہوتاہے جس میں آپ ﷺ نے یروشلم کی طرف ایک روحانی سفر اختیار فرمایاجو اس سورۃ کا غیر معمولی مرکزی خیال ہے۔ ابن مسعود (جو آپ ﷺ کے ابتدائی صحابہ میں سے ہیں) کے نزدیک اس سورۃ کا نزول نبوت کے چوتھے سے گیارہویں سال کے دوران ہوا۔ عیسائی مصنفین اس عرصہ کو چھٹے سے بارہویں سال کے درمیان بتاتے ہیں۔ سابقہ سورۃ میں مسلمانوں کو بتایا گیاتھا کہ عنقریب وہ اہل کتاب کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کریں گے جو اتنی ہی شدید ہو گی جتنی وہ مشرکین مکہ کے ہاتھوں برداشت کر چکے ہیں ۔ تاہم انہیں یہ مخالفت صبر و تحمل سے برداشت کرنی ہوگی۔ یہاں تک کہ خدا انہیں ان کے دشمنوں کے خلاف فتح نصیب کرے۔ اس سورۃ میں انہیں بتایا گیاہے کہ اس مخالفت کا آغاز مدینہ میں ہوگا اور اختتام اہلِ کتاب کی مکمل شکست پر ہوگا۔ یہاں تک کہ ان کے مقاماتِ مقدسہ مسلمانوں کے ہاتھ آجائیں گے۔

مضامین کا خلاصہ

یہ سورۃ جیساکہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے یہودیوں کی تاریخ سے متعلق ہے خاص طور پر ان دو مواقع کا ذکر کیا گیا ہے جب انہوں نے اللہ کے دو بڑے نبیوں حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی نافرمانی کی اور انکار کیا۔ اس انکار کی وجہ سے ان کی قومی زندگی تباہ ہو کر رہ گئی۔ پہلی مرتبہ بابل میں نبو کد نضر کے ہاتھوں اور دوسری مرتبہ طِطُس بادشاہِ روم کے ہاتھوں۔

یہودیوں کی اس دوہری تباہی کے بیان سے مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ان کے بدیوں میں مبتلا ہونے اور حد سے تجاوز کا نتیجہ بھی ان کی قومی زندگی پر دوہرے گرہن کی صورت میں نکلے گا۔ یہ تنبیہ ایک امید اور خوش خبری کے ساتھ کی گئی تھی۔ ان کو بتایا گیاہے کہ آ پﷺ کیونکہ آخری شرعی نبی ہیں آپ ﷺ کا سلسلہ، موسوی سلسلہ کی طرح پوری طرح نابود نہ ہوگا بلکہ ابتدائی خرابیوں کے جڑ پکڑنے کےساتھ ہی زیادہ چمک اور درخشاں طور پر کامیاب و کامران ہوتا رہے گا۔ مزید براں بعض دیگر مضامین جن کی طرف سابقہ سورۃ میں اشارہ کیا گیا تھا ان کے بارے میں اس سورۃ میں تفصیل بیان کی گئی ہے۔

اس سورۃ کا آغاز اسراء (آپ ﷺ کا ایک رات کا روحانی سفر) سے کیا گیا ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ آپ ﷺ کیونکہ مثیل موسیٰ ہیں لہذا آپ ﷺ کے صحابہ حضرت موسیٰ کی موعود سرزمین کو فتح کریں گے اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح آپ ﷺ کو بھی اپنے آبائی وطن سے ہجرت کرنی پڑے گی۔ مگر آپ ﷺکو ہجرت کے باعث نہایت غیر معمولی ترقی اور آپ ﷺ کے مقاصد کو ترقیات نصیب ہوں گی۔ پھر یہ بتایا گیاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو بڑی طاقت اور رتبہ، انکے نبی کے باعث ملا ،گو اچانک وہ الٰہی تنبیہ کو نظر انداز کرنے اور انکار کے باعث غم میں مبتلا ہو گئے۔ مگر قرآن کریم جو مکمل ضابطہ اخلاق ہے وہ حضرت موسیٰ کی کتاب کے مقابل پر اپنے پیروکاروں میں مکمل (حیرت انگیز) تبدیلی پیدا کرسکتا ہے۔

یہودیوں کی ترقی اور زوال کے بیان کا مقصد مسلمانوں کویہ تنبیہ کرنا ہے کہ خدا ان پر اپنے فضل نازل کرے گا اور یہودیوں کی طرح وہ بھی ترقیات کی اعلیٰ منازل طے کریں گے اور خوب مادی ترقی کریں گے۔ مگر دولت، طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کرلینے کے بعد وہ خدا کو ہرگز نہ بھولیں ۔ پھر چند مزید ضابطہ اخلاق کا ذکر کیا گیا ہے کہ جن پر عمل پیرا ہو کر ایک قوم اعلیٰ روحانی مقام پر فائز ہو سکتی ہے۔ مگر ان قوانین سے فائدہ اٹھانے کی بجائے کفار متکبرانہ انداز میں ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور اس خوفناک اختتام پر غور نہیں کرتے جس کی طرف ان کا گھمنڈ اور تکبر انہیں لے جا رہا ہے۔

انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ سچائی کو جھٹلانے کے کبھی اچھے نتائج پیدا نہیں ہوتے اور یہ کہ وہ سخت الٰہی سزائیں پائیں گے، خاص طور پر آنے والے دنوں میں جب دنیا حق و باطل میں فرق کرنے والی لڑائی دیکھے گی اور انجام کار شیطانی قوتوں کی سرکوبی ہوگی۔ بعد ازاں اس سورۃ میں کفار کو سخت سرزنش کی گئی ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو مٹانے کے در پہ ہیں مگر خدا نے اعلیٰ اور ارفع مقصد ان کے لئے مقدر کر چھوڑا ہےاور ایک عظیم کامیابی ان کے انتظار میں ہے۔ آپ ﷺ کا نام دنیا کے دور دراز کناروں تک پہنچے گا اور قیامت تک عزت سے یاد کیا جائے گا۔ دنیا آپ ﷺ کو انسانیت کے عظیم راہنما اور قرآن کریم کو ایک روحانی تعلیمات کے بحرِ بے کنار کے طور پر جانے گی ۔ اس سورۃ کے اختتام پر آنے والے دنوں کے نشانات کا مختصر ذکر کیا گیا ہےجو اس وقت دنیا میں رونما ہوں گی اور یہ بتایا گیا ہے کہ نماز اور خداسے پختہ تعلق کی وجہ سے انسان گناہ سے بچ سکتا ہے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 15 جولائی 2020ء