• 24 جون, 2025

جماعت کے نوجوانوں کو ایک خاص نصیحت

تبرکات: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ

قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے وصال سے ساڑھے تین سال قبل ایک نہایت ہی قیمتی مضمون میں جماعت کے نوجوانوں کو بڑے ہی دردمند دل کے ساتھ ایک نصیحت فرمائی تھی۔ وہ نصیحت آبِ زر سے لکھنے اور حرزِ جان بنانے کے قابل ہے اور بالخصوص موجودہ حالات میں تو اس پر عمل پیرا ہونا ازحد ضروری ہے کیونکہ جماعت کی آئندہ ترقی اس نصیحت پر کماحقہ، عمل پیرا ہونے کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ ذیل میں وہ نصیحت حضرت میاں صاحب کے الفاظ میں ہدیۂ قارئین کی جا رہی ہے۔ ادارہ)

میں جماعت کے نوجوانوں کو بڑے دردِ دل کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مرنے والوں کی جگہ لینے کے لئے تیاری کریں اور اپنے دل میں ایسا عشق اور خدمتِ دین کا ایسا ولولہ پیدا کریں کہ نہ صرف جماعت میں کوئی خلاء نہ پیدا ہو بلکہ ہمارے آقا محمد مصطفےٰ صلے اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے طفیل جماعت کی آخرت اُس کی اُولیٰ سے بھی بہتر ہو۔ یقینا اگر ہمارے نوجوان ہمت کریں تو خداتعالےٰ کے فضل سے اس مقصد کا حصول ہرگز بعید نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا کا یہ وعدہ ہے جو حضورؑ نے ان شاندار لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔

’’خداتعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ۔۔۔۔۔۔ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر اک قوم اِس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا‘‘

(تجلیات الٰہیہ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 409)

خدا کرے کہ ہم اور ہماری اولادیں اس عظیم الشان بشارت سے حصہ پائیں اور اسلام اور احمدیت کا جھنڈا دنیا میں بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے۔ یاد رکھو کہ ایسی زندگی چنداں شاندار نہیں سمجھی جا سکتی کہ انسان ایک بلبلہ کی طرح اٹھے اور پھر بیٹھ جائے اور ساٹھ ستر سال کی عمر میں اس کی فعال زندگی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے بلکہ اصل شان اس میں ہے کہ انسان کی جسمانی موت کے بعد بھی اس کے آثار اس کی اولاد اور اس کے شاگردوں اور اس کے دوستوں اور اس کے عزیزوں اور اس کے علمی اور عملی کارناموں کے ذریعہ روشن جواہرات کی طرح جگمگاتے رہیں۔ قرآن نے کیا خوب فرمایا ہے کہ۔


والباقیات الصّٰلحٰت خیرٌ عند ربّک ثواباً و خیرٌ املًا۔ پس
بکوشید اے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا
بہار و رونق اندر روضۂ ملت شود پیدا

(روزنامہ الفضل 3 مارچ 1960)(ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ستمبر 1963ء)

ماہنامہ انصار اللہ دسمبر 1963ء نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک منظوم کلام حضرت میاں صاحب کے کچھ تمہیدی الفاظ کے ساتھ شائع کیا جو یہ ہے۔

لُوٹ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ کسی کے مال یا جان پر ظلم کے رنگ میں ڈاکہ ڈالا جائے، یہ لُوٹ بدترین گناہوں میں سے ہے۔ دوسری قسم کی لُوٹ یہ ہے کہ پاک محبت کی تاروں میں باندھ کر دوسرے کے مال و جان کو اپنا بنا لیا جائے۔ ایسی لوٹ انسانی روح کی جلاء کیلئے ایک بھاری نعمت ہے۔ سو ذیل کے اشعار میں اسی قسم کی روحانی لوٹ کا ذکر ہے جس میں اپنے آسمانی آقا کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ آئے اور ہمارے جان و مال کو لوٹ لے جو شروع سے اسی کے ہیں لیکن ہم لوگوں نے اپنی کوتاہ نظری یا بے وفائی سے اپنے سمجھ رکھے ہیں۔ مگر خیال رہے کہ میں شاعر نہیں ہوں۔ اگر فن نظم گوئی کے لحاظ سے کوئی غلطی نظر آئے تو وہ قابلِ معافی سمجھی جائے۔ اصل غرض دلی جذبات کا اظہار ہے۔ پہلے دو شعروں میں ایک قرآنی آیت کا مفہوم پیشِ نظر ہے۔

مِری سجدہ گاہ لُوٹ لو میری جبیں کو لُوٹ لو
میرے عمل کو لُوٹ لو اور میرے دیں کو لُوٹ لو
میری حیات و موت کا مالک ہو کوئی غیر کیوں
تم میری ’’ہاں‘‘ کو لُوٹ لو، میری ’’نہیں‘‘ کو لُوٹ لو
رنج و طرب میرا سبھی بس ہو تمہارے واسطے
روحِ سرور لُوٹ لو، قلبِ حزیں کو لُوٹ لو
جب جاں تمہاری ہو چکی پھر جسم کا جھگڑا ہی کیا
مِرا آسماں تو لُٹ چکا اب تم زمیں کو لُوٹ لو
نانِ جویں کے ماسوا دل میں مِرے ہوس نہیں
چاہو تو اے جاں آفریں نانِ جویں کو لُوٹ لو
گھر بار یہ میرا نہیں اور مَیں بھی کوئی غیر ہوں؟
اے مالکِ کون و مکاں آؤ مکیں کو لُوٹ لو

(محررہ 30 اکتوبر1963ء)

(ماہنامہ انصار اللہ ستمبر1963ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

ہر انسان کا سر دو زنجیروں میں ہے