• 29 اپریل, 2024

سودی روپیہ کے لینے اور دینے کے متعلق کیا حکم ہے؟

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’شرع میں سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کیلئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے۔ یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلاوے گا۔ لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے تو وہ سود سے باہر ہے۔‘‘

(البدر 27مارچ 1903ء صفحہ75)

ایک موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ سودی روپیہ کے لینے اور دینے کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا:۔
’’حرام ہے۔ ہاں اگر کسی دوست اور تعارف کی جگہ سے روپیہ لیا جاوے اور کوئی وعدہ اس کوزیادہ دینے کا نہ ہو، نہ اس کے دل میں زیادہ لینے کا خیال ہو۔ پھر اگر مقروض اصل سے کچھ زیادہ دے دے تو وہ سود نہیں ہوتا۔بلکہ یہ تو هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن 61) ہے۔ اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ضرورت سخت ہو اور سوائے سود کے کام نہ چل سکے تو پھر؟ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا۔کہ خدا تعالیٰ نے اس کی حرمت مومنوں کے واسطے مقرر کی ہے۔اور مومن وہ ہوتا ہے جو ایمان پر قائم ہو۔اللہ تعالیٰ اس کا متولی اور متکفل ہوتا ہے۔اسلام میں کروڑ ہا ایسے آدمی گذرے ہیں جنہوں نے نہ سود لیا نہ دیا۔ آخر ان کے حوائج بھی پورے ہوتے رہے کہ نہ۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ لو نہ دو۔ جو ایسا کرتا ہے وہ گویا خدا کے ساتھ لڑائی کی تیاری کرتا ہے۔ ایمان ہو تو اس کا صلہ خدا بخشتا ہے۔ایمان بڑی با برکت شے ہے۔ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة 107)۔ اگر اسے خیال ہو کہ پھر کیا کرے تو کیاخدا کا حکم بھی بے کار ہے۔اس کی قدرت بہت بڑی ہے۔سود تو کوئی شے ہی نہیں ہے۔اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا کہ زمین کا پانی نہ پیا کروتو وہ ہمیشہ بارش کا پانی آسمان سے دیا کرتا۔اسی طرح ضرورت پر وہ خود ایسی راہ نکال ہی دیتا ہے کہ جس سے اس کی نافرمانی بھی نہ ہو۔جب تک ایمان میں میل کچیل ہوتا ہے تب تک یہ ضعف اور کمزوری ہے کوئی گناہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک خدا نہ چھڑاوے۔ورنہ انسان تو ہر ایک گناہ پر یہ عذر پیش کرسکتا ہے کہ ہم چھوڑ نہیں سکتے اگر چھوڑیں تو گزارہ نہیں چلتا۔ دکانداروں، عطاروں کو دیکھا جاوے کہ پرانا مال سالہا سال تک بیچتے ہیں، دھوکا دیتے ہیں، ملازم پیشہ لوگ رشوت خوری کرتے ہیں اور سب یہ عذر کرتے ہیں کہ گذارا نہیں چلتا۔ ان سب کو اکٹھا کر کے نتیجہ نکالا جاوے تو پھر یہ نکلتا ہے کہ خدا کی کتاب پر عمل ہی نہ کرو کیوں کہ گذارا نہیں چلتاحالانکہ مومن کیلئے خدا خود سہولت کر دیتا ہے۔ یہ تمام راستبازوں کا مجرب علاج ہے کہ مصیبت اور صعوبت میں خدا خود راہ نکال دیتا ہے۔لوگ خدا کی قدر نہیں کرتے۔جیسے بھروسہ ان کو حرام کے دروازے پر ہے ویسا خدا پر نہیں ہے۔ خدا پر ایمان یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ اگر قدر ہو تو جی چاہے کہ جیسے اور عجیب نسخہ مخفی رکھنا چاہتے ہیں ویسے ہی اسے بھی مخفی رکھا جاوے۔‘‘

(البدر 27مارچ 1903 صفحہ75)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 22 جولائی 2020ء