• 27 اپریل, 2024

تعارف سورۂ مریم (انیسویں سورہ)

(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 99 آیات ہیں)
اردو ترجمہ ازترجمہ قرآن انگریزی (حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ) ایڈیشن 2003ء
(مترجم: وقار احمد بھٹی)

وقت نزول اور سیاق و سباق

آنحضرت ﷺ کے صحابہ کی کثرت رائے اس حق میں ہے کہ یہ سورۃ ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی، ممکنہ طور پر نبوت کے چوتھے سال کے اختتام پر، ابی سینا ہجرت سے قبل جو ماہِ رجب میں نبوت کے پانچویں سال ہوئی۔ اس سورۃ کا بنی اسرائیل اور الکہف سے تعلق یوں بنتا ہے کہ ان دونوں سورتوں میں یہودیوں اور عیسائیوں کے عروج اور ترقی کا ذکرہے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں واضح طور پر ذکر تھا کہ یہودی دو مرتبہ قومی تباہی دیکھیں گےاور دونوں مرتبہ شان و شوکت کو پہنچیں گے۔ اسی طرح اسلام کے متبعین بھی یہودیوں کی طرح دو مرتبہ طاقت حاصل کریں گےاور انہیں کی طرح دو مرتبہ تنزل کا شکار ہوں گے۔ سورۃ الکہف میں اس مضمون کو مزید تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیاہے، خاص طور پر عیسائیوں کے حوالہ سے اس سورۃ(الکہف) میں ان تفصیلات کا ذکر کرنے کے بعد کہ مسلمان، موسوی مسیح کے پیروکاروں(عیسائیوں) کے ہاتھوں قومی تباہی کا شکار ہوں گے۔ یہ ذکر بھی موجود ہے کہ بعد ازاں مسلمانوں کو ان کی شان و شوکت محمدی مسیح کی قیادت اور راہنمائی میں نصیب ہوگی۔ پھر عیسائی عقائد کی مختصر تاریخ اس سورۃ میں بتائی گئی ہے۔ یوں یہ سورۃ اس تعلق کی تیسری کڑی ہے جو سورۃ بنی اسرائیل ، کہف اور مریم بناتے ہیں۔ در حقیقت یہ تینوں سورتیں ایک ہی مضمون (سلسلہ موسوی) کو بیان کرتی ہیں اور ایک ہی ترتیب سے مضامین کو بیان کرتی جاتی ہیں۔

مضامین کا خلاصہ

اس سورۃ کے آغاز میں جو حروف مقطعات ہیں ان کے بیان سے عیسائی اور اسلامی عقائدکا موازنہ کیا گیا ہے اور اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ عیسائیت دراصل ایک الٰہی سلسلہ تھا، بعد میں کچھ غلط عقائد اس کی تعلیمات میں راہ پکڑ گئے۔ چونکہ ان عقائدِ باطلہ سے صفاتِ باری تعالیٰ پر زد پڑتی تھی اس لئے حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کے ذکر سے ان عقائد کی تردید کی گئی ہے۔

اس تفصیل سے قبل حضرت زکریا کا ذکر کیا گیاہےکیونکہ بائیبل کی پیشگوئیوں کے مطابق ‘دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن آنے سے پیشتر میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا’۔(ملاکی باب 4 آیت 5) یعنی مسیح کی آمد سے قبل ایلیاہ کا آنا ضروری تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام سے ایلیاہ کے آنے کی بابت پوچھا گیا جنہیں ان سے پہلے آنا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ (ایلیاہ) یوحنا ہی تھا جو اس (ایلیاہ) کی طاقت اور روح لے کر آیا (متی باب 11 آیت 14،15، باب 17 آیت 12، مرقس باب 9آیت 13)۔ آپ نے انہیں مزید بتایا کہ ایلیاہ کا آنا آسمان سے (مقدر) نہ تھا بلکہ دیگر انسانوں کی طرح اس کی پیدائش بھی ایک زمینی ماں سے ہونی تھی اور ایک الگ وجود ہونا تھا اور یہ کہ وہ یوحنا ہی ہے۔ (متی باب 11آیت 11، لوقا باب7آیت 28)۔

حضرت مسیح علیہ السلام کے حالات کے ذکر میں اس سورۃ میں آپ کی غیر معمولی (بن باپ) پیدائش کا ذکر کیا گیاہے۔ اس غیر معمولی طریق پیدائش کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ نبوت اب بنو اسحاق کے گھر سے بنو اسماعیل کو منتقل ہو جائے گی کیونکہ اسرائیلیوں میں سے کوئی مرد اس لائق نہیں تھا کہ کسی نبی کا باپ بن سکے۔ بعد ازاں اس سورۃ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کی تردید کے دلائل دئے گئے ہیں کہ جب حضرت آدم سے لے کر حضرت مسیح سے قبل آخری اسرائیلی نبی تک جملہ انبیاء جن کا اس سورۃ میں ذکر کیا گیاہے انسان تھے، تو حضرت مسیح کیونکر خدائی صفات سے متصف ہو سکتے ہیں جو محض خدا کے ایک نبی ہیں تو کیونکر انہیں خدا یا خدا کا بیٹا تسلیم کیا جائے۔ جیساکہ عیسائیوں نے آخری دنوں میں حیات بعد الموت کو جھٹلانا تھا اس مضمون پر اس سورۃ میں خاص طور پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اخروی زندگی پر زور دیا گیاہے اور ان کے باسی اور دقیانوسی دلائل کا رد کیا گیاہے۔

اس سورۃ میں بتایا گیاہے کہ کفار اپنی دولت، دنیاوی وسائل اور زیادہ تعداد کے دھوکہ میں جھوٹی تسلی پاتے ہیں اور ان چیزوں (کے وافر ہونے) کو اخروی زندگی کی تردید کے لئے دلیل بناتے ہیں اور یہ بھی کہ اصل چیز اس زندگی کا حصول ہے۔ ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ مومنوں کی ظاہری اور دنیاوی کمزوری سے ہرگز دھوکہ میں نہ رہیں اور نہ ہی اپنی دولت، طاقت اور زیادہ وسائل پر بھروسہ کریں۔ جیساکہ سچائی ہمیشہ آہستہ آہستہ پھیلتی ہے مگر یقینی طور پر آخری فتح اسی کی ہوتی ہے۔

اس سورۃ کے اختتام پر اس اہم سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ آخر کیوں قرآنی وحی عربی زبان میں نازل ہوئی ہے۔ اس کے جواب میں بتایا گیاہے کہ اول تو عرب اس قرآن کے اول مخاطب ہیں اور یہ عین فطرتی اور عقلی بات ہے کہ مخاطب کو اس کی زبا ن میں مخاطب کیا جائے تاکہ وہ آسانی سے اسے سمجھ سکیں اور سمجھ کر دوسروں کو یہ پیغام پہنچائیں، اسی حکمت کے تحت تابع قرآن کریم کو عربی زبان میں نازل کیا گیاہے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 23 جولائی 2020ء