• 23 جون, 2025

رسول کریم ﷺ کی حدیث کی روشنی میں ’’چھینک‘‘ کے طبی اور معاشرتی پہلو

جب بھی کوئی انسان چھینکتا ہے تو ہم یہی سوچتے ہیں کہ وہ جراثیم پھیلا رہا ہے اور ماحول کو گندا کر رہا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ چھینکنے سے ہم تقریباً 10,000جراثیم یا وائرس 100میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 3-5فٹ کے فاصلہ تک بکھیر رہے ہوتے ہیں اور ایک بیمار انسان ماحول کو آلودہ کر رہا ہوتا ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چھینکنے کے عمل سے اللہ تعالیٰ ہمارے جسم کو غیر معمولی طور پر محفوظ رکھتا ہے اور ماحول میں مضر ذرات و جراثیم جو ہمارے ناک یا منہ کے ذریعہ داخل ہوتے ہیں ان کو باہر نکال دیتا ہے۔ چھینکنے کے عمل سے ہمارے ناک، منہ اور سانس کی نالیوں کی نہایت احسن رنگ میں صفائی ہو جاتی ہے۔ کچھ اس قسم کی صفائی کا سسٹم مکینیکل ائیر بلورز کے ذریعے مختلف فیکٹریوں میں گندے ذرات اور گیسز کو باہر نکالنے میں استعمال ہوتے ہیں۔

مغربی دنیا نے ‘چھینک ‘ کے عمل کو سمجھنے کے بعد مکینیکل ائیر بلو رز کا طریقہ ایجاد کیا اور ان گنت جگہوں پر نصب کر کے ماحول کی صفائی کا نظام بہتر کیا ہے۔ اغلباً اس ترقی یافتہ دور میں چھینک کے عمل کو سمجھنے اور عوام الناس کو فائدہ پہنچانے کی طرف بھی یہ حدیث مبارکہ پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے۔

مجھے یاد ہے حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ ملاقات کے دوران چھینک کے بارہ میں ایک نہایت عمدہ بات بتائی تھی جو علم طب کے ماہرین اور سب احباب کی معلومات میں اضافہ کی بات ہے۔ آپ ؒ فرماتے ہیں:۔
’’انسان کے ناک کے پچھلے حصہ کا دماغ کے ساتھ نہایت قریبی تعلق ہے۔ یہ تعلق ایک نہایت باریک سوراخوں والی پلیٹ کے ذریعہ ہے۔ جس کو کریبوفارم پلیٹ کہتے ہیں۔ یہ پلیٹ باہر کے ماحول (یعنی ناک) اور دماغ کے درمیان واقع ہے۔ اس کے ذریعے ناک کے بالوں پر موجود قوت شامہ ریسیپٹرز، آل فیکٹری نرو و فائبرز بناتے ہیں اور یہ برقی تاروں کے ذریعے کریبو فارم پلیٹ سے ہوتے ہوئے دماغ میں داخل ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی ذرات ، جراثیم ، گرد آلود، تیز گرم یا سرد ہوا، تیز روشنی یا تیز خوشبو یا بدبو ناک کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں یا دماغ کی طرف رُخ کرتی ہے تو ناک کے سپیشل ریسیپٹرز اور پلیٹ فوری طور پر دماغ میں سگنل بھیجتے ہیں اور آناً فاناً چھینکنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، اور ان سب ذرات وغیرہ کا فوری انخلا ہوتا ہے۔اور کسی قسم کا مضر ذرہ یا جراثیم دماغ یا جسم میں داخل نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کا یہ حیرت انگیز نظام انسان کی حفاظت کرتا ہے ورنہ انسان کئی جان لیوا امراض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔‘‘

اسی راز کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
ترجمہ: پس (اے جن و انس) تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے۔ (سورہ الرحمان :آیت 9)

تحقیق نے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ چھینکنے کا عمل ہمارے قوت مدافعت کے نظام کو بھی تقویت دیتا ہے اور ہم صحت مند رہتے ہیں۔ جب بھی کوئی بیرونی مضر اشیاء ناک میں داخل ہوتی ہیں تو ہمارے دماغ میں چھینک کا نظام متحرک ہو جاتاہے اور مختلف نیورو ٹرانسمیٹر فعال ہونا شروع ہو جاتے ہیں جن کو میڈیکل اصطلاح میں اینڈورفنز کہتے ہیں اور یہ ہمارے جسم کے مختلف اعضاء اور پٹھوں کو حرکت میں لاتے ہیں اس کے نتیجے میں ہم اپنی آنکھیں، منہ اور گلا بند کر لیتے ہوئے بڑے زور سے منہ اور ناک کے ذریعے ہوا میں مضر ذرات باہر نکالتے ہیں۔ چھینک کے آنے کے بعد ایک طبعی فرحت اور خوشی کا احساس ہوتا ہے اور ہر انسان اس کا تجربہ کر چکا ہے۔یہ خوشی کا احساس اینڈورفنز کے فعال ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اس لئے حدیث میں ہے کہ

’’جب کوئی چھینکے تو اللہ کا شکر ادا کرے اور الحمدللہ کہے‘‘۔

(صحيح البخاري كتاب الأدب باب إذا تثاءب فليضع يده على فيه5872)

اب سوچیں کہ اس حدیث کے تناظر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کتنا گہرا راز اپنے اندر رکھتا ہے۔ گو چھینک ایک معمولی عمل ہے اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ خالق کی رحمانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور ایک صاحب عقل انسان برملا کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ

ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلووؤں کے بل بھی اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔ (اور بے ساختہ کہتے ہیں) اے ہمارے رب! توُ نے ہر گز یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ پاک ہے توُ۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ (سورۃ آل عمران آیت 192)

ہماری کسی کوشش کے بغیرچھینک بہت سی خطرناک بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔مزید یہ کہ ہمارے پیارے ہادی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک بات ختم نہ کی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ

’’ہر مسلمان جس نے اس کو سنا فرض ہے کہ اسے کہے یر حمک اللہ یعنی اللہ تجھ پر رحم کرے۔‘‘

(صحيح البخاري كتاب الأدب باب إذا تثاءب فليضع يده على فيه5872)

یہ ارشاد بھی ایک حکیمانہ پہلو اپنے اندر رکھتا ہے کہ اپنے لئے بھی رحم مانگو اور اپنا بھائی بھی بھائی کے لئے رحم مانگے۔ یہ آپس میں بھائی چارہ اور محبتیں بڑھانے کا ایک اور ذریعہ ہے۔

ماہرین ناک کان اور گلا (ای این ٹی سپیشلسٹ) یہ بھی بتاتے ہیں کہ چھینکنے سے انسان کے ناک کی صفائی کا نظام دوبارہ تازہ دم ہوجاتا ہے۔اس کو سائنس کی اصطلاح میں ری بوٹ ہونا بھی کہتے ہیں یہ اسی طرح ہے کہ جب کمپیوٹر میں کوئی خلل واقع ہو جائے تو اسے ایک دفعہ بند کر کے دوبارہ چلایا جائے اور وہ ‘تازہ دم› ہو کر کام کرنے لگ جاتاہے۔

مذکورہ بالا حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ چھینک کے عمل کو روکنا نہیں چاہئے اور یہی بات آج سائنس بھی ثابت کر چکی ہے۔ چھینک کو روکنے سے جراثیم اور مضر ذرات پھیپھڑوں میں داخل ہو کر پھنس جاتے ہیں اور ان ذرات کے جمع ہونے سے پھیپھڑوں میں مختلف بیماریا ں جنم لیتی ہیں لیکن یہ بات بھی ضروری ہے کہ چھینکتے ہوئے احتیاط برتنی چاہئے اور ہاتھ، بازو یا رومال سے منہ اور ناک کو ڈھانک لینا چاہئے۔

چھینک کے عمل کو پرانی تہذیبوں نے بھی خوش آئند کہا ہے۔ اور صحت کے مختلف علاج میں سے ایک علاج قرار دیا ہے۔ کبھی تو مصنوعی طور پر ناک میں گھاس کا تنکہ اور کبھی کوئی اور کھجلی دار چیز ڈالی جاتی تھی تاکہ چھینک آئے۔ اور اس کو فائدہ مند سمجھا جا تا تھا۔ قدیم یونانی تہذیب میں چھینک کو نیک شگون کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور اس کو اپنے خداؤں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ قریباً پندرہویں صدی عیسوی میں چھینک کو قریب المرگ مریضوں میں علاج کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔ انگلستان کا بادشاہ چارلس دوئم جب مرنے کے قریب ہوا تو اس کو چھینک دلانے والی ادویات کا استعمال کروایا گیا تاکہ زندگی بحال ہو سکے۔

مشرقی ایشیاء، چین، کوریا، جاپان، نیویارک، اٹلی، جرمنی اور دیگر کئی ممالک میں جب بھی چھینک آئے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی اچھے رنگ میں یاد کررہا ہے اور آپ کی خیر ہو کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔

مذکورہ بالا حدیث میں ایک اشارہ ’ہر مسلمان‘ بلکہ ہر احمدی مسلمان دانشور اور ریسرچ سکالر کے لئے بھی ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:۔

۔۔۔۔۔۔ہر مسلمان پر جس جس نے اسے سنا فرض ہے کہ اس کا جواب دے‘‘

(صحيح البخاري كتاب الأدب باب إذا تثاءب فليضع يده على فيه5872)

یہ حکم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے علاوہ ہمیں غور کرنے کی طرف بھی ترغیب دیتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں زیادہ تر مسلمان ممالک پستی کا شکار ہیں۔ اس وجہ سے مختلف آب و ہوا سے پھیلنے والی بیماریاں ماحول کی آلودگی، گندگی اور احتیاطی تدابیر سے عدم توجہی لامتناہی بیماریوں اور اموات سے بھرا پڑا ہے اور ناک، گلے، پھیپھڑوں کی بیماریاں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس لئے ’ہر مسلمان‘ سائنسدان کو اس طرف ریسرچ اور علاج کے نئے طریق معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ کس طریق سے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ دفاعی نظام (قوت مدافعت) کو تقویت دی جاسکتی ہے تو ان گنت بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے اور یہ موذی مرض کورونا وائرس جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اس سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ اور اس کے علاوہ دیگر بیشمار بیماریوں کی وجوہات اور طریقہ علاج کا کھوج لگایا جا سکتا ہے۔

(ریٹائرڈ میجر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود الحسن نوری (ستارہ امتیازملٹری))

پچھلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 26 جولائی 2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 27 جولائی 2020ء