• 29 اپریل, 2024

دنیا کا امن برباد ہونے کی ایک بڑی وجہ

حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
دنیا کے معاملات میں بھی ایک متقی کو اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت مل جاتا ہے۔ لیکن اس مادّی دنیا کے علاوہ خدا تعالیٰ پر یقین رکھنے والے، اُس پر کامل ایمان رکھنے والے شخص کی ایک روحانی دنیا بھی ہے جس کے فائدے، جس کی لذات دنیا والوں کو نظر نہیں آتیں اور نہ آ سکتی ہیں۔ ان لوگوں کی سوچ بہت بلند ہوتی ہے جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ وہ اس دنیا سے آگے جا کر بھی سوچتے ہیں۔ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر کامل ایمان اور یقین ہوتا ہے۔ جب دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو قبولیت کے نشان دیکھتے ہیں۔ اس زمانے میں خدا تعالیٰ سے سچا تعلق جوڑنے کے یہ طریق اور اسلوب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سکھائے۔ بہت سے احمدی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے سچے تعلق کی وجہ سے خواب، رؤیا، کشف وغیرہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ اُنہیں بتاتا ہے کہ اس طرح ہو گا اور اُس طرح بالکل ویسے ہو جاتا ہے۔ پھر اس معیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد کی زندگی کے انعامات کے جو وعدے فرمائے ہیں وہ بھی پورے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تقویٰ پر قائم رہے تو اس دنیا کے انعامات بھی حاصل کرو گے اور اخروی زندگی کے بھی۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ متقی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جب کوئی عمل کرتا ہے تو دنیا و آخرت کی حسنات اُسے ملتی ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اعمالِ صالحہ بجا لانے والے متقی ہیں۔ یہ ایک بہت ضروری چیز ہے کہ ایسے نیک اعمال بجا لانے والے، صالح اعمال بجا لانے والے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر انہیں بجا لاتے ہیں وہی ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ کئی دوسرے لوگ بھی ہیں جو نیکیاں کر جاتے ہیں، نیک عمل کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی خاطر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے نہیں کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متقی کی جو تعریف بیان فرمائی ہے اس کے مطابق ہر بڑے اور چھوٹے گناہ سے بچنا ضروری ہے اور نہ صرف برائیوں سے بچنا ضروری ہے بلکہ نیکیوں میں اور اعلیٰ اخلاق میں ترقی کرنا بھی ضروری ہے اور پھر خدا تعالیٰ سے سچی وفا کا تعلق بھی ضروری ہے۔ یہ چیزیں ہوں گی تو ایک شخص متقی کہلا سکتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ سے سچی وفا کیا ہے؟ یہی کہ اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے اور حتی المقدور خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لایا جائے اور جب یہ حالت ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں تقویٰ سے آگے کے قدم کا ذکر فرمایا ہے۔

فرمایا۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُون۔ محسن کا مطلب ہے کسی کو انعام دینا۔ بغیر کسی کی کوشش کے اُس کو نوازنا یا کسی سے اچھا سلوک کرنا۔ ایسے جو نوازنے والے ہوتے ہیں وہ محسن کہلاتے ہیں۔ پھر محسن کا یہ مطلب بھی ہے کہ انسان کا اپنے کام میں کمال درجے کو حاصل کرنا۔ اپنے کام کا اچھا علم حاصل کرنا اور ہر عمل ایسا جو موقع اور محل کے لحاظ سے بہترین ہو۔ گویا محسن دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو دوسروں کے لئے درد رکھتے ہوئے اُن کی خدمت پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ کوئی کس مذہب اور فرقے سے تعلق رکھتا ہے، کون کس قوم کا ہے؟ اُس کی خدمت پر مأمور ہیں، کوشش ہوتی ہے کہ ہم انسانیت کی خدمت کریں۔ اور پھر یہ بھی کہ وقت پڑنے پر دوسرے کے کام آ کر اُس کی خدمت میں اس حد تک بڑھ جائیں کہ جس حد تک آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں دوسرے کے لئے کی جائیں۔ پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس جذبے کے تحت اُسے انسانیت کی خدمت کرنی چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی ہیں جو اس جذبے کے تحت خدمت کرتے ہیں، کام کرتے ہیں۔ بیشک وہ محسن تو ہوتے ہیں لیکن احسان جتانے والے نہیں ہوتے۔ محسن وہ نہیں جو احسان کر کے احسان جتائے۔ کیونکہ اگر احسان جتا دیا تو پھر تقویٰ اور اچھے خُلق کا اظہار نہیں ہو گا۔ تقویٰ تبھی ہے جب احسان کر کے پھر احسان جتایا نہ جائے۔

(خطبہ جمعہ 3؍فروری 2012ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 11 اگست 2020ء