آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللّٰهِ تَعَالى يَتْلُونَ كِتَابَ اللّٰهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِيْنَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلاَئِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللّٰهُ فِيْمَنْ عِنْدَهُ
(سنن ابی داؤد باب ثواب تلاوت القرآن)
کہ جو بھی قوم (جماعت) اللہ کے گھروں یعنی مساجد میں سے کسی گھر یعنی مسجد میں جمع ہوکر کتاب اللہ کی تلاوت کرتی اور باہم اسے پڑھتی پڑھاتی ہے اس پر سکینت نازل ہوتی ہے، اسے اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے اسے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ان لوگوں میں کرتا ہے، جو اس کے پاس رہتے ہیں یعنی مقربین ملائکہ میں۔
آخری زمانہ کی علامات میں مساجد کے حوالہ سے یہ بھی حدیث ہے کہ امام مہدی کے نزول کے وقت مسجدیں آباد ہوں گی مگر ہدایت سے خالی اور ویران۔ عربی الفاظ یوں ہیں:
یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہُ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السَّمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔
(مشکوۃ المصابیح، کتاب العلم، الفصل الثالث، صفحہ38)
اب ان دونوں احادیث کو تقابلی انداز میں دیکھیں تو پہلی حدیث میں آنحضورﷺ نے عبادت گاہ کے لئے بیت یا بیوت کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کے معنی گھر کے ہوتے ہیں یعنی اللہ کا گھر۔ خانہ کعبہ کے لئے بھی «بیت اللہ« کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جبکہ دوسری حدیث میں آنحضور ﷺ نے عبادت گاہ کے لئے مسجد کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور ساتھ ہی فرمایا کہ مسلمانوں کی مساجد نمازیوں سے آباد تو ہوں گی مگر ہدایت نام کی کوئی چیز نظر نہ آئے گی۔ ہم نے اس کرونا وبا کے دنوں میں دیکھا کہ بعض اسلامی ممالک اور برطانیہ جیسے سیکولر ملک میں بھی مسلمانوں نے حکومتی پابندیوں کے برخلاف SOP کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مساجد میں حاضر ہوکر انہیں آباد کرنے اور رکھنے کی کوشش کی اور پھر انہی مساجد سے حکومت کے خلاف مظاہرے بھی دیکھنے کو ملے۔ آج کل ہمیں سوشل میڈیا پر مساجد کے منبرز سے علماء کے جو خطبات اور خطابات کے کلپس (Clips) سننے کو ملتے ہیں۔ ان سے ایک مذہب کی دوسرے کے خلاف نفرت، دشمنی اور ہنگامہ آرائی کی تعلیم ملتی ہے اور ہر جمعہ کو مولوی نمازیوں کو لے کر جلوس کی شکل میں باہر آجاتے ہیں۔ حکومت وقت کے خلاف، کبھی کسی ادارے کے خلاف، کبھی کسی فرقہ کے خلاف اور کبھی اپنے ناجائز مطالبات منوانے کے لئے اور پھر توڑپھوڑ اور حکومتی املاک کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔ آنحضورﷺ نے اسی وجہ سے فرمایا کہ اُخروی دور میں مساجد آباد ہوں گی، نمازی کثرت سے نظر آئیں گےمگر ہدایت و رُشد کا کوئی سبق نظر نہیں آئے گا۔ قرآن کے الفاظ باقی رہ جائیں گے۔ زبان سے تو اللہ کی کتاب قرآن کریم کی تلاوت سنائی تودے گی مگر حلق سے نیچے نہیں اُتریں گے اور عمل سے بے بہرہ ہوں گے۔
اس کے بالمقابل بعض اسلامی عبادت گاہوں (جو بیوت اللہ ہوں گی) میں امام اور اس کے مقتدی یعنی نمازی بھی بیوت میں جمع ہوں گے جو اللہ کی کتاب پڑھیں گے یعنی تلاوت کریں گے اور آپس میں مل بیٹھ کر درس بھی دیں گے اور معارف و حقائق بکھیریں گے۔ ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے جو انعام ہوں گے وہ یہ ہیں۔
- ان پر سکینت نازل ہوگی۔
- نہیں اللہ کی رحمت ڈھانپ لے گی۔
- فرشتے انہیں گھیرے رکھیں گے۔
- اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے پاس مقربین فرشتوں میں کرتا رہے گا۔
یہ وہ چار انعام خداوندی ہیں جن کا اُوپر احادیث میں ذکر ہے۔ قرآن کریم نے عبادت الہٰی کے لئے تعمیر ہونے والے پہلے مرکز کو بھی بیت کے نام سے ہی موسوم کیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ
(آل عمران:97)
یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو بَکَّہ میں ہے۔ (وہ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لئے۔
دنیا کی بعض جگہوں پر چونکہ احمدیوں کو اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے روک دیا گیا ہے اور وہ اپنی عبادت گاہوں کو» مساجد» کے الفاظ سے یاد نہیں کرسکتے ہیں اس لئے دنیا بھر میں بیت اللہ (خانہ کعبہ) کی اقتداء میں جماعت احمدیہ نے عبادت گاہوں کے لئے «بیوت» کا لفظ استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور حقیقت میں دو اور دو ۔چار کی طرح یہ انعامات خداوندی کے وارث جماعت احمدیہ اور اس کے ماننے والے ہیں۔ جہاں امن ہی امن نظر آتا ہے۔ نہ کبھی لڑائی، نہ کوئی جھگڑا، نہ کبھی کسی فرقہ کے خلاف منصوبہ بندی اور نہ کبھی توڑ پھوڑ کے منصوبے اور ہنگامہ آرائی اور جماعت احمدیہ کا یہ طرّہ امتیاز اب ساری دنیا میں ایک امتیاز کے طور پر سامنے آچکا ہے اور دنیا میں بسنے والے جماعت احمدیہ کے مدّاح اور Well wishers اس بات کا اظہار کئے بغیر نہیں رہتے کہ یہ پُرامن جماعت ہے۔ ہمارے جلسہ ہائے سالانہ پر سلوگن Love for all hatred for none کو اپنی تقاریر میں سراہتے ہیں۔ ہمیں بعض ممالک میں تکالیف اور مشکلات کا بھی سامنا رہتا ہے مگر ہم ان تمام تکالیف کو بطیب خاطر قبول کرتے اور امن کو فروغ دیتے ہیں۔
یہ دراصل اس عظیم انعام خداوندی کی بدولت ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خلافت کے نام سے ہمیں عطا فرمارکھا ہے۔ دربار خلافت یا خلافت کے پلیٹ فارم سے گزشتہ 100 سال سے امن و آتشی کے پیغامات مل رہے ہیں۔ ’’گالیاں سُن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو‘‘ کی تعلیم ہمارے دلوں میں راسخ ہورہی ہے اور ہم نے یہ مسلسل دیکھا کہ ان تکالیف کے باوجود ہم پُرسکون زندگی بسر کررہےہیں۔ ہم پراللہ تعالیٰ کی سکینت نازل ہوتی رہتی ہے۔ جس کا نظارہ ہم میں سے ہر کوئی ہر لمحہ دیکھتا اور ملاحظہ کرتا ہے۔ دوسرے نمبر پر اللہ تعالیٰ کی رحیمیت ہمیں ڈھانپے رکھتی ہے۔ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو خطرے کے وقت پروں کے نیچے لے کر محفوظ کرلیتی ہے۔ اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ،خلافت اور خلافت کے پروں تلے محفوظ زندگی بسر کررہے ہیں۔ تیسرے نمبر پر فرشتے سایہ فگن ہوتے ہیں اور ہم ان کی حفاظت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور آخری اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے ان نیک اسلامی اعمال کے پیش نظر اللہ تعالیٰ اپنے پاس موجود مقرب فرشتوں سے تذکرہ کرتا اور وہ برکات الہٰی کے ساتھ جماعت احمدیہ پر من حیث الجماعت اور انفرادی طور پر ہر فرد جماعت پر لے کر حاضر ہوتے ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ مخالفت تو ہمارے لئے کھاد کا کام کرتی ہے۔ جس طرح باغیچے میں کھاد ڈالی جائے تو وہ باغیچہ سرسبزو شاداب ہو جاتا ہے اسی طرح جماعت احمدیہ کے باغ میں یہ کھاد ہمارے پروان چڑھنے اور مضبوطی کا پیغام لے کر آتی ہے۔ 131 سال میں ایک ننھا پودا اب تناور درخت بن گیا ہے۔ جس کی شاخیں تمام دنیا پر پھیل گئی ہیں اور کروڑوں روحانی پرندے اس کے سایہ تلے پُر امن زندگی بسر کررہے ہیں ۔ مالی نظام مستحکم ہوا ہے۔ 70 سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہوکر دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکے ہیں۔ سینکڑوں مربیان، مبلغین، معلمین تبلیغ اسلام کے لئے دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ بیوت اللہ کی تعمیر ہورہی ہے۔ مشن ہاؤسز تعمیر ہورہے ہیں۔ الغرض جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ کا نظارہ دنیا بھر میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
لوگوں کی اس طرف ذرا بھی نظر نہ تھی
میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی
اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا
اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا
اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا
میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا