ایک انسان کی پہچان کے مختلف طریق ہیں جن میں سے دو اہم یہ ہیں کوئی اپنی گفتار سے پہچانا جاتا ہے اور کوئی اپنے کردار اور فعل سے اپنی پہچان بناتا ہے۔ لیکن ایک کامیاب واعظ، مبلغ، داعی الیٰ اللہ اور استاذ وہ ہے جو ان دونوں سابقوں سے اپنی پہچان معاشرے میں بنائے۔
ہم بالعموم اپنے معاشرہ میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو باتیں بنانے اور کرنے کی مہارت ہوتی ہے۔ ان کو بات کرنے کا فن اور آرٹ آتا ہے۔ جس سے یہ لوگ ماحول میں دوسروں کو قائل کئے رکھتے ہیں ایسے لوگوں کو ’’گفتار کے غازی‘‘ کہا جاتاہے۔ لیکن ثانی الذکر لوگ بولتے کم ہیں مگر اپنی سیرت و کردار اور اپنے اعمال و اخلاق سے معاشرہ میں پہچان بناتے ہیں۔ یہ لوگ خاموش عملی تصویر ہوتے ہیں جو معاشرے کو اپنی طرف مائل رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ’’کردار کے غازی‘‘ کہلاتے ہیں اور ان کا درجہ ’’گفتار کے غازیوں‘‘ سے بڑھا ہوتا ہے۔
شاید انہی لوگوں کے لئے شاعر نے کہا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
لیکن ایک کردار اور درجہ ان دونوں سے بلند ہے اور وہ اپنے اعمال کو اپنے اقوال کے مطابق بنانے والے ہوتے ہیں اور یہ لوگ خدا کو سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ انبیاء کرام، مجددین، صلحاء، مقربین، خلفاء اور بہت سے واعظین ہوتے ہیں۔ جو لوگوں کو نصیحت کرنے سے قبل اپنا محاسبہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اس نصیحت کا پہلا مخاطب سمجھتے ہیں اور پھر منبر پر آکر نصیحت کرتے ہیں جو دلوں پر اثر کرتی ہے۔ ایک مشہور واقعہ ہم نے بچپن سے سُن رکھا ہے کہ ایک خاتون (ماں) اپنے بچے کو ایک بزرگ کے پاس لے کر گئی کہ وہ بچے کو نصیحت کریں کہ وہ میٹھا زیادہ نہ کھایا کرے (وہ بچہ گڑ بہت کھاتا تھا) بزرگ نے خاتون سے کہا۔ بی بی! بچے کو کل لانا۔ خاتون اس روز بچے کو واپس لے گئی اور اگلے روز بچے کے ساتھ اس بزرگ کے دربار میں دوبارہ حاضر ہوئی اور اپنا مدّعا بیان کیا۔ بزرگ نے بچے سے نہایت پیار سے مخاطب ہوکر فرمایا۔ بیٹا! گڑ نہ کھایا کرو اور خاتون کو کہا کہ اس بچے کو واپس لے جاؤ۔ وہ خاتون بہت سیخ پا ہوئی کہ اگر یہی ایک فقرہ بچے سے کہنا تھا تو کل کہہ دیتے۔ مجھے سفر کی صعوبتیں کیوں برداشت کروائیں۔ بزرگ نے خاتون سے مخاطب ہوکر کہا۔ بی بی! میں خود میٹھے کا بہت شوقین ہوں۔ کل میں آپ کے آنے سے قبل گڑ کھاچکا تھا۔ اس لئے میں نے بچے کو نصیحت نہیں کی۔ آج اس بچے کو نصیحت کرنے کی خاطر میں نے اپنے آپ کو گڑ کھانے سے روکے رکھا۔ اس لئے میری نصیحت کارگر ثابت ہوگی۔
مجھے سیرالیون بو (ہیڈ کوارٹر ساوتھرن پراونس) میں خدمت بجا لانے کا موقع ملا۔ 1983ء میں امیر و مشنری انچارج مکرم مولانا محمد صدیق گورداسپوری مرحوم ہوا کرتے تھے۔ مشن کی مالی حیثیت بہت کمزور تھی اور بعض جائز ضروریات سے بھی اپنے آپ کو روکنا پڑتا تھا۔ چونکہ افریقہ میں مچھر بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے مشن کی طرف سے مچھر مارنے کے لئے Shell Tox اور موسکیٹوکوائلز (Mosquito Quails) کی اجازت ہوتی اور جب مشن یہ سہولت مبلغین کو فراہم کرنے کی طاقت نہ رکھتا تومحترم امیر صاحب کچھ عرصہ کے لئے انہیں خرید کرنے سے روک دیتے اور اپنے ساتھ خدمت بجا لانے والے مبلغ سے مخاطب ہوکر کہتے کہ ’’میں مبلغین کو Shell Tox اور Mosquito Quails کی خرید سے روکنے لگا ہوں۔ آپ نے بھی تاحکم ثانی اپنے مشن کے لئے خرید نہیں کرنی۔‘‘
اسی لئے انگریزی میں کہا جاتا ہے۔
Practice makes a man perfect.
کہ اگر قول و فعل آپس میں یکسانیت اختیارکرجائیں۔ مل جائیں تو انسان مکمل ہوجاتا ہے اور سیرت کا یہ پہلو جہاں انسان کا قد بڑھاتا ہے وہاں معاشرہ میں اس کا مقام بھی بڑھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف علم و ہنر کی زیادتی انسان کو بڑا نہیں کرتی۔ اس کی بڑائی کا سرچشمہ دراصل اس کے کردار کی پاکیزگی ہے۔
ابھی جب کہ یہ آرٹیکل زیر تکمیل تھا۔ مجھے ایک خیرخواہ نے ایک مشاعرہ کی ویڈیو بھجوائی۔ جس میں ایک شاعر اپنے پہلے شعر میں یوں گویا ہے۔
بے عمل کو دنیا میں راحتیں نہیں ملتیں
دوستو! دعاؤں سے جنتیں نہیں ملتیں
اس مضمون کے بہت سے رُخ اور بہت سے زاویئے ہیں۔ ایک مربی اور مصنف کے ناطے اس لئے اس مضمون کو اس رنگ سے بھی اجاگر کیاجاسکتا ہے کہ جب ہم تقریر کررہے ہوتے ہیں یا خطبہ دے رہے ہوتے ہیں تو سامعین اور حاضرین ساتھ کے ساتھ ہماری کہی گئی باتوں کو ہمارے جسم کے سانچے میں ڈال کر ہمارے اعمال کی کسوٹی کے ذریعہ پرکھ بھی رہے ہوتے ہیں اور جب ایک بندہ غیوبت میں ہماری کوئی تصنیف، مضمون یاآرٹیکل پڑھ رہا ہوتا ہے تو جہاں وہ مضمون کے پسندگی یا ناپسندگی کا اظہار کررہا ہوتا ہے وہاں وہ ہماری شخصیت کے بارہ میں بھی سوچ رہا ہوتا ہے اور ملاقات کا بھی متمنی ہوتا ہے تا محرر کی تحریر کو شخصیت کے آئینہ میں ڈال کر دیکھے کیونکہ بعض مقرر یامحرر دونوں باتوں پر پورا نہیں اُتر رہے ہوتے جبکہ اکثر مقرر اور محرر حُسن کلام، حُسن تحریر اور حُسن سیرت کا جامع ہوتے ہیں اور اس انسان کی شخصیت اگلے انسان کے اندر کھبتی جاتی ہے اور اثر کررہی ہوتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ
’’میں قوّال کی نسبت فعّال کو پسند کرتا ہوں۔‘‘
(الحکم 17 جنوری 1904ء)
قرآن کریم کا مطالعہ کرجائیں۔ آپ کو اٰمَنُوْا کے ساتھ عَمِلُوالصّٰلِحٰتُ لکھا ہوا ملے گا کیونکہ ایمان، عمل سے دکھتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ اعمال ایمان کا زیور ہے۔ جسم کی اصل خوبصورتی اس انسان کے نیک اعمال سے ہے۔ جس طرح انسان خوبصورت لگنے کے لئے خوبصورت کپڑے پہنتا ہے اسی طرح روحانی معنوں میں خوبصورتی اس کے نیک اعمال ہیں۔
حدیث میں آتا ہے کہ ہر انسان کے درج ذیل تین دوست ہوتے ہیں۔ 1۔ پراپرٹی۔ جائیداد۔ 2۔ عزیزو اقارب۔ 3۔ اعمال۔
اور انسان کی وفات کے وقت تینوں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ جائیداد وفات پاجانے والے انسان یعنی مالک کو مخاطب ہوکر کہتی ہے کہ میں نے دنیا میں تمہارا بہت ساتھ دیا۔ تمہیں فائدہ پہنچایا۔ اب آگے فائدہ پہنچانا میرے بس کی بات نہیں۔ لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ کہہ کر جائیداد الگ ہوجاتی ہے۔ پھر دوسرا دوست یعنی عزیزو اقارب وفات یافتہ کے پاس حاضر ہوتا ہے اور تدفین کے بعد اس سے یہ کہتے ہوئے الگ ہوجاتا ہے کہ تدفین تک میرا فرض تھا اب تمہارا معاملہ اپنے خدا سے ہے۔ اس میں مَیں کچھ نہیں کرسکتا۔ اب تیسرا اور حقیقی دوست اس کے پاس حاضر ہوکر کہتا ہے کہ اے میرے پیارے دوست! میں تمہارا تھا اور تمہارا رہوں گا۔ اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھ ساتھ رہا اور اُخروی زندگی میں بھی ساتھ ہی رہوں گا۔ اگر تمہارے اعمال اچھے ہیں تو میں تمہیں جنت تک لے جاؤں گا اور تم اگر بُرے کام اس دنیا میں کرتے رہے تو میں تمہیں واصل جہنم کروں گا اور یہ دوست انسان کے اعمال ہیں اور یہی وہ مضمون ہے جو اس سے قبل ایک شعر میں ادا ہوا ہے۔
؎عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
آنحضرت ﷺ مزید فرماتے ہیں:
ایسا مومن جو قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہوتا ہے سنگترے کی طرح ہے جس کا ذائقہ بھی اچھا ہوتا ہے اس کی خوشبو بھی اچھی ہوتی ہے اور ایسا مومن جو قرآن نہیں پڑھتا لیکن اسپر عمل پیرا ہوتا ہے وہ کھجور کی طرح ہے جس کا ذائقہ تو لذیذ ہوتاہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی۔
(صحیح بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب اثم من رای بقراۃ القرآن او تاکل بہ اوفخربہ)
یہ اتنا اہم مضمون ہے جسے مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ جیسے کسی نے کہا ہے کہ
Education is not only education but formation.
کہ تعلیم صرف حصول تعلیم کا نام نہیں بلکہ اپنے کردار و سیرت کو سنوانے اور اس تعلیم کواپنے اوپر لاگو کرنے کا نام ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں تعلیم دینے والے ادارے ہی اخلاقیات کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں۔ دنیا بھر کے اکثر اسلامی ممالک میں اسلام کو نافذکرنے کے مطالبات ہوتے ہیں۔ مگر عملاً یہ قوم اسلامی تعلیمات سے عاری ہیں اور مسلسل غیر اسلامی اعمال بجا لاتے ہیں۔ حرام کی کمائی سے حلال گوشت یا حلال چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہر طریق سے حرام کماتے ہیں مگر سُپر اسٹورز میں جاکر پیکٹس پکڑ کر خشوع وخضوع کے ساتھ اس کے اجزائے ترکیبی (Ingredients) پڑھتے ہیں۔ جھوٹ کو سینے سے لگاتے ہیں حتی کہ عمرہ اور حج پر جانے کے لئے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ پس یہی معنی ہیں گفتار کے غازی۔ زندہ اور تابندہ وہی ہے جو عمل کے ساتھ اپنے قول کو سنوارتا اور سجاتا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لیے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔ نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اﷲ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ یہ نکمی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔ اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لیے کھڑا کیا ہے۔ پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے۔ وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سُود ہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنے ہیں؟ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداری دکھاؤاور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔ قرآن شریف کے صحیح منشا کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے۔ یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ وہ عظیم الشّان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدمؑ کے وقت سے شروع ہوئی ہے کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو۔ پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھائو کہ اہلِ حق کا گروہ تم ہی ہو۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ370-371)
اللہ تعالیٰ ہم تمام احمدیوں کواعمال حسنہ اور اخلاق حسنہ سے اپنی زندگیوں کو مزین کرنے کی توفیق دے کیونکہ اس زمانہ کے مامور حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام تجدید دین کی خاطر تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں گفتار کے غازی سے پہلے کردار کے غازی بنائے تاہم اپنے خدا کے محبوب بندے بن سکیں۔ آمین