• 29 اپریل, 2024

برتھ ڈے یا ڈے آف ریمائنڈر

ہم نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی وہاں برتھ ڈے منانے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ ہم بھی اسی روایت کو حتی المقدور اپنے بچوں میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ برتھ ڈے منانا چونکہ اس مغربی معاشرے کا ایک لازم و ملزوم جزو ہے اس لئے اسکولوں اور ملازمتوں میں اس کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اپنی برتھ ڈے تو ویسے یاد نہیں رہتی مگر جب دوسرا کوئی برتھ ڈے ’’وش‘‘ کر بیٹھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی بند مٹھی سے ریت کی مانند پھسلتی جاتی ہے اورایک وقت آئے گا کہ یہ فانی جسم مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے گا۔ یہ دنیا ایک پردیس کی طرح ہے جہاں انسان کچھ عرصے کے لئے آتا ہے اور پھر کبھی نہ آنے کے لئے اپنے اصل دیس کو سدھار جاتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس لمحہ کے لئے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔

انسانی ارتقاء کے مراحل

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اےلوگو! اگر تم جی اٹھنے کے بارے میں شک میں مبتلا ہو تو یقیناً ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا تھا پھر نطفہ سے پھر لوتھڑے سے پھر گوشت کے ٹکڑے سے جسے خاص تخلیقی عمل یا عام تخلیقی عمل سے بنایا گیا تاکہ ہم تم پر (تخلیق کے راز) کھول دیں۔ اور ہم جو چاہیں رحموں کے اندر ایک مقررہ مدت تک ٹھہرا تے ہیں پھر ہم تمہیں ایک بچے کے طور پر نکالتے ہیں تاکہ پھر تم اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچو۔ اور تم ہی میں سے وہ ہے جس کو وفات دے دی جاتی ہے اور تم ہی میں سے وہ بھی ہے جو ہوش و حواس کھو دینے کی عمر تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ علم حاصل کرنے کے بعد کلیتہً علم سے عاری ہو جائے۔‘‘

(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ الحج آیت6)

موت کو یاد رکھو

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’لذتوں کو مٹانے والی چیز یعنی موت کا کثرت سے ذکر کیا کرو۔‘‘

(جامع ترمذی ابواب الزہدباب فی ذکر الموت)

ایک شخص نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ مجھے نماز میں لذت نہیں آتی فرمایا کہ
’’موت کو یاد رکھو۔ یہی سب سے عمدہ نسخہ ہے۔ دنیا میں انسان جو گناہ کر تا ہے اس کی اصل جڑ یہی ہے کہ اس نے موت کو بھلا دیا ہے جو شخص موت کو یاد رکھتا ہے وہ دنیا کی باتوں میں بہت تسلی نہیں پاتا لیکن جو شخص موت کو بھلا دیتا ہے اس کا دل سخت ہو جاتا ہے اور اس کے اندر طول امل پیدا ہو جاتا ہے وہ لمبی لمبی امیدوں کے منصوبے اپنے دل میں باندھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 243 اور 244)

حساب کے لائق شئے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’افسوس اس کو موت یاد نہیں ہے۔ موت کیا دور ہے جس کی پچاس برس کی عمر ہو چکی ہے اگر وہ زندگی پالے گا تو وہ چار برس اور پا لے گایا زیادہ سے زیادہ دس برس اور آخر مرنا ہوگا۔ موت ایک یقینی شئے ہے جس سے ہرگز ہرگز کوئی بچ نہیں سکتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ لوگ روپیہ پیسہ کے حساب میں ایسے غلطاں پیچاں رہتے ہیں کہ کچھ حد نہیں مگر عمر کا حساب کبھی بھی نہیں کرتے۔ بدبخت ہے وہ انسان جس کو عمر کے حساب کی طرف توجہ نہ ہو۔ سب سے ضروری اور حساب کے لائق جو شئے ہے وہ عمر ہی تو ہے۔ ایسا نہ ہو کہ موت آجائے اور یہ حسرت لے کر دنیا سے کوچ کر ے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 427)

عالم بقا ہی اصل جگہ ہے

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل ؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم میں سے ہر ایک نے خواہ کوئی بھی ہو دنیا کو ایک دن چھوڑنا ہے مگر پھر بھی ہم اس طرح سے چمٹے رہتے ہیں جیسے بچہ ماں سے۔ اور ہرگز الگ ہو نا نہیں چاہتے یہاں تک کہ ہم کو زبردستی اور اکثر اوقات خلاف مرضی اس سے الگ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر موت نہ ہوتی تو ہم اپنے بڈھوں کو اور ناکارہ لوگوں کو شاید اپنے ہاتھوں سے قتل کرتے یا دنیا سے تنگ آجانے کی وجہ سے خود کشیاں کرتے پھرتے دنیا کی زندگی اور اس کے دکھ آخر کار اس میں ہمارا رہنا دوبھر کر دیتے۔ پس خدا تعالیٰ کی کمال حکمت نے ہمارے لئے ایسا انتظام فرمایا کہ ہم خود ایک عمر کے بعد عالم دنیا سے اکتانے لگتے ہیں۔ لیکن چونکہ دوسرا عالم بن دیکھا ہوتا ہے اور شاید آخرت پر کامل یقین میسر نہیں ہوتا اور اپنے گناہوں کا ڈھیر سامنے نظر آتا ہے۔ اس لئیے ہم کو دوسرے جہاں کی طرف انتقال کرتے ہوئے سخت ہچکچاہٹ محسوس ہو تی ہے حالانکہ عالم بقا ہی اصل جگہ ہے۔‘‘

(مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جلد اول صفحہ 85 اور 86 یکے از مطبوعات شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی)

بے فکری کی حالت میں مزید زندگی نہیں گزارنی چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ ’’پس یقین رکھیں کہ لازماً ایک خدا ہے جس نے آپ کو پیدا کیا ہے۔ آپ کو بے فکری کی حالت میں مزید زندگی نہیں گزارنی چاہئے۔ یہ جہالت ہے، لا علمی ہے اور یاد رکھیں مرنا ضرور ہے۔ اب کون کہہ سکتا ہے کہ اگلے رمضان سے پہلے ہم سب لوگ زندہ رہیں گے۔ لازماً ہم میں سے وہ معین لوگ موجود ہیں جو اس وقت اس خطبے میں حاضر ہیں مگر بعید نہیں کہ ان کو اگلا خطبہ بھی نصیب نہ ہو، بعید نہیں کہ اگلے مہینے کے خطبے نصیب نہ ہوں یا نمازیں نصیب نہ ہوں اگلے سال کی بات تو بہت دور کی بات ہے۔ پس اس پہلو سے خدا تعالیٰ نے جو یہ توجہ دلائی شروع میں کہ تم نے مرنا ہے، پیش ہونا ہے یہ خیال آپ کو تقویت بخشے گا اور نیکی کے ارادے کرنے میں آپ کی مدد کرے گا۔ جب موت کا وقت آجائے گا پھر کچھ نہیں ہو سکے گا اور سب پر آنا ہے۔ اس لئے وہ لوگ جو دنیا کی زندگی سے خوش ہیں وہ سوچ کر تو دیکھیں کہ جب موت کا وقت آ ئے گا تو ایسی بے قراری ہو گی کہ کچھ پیش نہیں جائے گی۔ وہ چاہیں گے کہ ہم واپس ہوں تو پھر کچھ کریں لیکن اللہ تعالیٰ اس خیال کو رد فرمادے گا اور یہ ساری زندگی ہاتھ سے نکل جائے گی اور دارلجزاء آگے لامتناہی سامنے کھڑا ہوگا۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 28مارچ 1997ء صفحہ 9)

کسی نے عمر کا نسخہ نہیں لکھا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا کہ ’’یہ زندگی تو بہرحال ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ برف کے ٹکڑے کی طرح ہے خواہ اس کو کیسے ہی صندوقوں اور کپڑوں میں لپیٹ کر رکھو لیکن وہ پگھلتی ہی جاتی ہے۔‘‘ (آپؑ نے برف کے ساتھ زندگی کی یہ مثال دی کہ اسی طرح کم ہو تی جاتی ہے۔) فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح پر خواہ زندگی کے قائم رکھنے کی کچھ بھی تدبیریں کی جاویں لیکن یہ سچی بات ہے کہ وہ ختم ہو تی جاتی ہے اور روز بروز کچھ نہ کچھ فرق آتا ہی جاتا ہے۔ دنیا میں ڈاکٹر بھی ہیں طبیب بھی ہیں مگر کسی نے عمر کا نسخہ نہیں لکھا۔‘‘ (کوئی یہ نسخہ لکھ کے نہیں دے سکتا کہ ہمیشہ انسان زندہ رہے گا یا اتنی عمر ہوگی) آپ ؑ فرماتے ہیں ’’جب لوگ بڈھے ہو جاتے ہیں پھر ان کو خوش کرنے کو بعض لوگ آجاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تمہاری عمر کیا ہے؟‘‘

(تھوڑی سی عمر ہے۔ ساٹھ ستر برس کی عمر ہے۔ یہ بھی کوئی عمر ہوتی ہے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں لیکن یہ سب عارضی باتیں ہیں)

آپ ؑ فرماتے ہیں کہ ’’انسان عمر کا خواہشمند ہو کر نفس کے دھوکوں میں پھنسا رہتا ہے۔ دنیا میں عمریں دیکھتے ہیں کہ ساٹھ کے بعد تو قویٰ بلکل گداز ہونے لگتے ہیں۔ بڑا ہی خوش قسمت ہو تا ہے جو اسّی یا بیاسی تک عمر پائےاور قْویٰ بھی کسی حد تک اچھے رہیں ورنہ اکثر نیم سودائی سے ہو جاتے ہیں۔ اسےنہ تو پھر مشورہ میں داخل کرتے ہیں‘‘ (یعنی دوسرے لوگ پھر اس سے مشورہ بھی نہیں لیتے) ’’اور نہ اس میں عقل اور دماغ کی کچھ روشنی باقی رہتی ہے۔ بعض وقت ایسی عمر کے بڈھوں پر عورتیں بھی ظلم کرتی ہیں کہ کبھی کبھی روٹی دینی بھی بھول جاتے ہیں۔‘‘ (گھر والوں کا بھی بعض دفعہ بعض لوگوں سے اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ ) آپ ؑ فرماتے ہیں کہ ’’مشکل یہ ہے کہ انسان جوانی میں مست رہتا ہے اور مرنا یاد نہیں رہتا۔‘‘ (اور اسی طرح جو بااختیار انسان ہوتا ہے وہ اس کو سمجھتا ہے کہ ہمیشہ یہی حالت رہنی ہے۔) آپ ؑ فرماتے ہیں کہ ’’بْرے بْرے کام اختیار کرتا ہے اور آخر میں جب سمجھتا ہے تو پھر کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ غرض اس جوانی کی عمر کو غنیمت سمجھنا چاہیئے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ 422تا425)

حرف آخر

ہربرتھ ڈے تو محض ایک ری مائنڈر ہو تی ہے کہ اے غافل انسان ! زندگی کے حساب کا وقت، زندگی کے قرض کی ادائیگی کا وقت قریب آ تا جا رہا ہے۔ اس لئے برتھ ڈے سلیبریٹ کرنے کے لئے نہیں سوچنے کے لئے ہوتی ہے کہ
’’اے ہمارے ربّ !تُو نے اس (عالم) کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔ تْو (ایسے بےمقصد کام کرنے سے) پاک ہے۔ پس تُو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا (اور ہماری زندگی کو بے مقصد ہونے سے بچالے)‘‘ (آل عمران :192)

(خالد محمود شرما۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اگست 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 15 اگست 2020ء