• 19 مئی, 2025

درود شریف کی اہمیت و برکات

قسط اوّل

آنحضرتﷺ کے انسانیّت پر بے شمار احسانات ہیں ۔ آپ ؐخود بھی سراسر نور ہیں اور آپ کی لائی ہوئی کتاب بھی نور ہی نور ہے جس کے ذریعے آپؐ نے لوگوں کو اس طور سے اندھیروں سے نکالا کہ اُن کے آگے بھی نور چلنے لگا اور پیچھے بھی۔ آپ نے مُردوں کو جلایا اور وحشیوں کو انسان اور انسانوں کو باخدا انسان بنا دیا۔ لوگوں کی ہدایت کے لئے اس قدر تڑپتے اور رو روکردعائیں کرتے اور اپنی جان کو دُکھ میں ڈالتے کہ عرش کے خدا نے آپ کی اس حالت کو دیکھ کر فرمایا: لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّایَکُونُوْا مُؤْمِنِیْن (الشعراء: 4) یعنی شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں نہیں مومن ہوتے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ او رآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔ اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔ اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا۔ اور نہ کسی کان نے سُنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیاتھا ؟وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا۔ اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلْم وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَآلِہٖ بعد دھمہ و غمہ وحزنہ لھٰذہ الا مۃ و انزل علیہ انوار رحمتک الی الابد۔

(برکات الدعا۔ روحانی خزائن جلد6 صفحہ 10-11)

آپ کے طفیل دنیا کو ایسی پاک اور کامل تعلیم عطا کی گئی جو انسان کی ہر طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا ذریعہ ہے۔ زندگی کا کوئی ایک بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں آپ نے اس تعلیم پر خود عمل کرکے لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے کامل نمونہ نہ دکھایا ہو۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا……وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مَرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔‘‘

(اتما م الحجہ صفحہ 28)

آپؐ مخلوقِ خدا کے لئے سرا سر رحمت اور عافیت کا ایک حصار تھے۔ آپ کی اس پہلو سے بھی امتیازی شان ہے کہ جملہ انبیاء میں سے صرف آپ کو ہی رحمۃ ا للعالمین کا لقب عطا ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَمَااَ رْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء: 108) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر۔ پھر اپنے متبعین ا ور مؤمنین کے لئے آپ کے خصوصی پیار اور محبت، رأفت و شفقت اور رحم کے جذبات اور سلوک کا خدا تعالیٰ نے قرآن پاک میں یوں ذکر فرمایا ہے: لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِا الْمُؤْمِنِیْنَ رَؤْفٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ:128) ’’یقیناً تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول آیا۔ اسے بہت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو (اور ) وہ تم پر (بھلائی چاہتے ہوئے) حریص (رہتا) ہے۔ مومنوں کے لئے بے حد مہربان (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے‘‘

انسانی وہم و گمان سے بلند و بر تر شانِ مُصطفوی، آپ کے محامد اور احسانات بے حدو حساب ہیں جن سے قرآن و احادیث بھرے پڑے ہیں۔ پس وہ جو رحمۃ اللعالمین تھا اور اپنے ماننے والوں کے لئے خاص طور پر مہربان اور سراپا رحمت و شفقت تھا اور جس پر ان کا تکلیف میں پڑنا شاق گذرتا تھا اس کا حق بنتا ہے کہ ہم جو آپؐ کے ماننے والے ہیں ہم بھی شکر گزاری اور احسان مندی کے جذ بات سے معمور ہوکر آپ کے لئے سلامتی اور رحمت کی دعائیں کیا کریں۔

روایت میں آتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں آئے لیکن انسانیّت کے اس محسنِ اعظم کے بلند ترین روحانی مقام کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان سب انبیاء میں سے اللہ تعالیٰ نے صرف آپؐ پر اپنے اور فرشتوں کی طرف سے درود بھیجنے کا ذکر کر کے تمام مومنین کو ترغیب دلائی ہے کہ وہ بھی آپ پر درود بھیجا کریں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب :57) یعنی اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ر ہتے ہیں پس اے مومنو! تم بھی اس نبی پر درود بھیجتے رہا کرو اور اس کے لئے سلامتی مانگتے رہا کرو۔

مذکورہ بالا آیت سے ظاہر ہے کہ اس میں (1) اللہ تعالیٰ نے درود خوانی کو ایمان کی علامت قرار دیا ہے۔ پس ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ اپنے عمل سے اس علامت کو ظاہر کرے۔ (2) درود شریف پڑھنے سے انسان کو خدا اور فرشتوں کی ہمنوائی کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے درود خوانی کو اپنا اور اپنے ملائکہ کا فعل قرار دیا ہے۔ (3) نماز پنجگانہ کی ادائیگی ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اس کے علاوہ بھی نمازیں ہیں درود شریف کو ہر نماز کا جزو قرار دیا گیا ہے (4) جس طرح نماز کے لئے قرآن مجید میں صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے اسی طرح درود کے لئے بھی قرآن مجید میں صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے۔ پس اس نام سے بھی درود کی اہمیّت ظاہر ہے۔ لاریب حضرت محمد رسول اللہﷺ انسانیّت کے محسنِ اعظم ہیں اور ہر محسن کے احسانات کا شکر ادا کرنا واجب ہے اور درود خوانی شکر گزاری کا ایک ذریعہ ہے۔ پس اس کا پڑھنا اس لحاظ سے بھی نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ جو بندوںکا شکر ادا نہیں کرتا اس کو خدا کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق نہیں ملتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسّلام فرماتے ہیں۔
’’آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا۔ کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔ ان کی ہمت اور صدق وہ تھا۔ کہ اگر ہم اوپر یا نیچے نگاہ کریں۔ تو اس کی نظیر نہیں ملتی۔‘‘

(اخبار الحکم جلد 7 نمبر 25 پرچہ 10 جولائی 1902 ء صفحہ 2)

درود شریف کی اہمیّت اور فضیلت کے عرفان اور اس کے اجر اور برکات کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اس کے متعدد پہلوؤں کو قدرے تفصیل سے بیان کیا جائے۔ چنانچہ یہاں ذیل میں احادیث مبارکہ اور ارشادات حضرت مسیح موعودؑ کی روشنی میں ذیلی عناوین کے تحت درود خوانی کی کچھ تفا صیل بیان کی جاتی ہیں۔ و با اللّٰہ التوفیق

کونسا درود پڑھا جائے

یاد رکھنا چاہئے کہ درود وہی بابرکت ہے جس کے پڑھنے کا خود آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ حدیث شریف میں حضرت کعبؓ بیان فرماتے ہیں :
بَأَ لْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ عَلَّمَنَا کَیْفَ نُسَلِّمُ قَالَ قُوْلُوْ ا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْم وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

(صحیح بخاری کتاب الا نبیاء)

ہم لوگوں نے (ایک دفعہ )حضرت رسول کریمﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ہم آپ لوگوں یعنی آپ کے گھر کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام لوگوں پر درود کس طرح بھیجا کریں۔ سلام بھیجنے کا طریق تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے مگر درود بھیجنے کا طریق ہم نہیں جانتے۔ آپؐ نے فرمایا یوں کہا کرو۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْم وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

اے اللہ محمدﷺ پر اور محمدؐ کی آل پر درود بھیج۔ جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کی آل پر درود بھیجا ہے۔ تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ تو محمدﷺ پر اور محمد ؐ کی آل پر برکات بھیج۔ جیسا کہ تونے حضرت ابراہیم اور حضرت ابراہیم کی آل پر برکات بھیجے ہیں تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے۔

درود شریف کس طرح پڑھا جائے

حضرت مسیح موعودؑ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’درود شریف اس طور پر نہ پڑھا کریں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں۔ نہ ان کو جناب حضرت رسول اللہﷺ سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضورِتام سے اپنے رسول مقبول ؐ کے لئے برکاتِ الٰہی مانگتے ہیں۔ بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرتﷺ اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہر گز اپنا دل تجویز نہ کرسکے کہ ابتدائے زمانہ سے انتہاء تک کوئی ایسا فرد بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جواس سے ترقی کرے گا۔ اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہوسکتا ہے کہ جو کچھ محبانِ صادق آنحضرتﷺ کی محبت میں مصائب اور شدائد اٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اٹھا سکیں یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کرسکتی ہے وہ سب کچھ اٹھانے کے لئے دلی صدق سے حاضر ہو۔ اور کوئی ایسی مصیبت عقل یا قوّتِ واہمہ پیش نہ کرسکے کہ جس کے اٹھانے سے دل رک جائے اور کوئی ایسا حکم عقل پیش نہ کرسکے کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو ……پس جب اس طور پر یہ درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلا شبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گےاور حضورِتام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گر یہ و بکاساتھ شامل ہو اور یہاں تک یہ توجہ رگ اور ریشہ میں تاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہوجائے۔‘‘

(مکتوبات جلد 1صفحہ 13)

اسی طرح ایک دوسرے خط میں نصیحت کرتے ہیں:
’’آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں۔ اور جیسا کہ کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے، ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریمﷺ کے لئے برکت چاہیں۔ اور بہت ہی تضرع سے چاہیں۔ اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو۔ بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریمﷺ سے سچی دوستی اور محبت ہو۔ اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرتﷺ کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں……اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ ملول ہو۔ اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو۔ اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرتﷺ پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔‘‘

(مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 24-25)

درود شریف کا اجر

نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْراً (مسلم) یعنی جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت نازل کرتا ہے۔ پس اس بشارت سے بھی درود شریف کی فضیلت ظاہر ہے۔ یاد رہے کہ اعمال کی جزاء میں نیت کا بہت کچھ دخل ہوتا ہے نیت میں جس قدر صدق و اخلاص اور وسعت ہوگی اجر بھی اسی نسبت سے ارفع و اعلیٰ اور وسیع ہوگا۔ پس آنحضرتﷺ کے اس ارشاد کا کہ جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت بھیجتا ہے، کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہوسکتا کہ جو شخص کامل اخلاص اور کامل محبت اور کامل معرفت سے درود پڑھے گا اس کو بھی اس سے زیادہ جزاء نہیں ملے گی بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایک دفعہ درود پڑھنے کی کم از کم جزاء دس گنا ہے۔چنانچہ عبد اللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ جو شخص آنحضرتﷺ پر عمدگی سے ایک دفعہ درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ستر بار درود بھیجیں گے۔ (جلاء الا فھام بحوالہ مسند احمد بن حنبل) پس اس حدیث سے بھی ظاہر ہے کہ جزاء وسعتِ نیت پر موقوف ہے۔

حضرت عبد اللہؓ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت نبی کریمﷺ کو فرماتے سنا کہ جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی وہی الفاظ دہراؤ جو وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود بھیجو۔ جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا۔ پھر فرمایا: ’’میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو جو جنت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو ملے گا۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں گا۔ جس کسی نے بھی میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت حلال ہوجائے گی۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القول مثل قول المؤذن سمعہ ثم یصلی علی النبیﷺ)

حضرت عبدا للہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہوگا جو ان میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔

(ترمذی کتاب الصلوۃ باب ما جاء فی فضل الصلوۃ علی النبیﷺ)

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ مَامِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ اِلَّا رَدَّاللّٰہُ عَلَیَّ رُوْحِیْ اَرُدُّ عَلَیْہِ السَّلَامَ

(ابو داؤد کتاب المناسک باب زیارۃ القبور)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو شخص بھی مجھ پر سلام بھیجے گا اس کا جواب دینے کے لئے اللہ تعالیٰ میری روح کو واپس لوٹا دےگا تاکہ میں اس کے سلام کا جواب دے سکوں۔ (یعنی آنحضرتﷺ پر سلام بھیجنے والے کو اس درود کا ایسا اجر اور ثواب ملے گا جیسے خود حضورؐسلام و درود کا جواب مرحمت فرما رہے ہوں۔

درود شریف خود ہمارے لئے بھی دعا ہے

آنحضرتﷺ کا وجود باوجود بحکم وَمَااَ رْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء: 108) دنیا کے لئے سرا سر رحمت ہے اور تمام دنیا کی فلاح و بہبود آپؐ کے اغراض و مقاصد میں شامل ہے۔اس لئے آپؐ کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے دعا کرنا دراصل اپنے اغراض و مقاصد کے لئے ہی دعا کرنا ہے۔ دوسرے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کے الفاظ میں آنحضرتﷺ کے علاوہ آپ ؐ کی آل کے لئے بھی دعا کی جاتی ہے اور آل میں تمام امت شامل ہے اس لئے درود نہ صرف آنحضرتﷺ کے لئے ہی دعا ہے بلکہ خود ہمارے لئے بھی ایک دعا ہے۔ چنانچہ حضرت اُبیّ بن کعبؓ سے مروی ہے کہ میں نے ایک دفعہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ حضور کے لئے مخصوص کیا کروں؟ فرمایا جتنا چاہو۔ عرض کیا ایک چوتھائی ؟ فرمایا جتنا چاہو۔ اور اگر اس سے زیادہ کردو تو زیادہ بہتر ہوگا۔ میں نے عرض کیا نصف حصہ ؟ فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے بھی بڑھا دو تو اور بھی بہتر ہوگا۔ میں نے عرض کیا دو تہائی؟ فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے بھی زیادہ کردو تو اور بھی بہتر ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ آئندہ میں اپنی تمام دعا کو حضور کے لئے ہی مخصوص رکھا کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا اس میں تمہاری سب ضرورتیں آجائے گئی اور اللہ تعالیٰ تمہارے سارے کام درست کردےگا اور تمہاری ساری مرادیں پوری کردےگا۔(جامع ترمذی) پس اس حدیث سے بھی ظاہر ہے کہ درود شریف نہ صرف آنحضرتﷺ کے لئے دعا ہے بلکہ خودہمارےلئے بھی ایک دعاہے۔

درود شریف کے بغیر نماز ہے نہ دعا

حضرت سہیل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا جو شخص (نماز میں) خدا کے نبی پر درود نہ بھیجے اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔

(اجلاء الا فہام بحوالہ سنن نسائی)

حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تُوا پنے نبیﷺ پر درود نہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی (خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے) اوپر نہیں جاتا۔

(ترمذی کتاب الصلوۃ باب ما جا ء فی فضل الصلوۃ علی النبیﷺ)

آنحضرتﷺ تک درود کیسے پہنچتا ہے

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَ نَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ اِنَّ لِلّٰہِ مَلٰٓئِکَۃً سَیَّاحِیْنَ یُبَلِّغُوْ نَنِیْ عَنْ اُمَّتِیَ السَّلَامَ

(جلاء الا فہام ص30 بحوالہ سنن نسائی)

’’حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہےکہ اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جو زمین پر پھرتے رہتے ہیں۔ اور وہ مجھے میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔‘‘

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ حَیْثُمَا کُنْتُمْ فَصَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ۔

(جلاء ا لا فھام بحوالہ معجم کبیر طبرانی)


حضرت امام حسنؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے تم جہاں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو۔ تمہارا درود مجھے پہنچ جائے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ سے سوال کیا گیا کہ السلام علیکم یَا اَھْلَ الْقَبُوْر جو کہا جاتا ہے کیا مُردے سنتے ہیں؟ آپؑ نے جواباً فرمایا۔

’’دیکھو وہ سلام کا جواب وعلیکم السلام تو نہیں دیتے۔ خداتعالیٰ وہ سلام ان کو پہنچا دیتا ہے۔ اب ہم جو آواز سنتے ہیں۔ اس میں ہوا ایک واسطہ ہے لیکن یہ واسطہ مُردہ اور تمہارے درمیان نہیں۔ لیکن السلام علیکم میں خداتعالیٰ ملائکہ کو واسطہ بنا دیتا ہے۔ اسی طرح درود شریف ہےکہ ملائکہ آنحضرت ﷺ کو پہنچا دیتے ہیں۔‘‘

درود شریف کی تاکید، فضائل اور برکات
(بیان فرمودہ حضرت مسیح موعودؑ)
شرطِ بیعت

درود شریف کی اہمیّت کے پیش نظر حضرت مسیح موعودؑ نے اس کا ذکر اپنی دس شرائط بیعت میں بھی کیا ہے چنانچہ تیسری شرط کے الفاظ یہ ہیں: ’’یہ کہ بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریمﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا۔ اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرکے اس کی حمداورتعریف کواپنا ہر روزہ ورد بنائے گا۔‘‘

درود شریف واستغفار اور نماز بہترین وظیفہ ہے

ایک شخص نے بیعت کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور! مجھے کوئی وظیفہ بتائیں۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ ’’نمازوں کو سنوار کر پڑھو کیونکہ ساری مشکلات کی یہی کنجی ہے۔ اور اس میں ساری لذت اور خزانے بھرے ہوئے ہیں۔ صدق دل سے روزے رکھو۔ صدقہ وخیرات کرو۔ درود و استغفار پڑھا کرو۔‘‘

(الحکم جلد7۔ 28فروری 1903ء)

درود شریف دنیا وآخرت کے محمود ہونے کا ذریعہ ہے

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ایک خط بنام چوہدری رستم علی صاحبؓ میں فرمایا۔:
’’بعد سلام مسنون آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ بعض اوقات یہ عاجز بیمار ہو جاتا ہے اس لئے ارسال جواب سے قاصر رہتا ہے۔ آپ کے لئے دعا کی ہے۔ خدا تعالیٰ دنیا و آخرت محمود کرے۔ بعد نماز عشاء درود شریف بہت پڑھیں۔ اگر تین سو مرتبہ درود شریف کا ورد مقرر رکھیں تو بہتر ہے۔ اور بعد نماز صبح اگر ممکن ہوتو تین سو مرتبہ استغفار کا ورد رکھیں ۔
والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ18 ستمبر 1884ء‘‘

(مکتوبات جلد5 نمبر3 صفحہ 3)

درود شریف غموم اور پریشانیوں کے دور ہونے کا ذریعہ ہے

سیٹھ عبدا لرحمٰن صاحبؓ کے نام اپنے ایک خط میں آپؑ فرماتے ہیں:
’’عنایت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز دعا میں بدستور مشغول ہے اور ان شاء اللہ القدیر اسی طرح مشغول رہے گا جب تک آثار خیر وبرکت ظاہر ہوں۔ دیر آید درست آید۔ میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بھی اس تشویش کے وقت 21 مرتبہ کم سے کم استغفار اور 100 مرتبہ درود شریف پڑھ کر اپنے لئے دعا کرلیا کریں۔ اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت کی جائے تو زیارت رسول کریمﷺ بھی ہوجاتی ہے۔ اور تنویر باطن اور استقامت دین کے لئے بہت مؤ ثر ہے۔‘‘

(مکتوبات احمدیہ جلد 5نمبر 3 صفحہ 6-7)

حضرت شہزادہ حاجی عبد المجید خا ن صاحب لد ھیانویؓ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’جب یہ عاجز حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرچکا تو حضورؑ نے فرمایا کہ مشکلات کے وقت بعد از نماز عشاء دو رکعت نماز قضائے حاجت ادا کرکے سو دوسو دفعہ یا اس سے کم و بیش استغفار اور ایسا ہی سو دوسو دفعہ یا کم و بیش درود شریف پڑھ کر خوب دعا مانگو اللہ تعالیٰ حاجتوں کو نہیں اٹکاوے گا۔

(رسالہ درود شریف صفحہ 132)

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کی روایت ہے:
’’جب میں نے حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو حضورؑ نے مجھے درود شریف اور استغفار کثرت سے پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔‘‘ اسی طرح اور دوستوں کو بھی حضور درود شریف اور استغفار کی تاکید فرماتے ایک دوست نے کوئی وظیفہ پوچھا تو فرمایا:
’’ہمارے ہاں تو کوئی ایسا وظیفہ نہیں ہے۔ ہاں استغفار بہت کیا کریں اور حضرت نبی کریمﷺ کے احسانات کو یاد کرکے آپؐ پر کثرت سے درود بھیجا کریں۔ بس یہی وظیفہ ہے۔‘‘

حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ نے بھی آپؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ کوئی وظیفہ بتائیں تو آپؑ نے فرمایا:
’’آپ درود شریف پڑھاکریں۔‘‘

درود شریف کی برکت سے زیارت نبویﷺ

ایک دفعہ ایک صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آنحضرتﷺ کو خواب میں دیکھنے کا بہت خواہش مند ہوں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’آپ درود شریف بہت پڑھا کریں ۔‘‘

(بدر جلد 3 نمبر 14)

درود شریف سے لذت، انشراح اور حیات قلب

’’درود شریف کے پڑھنے کی مفصل کیفیت پہلے لکھ چکا ہوں…… کسی تعدادکی شرط نہیں۔ اس قدرپڑھا جائےکہ کیفیت ِصلوٰۃ سے دل مملو ہو جائے۔ اور ایک انشراح اور لذت اور حیات قلب پیدا ہوجائے۔ اور اگر کسی وقت کم پیدا ہوتب بھی بے دل نہیں ہونا چاہئے۔ سو جس قدر میسر آوے،اس کو کبریت احمر سمجھے۔ اور اس میں دل وجان سے مصروفیت اختیار کرے۔‘‘

(مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 26)

درود شریف حصول استقامت اور قبولیت دعا کا ذریعہ ہے

’’رسول اللہﷺ کی محبت کے ازدیاد اور تجدید کے لئے ہر نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہوگیا۔ تاکہ اس دعا کی قبولیت کے لئے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے۔ درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبردست ذریعہ ہے، بکثرت پڑھو۔ مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسو ل اللہﷺ کے حسن اوراحسان کو مد نظر رکھ کر اور آپؐ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپؐ کی کامیابیوں کے واسطے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا ۔‘‘

(سلسلہ کلمات طیبات حضرت امام الزمان نمبر1 حضرت اقدس کی ایک تقریر صفحہ 22 رسالہ ریویو اردو جلد 3 نمبر1 صفحہ 14-15)

٭…٭…(باقی آئندہ…٭…٭

(حیدر علی ظفر۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اگست 2020

اگلا پڑھیں

درخواست دعا