• 1 مئی, 2024

حضرت ایوب علیہ السلام اور راجہ ہریش چند جی کے واقعات کی مماثلت

’’ہندو مت کی کتب میں مذکور قصہ کے مطابق ہریش چندر کا قصہ جسے حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت ایوب علیہ السلام کے قصہ سے مشابہت دی ہے ذیل میں درج کیا جاتا ہے‘‘

ہمارے سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ظاہر ہونے والے امام مہدی کی جو علامات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یَفِیْضُ الْمَالَ حَتّٰی لَا یَقْبُلُہٗ اَحَدٌ (ابن ماجہ) یعنی وہ مال تقسیم کرے گا مگر اُسے کوئی قبول نہ کرے گا۔ ظاہر بین اس کے ظاہری معنی ٰکرتے ہیں جب کہ اس سے مراد وہ علم لدنی و حقائق و معارف ہیں جو اللہ تعالیٰ سے حاصل کر کے امام مہدی علیہ السلام بنی نوع انسان کو دیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو امام مہدی و مسیح موعود کے جلیل القدر مقام پر فائز فرمایا اور آپ نے اپنی کتب میں وہ روحانی مال تقسیم کیا ہے جس کی زمانہ کو آج سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہی وہ روحانی خزائن ہیں جن کی بدولت خدا جیسے قیمتی خزانے پر اطلاع ملتی ہے اور اس کا عرفان نصیب ہوتا ہے۔ ہر قسم کی علمی اور اخلاقی،روحانی اور جسمانی شفاء اور ترقی کا زینہ آپ کی یہی تحریرات ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معارف و حقائق کے دریا بہائے ہیں۔نیز تحقیق کے نئے نئے گوشے بیان فرمائے جن پر مستقل کتب تحریر کی جا سکتی ہیں۔ روحانی خزائن جلد23 میں شامل کتاب چشمہ معرفت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن مجید کی فضیلت اور ویدوں کا رد بیان کرتے ہوئے تاریخ اقوام سے پردہ اٹھاتے تحریر کرتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ابتدائے آفرینش سے لے کر اخیر تک نوع انسان کے زمانہ کو چار مختلف حالتوں اور مختلف زمانوں پر تقسیم کیا ہے۔

  1. پہلے اُس حالت اور اُس زمانہ کا ذکر فرمایا ہے کہ جب صرف ایک انسان معہ اپنے قلیل مقدار کنبہ کے دُنیامیں موجود تھا اور ایک وحدت قومی ان کو حاصل تھی اور ایک مذہب تھا۔
  2. دوسری اُس حالت اور اُس زمانہ کا ذکر فرمایا ہے کہ جب وہ وحدت دور ہو کر تفریق پیدا ہوگئی اور انسان کی نسل مختلف قوموں اور مختلف مذہبوں کے رنگ میں ہو کر تمام دنیا میں پھیل گئی اور وہ دنیا کے ایسے دور دور کونوں میں جا بسی کہ ایک دوسرے کے حالات سے بے خبر ہوگئی اور ایک قوم سے ہزاروں قومیں بن گئیں اور ایک مذہب سے ہزاروں مذہب نکل آئے۔
  3. تیسری اُس حالت اور اُس زمانہ کا ذکر فرمایا ہے کہ جب پھر کچھ کچھ شناسائی ایک قوم کی دوسری قوم سے ہوئی اور بہت سی مشقت سفر اُٹھا کر ملاقات کی راہ کھل گئی اور مختلف قوموں کے پھر باہمی تعلقات پیدا ہونے لگے اور ایک قوم دوسری قوم کے مذہب کو اختیار کرنے لگی مگر بہت کم۔
  4. چوتھے بطور پیشگوئی یہ بیان فرمایا ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی آتا ہے کہ جب سفر کرنے کے سامان سہل طور پر میسر آجائیں گے اور اُونٹنیوں کی سواری کی حاجت نہیں رہے گی اور سفر میں بہت آرام اور سہولت میسر آجائے گی اور ایک ایسی نئی سواری پیدا ہوجائے گی کہ ایک حصہ دُنیا کو دوسرے حصہ سے ملا دے گی اور ایک ملک کے لوگوں کو دوسرے ملک کے لوگوں سے اکٹھے کر دےگی۔ ‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ82)

امام الزمان سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر محققین کو دعوت فکر دے رہی ہے اور علوم کے نئے گوشوں کی طرف رہنمائی کر رہی ہے۔خاکسار نے اس مضمون میں مذاہب عالم میں پائے جانے والے ایک مشہور عام واقعہ کو قارئین کے لئے پیش کیا ہےتاکہ وہ بھی مزید اس پر غوروفکر کریں۔

قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر

حضرت ایوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔ قرآن میں متعدد جگہ آپ کا ذکر ہے۔ سورۃ النساء آیت 164 اور سورۃ الانعام آیت86 میں دوسرے انبیا کرام کے ناموں کے ساتھ صرف آپ کا نام مذکور ہے، حالات نہیں۔ سورۃ الانبیاء (آیت 84تا85) میں آپ کا مختصر حال بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجیدنے حضرت ایوب علیہ السلام کےصبر کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے اور لوگوں کے لئے ایک مثال اور نمونہ ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

وَ خُذۡ بِیَدِکَ ضِغۡثًا فَاضۡرِبۡ بِّہٖ وَ لَا تَحۡنَثۡ ؕ اِنَّا وَجَدۡنٰہُ صَابِرًا ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ۔

(سورۃ ص:45)

حضرت ایوبؑ کے ابتلاء و آزمائش کے اس امتحان میں کامیابی کی سند کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ ’’بے شک ہم نے ان کو صابر پایا۔‘‘ اور ایسا صابر کہ اس کی دوسری کوئی نظیر و مثال بہت کم نظر آتی ہے یہاں تک کہ صبر ایوب ضرب المثل بن گیا۔

حضرت مصلح موعودؓ کی زبانی حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر

حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر جلد5سورۃ الانبیاء کی آیت 85،84 کی تفسیر میں حضرت ایوب علیہ السلام کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’حضرت ایوب علیہ السلام جن کا ذکر اس جگہ پر آتا ہے، ان کے متعلق مختلف اقوام نے روشنی ڈالی ہے۔مسلمانوں نے، عیسائیوں نے اور اُن یہودی مؤرخوں نے جو کہ مذہب کی روشنی میں تاریخ لکھتے ہیں۔ مسلمانوں نے جو کچھ اُن کے متعلق لکھا ہے وہ یہ ہے کہ ’’ایوب کے والد کا نام اسوص تھا اُن کے والد کا نام تارح تھا اُن کے والد کا نام روم تھا۔ اُن کے والد کا نام عیص تھا۔ اور ان کے والد کانام اسحاق تھا اور اُن کے والد کا نام ابراہیمؑ تھا۔ اور اُن کی والدہ لُوط بن ہاران کی اولاد میں سے تھیں۔ (عیص نام جو غالباً ایوبؑ کے پردادا کا تھا عیسو کا مخفف ہے کیونکہ بائیبل میں لکھا ہے کہ حضرت اسحاق کے ایک بیٹے کا نام عیسو تھا) پھر مسلمان مؤرخ یہ کہتے ہیں کہ ایوبؑ بڑے مالدار تھے اور شام اور اس کے ملحقہ ملکوں کی زمینیں اُن کی ملکیت تھیں اور گائیوں اور اونٹوں، بکریوں، گھوڑوں اور گدھوں کی اُن کے پاس کوئی انتہاء نہ تھی۔ اُن کے 500ہل چلتے تھےاور 500غلام تھے۔ اہل وعیال بھی بہت تھےمگر آپ دولت کے باوجود بڑے نیک تھے اور مساکین، یتامیٰ اور بیوگان کی پرورش کرتے تھے۔ اور بڑے مہمان نواز تھے۔ شیطان اپنی کوشش کے باوجود ان کو ورغلانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ آپ پر یمن کے تین آدمی ایمان لائے تھے۔ ابلیس اُن کے زمانہ میں آسمانی خبروں کو چوری چوری سن لیتا تھا (یہ خبر ہمارے مفسرین ہر نبی کے متعلق دیتے ہیں) ایک دفعہ ایوبؑ نے بڑے اخلاص سے درود پڑھا اور فرشتوں نے اس کا جواب دیا تو شیطان نے وہ بھی سن لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایوبؑ کا درود سُن کر اس کی بڑی تعریف کی۔ اس پر ا بلیس کو حسد آگیا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ ایوبؑ پر جو آپ نے نعمتیں نازل کی ہیں اُن کی وجہ سے وہ نیک ہے۔ اگر آپ اُس کی نعمتوں کو چھین لیں تو وہ آپ کی اطاعت سے نکل جائیگا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ جا ؤتجھے اس کے مال اور اسباب پر تصرف بخشا۔ اور اس نے ان سب چیزوں کو ہلاک کر دیا مگر ایوبؑ نےتب بھی الحمد لله ہی کہا۔ تب شیطان دوباره الله تعالیٰ کے پاس آیا اور کہا ابھی اُس کی صحت تو باقی ہے اس لئے وہ شکر گزار ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ جاؤ اس کے جسم پر بھی تجھے تصرف دیا جاتا ہے ۔ لیکن یاد رکھنا اس کی زبان، دل، اور عقل پر تیرا قبضہ نہ ہو گا ۔ چنانچہ اُن کے جسم میں کھجلی کی بیماری پیدا ہوئی۔ اور جس کا رنگ تبد یل ہو گیا۔ اورزخموں میں کیڑے پڑ گئے۔ تب بستی والوں نے انہیں گھر سے نکال دیا۔ اس وقت وہ ایک جھونپڑہ میں چلے گئےجہاں ان کی ایک بیوی رحمت نامی ان کی خدمت گا رتھی۔ آپ پر ایمان لانے والے تینوں آدمیوں نے بھی آپ کو چھوڑ دیا۔ بعض کے قول کے مطابق حضرت ایوبؑ اس مصیبت میں 18 سال رہے اوربعض کے قول کے مطابق 3سال رہے اور بعض کے قول کے مطابق 7 سال رہے۔ اُس وقت کوئی اُن کے قریب تک نہ آتا تھا۔ سوائے اُن کی بیوی کے جو اُن کو کھانا لا کر دیتی۔ جب حضرت ایوبؑ خدا تعالیٰ کی حمد کرتے تو وہ بھی ان کے ساتھ شریک ہوتی تب شیطان گھبرایا اور اُس نے کہا کہ آدمؑ کی بیوی کو بھی پھسلایا گیا تھا کیوں نہ ایوبؑ کی بیوی کو بھی پھسلا یا جائے تب وہ اُن کی بیوی کے پاس آیا اور اس نے ایک بکری کا بچہ دے کر کہا کہ اگر ایوبؑ میرے نام پر اس کو ذبح کر دیں تو اچھے ہو جائیں گے ۔ بیوی نے حضرت ایوبؑ سے یہ ذکر کیاتو انہوں نے اس کو ڈانٹا اور کہا یہ تو خدا کا دشمن ہے۔ تم کیوں اس کے فریب میں آئیں۔ خدا تعالیٰ نے اتنی لمبی مدت تک نعمتیں دی تھیں اگر چند سال مشکلات کے آگئے تو کیا ہوا ۔ پھر قسم کھائی کہ اگر الله تعالیٰ نے شفادی تو وہ بیوی کو اُس کی غلطی پر سو کوڑے لگائیں گے اور بیوی کو گھر سے نکال دیں گے اور کہا کہ میں اللہ کے سوا کسی کے نام پر جانورذبح کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پھر آپ نے دعا کی کہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :اے ایو ب! میں نے تیری دعاسُن لی ۔اُٹھ اور زمین پر پاؤں مار تو چشمہ پھوٹ پڑا۔ آپ نے اس سے غسل کیا تو ساری بیماری جاتی رہی ۔ اور جوانی کا زمانہ عود کر آیا۔

آپ نےایک دفعہ پھر پاؤں ما را تو ایک اور چشمہ پھوٹ پڑا اس سے آپ نے پانی پیا تو سب اندرونی بیماریاں جاتی رہیں ۔اس وقت اُن کی بیوی کو خیال آیا کہ گوایوبؑ نے مجھے میری غلطی پر نکال دیا ہے مگر وہ بھوکے مر جائیں گے۔ وہ اُن کو ڈھونڈتی ہوئی آئی مگر آپ کو اپنی جگہ پر نہ پایا۔ وہ روتے روتے سب جگہ ڈھونڈنے لگی آخر کار وہ ان کو مل گئے۔ اور حضرت ایوبؑ نے اس طرح قسم پوری کی کہ سوتیلیاں اکٹھی لیکر اُن کو ماریں۔

(تفسیر خازن)

یہ واقعہ لوگوں کو اتنا دلچسپ نظر آیا ہے کہ ہندوؤں کی تاریخ میں بھی پایا جاتا ہے اور یہودیوں کی تاریخ میں بھی پایا جاتا ہے ۔گو بعض جگہ نام بدل د ئیے گئے ہیں۔ بائبل میں حضرت ایوبؑ کی ایک مستقل کتاب ہے جس کے 42 باب ہیں ۔ اور اس کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ وہ حضرت مسیح سے 1520سال پہلے گزرے ہیں ۔ یعنی حضرت مو سیٰؑ کے قریباً 200 سال پہلے۔

مغربی محققین کے نزدیک حضرت ایوبؑ ایک غیر اسرائیلی نبی تھے۔ کیونکہ و ہ عیسو کی نسل میں سے تھے جو کہ اسرائیل کا بڑا بھائی تھا۔ اور عوض کے رہنے والے تھے۔ جو دورِ آخر کے Sidon شہر تھا اور شام اور خلیج عقبہ کے درمیان واقع تھا۔

(جیوش انسائیکلو پیڈیا اور انسائیکلو پیڈیاآف اسلام)

مگر میرے نزدیک یہ بات درست نہیں ۔ کیونکہ اس ملک کے لوگوں کی بنی اسرائیل سے سخت عداوت تھی اور اس کی وجہ بھی کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو اپنے علاقہ میں سے گزر کر کنعان نہ جانے دیا تھا اور اس عداوت کے سبب سے بنی اسرائیل ہمیشہ اُن سے جنگ کرتے رہتے تھے۔ اور صرف ایک قلیل عرصہ کے لئے اسیر ان لوگوں کے حملوں کے مقابلہ میں اِن دونوں قوموں کی آپس میں صلح ہوئی تھی۔ ایسے دشمن قبیلہ کے بزرگ کا واقعہ سب دنیا کے واقعات کو چھوڑ کر بائیبل میں درج کرنا خلاف قیاس ہے۔

محققین اس امر پرمتفق ہیں کہ ایو بؑ کی کتاب میں جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ نویں سے چوتھی صدی قبل مسیح کی زبان ہے اور اس زمانہ میں یہودی بخت النصر کے ہاتھوں قید ہو کر ہند کے قریب کے علاقوں میں پھیلائے جا چکے تھے ۔ ادھر ہندوؤں میں ایک واقعہ ہریش چندر کے نام سے مشہور ہے۔ جو اس واقعہ سے بہت پیچھے مِلتا جُلتا ہے ۔ پس کچھ تعجب نہیں کہ یہ وہیں سے لیا گیا ہو۔ اس کا ثبوت خود ایوب کی کتاب سے بھی ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ شیطان خدا کے دربار میں حاضر ہوا۔ اب یہ خیال کہ شیطان خدا کے دربار میں جاتا ہے یہود اور اُن کے اردگرد کی اقوام کا نہیں بلکہ خالص ہندوستانی خیال ہے جو بُری اور اچھی روحوں کو خدا تعالیٰ کے دربار میں حاضر کرتے ہیں اور اُن کی آپس میں خوب باتیں ہوتی رہتی ہیں۔

بہر حال پُرانے عہد نامہ میں کتاب ایوب باب1 میں لکھا ہے کہ عوض کی سر زمین میں ایک شخص ایوب نامی تھا ۔ وہ نہایت نیک اور متقی تھا۔ اس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ اس کے پاس 7000 بھیڑ یں 13000 اونٹ 500 جوڑے بیل اور 500 گدھیاں تھیں ۔ اس کے نوکر چاکر بہت تھے اور اس کے برابر مشرق میں کوئی مالدار نہ تھا۔ اس کے بیٹے بڑے مالدار تھے ۔ ایوب کے بیٹے جب جوان ہوئے تو ان کی طرف سے قربانیاں کیں تا کہ اگر ان کا کوئی گناہ ہو تو معاف ہو جائے۔ ایک دن خدا کے حضور میں فرشتے پیش ہوئے اور ان میں شیطان بھی شامل ہو گیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو۔ اور کیا میرے بند ے ایوب کو دیکھا ہے۔ اس نے کہا اِدھر اُدھر سے پھر کے آیا ہوں اور ایوب کو میں نے دیکھا۔ کہ خدا ترسی کرتا ہے مگر مفت میں نہیں بلکہ اس لئے کہ تو نے اس پر بڑی نعمتیں نازل کی ہیں۔ تو ذرا اس کی نعمتیں لے لے پھردیکھ کہ وہ تجھ پر ملامت کرتا ہے یا نہیں۔

اس پر خدا تعالیٰ نے کہا کہ اس کے مال کو جس طرح چاہے تباہ کر دے مگر اُس کے جسم پر ہاتھ نہ بڑھائیو۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ دشمنوں نے اس کے نوکروں پر حملہ کر دیا۔ اور ان کوقتل کر دیا۔ اسی طرح آسمان سے بجلی گری اور اس نے ان کے نوکر چاکر اور مال و اسباب کو جلا دیا ۔ پھر کسی نے اطلاع دی کہ ان کے بیٹوں کو غلام بنا کردشمن لے گئے ہیں ۔ اس پر ایوبؑ نے اپنا پیرا ہن چاک کیا اور رونے لگا اور سجدہ کیا اور کہا کہ میں جس طرح ماں کے پیٹ سے ننگا آیا اسی طرح ننگا ہی جاؤ ں گا مگر ان سب مصائب کے با وجود ایوب نے خدا پر الزام نہ لگا یا۔ (باب 2) اس کے بعد پھر ایک دن فرشتوں میں مل کر شیطان خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوا اور خدا تعالیٰ کے پوچھنے پرکہ تو نے ایوب کا حال دیکھا کہ وہ کیسا شکر گزار ہے ۔ شیطان نے کہا انسان اپنے جسم کے لئے بھی سب مال قربان کر دیتا ہے۔ تو اس کے جسم اور ہڈی کو نقصان پہنچا پھر دیکھ اس کا شکر کہاں باقی رہتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے شیطان کو کہا کہ بے شک اس کی جسمانی صحت کو نقصان پہنچادے مگراس کی جان نہ جائے۔ تب شیطان نے اس کی جلد میں ایک بیماری پیدا کر دی اور سر سے لے کر تلووں تک پھوڑے نکل آئے۔ تب اس کی بیوی نے کہا اب یہ شکر گزاری چھوڑ۔ خدا کو ملامت کر اور مرجا۔ ایوب نے بات نہ مانی اور کہا یہ کس طر ح ہوسکتا ہے کہ ہم اس کی نعمتیں لیں اوردیں کچھ نہ۔ اس کے تینوں مرید دور دور کے علاقوں سےآئے اور اُس کی حالتِ زار دیکھ کر رونے لگ گئے۔ (باب 3) تب ایو ب نے یہ دیکھ کر کہ اس کو بدی کی طرف پھر انے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اپنی پیدائش پرلعنت کی۔ (باب 4) اور اُس کے ایک مرید نے اس کو کہا کہ عذاب تو خدا کے دشمنوں پر آیا کرتا ہے۔نیکیوں پر نہیں اس لئے ضرور تیرے اندر کوئی بدی ہے۔ (باب5) تب ایوب نے کہا،سزا کے وقت انسان کو چاہئے کہ اپنے آپ کو خدا پر چھوڑ دے۔ (باب 6) تب ایوب دعا کرتا ہےکہ اللہ تعالیٰ مجھ پر موت نازل کرے تو بہتر ہے (باب7) بعد میں ایوب پچھتاتا ہے ۔ اور اس پر عذر کرتا ہے کہ میں نے کیوں موت کی تمنا کی ۔(باب 8) اُن کا ایک مرید بلدَ وْ نامی بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ نافرمانوں کو سزاد یتاہے۔ (باب9) پھر لکھا ہےایوبؑ نے اپنے معترضین کو جواب دیا کہ میں نہ اپنے آپ کو نیک کہتا ہوں اور نہ یہ کہتاہوں کہ خدا عا دل نہیں ۔خدا عادل ضرور ہے مگر موت اور ہلاکت توہرایک پر آرہی ہےلیکن اصل بات یہ ہے کہ جب وہ بے گناہ کو سزا دے رہا ہوتا ہے تو وہ اس کا امتحان کر رہا ہوتا ہے ۔ پھر اس نے کہا کہ زمین پر شریرحاکم ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ میری عمر تیز تیز گزر رہی ہے۔ میرا یہ کہنا کہ میں پوری طرح صبر کروں گا بے فائدہ ہے۔کیونکہ تم لوگ تو پھر بھی مجھے گناہ گارقرار دو گے۔ کیونکہ تمہارا یقین ہے کہ خدا تعالیٰ صرف شریر کو سزا دیتا ہے اور میرایہ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ بے گناہ کوبھی تکلیف میں ڈالتا ہے کہ آزمائش کرے۔(باب 10) آخر میں ایّوب کاقصہ بائیبل نے اس طرح ختم کیا ہے کہ اس کے شاگرد جو اُس سے کج بحثی کرتے تھے،اللہ تعالیٰ نے اُن پر الہام کیا کہ بیل اور بکرے ایوب کے پاس لاؤ اور اپنے گناہوں کی معافی کے لئے اس سے سوختی قربانی کرواؤ۔ اس کے بعدلکھا ہے کہ اُس کے دوست کےبچے بیویاں سب واپس آگئے۔ دولت اُس کی دوگنی ہوگئی اور بڑی لمبی عمر تک زندہ رہا۔

جیسا کہ او پرلکھا جا چکا ہےکہ ایوب سے ملتا جلتا قصہ ہندوستان میں بھی پایا جاتا ہے۔ ہندوؤں میں اس شخص کا نام جس کے ساتھ یہ واقعہ گزرا ہریش چندلکھا ہے۔ واقعہ قریباً ایوبؑ جیسا ہے کیونکہ اس کے متعلق بھی لکھا ہے کہ دیوتاؤں کے ساتھ شیطان مل کر خدا کے پاس گیا اور اس سے ہریش چندر کی تعریف سن کر خدا سے اجازت لی کہ میں اس کا مال تباہ کر دوں ۔ مگر ہریش چندر اپنے سچ اور دیانت پر قائم رہا۔ کئی تجربے ہوئے مگر وہ نہ پھسلا۔ بائیبل میں اشارہ ملتا ہے کہ ایوبؑ کا واقعہ ہندوستان سے آیا ہے اور ایوبؑ غالباً اس کے نام کا ترجمہ ہے یا استعارۃً رکھا گیا ہے۔ وہ اشارہ جو ہریش چندر کے متعلق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ بائیبل میں لکھا ہے کہ وہ اتنامالدار تھا کہ اہل مشرق میں ویسا کوئی مالدارنہ تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ مشرقی یعنی ہندوستان سے آیا تھا اور بائیل نے اس قصے کو اپنے اندر درج کرلیا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ549 تا 553 سورۃالانبیآ زیر آیت نمبر 84،85)

حضرت مصلح موعودؓ کی اس تحقیق کے مطابق حضرت ایوب علیہ السلام سے ملتا جلتا قصہ ہندوستان میں بھی پایا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ واقعہ بائبل میں مشرقی یعنی ہندوستان سے آیا تھا۔

حضرت ایوب علیہ السلام کے ہندوستان سے تعلق کے حوالہ سے دانشور تحقیق کر رہے ہیں۔ اس بارے میں ایک حوالہ پیش ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کا بھی تعلق ہندوستان سے تھا اس سلسلہ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’… کننگھمنے اجودھیا میں ان تودوں کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ منٰی اور کبیر پر بتوں کے درمیان مسلمانوں کا ایک مذہبی مقام ہے جو مشرق سے مغرب تک 64 فٹ ہے اور 47 فٹ چوڑا ہے اور اس میں دو مزار ہیں جنہیں حضرت شیثؑ اور حضرت ایوبؑ سے منسوب کیا جاتا ہے۔‘‘

(مسلم انڈیا ( اردو ) اپریل 1988صفحہ 15بحوالہ کتاب ’’اگر اب بھی نہ جاگے تو‘‘ مصنفہ شمس نو ید عثمانی صفحہ 57،56)

ہندوؤں میں حضرت ایوب علیہ السلام سے ملتاجلتا قصہ

حضرت مصلح موعودؓ نے ہندوؤں میں حضرت ایوبؑ کے مشابہ جس قصہ کا ذکر کیا ہے، وہ راجہ ہریش چندر کا قصہ ہے۔ جوشری رام چندر بگی کے آباء و اجداد میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اور ان کا صبر ضرب المثل ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ تاریخ عالم میں مختلف ناموں کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت مصلح موعود ؑفرماتے ہیں کہ:
’’یہ واقعہ لوگوں کو اتنا دلچسپ نظر آیا ہے کہ ہندوؤں کی تاریخ میں بھی پایا جاتا ہے اور یہودیوں کی تاریخ میں بھی۔ گو بعض جگہ نام بدل دئیے گئے ہیں۔‘‘

راجہ ہریش چندر کا یہ قصہ پُرانوں میں ملتا ہے۔ پُران کئی کتب کا مجموعہ ہیں۔ مارکنڈیہ پُران (markandeya purana) میں یہ قصہ درج ہے۔

پُرانوں کا مختصر تعارف

پُرانوں کی اہمیت و تعارف کے حوالہ سے مشہورا دیب گوپی چند نارنگ اپنی کتاب پُرانوں کی کہانیاں میں تحریر کرتے ہیں کہ:
’’پُران ہند وستانی دیو مالا اور اساطیر کے قدیم ترین مجموعے ہیں۔ ہندوستانی ذہن و مزاج کی، آر یائی اور دراوڑی عقائد اور نظریات کے ادغام کی، اور قدیم ترین قبل تاریخ زمانے کی جیسی تر جمانی پُرانوں کے ذریعےسے ممکن نہیں۔ یہ الہامی کتابوں سے بھی زیاد ہ مقبول اور ہر دل عزیز ہیں۔ مشہور رزمیہ نظموں رامائن اور مہا بھارت کو بھی لوک کتھاؤں کے مآخذ کے اعتبار سے اسی زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان میں اس برصغیر میں نسل انسانی کے ارتقا کی داستان اور اس کے اجتماعی لا شعور کے اولین نقوش کچھ اس طرح محفوظ ہو گئے ہیں کہ ان کو جانے اور سمجھے بغیر ہندوستان کی روح کی گہرائیوں تک پہنچنا مشکل ہے۔

تاریخی اعتبار سے پُران ہندو مذہب کے ارتقا کی اس منزل کی ترجمانی کرتے ہیں، جب بدھ مت سے مقابلے کے لئے ہندو مذہب تجدید اور احیا کے دور سے گزر رہا تھا۔ اس سے پہلے ویدوں کی رسوم پرستی اور برہمنیت کے خلاف ردعمل کے طور پر بدھ مت اپنی سادگی، معاشرتی عدل اور عملی روح کی وجہ سے قبول عام حاصل کر چکا تھا۔ لیکن بدھ مت میں خدا کا تصور نہیں تھا۔ اپنشدوں کابرہمہ (مصدرہستی) کا تصور بھی انتہائی تجریدی اور فلسفیانہ ہونے کی وجہ سے عوام کی دسترس سے باہر تھا۔ ہندو مذہب نے اس کمی کو اوتاروں کے آسانی سے دل نشین ہونے والے عقیدے سے پورا کیا اور رام اور کرشن جیسے مثالی کرداروں کو پیش کر کے عوام کے دلوں کوکھینچنا شروع کردیا۔ یہ ا نہیں کی شخصیت کا فیض تھا کہ ہندو مذہب کو پھر سے فروغ حاصل ہوا۔ پُران اسی دورتجد ید کی یادگار ہیں اور انہوں نے ایک بار پھر مذہب کو عوام کے دل کی دھڑ کنوں کا رازدار بنایا۔

(پُرانوں کی کہانیاں مرتبہ گوپی چند نارنگ مطبوعہ نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیانئی دہلی صفحہ9 و 109)

راجہ ہریش چندر کی کہانی اور آزمائش

پُرانے زمانے کی بات ہے اجو دھیا میں راجا ہریش چندر راج کرتے تھے۔ وہ سچ بولتے، خیرات دینے اور اپنی رعایا کا خیال رکھنے میں مشہور تھے۔ ان کے راج میں کوئی بھوکا ننگا نہیں تھا اور تمام رعایاسکھ چین سے رہتی تھی۔ ایک دن دیوتاؤں کی محفل میں بڑےبڑے رشی منی جمع تھے۔ اِندرنے پوچھا، آج کل سب سے نیک نام راجا کون ہے؟

وششٹھ جی نے کہا اس وقت روئے زمین پر ہریش چند رجیسا دان کرنے اورسچ بولنے والا راجا نہیں ۔وششٹھ جی کی تائید ناردمنی اورکئی دوسرے منیوں نے بھی کی مگر وشوامتر خاموش بیٹھے رہے۔ ان میں اور وششٹھ میں کچھ لگتی تھی۔کہنے لگے ؛میں ہریش چندر کو خوب جانتا ہوں ،وہ نہ ہی تو دان دے سکتا ہے، نہ سچائی کی کسوٹی ہی پر پورا اُتر سکتا ہے۔ یقین نہ ہو تو امتحان کر کے دیکھ لو۔

چنانچہ وشوامتر نے راجا ہریش چندر کو نیچا دکھانے کی ترکیب سوچی۔ ایک دن شکار کھیلتے کھیلتے ہریش چندر ایک گھنے جنگل میں اکیلے جا نکلے۔وشوامتر نے برہمن بھیس بدلا اور وہاں پہنچ گئے۔ کہنے لگے ’’مہاراج یہاں پاس ہی بڑا پوتر تیرتھ ہے، اشنان کر کے دان کیجئے۔ میں آپ کو ایودھیا کا راستہ بھی بتا دوں گا۔‘‘

اشنان سے فارغ ہونے کے بعدہریش چندر نے پوچھا ’’برہمن دیوتا جس چیز کی ضرورت ہو مانگ لیجئے۔‘‘

برہمن نے کہا ’’میرے بیٹے کی شادی ہے۔کچھ روپیہ مل جائے تو بڑی عنایت ہو۔‘‘

برہمن نے ہریش چندر کو اپنے بیٹے اور بہو سے ملایا اور راجا کی موجودگی میں شادی کی رسم ادا کر دی۔ ہریش چندر دیدی میں بیٹھے تھے۔ جب دان کا وقت آیا تو انہوں نے کہا ’’آپ جو چاہیں مانگ لیں۔‘‘

اس پر برہمن نے کہا ’’مہاراج اگر آپ میرے بیٹے کو اپنا پورا راج دان کر دیں تو ہم آپ کا احسان کبھی نہیں بھول سکیں گے۔‘‘

ہریش چندر نے بغیر تامل کے اس کا اقرار کر لیا۔ تب بر ہمن نے کہا ’’مہاراج! آپ جیسا سخی راجا اس روئے زمین پر دوسرا نہیں ۔منہ مانگا دان تو آپ نے دے دیا اس کی دکھشنا بھی تو دیجئے ۔جتنا بڑا دان آپ نے دیا ہے، دکھشنا بھی اتنی بڑی ہونی چاہئے، دکھشنا کے بغیر تو دان بیکار ہے۔‘‘

راجانے پوچھا ’’مہربانی کر کے بتائیے کتنی دکھشنا ہوگی۔‘‘

وشوامتر نے کہا ’’ڈھائی من سونا کافی ہے۔‘‘ راجا نے سر جھکا کر وعدہ کر لیا۔

یہ سب راج پاٹ آپ کو سونپ رہا ہوں۔ میں آج ہی کہیں اور چلا جاؤں گا۔ یہ راج چھوڑنے کے بعد میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ حیران ہوں کہ آپ کوڈھائی من سونا کہاں سے دوں۔

اتنے میں راجا کے سپاہی انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتےجنگل آنکلے۔ برہمن غائب ہو گیا۔ اب راجا کو دھیان آیا کہ میں نے تو سارا راج پاٹ دان دے دیا۔ ضرور اس برہن کے سوال کے پیچھے کوئی گہری بات ہے محل پہنچنے پر راجا کو پریشان دیکھ کر رانی شو یا نے وجہ پوچھی۔ راجا نے ساری بات بتادی۔ سوچتے سوچتے اور کروٹیں بدلتے بدلتے ساری رات گزرگئی۔ صبح پوجا پاٹھ کر کے اٹھے ہی تھے کہ وشوا مترا سی برہمن کے بھیس میں پھر آ پہنچا۔

راجا نے کہا ’’یہ سب راج پاٹ آپ کو سونپ رہا ہوں۔ میں آ ج ہی کہیں اور چلا جاؤں گا۔ یہ راج چھوڑنے کے بعد میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ حیران ہوں کہ آپ کو ڈھائی من سونا کہاں سے دوں۔ تھوڑی سی مہلت دیجئے۔ جیسے ہی انتظام ہو جائے گا میں دکھشنا بھی دے دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر ہریش چندر، رانی شو یا اور بیٹے روہتاس کے ساتھ محل سے باہر آئے۔ لوگوں کو راجا کے جانے کا بہت دکھ ہوا لیکن وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ اب ہریش چندر گاؤں گاؤں شہر شہر بھٹکنے لگے۔ جب بر ہمن کا اسرار بڑھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بنارس جا کر خود کو بیچ دیں گے اور اس طرح جو کچھ بھی ملے گا ، بر ہمن کی دکھشنا دیں گے ۔ اس پر رانی نے روتے ہوئے کہا:
’’میں آپ کو اپنا آپ کبھی نہ بیچنے دوں گی۔ میں ہزار بار قربان ہونے کو تیار ہوں۔ کیوں نہ آپ مجھے کسی امیر کے ہاتھ بیچ دیں، گھر کے کام کاج کے لئے داسی کی ضرورت سبھی کو ہوتی ہے۔‘‘

رانی کی بات سن کر ہریش چندر غش کھا کر گر پڑے۔ جب ہوش میں آئے تو زار زار رونے لگے اور کہنے لگے: ’’رانی میرے جیتے جی ایسا نہ ہوگا۔‘‘

کل کے راجا اور رانی اب بھکاریوں کی طرح مارے مارے پھرنے لگے ۔ ان کا بیٹا روہتاس بھی کئی دنوں کا بھوکا پیاسا تھا۔ اس بےچارے کو کیا پتا کہ اس کے والدین پر کیا مصیبت ٹوٹی ہے۔ اگلے دن وشوامتر پھر آنکلے۔ کافی دیر بحث و تکرار ہوتی رہی۔ آخر ان کے کہنے پر راجا ہریش چندر نے کہا: اچھا تو ایسا ہی سہی۔ اپنے وعدے کو نبھانے کے لیے وہ کام بھی کروں گا جو ذلیل سے ذلیل آدمی بھی نہیں کر سکتا۔

چنانچہ وہ بنارس کے سب سے بارونق چوراہے پر جا کھڑےہوئے اور رُندھے ہوئے گلے سے اونچی آواز میں کہنے لگے: ’’لوگو! میں اپنی جان سے بھی پیاری بیوی بیچ رہا ہوں۔ گھر کے کام کے لئے جس کو داسی کی ضرورت ہو،جلدی سے اس کے دام لگائے۔ اس مصیبت میں میری جان نکلنے سے پہلے سودا طے کرلو۔‘‘

آپ اس بچے کو بھی خرید لیجئے نہیں تو میرا خریدنا بھی بےکار ہے۔میں اس کی ماں ہوں اس کے بغیر نہیں جی سکتی۔

وشوامتراب ایک بوڑھے شخص کے بھیس میں نمودار ہوئے اور رانی کو چند سونے کی مہروں کے بدلے خرید لیا۔ جب بوڑھا رانی کو گھسیٹ کر لے جانے لگا تو رانی نے کہا ’’مجھے ایک بار اپنے پیارے بیٹے کو گلے لگا لینے دو۔ کون جانے پھر اسے دیکھ بھی سکوں گی یا نہیں۔‘‘

بیٹا ماں سے لپٹ گیا۔جب بوڑھے نے دیکھا کہ بیٹا ماں کو چھوڑتا ہی نہیں، تو اس معصوم بچے کے منہ پر طمانچہ جڑ دیا اورکھینچ کر ماں سے الگ کر دیا۔ ماں کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ رانی نے بوڑھے سے کہا ’’آپ اس بچے کوبھی خرید لیجئے نہیں تو میرا خریدنا بھی بے کار ہے۔ میں اس کی ماں ہوں، اس کے بغیر نہیں جی سکتی۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ یہ میری آنکھوں کے سامنے رہے گا تو میں آپ کی سیوا اچھی طرح کر سکوں گی۔‘‘

بوڑھے نے بچے کو بھی خرید لیا۔ رانی نے ہریش چندر کو پرنام کیا اور آنسو بہاتی ہوئی بولی ’’اے بھگوان! اگر میں نے کبھی غریبوں اور محتاجوں کی بھی مدد کی ہو، اگر میں نے دنیا میں کوئی بھی نیک کام کیا ہو یا اگر میں نے برہمنوں کی کچھ بھی خدمت کی ہو تو میرا پتی مجھے واپس مل جائے۔‘‘

ہریش چندر اپنی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ ان کے ہاتھ پاؤں جواب دے گئے۔ درخت کی چھاؤں اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جاتی، پھر رانی انہیں چھوڑ کر کیسے چلی گئی۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ کیا ہورہا ہے، یا انہیں کن بُرے کرموں کا پھل مل رہا ہے۔ انہیں راج پاٹ اور جلا وطنی کا ذرا بھی افسوس نہ تھا لیکن بیوی اور بچے کی جدائی کو وہ کیسے برداشت کریں گے؟ نہیں وہ منظر کبھی بھی نہیں بھولتا تھا جب رخصت ہوتے وقت رانی اور بچہ مڑ مڑ کر ہریش چندر کی طرف دیکھتے تھے اور بوڑھا انہیں کوڑے مار مار کر آگے کی طرف گھسیٹتا تھا۔

تھوڑی دیر میں بر ہمن اپنی دکھشنا لینے پہنچ گیا۔ ہریش چندر نے اس کے پاؤں چھوئے اور جو مہر یں بیوی اور بچے کے بیچنے سے ملی تھیں، اسے دے دیں۔ وشوا متر نے کہا ’’پہلے یہ بتاؤ کہ یہ مہریں تم نے کیسے حاصل کیں۔ کیا تمہاری کمائی کی ہیں؟

ہریش چندر بولے ’’یہ معلوم کر کے آپ کیا کریں گے۔ ان کی کہانی بہت دردناک ہے۔ میں نے اپنی بیوی اور بچے کوبیچ کر یہ مہریں حاصل کی ہیں ۔ آپ انہیں قبول کیجئے۔‘‘

سورج غروب ہونے سے پہلے ہریش چندر اپنے آپ کوبیچنے کے لئے چوک میں پہنچ گئے اور اپنی بولی لگوانے لگے۔

لیکن وشوامتر اتنی مہروں سے خوش نہ ہوئے اور بولے: ’’یہ تو بہت کم ہیں۔ مجھے پورا روپیہ چاہئے اور آج سورج غروب ہونے سے پہلے چاہئے۔ میں اور انتظار نہیں کر سکتا نہیں دے سکتے تو صاف صاف منع کر دو‘‘

ہریش چندر بولے ’’مہاراج دوں گا اور ضرور دوں گا۔ تھوڑ اسا وقت اور دیجئے۔‘‘

چنانچہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہریش چندر اپنے آپ کو بیچنے کے لیے چوک میں پہنچ گئے اور اپنی بولی لگوانے لگے۔ کچھ دیر میں دھرم راج۔ چنڈال کے بھیس میں وہاں پہنچا کالا رنگ، بڑےبڑے باہر نکلے ہوئے پیلے دانت، بھیانک شکل سارے جسم سے بد بو آرہی تھی۔ چنڈال نے کہا: ’’مجھے ایک خدمت گار کی ضرورت ہے۔ میں چنڈال ہوں۔ میرا کام مردے کا کفن لینا ہے۔ یہی تمہیں بھی کرنا ہو گا۔ بولو منظور ہے؟‘‘

ہریش چندر پہلے ہی دکھوں کی مارسے بے حال ہو رہے تھے۔ بھیانک چنڈال کو دیکھ کر ان کی روح تک لرز گئی لیکن کوئی اور خریدار بھی نہیں تھا اور سورج بھی ڈوبنے والا تھا۔ ہریش چندر نے ذرا سی دیر کے لئے سوچا کہ میں سورج بنسی کھتری خاندان سے ہوں، چنڈال کی غلامی کیسے کروں گا ؟لیکن وعدہ خلافی سے تو چنڈال کی غلامی ہی اچھی۔ اتنے میں وشوامتر آپہنچے۔ ہریش چندر نے چنڈال کے سامنے سر جھکا دیا اور روپیہ لے کر وشوامتر کے قدموں میں رکھ دیا۔

چنڈال نے شمشان کا کام ہریش چندر کو سونپ دیا اور کہا ’’خبردار جوشمشان میں بغیر کفن کے کوئی بھی مردہ جلنے دیا۔ دن رات یہیں رہنا ہو گا۔ ذرا بھی غلطی کی ،تو کھال کھینچ لوں گا۔‘‘

کاشی کا یہ شمشان بہت خوفناک تھا۔ گنگا کنارے ہونے کی وجہ سے دور دور کے مرنے والوں کی لاشیں یہاں لائی جاتی تھیں۔ ہریش چندر ہر وقت وہیں لٹھ لئے چکر لگاتے رہتے۔ نہ دن کو چین تھا نہ رات کو آرام۔

ادھر ایک اور مصیبت ٹوٹی۔ ایک دن روہتاس اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیلنے کے بعد گھر واپس آرہا تھا کہ اچانک اسے ایک کالے ناگ نے ڈس لیا۔ بچوں نے آکر اس کی موت کی خبر اس کی ماں کو سنائی۔ وہ بیہوش ہو کر گر پڑی۔ ہوش آنے پر اس نے مالک سے اپنے بیٹے کی لاش لینے کی اجازت مانگی تو اس نے کہا، پہلے گھر کا کام کاج ختم کر لو، پھر جا کر لاش کو دیکھ لینا۔

جب کافی رات گئے شویا اکیلی اپنے بیٹے کی لاش کے پاس پہنچی اور زور زور سے بین کرنے لگی تو لوگوں نے سمجھا کہ یہ کوئی بچے مارنے والی ڈائن ہے۔ لوگ اُسے گھسیٹتے ہوئے چنڈال کے پاس لے گئے اور کہا کہ اس بچے کو مار کر کھانے والی ڈائن کو قتل کر دیا جائے۔ چنڈال نے رسی باندھ کر شویا کو خوب پیٹا پھر ہریش چند کو بلا کر حکم دیا کہ ’’تلوار سے اس کا سر اڑا دو۔‘‘

ہریش چندر ایک عورت کے قتل کاکلنک اپنے ماتھے پر نہیں لینا چاہتے تھے، انہوں نے کہا ’’یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکے گا۔‘‘

چنڈال نےکہا ’’ڈرو مت تلوار نکالو اور اس کا سرالگ کردو۔ یہ پاپ نہیں پُن ہے۔‘‘

رات کے اندھیرے میں نہ ہریش چندر نے شویا کو پہچانا اور نہ شویا نے ہریش چندر کو۔ جب شویا نے نجات کی کوئی صورت نہ دیکھی تو بولی: ’’میرے ہاتھوں میں میرے ہی بیٹے کی لاش ہے۔ پہلے مجھے اسے جلا لینے دو پھر شوق سے مجھے مار ڈالنا۔‘‘

اب بھی دونوں ایک دوسرے کو نہ پہچان سکے ۔ لیکن جب شویا نے روتے روتے روہتاس کا نام لیا تو ہریش چندر پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ رو ہتاس کی لاش کو سینےسے لگا کر زور زور سے رونے لگے۔ لمحے بھر کو شو یا اپنے بیٹے کا صدمہ بھول گئی لیکن ہریش چندر کو چنڈال کا کام کرتے دیکھ کر اس کا کلیجہ پھٹ گیا۔ ’’اے بھگوان! جو کچھ میں دیکھ رہی ہوں وہ خواب ہے یا حقیقت؟ اگر حقیقت ہے تو دنیا میں دھرم کرم اور نیک کاموں کاپھل کیا ہے؟

اب بچے کی لاش جلانے کے لئے ہر یش چندر نے کہا کہ چنڈال کاحکم ہے کہ بغیرکفن لئے کسی کو بھی مردہ نہ جلانے دیا جائے تمہیں بھی کہیں نہ کہیں کفن لانا ہوگا۔ شویانے کہا ’’سوامی اگر آپ چنڈال کے داس ہیں تو میں بھی کسی کی داسی ہوں ۔ بیٹا جیسا میرا ہے ویسا ہی آپ کا بھی ہے۔ اس لاش کو جلانا آپ کا فرض ہے ۔ میں کفن نہیں دے سکتی ۔یہ آپ کو معلوم ہے۔‘‘

ہریش چندر کا دل غم سے پھٹا جارہا تھا۔ جس دھرم کو بچانے کے لئے انہوں نے اتنی مصیبتیں اٹھائی تھیں ، وہی دھرم ان کے راستے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ کچھ بھی کرو کہیں سے بھی لادو میں کفن لیے بغیر لاش نہیں جلانے دوں گا۔

تب رانی نے اپنی دھوتی کا آدھا حصہ پھاڑ کر کفن کے طور پر دے دیا اور باقی حصے سے جیسے تیسے اپنے بدن کو ڈھانپ لیا۔ جب چتا جلنے کوتھی توشو یا نے کہا ’’اب آپ چاہیں تو اپنے مالک کے حکم کے مطابق میری گردن اڑاد یں۔‘‘

ہریش چندر کی قوت برداشت جواب دے رہی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے نہ ہو گا۔ میں بھی اسی چتا میں کود کر خوشی کر لوں گا۔ ’’یہ کہتے ہوئے چتا میں کودنے کے لیے آگے بڑھے۔

اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ آسمان سے پھولوں کی بارش ہونے لگی اور سبھی بڑے بڑے دیو تا دھرتی پر اُتر آئے۔ دھرم راج بو لے ’’مبارک ہو ہریش چندر رام تم ہر آزمائش میں پورے اُترے۔ فرض کی ادائیگی اور سچائی میں تم سے کوئی بازی نہیں لے جاسکتا۔‘‘ اِندر نے کہا: ’’ہریش چندر، سچ کو نہ چھوڑنے سے تم نے تینوں دنیاؤں پر فتح پالی۔‘‘

ایودھیا لوٹ آنے کے بعد پھر سے راجا ہریش چندر کے نام کاڈ نکا بجنے لگا اور وہ اپنی رعایا کے دلوں پر راج کرنے لگے۔

(پُرانوں کی کہانیاں ، مرتبہ گوپی چند نارنگ نیشنل بک ٹرسٹ انڈیانئی دہلی صفحہ 127 تا138)

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اقوام عالم کے متعلق جس حقیقت کو آج سے ایک صدی قبل چشمہ معرفت میں بیان فرمایا تھا ۔ قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کر نے پر وہ حقیقت مزید عیاں ہو رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس باب میں مز ید تحقیق کر کے ان قوموں تک اسلام اور احمدیت کا حقیقی پیغام پہنچایا جائے۔

٭…٭…٭

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔قادیان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

سکول جانے والے بچوں کے لئے Coronavirus کی دوائیں