• 29 اپریل, 2024

صبر کا مفہوم و مطلب صبر و استقلال کے چندواقعات او راقتباسات

صبر کا مفہوم و مطلب صبر و استقلال کے چندواقعات او راقتباسات
’’صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نِکلتا جو صبر سے نِکلتا ہے‘‘

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں حضرت لقمان ؑکی اپنے بیٹے کو کی گئی نصائح کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ (سورۃ لقمان :18) یعنی اُس مصیبت پر صبر کر جو تجھے پہنچے۔ یقیناً یہ بہت اہم باتوں میں سے ہے۔ اس آیت مبارکہ میں صبر کو اختیار کرنا ایک بہت اہم کا م قرار دیا گیا ہے۔ اِسی طرح اور بھی کئی آیات میں خداتعالیٰ نے اس اہم کام کا ذکر مختلف انداز میں کیا ہے۔ کبھی کہا ہےکہ یہ بہت بو جھل ہے سوائے عا جزی اختیار کرنے والوں پر جیسا کہ فرمایا: وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ (سورۃ البقرہ:46) کبھی اس کو اختیار کرنے اور اس کی تلقین کرنے کا حکم صادر فرماتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا (اٰل عمران:201) یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر کرو اور صبر کی تلقین کرو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی پاکﷺ کو یہاں تک فرمایا کہ تم سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیا تھا یہاں تک کہ انہوں نے خداتعالیٰ کی مدد آنے تک صبر کیا جیسا کہ سورۃ الانعام آیت 35 میں آتا ہے: وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلىٰ مَا كُذِّبُوْا وَأُوْذُوْا حَتّىٰ أَتَاهُمْ نَصْرُنَا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن پر سلامتی بھی بھیجی ہے جنہوں نے صبر کیا اور اچھے انجام کی بھی خوشخبری دی ہے جیسا کہ فرمایا: سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ بِمَا صَبَرۡتُمۡ فَنِعۡمَ عُقۡبَی الدَّارِِ (الرعد:25) جنت میں اچھے گھروں کا وعدہ بھی اللہ تعالیٰ نے اُن کے ساتھ کیا ہے جن کے اندر یہ صفت پائی جائے گی جیسا کہ فرمایا وَجَزاهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّحَرِيْرًا (الدھر:13) اور اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا (الفرقان آیت:76) یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اس باعث کہ انہوں نے صبر کیا، بالا خانے بطور جزا دیئے جائیں گے اور وہاں ان کا خیر مقدم کیا جائے گا اور سلام پہنچائے جائیں گے۔ پھر صبر کرنے والوں کو دہرا اجر دینے کا بھی اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: اُولٰٓئِکَ یُؤۡتَوۡنَ اَجۡرَہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ بِمَا صَبَرُوۡا (القصص:55)

صبر کا مفہوم و مطلب

حضرت مصلح موعود ؓ صبرکا مفہوم و مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’صبر کے اصل معنے رُکنے کے ہیں۔ اس لئے محققین لُغت نے لکھا ہے کہ اَلصَّبْرُ صَبْرَانِ صَبْرٌ عَلٰی مَا تَھْوِیْ وَ صَبْرٌ عَلٰی مَا تَکْرَہُ۔ یعنی صبر کی دو قسمیں ہیں۔ جس چیز کی انسان کو خواہش ہو اُس سے باز رہنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ اور جس چیز کو ناپسند کرتا ہو لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے وہ آجائے۔ اس پر شکوہ نہ کرنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ صبر اصل میں تین قسم کا ہوتا ہے۔(۱) پہلا صبر تو یہ ہے کہ انسان جزع فزع سے بچے۔جیسے قرآن کریم میں آتا ہے وَاصْبِرْ عَلٰی مَآاَصَابَکَ (لقمان آیت۱۸) تجھے جو کچھ تکلیف پہنچے تو اسپر تُوصبر سے کام لے۔ یعنی جزع فزع نہ کر۔ (۲) دوسرے نیک باتوں پر اپنے آپ کو روک رکھنا۔ یعنی نیکی کو مضبوط پکڑ لینا۔ اِن معنوں میں یہ الفاظ اس آیت میں استعمال ہؤاہے: فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِمًا اَوْکَفُوْرًا (سورۃ الدہر آیت۲۵) یعنی ا پنے ربّ کے حکم پر قائم رہ اور انسانوں میں سے گنہگار اور ناشکرگزار کی اطاعت نہ کر۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جسقدر احکام قربِ الٰہی کے حصول کے لئے دئیے گئے ہیں اُن پر استقلال سے قائم رہنا اور اپنے قدم کو پیچھے نہ ہٹانا بھی صبر کہلاتا ہے‘‘۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ 283۔284)

’’صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نِکلتا جو صبر سے نِکلتا ہے‘‘

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صبر کے ہتھیار کو سب سے افضل قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہماری جماعت کے لیے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرت ﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست، رشتہ داراور برادری الگ ہو جاتی ہےیہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اوربھائی بہن بھی دشمن ہو جاتے ہیں۔ السلّام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء اور رسل سے زیادہ نہیں ہو۔ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خداتعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقعہ ملے۔ دعاؤں میں لگے رہو۔پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء ورُسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیارکرو۔ تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ دوست جو تمہیں قبولِ حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچّا دوست نہیں ہے۔ ورنہ چاہیے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا۔ تمہیں چاہیےکہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کر لی ہےاُن سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ اُن کے لیے غائبانہ دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اُس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کرکے دکھاؤکہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو مَیں اس امر کے لیے مامُور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سُن کر بھی صبر کرو۔بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کِھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش سے مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسد انہ طریق ہو۔ جس سے سُننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا، تو خود اُسے شرم آ جاتی ہے۔ اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نِکلتا جو صبر سے نِکلتا ہے۔ صبر ہی ہے جودلوں کو فتح کر لیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 156، 157۔ایڈیشن 1988ء)

صبر اختیار کرنے کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی نصائح

حضرت حسنؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہنے والا قطرہ ٔخون اور رات کے وقت تہجد میں خشیت باری تعالیٰ کے نتیجے میں آنکھ سے ٹپکنے والے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ اور نہ ہی اللہ کو کوئی گھونٹ غم کے اس گھونٹ سے زیادہ پسند ہے جو انسان صبر کرکے پیتا ہے اور اسی طرح اللہ کو غصے کے گھونٹ سے زیادہ کوئی گھونٹ پسند نہیں جو غصہ دبانے کے نتیجہ میں وہ پیتا ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ جلد7صفحہ88)

حضرت کبشہ انماریؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین چیزوں کے بارے میں، مَیں قسم کھا کے بتا تا ہوں کہ انہیں اچھی طرح یاد رکھو، صدقہ بندے کے مال میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرتا۔ جب بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے اور عزت بخشتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ صدقہ دو کیونکہ صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہوتا ہے اور جب کسی پہ ظلم کیا جائے اور وہ صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت بخشتا ہے اور تیسری بات یہ کہ جس نے سوال کرنے کا دروازہ کھولا اللہ تعالیٰ اس کے لئے فقر اور محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

(ترمذی کتاب الزھد باب مثل الدنیا مثلُ اربعۃ نَفَرٍ)

حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے دنیا میں اپنی بھوک مٹا لی، قیامت کے دن یہ اس کی امیدوں کے درمیان روک ہو گی۔ اور جس نے حالت فقر میں اہل ثروت کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا وہ رسوا ہو گا اور جس نے حالت فقرمیں صبر سے کام لیا اللہ تعالیٰ اسے جنت فردوس میں جہاں وہ شخص چاہے گا اسے ٹھہرائے گا۔

(مجمع الزوائد جلد10 صفحہ248)

یحيٰ بن وثَّاب روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مسلمان جو لوگوں سے ملتا جلتا رہتا ہے اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرتا ہے، اُس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ تو لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرتا ہے۔

(سنن ترمذی۔ کتاب القیامۃ والرقائق)

حضرت صہیبؓ بن سنان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں۔ یہ فضل صرف مومن کے لئے مختص ہے۔ اگر اس کو کوئی خوشی و مسرت و فراخی نصیب ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے۔ اور اس کی شکر گزاری اس کے لئے مزید خیر و برکت کا موجب بنتی ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی دُکھ اور رنج، تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے۔ اور اس کا یہ طرزِ عمل بھی اس کے لئے خیر و برکت کا ہی باعث بن جاتا ہے۔

(مسلم۔ کتاب الزھد۔ باب المومن اَمرُہٗ کلّہ خیر)

حضرت علیؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ایمان میں صبر کی حیثیت ایسی ہے جیسے کہ جسم میں سر کی۔ جب صبر نہ رہا تو ایمان بھی نہ رہا۔

(کنزالعمال۔ الکتاب الثالث فی الاخلاق۔ قسم الافعال۔ باب الصبر وفضلہ)

حضرت امّ شریکؓ کے صبر اور استقلال کی داستان اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ حضرت امّ شریکؓ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’حضرت امّ شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب اسلام قبول کیا تو قریش کی عورتوں کو مخفی طور پر اسلام کی تبلیغ کرنے لگیں۔ قریش کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم تجھے تیرے قبیلے کے پاس لے جائیں گے۔ پھر انہوں نے حضرت امّ شریک کو اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کیا اور کہتی ہیں تین دن تک نہ مجھے پانی پینے کو دیا اور نہ ہی کھانے کو دیا تو آپ کی یہ حالت ہو گئی کہ حواس برقرار نہ رہے۔ پھر وہ لوگ ایک جگہ اترے۔ خود تو وہ لوگ سائے دار جگہ میں بیٹھے اور اُن کو دھوپ میں باندھ دیا۔ حضرت امّ شریکؓ فرماتی ہیں کہ اسی حالت میں مَیں نے ایک پانی کا برتن دیکھا۔ مَیں اس میں سے تھوڑا سا پانی پیتی تو وہ مجھ سے دورہو جاتا۔ پھر مَیں اس کو پکڑ کر کچھ پیتی پھر وہ مجھ سے دور ہو جاتا اور یہ کافی دفعہ ہوتا رہا یہاں تک کہ مَیں سیر ہو گئی۔ اچھی طرح پانی پی کے تسلی ہو گئی۔ حضرت امّ شریکؓ نے باقی ماندہ پانی اپنے جسم پر اور کپڑوں پر پھینک لیا۔ جب وہ لوگ اٹھے اور انہوں نے پانی کے آثار اور آپ کی اچھی حالت دیکھی تو انہوں نے یہ کہا کہ تُو نے رسّیاں وغیرہ کھول کر ہمارے پانی میں سے پیا ہے۔ حضرت امّ شریکؓ نے جواباً انہیں کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! مَیں نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ آپ نے سارا واقعہ ان لوگوں کو سنایا تو اس پر انہوں نے کہا کہ اگر تو ایسا ہے جیسا تو بیان کرتی ہے تو تمہارا دین سچا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے پانی کے مشکیزوں میں دیکھا تو وہاں اتنا پانی تھا جتنا انہوں نے چھوڑا تھا۔ اسی بات پر وہ لوگ اسلام بھی لے آئے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ۔ جلد 8۔ کتاب النساء ’’فیمن عرف الکنیۃ من النساء حرف الشین ’’ام شریک‘‘ صفحہ418-417۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ 2005ء) تو یہ بھی ایک عجیب نظارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صبر کا اجر اسی وقت دیا۔ تین دن کی بھوک پیاس کو اپنے اس پیار کے انداز میں مٹایا اور خود انتظام فرما دیا‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ نومبر 2010ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10دسمبر 2010 صفحہ7)

حضرت ابوبکر صدیقؓ کا بے مثال صبر و استقلال

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب مسلمان آزمائش میں ڈالے گئے تو حضرت ابوبکرؓ بھی مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکل پڑے۔ جب آپ بَرْکُ الْغِمَاد کے مقام پر پہنچے تو آپ کو قارہ قبیلے کا سردار ابن الدغنہ ملا۔ اس نے پوچھا کہ اے ابوبکر! آپ کا کہاں کا ارادہ ہے؟ اس پر ابوبکر نے کہا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ اس لئے اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ اللہ کی زمین میں کہیں نکل جاؤں اور آزاد ہو کر اپنے رب کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ تمہارے جیسے شخص کو نہ تو خود مکہ سے نکلنا چاہئے اور نہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ نکالیں۔ تم بھولی ہوئی نیکیوں پر عمل کرنے والے ہو اور رحمی رشتے داروں سے حسنِ سلوک کرتے ہو اور بے بسوں کے بوجھ اٹھاتے ہو اور مہمان نوازی کرتے ہو اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہو۔ پس میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ واپس لوٹ جاؤ اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کرو۔ حضرت ابوبکرؓ واپس آ گئے۔ ابن الدغنہ بھی آپ کے ساتھ ہی ہو لیا۔ رات کے وقت قریش کے رؤساء کے پاس جا کر ابن الدغنہ نے کہا۔ ابوبکر جیسے لوگ نہ تو خودنکلتے ہیں اور نہ ہی انہیں نکالا جاتا ہے۔ کیا تم ایسی اعلیٰ اور نیک صفات والے شخص کو نکالتے ہو؟ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ کا انکار نہ کیا۔ انہوں نے اسے کہا کہ ابوبکرؓ کو کہہ دو کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کر لیا کرے اور وہاں نماز ادا کر لیا کرے اور جو چاہے پڑھ لیا کرے لیکن اس کے ذریعہ سے ہمیں تکلیف نہ پہنچائے اور نہ اس کا اظہار اونچی آواز سے کرے۔ کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو فتنے میں نہ ڈال دے۔ ابن الدغنہ نے یہ سب باتیں حضرت ابوبکرؓ کو بتائیں تو آپ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرنے لگے۔ اور نماز کے وقت آواز اونچی نہ رکھتے اور اپنے گھر کے سوا کہیں اور قرآن نہ پڑھتے۔ پھر آپ کے ذہن میں ایک خیال آیا اور آپ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد تعمیر کی جہاں آپ نماز ادا کرتے تھے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے تھے۔ اس وقت مشرکین کی عورتیں اور ان کے بچے جھانکتے اور حضرت ابوبکرؓ کو دیکھتے تو بہت زیادہ متأثر ہوتے۔ حضرت ابوبکرؓ بہت زیادہ رونے والے تھے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے وقت اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھتے تھے۔ ان کے آنسو بہنے شروع ہو جاتے تھے۔ قریش کے رؤساء اس بات سے بہت زیادہ گھبرا گئے۔ تو انہوں نے اپنا ایک پیغامبر ابن الدغنہ کی طرف بھیجا۔ جب وہ آیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس شرط پر ابوبکرؓ کو تمہاری پناہ میں رہنے دیا تھا کہ وہ اپنے گھر میں اپنے ربّ کی عبادت کرے گا۔ لیکن اس نے اس سے تجاوز کیا ہے اور اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد تعمیر کر لی ہے اور بلند آواز سے وہاں نماز ادا کرتے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ اور ہمیں اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو آزمائش میں نہ ڈال دے۔ پس تو ان سے پوچھ کہ وہ کیا تمہاری پناہ سے انکار کرتا ہے۔ کیونکہ ہم نے تو اس بات کو ناپسند کیا کہ ہم تجھ سے بدعہدی کریں اور نہ ہی ہم ابوبکر ؓ کو علی الاعلان عبادت کی اجازت دے سکتے ہیں۔ (حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ) ابن الدغنہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا (اور کہا) جس بات کا مَیں نے آپ سے معاہدہ کیا تھا یا اس پر قائم رہو یا میری ذمہ داری مجھے سونپ دو۔ کیونکہ یہ مجھے گوارا نہیں کہ عرب کے لوگ یہ بات سنیں کہ میرے ساتھ اس شخص کی وجہ سے بدعہدی کی گئی ہے جس کے ساتھ مَیں نے معاہدہ کیا ہوا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ مَیں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں اور اللہ بزرگ و برتر کی امان کو پسند کرتا ہوں۔

(تلخیص از بخاری۔ کتاب مناقب الانصار۔ باب ھجرۃالنبیؐ واصحابہ الی المدینۃ…الخ)

اس کے بعد قریش نے حضرت ابوبکرؓ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں مگر وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ قائم رہے۔ روایت میں آتا ہے کہ کفار نے حضرت ابوبکرؓ کو بہت مارا پیٹا۔ آپ کے سر اور داڑھی سے پکڑ کر اس قدر آپ کو کھینچا جاتا تھا کہ آپ کے اکثر بال گِر گئے۔ تو یہ ظلم روا رکھا گیا لیکن آپ نے صبر کیا‘‘۔

(السیرۃ الحلبیۃ۔ جلد 1باب استخفاء ہؐ واصحابہ فی دارالارقم بن ابی ارقم صفحہ41۔ دارالکتب العلمیۃ۔ بیروت۔ 2002ء)
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ نومبر 2010ء۔ مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 10دسمبر 2010 صفحہ6تا7)

نبی کریمﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کا بے نظیر صبر و استقامت

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی کریم ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کا فقید المثال صبرکو اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں خود سبقت کر کے ہرگز تلوار نہیں اٹھائی۔ بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اٹھایا۔ اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اٹھاؤ اور صبر کرو۔ ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا۔ وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دَم نہ مارا۔ ان کے بچے ان کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے۔ وہ آگ اور پانی کے ذریعے سے عذاب دئیے گئے مگر وہ شر کے مقابلے سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خوار بچے ہیں۔ کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تمام نبیوں کی امتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرتِ انتقام ہونے کے خدا کا حکم سن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوتِ بازو اور طاقتِ مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خون خوار دشمن کی ایذاء اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سید و مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانے میں بھی آپ کے جانثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے۔ اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبرد آزما کو شکست دے دی۔ ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اُس کا باعث کوئی بزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو تیار ہو گئے تھے۔ بے شک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی امت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاقِ فاضلہ نہیں پاتے اور اگر پہلوں میں سے کسی کے صبر کا قصہ بھی ہم سنتے ہیں تو فی الفور دل میں گزرتا ہے کہ قرائن اس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ اس صبر کا موجب دراصل بزدلی اور عدمِ قدرت انتقام ہو۔ مگر یہ بات کہ ایک گروہ جو درحقیقت سپاہیانہ ہنر اپنے اندر رکھتا ہو۔ اور بہادر اور قوی دل کا مالک ہو اور پھر وہ دُکھ دیا جائے اور اس کے بچے قتل کئے جائیں اور اس کو نیزوں سے زخمی کیا جائے مگر پھر بھی وہ بدی کا مقابلہ نہ کرے۔ یہ وہ مردانہ صفت ہے جو کامل طور پر یعنی تیرہ برس برابر ہمارے نبی کریم اور آپ کے صحابہؓ سے ظہور میں آئی ہے۔ اس قسم کا صبر جس میں ہر دم سخت بلاؤں کا سامنا تھا جس کا سلسلہ تیرہ برس کی دراز مدت تک لمبا تھا درحقیقت بے نظیر ہے۔ اور اگر کسی کو اس میں شک ہو تو ہمیں بتلاوے کہ گزشتہ راستبازوں میں سے اس قسم کے صبر کی نظیر کہاں ہے؟ اور اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس قدر ظلم جو صحابہ پر کیا گیا ایسے ظلم کے وقت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے کوئی تدبیر بچنے کی ان کو نہیں بتلائی بلکہ بار بار یہی کہا کہ ان تمام دکھوں پر صبر کرو اور اگر کسی نے مقابلہ کے لئے کچھ عرض کیا تو اس کو روک دیا اور فرمایا کہ مجھے صبر کا حکم ہے۔ غرض ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبر کی تاکید فرماتے رہے جب تک کہ آسمان سے حکمِ مقابلہ آ گیا۔ اب اس قسم کے صبر کی نظیر تم تمام اول اور آخر کے لوگوں میں تلاش کرو پھر اگر ممکن ہو تو اس کا نمونہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے یا حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے دستیاب کر کے ہمیں بتلاؤ‘‘۔

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد۔ روحانی خزائن جلد17، صفحہ 11-10)

صبر ایک ایسا خلق ہے، اگر کسی میں پیدا ہو جائے ۔۔ ۔ایک انقلاب آ جاتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’صبر ایک ایسا خلق ہے، اگر کسی میں پیدا ہو جائے یعنی اس طرح پیدا ہو جائے جو اس کا حق ہے تو انسان کی ذاتی زندگی بھی اور جماعتی زندگی میں بھی ایک انقلاب آ جاتا ہے۔ اور انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ صبرکرنے کا حق کس طرح ادا ہو؟ اس کو آزمانے کے لئے ہر روز انسان کو کوئی نہ کوئی موقع ملتا رہتا ہے، کوئی نہ کوئی موقع پیدا ہوتا رہتا ہے کوئی نہ کوئی دکھ، مصیبت، تکلیف، رنج یا غم کسی نہ کسی طرح انسان کو پہنچتا رہتا ہے، چاہے وہ معمولی یا چھوٹا سا ہی ہو۔ تو اس آیت میں فرمایا کہ جب کوئی ایسا موقع پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو تمہیں اس دکھ، تکلیف، پریشانی یا اس مشکل سے نکال سکتی ہے اس لئے اس کے سامنے جھکو، اس سے دعا مانگو کہ وہ تمہاری تکلیف اور پریشانی دور فرمائے لیکن دعا بھی تب ہی قبولیت کا درجہ پاتی ہے جب کسی قسم کا بھی شکوہ یا شکایت زبان پر نہ ہو اور لوگوں کے سامنے اس کا اظہار کبھی نہ ہو بلکہ ہمیشہ صبر کا مظاہرہ ہو اور ہمیشہ صبر دکھاتے رہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو اور اس سے عرض کرو کہ اے اللہ! میں تیرے سامنے سر رکھتا ہوں، تیرے سامنے جھکتا ہوں، تجھ سے ہی اپنی اس پریشانی اور تکلیف اور مشکل کو دور کرنے کی التجا کرتا ہوں۔ میں نے کسی اور کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا۔ یہ تکلیف یا پریشانی جو مجھے آئی ہے میری کسی غلطی کی وجہ سے آئی ہے یا میرے امتحان کے لئے آئی ہے میں اس کی وجہ سے تیرا نافرمان نہیں ہوتا، نہ ہونا چاہتا ہوں، اس کو دور کرنے کے لئے میں کبھی بھی غیراللہ کے سامنے نہیں جھکتا۔ بلکہ صبر سے اس کو برداشت تو کر رہا ہوں لیکن تجھ سے اے میرے پیارے خدا! میں التجا کرتا ہوں کہ مجھے اس سے نجات دے اور ساتھ ہی یہ بھی التجا کرتا ہوں کہ اس امتحان میں، اس ابتلاء میں مجھے اپنے حضور میں ہی جھکائے رکھنا کبھی کسی غیراللہ کے درپر جانے کی غلطی مجھ سے نہ ہو۔ اور یہ صبر اور یہ تیر ے در پہ جھکنا اے اللہ! تیرے فضل سے ہی ہو سکتا ہے اور اے اللہ! کبھی اپنے نافرمانوں میں سے مجھے نہ بنانا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ رویّہ تمہارا ہو گا اور اس فکر اور کوشش سے تم میرے در پر آؤ گے تو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پھر ایسے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ایسے ایسے راستوں سے اس کی مدد کرتا ہے جہاں تک انسان کی سوچ بھی نہیں جا سکتی‘‘۔

(خطبہ جمعہ 13؍ فروری 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹر نیشل 27فروری 2004، صفحہ3)

’’غصے پر قابو رکھنا چاہئے اور صبر کرنا چاہئے۔ کیونکہ خدا کو یہی پسند ہے‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز صبرکو اختیار کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تو ان لوگوں کے لئے جو ذرا ذرا سی بات پر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کے لئے انذار بھی ہے کہ اگر تم بے صبری کا مظاہرہ کرو گے، جزع فزع کرو گے تو اپنی خطائیں معاف کروانے کے موقع کو ضائع کر رہے ہو گے۔ دوسری طرف صبر کرنے والوں کے لئے کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ ہلکی سی بھی تکلیف پر صبر کرنے والے کے صبر کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا، بغیر اجر دئیے نہیں جانے دیتا۔ اور خطائیں اور غلطیاں معاف فرماتا ہے۔ بعض لوگ بعض دفعہ کسی سے کوئی معمولی سی بات سن کر جھگڑے شروع کر دیتے ہیں۔ بعض دفعہ اس طرح بھی شکایات آ جاتی ہیں کہ اجلاسوں میں بیٹھے ہوئے توُتوُ مَیں مَیں اور پھر لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور اس اجلاس کے ماحول کے تقدس کو بھی خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ حوصلہ اور صبر ذرا بھی نہیں ہوتا جبکہ مومن کے لئے بڑا سخت حکم ہے کہ صبر دکھاؤ، حوصلہ دکھاؤ، پھر ہمسائے ہیں، ہمسائے نے اگر کوئی بات کہہ دی تو اس سے ذرا سی بات پر لڑائی شروع ہوگئی۔ یہاں سے اینٹ اٹھا کے وہاں کیوں رکھ دی، وہاں کوئی پتھر کیوں رکھ دیا گیٹ کیوں کھلا رہ گیا۔ کار کیوں میرے گھر کے گیٹ کے سامنے آ گئی۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو لڑائی جھگڑے پیدا کر رہی ہوتی ہیں اور دونوں ہمسائے پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے، لڑنے کے مختلف حیلے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اور انتہائی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مکان کی دیوار بنائی ہے۔ تمہاری دیوار میری زمین میں چند انچ سے بھی زائد آ گئی ہے۔ خالی کر و، یا تمہارے درخت کے پتے میرے گھر میں گرتے ہیں اس درخت کو وہاں سے کاٹو تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے قضاء میں مقدمے بھی چل رہے ہوتے ہیں۔ جو میں باتیں کررہا ہوں یہ عملاً ایسا ہوتا ہے۔ شرم آتی ہے ایسی باتیں سن کر اور یہ باتیں پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں نہیں ہوتیں بلکہ اس طرح ہر جگہ ہو رہا ہے، یہاں بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے بعض دفعہ لڑائی جھگڑے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمسائے کو کچھ تعمیر نہیں کرنے دے رہے ہوتے حالانکہ دوسرے ہمسائے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ذرا ذرا سی بات پہ شکایتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ تو احمدی کا یہ فرض ہے کہ اگر کوئی ایسی حرکت کرتا بھی ہے تو اس کو معاف کرنا چاہئے۔ اور غصے پر قابو رکھنا چاہئے اور صبر کرنا چاہئے۔ کیونکہ خدا کو یہی پسند ہے‘‘۔

(خطبہ جمعہ 13؍ فروری 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹر نیشل 27فروری 2004، صفحہ4)

’’آپؐ نے صحابہ ؓ کو صبر ہی کی تعلیم دی ۔ آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اس جماعت میں جب داخل ہوئے ہو تو اُس کی تعلیم پر عمل کرو۔ اگر تکالیف نہ پہنچیں تو پھر ثواب کیونکر ہو۔ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تیرہ (13) برس تک دکھ اٹھائے۔ تم لوگوں کو اس زمانے کی تکالیف کی خبر نہیں اور نہ وہ تم کو پہنچیں ہیں۔ مگر آپؐ نے صحابہ ؓ کو صبر ہی کی تعلیم دی ۔ آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے۔ ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے۔اﷲ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے۔ اب اس وقت یہ لوگ تمہیں تھوڑے دیکھ کر دکھ دیتے ہیں مگر جب یہ جماعت کثیر ہو جائے گی تو یہ سب خود ہی چپ ہو جائیں گے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ دکھ نہ دیتے اور دکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے مگر خدا تعالیٰ اُن کے ذریعہ سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔ تھوڑی مدت صبر کے بعد دیکھو گے کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جو شخص دکھ دیتا ہے یا تو توبہ کر لیتا ہے یا فنا ہو جاتا ہے۔ کئی خط اس طرح کے آتے ہیں کہ ہم گالیاں دیتے تھے اور ثواب جانتے تھے لیکن اب توبہ کرتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں۔ صبر بھی ایک عبادت ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں ہے۔ یعنی اُن پر بے حساب انعام ہوں گے۔ یہ اجر صرف صابروں کے واسطے ہے۔ دوسری عبادت کے واسطے اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں ہے۔ جب ایک شخص ایک کی حمایت میں زندگی بسر کرتا ہے تو جب اسے دکھ پر دکھ پہنچتا ہے تو آخر حمایت کرنے والے کو غیرت آتی ہے اور وہ دکھ دینے والے کو تباہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح ہماری جماعت خدا تعالیٰ کی حمایت میں ہے اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہوجاتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 544-543۔ ایڈیشن 1988)

’’مانگنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگا کرو۔ کبھی اس طرح دعا نہ مانگو کہ مَیں صبر مانگتاہوں‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’حدیثوں میں مختلف صورتوں میں اور مختلف موقعوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ اور ساتھ یہ بھی کہ اگر صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا قرب پاؤ گے، میری جنتوں کے وارث ٹھہرو گے لیکن جب دعا کرنے کے طریقے اور سلیقے سکھائے تو یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے صبر مانگو بلکہ فرمایا کہ مجھ سے میرا فضل مانگو اور ہمیشہ ابتلاؤں سے بچنے کی دعا مانگو۔ اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے۔

ترمذی میں روایت ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دعا کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے تیری نعمت کی انتہا کا طلب گار ہوں۔ آپؐ نے اس سے فرمایا: نعمت کی انتہاء سے کیا مراد ہے؟ اس شخص نے جواب دیا: میری اس سے مراد ایک دعا ہے جو میں نے کی ہوئی ہے اور جس کے ذریعے میں خیر کا امیدوار ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: نعمت کی ایک انتہاء یہ ہے کہ جنت میں داخلہ نصیب ہو جائے اور آگ سے نجات عطا ہو۔ اسی طرح آپؐ نے ایک اور شخص کی دعا سنی جو کہہ رہا تھا: یٰٓا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام تو آپ ؐ نے فرمایا: تمہاری دعا قبول ہو گئی۔ اب مانگ جو مانگنا ہے۔ تو اس طرح اللہ کا واسطہ دے کر مانگا جا رہا ہے۔ اسی طرح آپؐ نے ایک اور شخص کو سنا جو دعا کر رہا تھا۔ اے میرے اللہ ! میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے اللہ تعالیٰ سے ابتلاء مانگا ہے۔ (صبر مانگنے کا مطلب یہی ہے کہ ابتلاء مانگا ہے) یعنی کوئی ابتلاء آئے گا تو صبر کرو گے۔ خدا سے عافیت کی دعا کرو۔ (ترمذی کتاب الدعوات)۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: اگر مانگنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگا کرو۔ کبھی اس طرح دعا نہ مانگو کہ مَیں صبر مانگتاہوں۔ یہ تو بعض ذاتی معاملات کے بارے میں بتایا۔ اب جماعتی ابتلاء ہے، مخالفین کی طرف سے جماعت پر مختلف وقتوں میں آتے رہتے ہیں۔ ان میں بھی ہر احمدی کو ثابت قدم رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہیئے۔ ہمیشہ صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنی چاہیئے، پاکستان میں تو یہ حالات تقریباً جب سے پاکستان بنا ہے احمدیوں کے ساتھ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ احمدیوں نے صبر اور حوصلے سے ان کو برداشت کیا ہے۔ اور کبھی اپنے ملک سے وفا میں کمی نہیں آنے دی، یا اس وجہ سے ایک قدم بھی وفا میں پیچھے نہیں ہٹے۔ اور جب بھی ملک کو ضرورت پڑی،سب سے پہلے احمدیوں کی گردنیں کٹیں۔ اور گردن کٹوانے کے لئے سب سے پہلے یہی آگے ہوئے۔ اور آئندہ بھی ملک کو ضرورت پڑے گی تو احمدی ہی صف اول میں شمار ہوں گے۔‘‘ ان شاء اللہ تعالیٰ

(خطبہ جمعہ 13؍ فروری 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27فروری 2004ء، صفحہ5تا6)

(مرسلہ: جاوید اقبال ناصر مربی سلسلہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کے ساتھ استہزاء اور …

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 دسمبر 2020