کُشتوں پہ اگر آن کے تُو اپنے کھڑا ہو
اک شورِ قیامت تیری آمد سے بَپا ہو
معشوق کا برتاؤ ہو عاشِق سے تو کیا ہو؟
گہ لُطف ہو، گہ ناز ہو، گہ جَور و جفا ہو
کیا جانیئے قسمت میں یہ کیا پھیر ہے اپنی
ہم جس کےلئے جان دیں وہ ہم سے خفا ہو
کیا تاب زباں کی کہ کرے ہِجر کا مذکور
یا ربّ کسی معشوق سے عاشِق نہ جُدا ہو
اے ابرو ؤ ِمژگانِ صنم! یہ تو بتاؤ؟
گر تُم نہیں جلّاد زمانے کے تو کیا ہو؟
گر قہر پہ ہو جائے کمر بستہ وہ جاناں
غوغائے ستم شورش محشر سے سوا ہو
(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب)
(بخار دل صفحہ2)