حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ کس طرح یہ سرور حاصل ہو سکتا ہے۔ آپ نے مثال دی فرمایا کہ ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سرور نہیں آتا تو وہ پے درپے پیتا جاتا ہے۔‘‘ (نشہ حاصل کرنے کے لئے شراب پیتا چلا جاتا ہے) ’’یہاں تک کہ اس کو ایک قسم کا نشہ آجاتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’دانشمند اور زِیرک انسان اِس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘ (یعنی اس مثال سے اگر کوئی عقلمند انسان ہے تو وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے) ’’اور وہ یہ‘‘ (کس طرح فائدہ اٹھانا ہے اپنی روحانیت کو تیز کرنے کے لئے نمازوں کی طرف توجہ دینے کے لئے) ’’کہ نماز پر دوام کرے۔‘‘ (نماز میں باقاعدگی اختیار کرے اور کبھی نہ چھوڑے۔) فرمایا ’’اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اس کو سرور آ جائے۔ اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذت ہوتی ہے جس کا حاصل کرنا اُس کا مقصود بالذات ہوتا ہے۔‘‘ شرابی جب شراب پیتا ہے تو اس نے ذہن میں اپنا کوئی ایک معیار مقرر کیا ہوتا ہے کہ میں نے یہ لذت حاصل کرنی ہے۔ فرمایا کہ جو معیار وہ اپنے نشے کے لئے حاصل کرتا ہے تو ایک روحانی شخص کو، ایک مومن کو بھی اپنا کوئی مقصود بنانا چاہئے جس کو اس نے نماز کے لئے حاصل کرنا ہے اور اسی طرح بار بار مستقل مزاجی سے کوشش ہو گی تو تبھی سرور حاصل ہو سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اسی سرور کو حاصل کرنا ہو۔‘‘ ایک نمازی جب نماز پڑھے تو ذہن میں یہ بات رکھے اور اپنی جو بھی توجہ ہے اور جتنی طاقتیں ہیں ان کو نماز پڑھتے ہوئے استعمال کرے کہ میں نے یہ سرور حاصل کرنا ہے اور اس کے لئے قوت ارادی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر قوت ارادی ہوگی تو پھر ہی مستقل مزاجی بھی رہ سکے گی۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق اور کرب کی مانند ہی ایک دعا پیدا ہو کر وہ لذت حاصل ہو تو مَیں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں … کہ یقینا یقینا وہ لذت حاصل ہو جائے گی‘‘۔ پھر ایک درد اور فکر ہو گی۔ ایک کرب ہو گا۔ ایک بے چینی ہو گی کہ کاش مجھے نماز میں سرور حاصل ہو۔ نماز پڑھتے ہوئے اس بے چینی کا بار بار اللہ تعالیٰ کے آگے اظہار ہو تو آپ فرماتے ہیں کہ یقینا پھر وہ سرور حاصل ہو جائے گا، لذت حاصل ہو جائے گی۔
(ملخص ازملفوظات جلد9 صفحہ7-8۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
پس مستقل مزاجی کے ساتھ نماز میں اس کا مزہ لینے کی کوشش آخر ایک وقت میں دل کو پگھلا کر وہ مزہ دے دیتی ہے۔ آپ نے اس بات کی بھی تاکید فرمائی اور وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں، لوگ سوال بھی کرتے ہیں کہ باوجود نماز پڑھنے کے لوگ بدیاں کرتے ہیں، برائیاں کرتے ہیں۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ہے کہ روح اور سچائی کے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے بلکہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکّریں مارتے ہیں۔
(ملخص ہے(ماخوذ از ملفوظات جلد9 صفحہ8۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ نماز برائیوں سے بچاتی ہے تو یقینا ًیہ سچ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ جن لوگوں میں نمازیں پڑھنے کے باوجود برائیاں قائم رہتی ہیں ان کی نمازیں صرف ظاہری نمازیں ہوتی ہیں وہ اس کی روح کو نہیں سمجھتے۔ پس یہ بہت ہی قابل فکر بات ہے جس پر ہم میں سے ہر ایک کو اپنی حالت کا جائزہ لینا چاہئے۔ اگر ہمیں لذت و سرور آ رہا ہو یا یہ پکا ارادہ ہو کہ میں نے لذت اور سرور حاصل کرنا ہے تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے کوئی اپنی نمازوں میں باقاعدگی اختیار نہ کرے۔
(خطبہ جمعہ 13 جنوری 2017۔ بحوالہ الاسلام )











