’’وہ اعمال کیا ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی جنتوں کے وارث ہو گے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اس کے مختلف درجے ہیں۔ فرمایا پہلا زینہ یا درجہ نمازوں میں عاجزی دکھانا ہے۔ دوسرا زینہ یہ ہے کہ لغویات سے پرہیز کرنا۔ تیسرا درجہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا ہے۔ پھر چوتھی سیڑھی یا درجہ یہ ہے کہ فروج کی حفاظت کرنا یعنی شرم گاہوں کی۔ اسی طرح منہ آنکھ کان وغیرہ کی بھی حفاظت کرنا اور ان کا صحیح استعمال کرنا۔ پھر پانچواں قدم اس سیڑھی کا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق سے کئے گئے عہدوں اور وعدوں کی ادائیگی۔ پھر چھٹا درجہ ہے کہ نمازوں کی حفاظت کرنے والے یہ لوگ ہوتے ہیں۔ یعنی ایک فکر کے ساتھ اپنی نمازوں کی بروقت ادائیگی کی طرف توجہ رکھتے ہیں۔ تو جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فردوس کے وارث بننے کے لئے، میری جنتوں کے وارث بننے کے لئے تمہیں یہ تمام منزلیں طے کرنی ہوں گی۔ ان میں سے کسی درجے کو بھی کم نہ سمجھو۔ یہ تمہیں بتدریج اُس معیار تک پہنچانے کے لئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا معیار ہے۔ اس لئے ان آیات کے شروع میں ہی بتا دیا کہ تمہاری فلاح، تمہاری کامیابی، تمہارا اپنے مقصد کو حاصل کرنے کا دعویٰ اسی صورت میں حقیقت ہو گا جب ہر درجے اور اس سیڑھی کا ہر قدم جس پر تم کامیابی سے چڑھ جاؤ تمہیں اگلے قدم یا اگلے درجے کی طرف لے جانے والا ہو۔ پس نیکیوں کی معراج حاصل کرنے کے لئے تمام نیکیاں بجا لانا ضروری ہے۔ اس لئے کسی ایک نیکی کو بھی کسی صورت میں بھی کم نہ سمجھو۔ کیونکہ آخری منزل پر پہنچنے تک ہر وقت یہ خطرہ ہے۔ جب تک تم آخری منزل تک پہنچ نہیں جاتے یہ خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے کہ کسی ایک قدم پر کسی ایک سیڑھی پر سے بھی تمہارا پاؤں کہیں پھسل نہ جائے۔ اگر پاؤں پھسلا تو تم پھر اپنی پہلی حالت میں واپس آ جاؤ گے۔ اس لئے وہی مومن فلاح پانے والے ہوں گے جو ہر سیڑھی پر پاؤں رکھتے ہوئے اپنے مقصد حیات کو حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کی جنتوں تک پہنچ جائیں گے اور جب وہاں پہنچ جائیں گے تو فرمایا پھر فکر کی کوئی بات نہیں ہے تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو کیونکہ اب تمہاری اس محنت کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ بھی تمہاری حفاظت کرے گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ 20؍ اگست 2004ء بحوالہ alislam.org)