• 28 اپریل, 2024

سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ اور علم قرآن

سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ اور علم قرآن
رجال فارس کے ذریعہ علوم قرآ ن کے ظہور کی پیشگوئی

سورۃ جمعہ کی ابتدائی آیات میں ذکر ہے کہ خدائے قدوس نے روئے زمین پر اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے اپنے برگزیدہ نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ جس نے انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سنائیں۔ کتاب اور حکمت سکھائی اور پاک کیا جبکہ اس سے پہلے وہ ایک کھلی گمراہی میں تھے۔ وہی غالب اور حکیم خدا آخرین یعنی ایک دوسری قوم میں جو ابھی ان سے نہیں ملی (بعد میں آنے والی ہے) دوبارہ رسول کی بعثت کرے گا جو ان کو کتاب و حکمت سکھا کر ان کا تزکیہ کرے گا۔ سورۃ جمعہ کی ان آیات کے نزول پر صحابہ نے پوچھا کہ وہ آخرین کون لوگ ہیں؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ
’’اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی ہوا تو ایک فارسی الاصل یا کچھ فارسی مرد اسے واپس لائیں گے۔‘‘

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ)

دوسری روایت میں ایمان کی بجائے دین اور علم کے الفاظ بھی ہیں یعنی اگر دین اور علم ثریا کی بلند ی پر اٹھ گیا تو ابناء فارس اسے واپس لے آئیں گے۔

(مسلم کتاب الفضائل ومسند احمد جلد2 صفحہ420)

یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود کے ذریعہ پوری ہوئی ۔ جن کو بار بار وحی الٰہی سے اس حدیث کا اوّل مصداق ٹھہرایا گیا۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ502)

پیشگوئی مصلح موعود اور شرف کلام اللہ

قرآن کی تعلیم وخدمت اور اس کی اشاعت کا فیض عام کسی فرد سے محدود نہیں ہوسکتا۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے پیشگوئی میں رجال فارس کا ذکر فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ کے بعد اس روحانی مشن کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کے طفیل بطور نشان ایک موعود لڑکے کی پیدائش کی بشارت دی۔ تا اس کے ذریعے دین حق کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔ نیز اسے ’’کلمۃ اللہ‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ95)

حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی زندگی میں واضح فرمادیا کہ وہ موعود فرزند حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (1889ء۔1965ء) تھے۔ جو 1914ء میں جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ منتخب ہوئے اور خود انہوں نے 1944ء میں خدا تعالیٰ سے علم پانے کے بعد اسے گواہ ٹھہرا کر اپنے آپ کو اس پیشگوئی کا مصداق اور مصلح موعود قرار دیا۔

(خطبہ جمعہ 28جنوری 1944ء)

اس پیشگوئی میں علوم ظاہری سے پُر کئے جانے کے نشان کے متعلّق سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا۔
’’پیشگوئی کے ان الفاظ کا ……… یہ مفہوم ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم دینیہ اور قرآنیہ سکھلائے جائیں گے اور خدا خود اس کا معلم ہو گا……… میری تعلیم جس رنگ میں ہوئی ہے وہ اپنی ذات میں ظاہر کرتی ہے۔ کہ انسانی ہاتھ میری تعلیم میں نہیں تھا۔‘‘

امر واقعہ یہ ہے کہ بچپن سے ہی حضرت مصلح موعود ؓکی صحت خراب رہتی تھی۔ آپ کو آشوب چشم کی تکلیف کے باعث مدرسہ کی رسمی تعلیم کے حصول میں بھی دقت رہی۔ پھر خرابی جگر اورتلی بڑھ جانے کے ساتھ بخار اور گلے میں خنازیر کی شکایت بھی ایک عرصہ تک رہی ۔آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ سے قرآن اور بخاری اس طرح پڑھے کہ وہ پڑھتے جاتے اور آپ سنتے جاتے۔یا اُن کادرس قرآن سنا اور عربی کے چند رسالے پڑھے۔

(الموعود انوارالعلوم جلد17 صفحہ 565تا570)

بظاہران نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ بھی آپ کو قرآن شریف کے مطالب سے آگاہ فرمایا اور آپ نے ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کیا۔

’’میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایساہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔ خدا نے مجھے علم ِ قرآن بخشاہے اور اِس زمانہ میں اُس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا میں استاد مقرر کیا ہے۔‘‘

(المو عود، انوارالعلوم جلد17 صفحہ647)

فرشتوں کے ذریعہ قرآنی علوم کی تعلیم

فرشتوں کے ذریعہ قرآن سیکھنے کے روحانی تجربہ کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت مصلح موعودؑ نے فرمایا۔
’’میں اس جگہ ایک اپنا مشاہدہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ میں چھو ٹا ہی تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں اور میرے سامنے ایک وسیع میدان ہے۔ اس میدان میں اس طرح کی ایک آواز پیدا ہوئی جیسے برتن کو ٹھکورنے سے پیدا ہوتی ہے یہ آواز فضا میں پھیلتی گئی اور یوں معلوم ہوا کہ گویا وہ سب فضا میں پھیل گئی ہے اس کے بعد اس آواز کا درمیا نی حصّہ متمثل ہونے لگا اور اس میں ایک چوکھٹا ظاہر ہونا شروع ہوا جیسے تصویروں کے چو کھٹے ہوتے ہیں کچھ ہلکے سے رنگ پیدا ہونے لگے آخر وہ رنگ روشن ہو کر ایک تصویر بن گئے اور اس تصویر میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ایک زندہ وجود بن گئی اور میں نے خیال کیا کہ یہ ایک فرشتہ ہے۔ وہ فرشتہ مجھ سے مخاطب ہوا اور اس نے مجھے کہا کہ میں تم کو سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں تو میں نے کہاکہ ہاں آپ مجھے ضرور اس کی تفسیر سکھائیں پھر اس فرشتہ نے مجھے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کی یہاں تک کہ وہ اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن تک پہنچا۔ یہاں پہنچ کر اس نے مجھے کہا کہ اس وقت تک جس قدر تفاسیر لکھی جا چکی ہیں وہ اس آیت تک ہیں۔ اس کے بعد کی آیات کی تفسیر اب تک نہیں لکھی گئی۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا کیا میں اس کے بعد کی آیات کی تفسیر بھی تم کو سکھاؤں اور میں نے کہا ہاں۔ جس پر فرشتہ نے مجھے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اور اس کے بعد کی آیات کی تفسیر سکھانی شروع کی اور جب وہ ختم کر چکا تو میری آنکھ کھل گئی اور جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ اس تفسیر کی ایک دو باتیں مجھے یادتھیں۔ لیکن معاً بعد میں سو گیا اور جب اٹھا تو تفسیر کا کوئی حصّہ بھی یاد نہ تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے ایک مجلس میں اس سورۃ پر کچھ بولنا پڑا اور میں نے دیکھا کہ اس کے نئے نئے مطالب میرے ذہن میں نازل ہو رہے ہیں اور میں سمجھ گیا کہ فرشتہ کے تفسیر سکھانے کا یہی مطلب تھا۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک ہمیشہ اس سورۃ کے نئے نئے مطالب مجھے سکھائے جاتے ہیں۔ جن میں سے سینکڑوں میں مختلف کتابوں اور تقریروں میں بیان کر چکا ہوں اور اس کے باوجود وہ خزانہ خالی نہیں ہوا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ5و6)

دین حق کا شرف اور نسخ فی القرآن کا عقیدہ

اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کے ذریعہ قرآن کریم کی عظمت اور شان کو قائم فرمایا۔ آپ نے قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ آیات کی موجودگی کے خلافِ شان عقیدہ کی دلائل سے تردید فرمائی۔ اور ان آیات کے حل پیش فرمائے جن کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ناسخ یامنسوخ قرار دیا جا رہا تھا۔

علماء ومفسرین نے قرآن کریم میں ناسخ ومنسوخ کا عقیدہ تسلیم کرتے ہوئے پانچ سو تک آیات منسوخ قرار دیں جو کلام الہٰی پر ایسا دھبہ ہے جس سے اس کے خدا کا کلام ہونے سے ہی اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ اس عقیدہ کی رو سے (1) قرآن کی طرف ایسی آیات بھی منسوب کی جاتی ہیں جو اس میں موجود تو نہیں مگر ان پر عمل واجب ہے۔ جیسے آیت الرجم۔ (2) عقیدہ نسخ کے مطابق بعض ایسی آیات بھی ہیں جو قرآن میں موجود تو ہیں مگر ان کا حکم منسوخ مانا جاتا ہے۔ جیسے لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ:257) کہ دین میں جبر نہیں۔ اس آیت کو آیات جہاد و قتال سے منسوخ سمجھا جاتا ہے۔(3) تیسرے ایسی آیات جن کے الفاظ اور حکم دونوں منسوخ ہیں۔ جیسے تحویل قبلہ سے متعلق آیات۔

(دیکھیں تفسیر روح المعانی، اتقان، فوز الکبیر)

یہ عقیدہ کسی قدیم زمانہ جاہلیت سے تعلق نہیں رکھتا۔بلکہ آج تک اس کے قائلین بڑے فخر سے یہ عقیدہ بیان کرتے چلے آرہے ہیں۔ دور حاضر کے ایک عالم مفتی محمدتقی عثمانی لکھتے ہیں۔
’’جمہور اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ قرآن میں ایسی آیات موجود ہیں۔جن کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔‘‘

(علوم القرآن صفحہ172)

اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کو حکم وعدل بنا کر مبعوث فرمایا ۔ آپؑ نے اصولی طور پر اس باطل عقیدہ کی تردید کرکے خداکے کلام کی حفاظت کا حق ادا کر دکھایا۔پھر آپ کے موعود فرزند حضرت مصلح موعودؓ نے پیشگوئی کے مطابق کلام اللہ کا شرف قائم کرتے ہوئے نہ صرف اس عقیدہ کا ردّ کیا بلکہ منسوخ سمجھی جانے والی آیات کی قابل فہم تفسیر سے ان کا معقول اور قابل قبول حل پیش فرمایا۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔
’’حضرت مسیح موعود ؑ نے آکر بتایا کہ شروع سے لے کر آخر تک سارا قرآن قابل عمل ہے۔ بسم اللہ کی ’ب‘ سے لے کر والناس کی ’س‘ تک قرآن کریم قائم اور قیامت تک کے لئے قابل عمل ہے۔ آپؑ کے یہ الفاظ مجھے خوب یاد ہیں کہ جب کوئی انسان اس بات کا قائل ہوگا کہ قرآن کریم کے اندر ایسی آیات بھی موجود ہیں جو منسوخ ہیں۔ تو اُسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ قرآن کریم پر غور کرے اور سوچے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ تو کہے گا کہ جب اس میں ایسی آیات بھی ہیں جو منسوخ ہیں تو میں ان پر غور کر کے اپنا وقت کیوں ضائع کروں۔ ممکن ہے میں جس آیت پر غور کروں مجھے بعد میں معلوم ہو کہ وہ منسوخ ہے۔ لیکن جوشخص یہ کہےگاکہ یہ کلام تمام کاتمام غیر منسوخ ہے اور اس کا ہر شوشہ تک قابل عمل ہے وہ اس کے سمجھنے کی بھی کوشش کرے گااور اس طرح قرآن اس کی معرفت کی ترقی کا موجب بن جائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ97)

نسخ فی القرآن کے ثبوت میں سورۃ بقرہ کی آیت 107 مَانَنْسَخْ ِمنْ آیَۃٍ پیش کر کے اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ہم کوئی آیت منسوخ کریں یا بھلادیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی آیت لیکر آتے ہیں۔سیدنا حضرت مصلح موعود نے یہ لطیف وضاحت فرمائی کہ یہاں آیت سے مرادقرآنی آیت نہیں بلکہ نشان کے معنے ہیں۔آپؓ نے تحریر فرمایا:۔
’’اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم قرآن کی کسی آیت کو منسوخ کر دیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب ہم کسی نشان کو ٹلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر نشان لے آتے ہیں یا کم سے کم ویسا ہی نشان اور ظاہر کرتے ہیں تا کہ دنیا کے لئے ہدایت کا موجب بنے۔

مفسرین نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ جب قرآن کی کوئی آیت منسوخ کی جائے تو ویسی ہی آیت اور آجاتی ہے۔ لیکن اگر کتاب ہی کی آیت مراد لینی ہو تو اس آیت کے یہ معنے لینے چاہئیں کہ اگر ہم تورات اور انجیل میں سے کسی حصہ کو منسوخ کریں تو قرآن کریم میں یا تو و یسی ہی تعلیم نازل کر دیں گے یا اس سے بہتر نازل کر دیں گے۔ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں نہ قیامت تک منسوخ ہو گی۔‘‘

(تفسیر صغیر صفحہ 24حاشیہ نمبر2)

قائلین نسخ سورۃ نحل کی آیت 102 کو بھی نسخ کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔جس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ’’جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدلتے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے جسے وہ نازل کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تو مفتری ہے۔‘‘

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے سیدنا حضرت مصلح موعود کیا خوب فرماتے ہیں۔
’’تاریخ سے کوئی ایک آیت بھی ثابت نہیں ہوتی جسے بدل کر اس جگہ دوسری آیت رکھی گئی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو قرآن کے سینکڑوں حافظ جنہوں نے رسول کریم ؐ کی زندگی میں قرآن کریم کو حفظ کر لیا تھا اس امر کی شہادت دیتے کہ پہلے ہمیں فلاں آیت کے بعد فلاں آیت یاد کروائی گئی تھی۔ لیکن اس کے بعد اسے بدل کر فلاں آیت یاد کروائی گئی۔ اس قسم کی شہادت کا نہ ملنا بتاتا ہے کہ اس بارہ میں جس قدر خیالات رائج ہیں ان کی بنیاد محض ظنیات پر ہے نہ کہ علم پر۔ میں اس کا منکر نہیں کہ بعض احکام زمانہ نبویؐ میں بدلے گئے ہیں۔ مگر مجھے قرآن کریم کے کسی حکم کی نسبت ثبوت نہیں ملتاکہ پہلے اور طرح ہو اور بعد میں بدل دیا گیا ہو۔ میرے نزدیک جو احکا م وقتی ہوتے تھے وہ غیر قرآنی وحی میں نازل ہوتے تھے۔ قرآن کریم میں اترتے ہی نہ تھے۔اس لئے قرآن کریم کو بدلنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی تھی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ273)

عصمت انبیاء

دین حق کے شرف کا تعلق خداتعالیٰ کے کلام، اس کے مرسلین و مامورین کی سچائی اور عزت وعظمت کے قیام سے بھی ہے۔انبیاء کی عصمت اہل اسلام کا مسلمہ عقیدہ ہے لیکن اس مسئلہ سے متعلق بعض قرآنی آیات کے ترجمہ و تفسیر میں مختلف علماء و مفسرین نے ٹھوکر کھائی۔ مثلاً حضرت ابراہیمؑ، حضرت لوط ؑ، حضرت یوسف ؑ، حضرت یونسؑ، حضرت ایوبؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمان ؑاور خود نبی کریم ؐ کے بارہ میں بعض ایسے تراجم یا تفاسیر پائی جاتی ہیں جن سے نہ صرف عصمت انبیاء پر زد پڑتی ہے۔بلکہ خدا کے پاک کلام پر بھی حرف آتا ہے۔

حضرت ابراہیم ؑکا صدیق ہونا

حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق بائبل کی روایات سے متاثر ہوکر مسلمان علماء کی تفاسیر میں بھی بالعموم تین جھوٹ ان کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں۔ اوّل سورہ الصافات کی آیت90 کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم کے لوگوں سے ایک بحث کے دوران یہ کہاکہ میں سقیم یعنی بیمار ہوں حالانکہ آپ تندرست تھے۔ دوسرے سورۃ الانبیاء کی آیت64 کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے بت توڑے پھر ان کے توڑنے سے انکار کیا۔ آپؑ نے بت توڑنے کے بعد پوچھنے پر فرمایا کہ سب سے بڑے بت نے یہ کا م کیا ہے اور تیسرے انہوں نے اپنی بیوی سارہ کو شاہ مصر سے بچانے کے لئے اپنی بہن قرار دیا۔ (تفسیر طبری جز23 صفحہ71) اس کا اصولی جواب تو سورہ مریم کی آیت 42میں ہے جس میں حضرت ابراہیم ؑکو صدِّیْقًا نَبِیًّا یعنی سچا نبی قرار دیاہے۔اس کی تفسیر کرتے ہوئے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ
’’بائبل ابراہیمؑ کو جھوٹا قرار دیتی ہے۔ پیدائش 20/1-13 کہ اس نے بادشاہ سے ڈر کر اپنی بیوی کو بہن کہا ……… یہ بیان بالکل غلط ہے۔ابراہیم ؑصدیق بھی تھا اور نبی بھی تھا۔ یعنی سچ کی اسے اتنی عادت تھی کہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتا تھا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ260)

حضرت ابراہیمؑ کی طرف منسوب ہونے والے جھوٹوں کی تردید اور ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے مزید بیان فرمایاکہ (1) انِّیْ سَقِیْمٌ (الصافات:90) کا یہ مطلب نہیں کہ واقعی بیمار ہوں بلکہ ستاروں کی چال کے اندازہ کے مطابق بیمار ہونے والا ہوں۔ آپؓ فرماتے ہیں۔
’’قرآن کریم بتا چکا ہے کہ ابراہیم ؑ ان باتوں پر ایمان نہیں رکھتا تھا مگراپنی قوم کو شرمندہ کرنے کے لئے اس نے کہا کہ تمہاری جوتش کے اصول سے تو میں بیمار ہونے والا ہوں۔مگر دیکھنا کہ خدا تعالیٰ مجھے کیا کیا توفیق دیتا ہے اور تم کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔

(تفسیر صغیر صفحہ590 حاشیہ)

(2)سورہ انبیاء آیت64 میں بت توڑنے سے حضرت ابراہیم ؑنے انکار نہیں فرمایا بلکہ جیسا کہ آیت میں بَل فَعَلَہُ کے بعد وقف ہے۔ اسے مد نظر رکھ کر آیت کو پڑھا جائے تو آیت کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ ’’ابراہیم ؑنے کہا آخر کسی کرنے والے نے تو یہ کام ضرور کیا ہے۔ یہ سب سے بڑابت سامنے کھڑا ہے۔ اگر وہ بول سکتے ہوں تو ان سے پوچھ کر دیکھو۔‘‘

(تفسیر صغیر صفحہ415)

آیت میں وقف نہ کرنے کی صورت میں ا س کا حل بیان کرتے ہوئے سید نا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔
’’دوسرے معنے یہ ہیں کہ ابراہیم ؑ اپنی عادت کے مطابق تعریضاً کلام کرتے ہیں کہ نہیں میں نے کیوں کرناتھا۔اس نے کیاہوگا ۔ ایسے کلام سے مراد انکار نہیں بلکہ یہ مراد ہوتاہے کہ کیا یہ سوال بھی پو چھنے والا تھا میں نہ کرتا تو کیا اس بت نے کرنا تھا۔‘‘

(تفسیر کبیرجلدپنجم صفحہ530)

(3)بیوی کو دینی لحاظ سے بہن قرار دینے والی روایت اگر درست بھی ہو تو تعریضی کلام کی ذیل میں آئے گی۔

حضرت لوط ؑ اور ان کی بیٹیوں کی عزت و حرمت

سورہ ھودکی آیت79 اور النحل کی آیت72 میں حضرت لوطؑ کے اجنبی مہمانوں کی آمد پر قوم کے اشتعال میں آنے کا ذکر ہے۔ جس پر حضرت لوطؑ نے فرمایا ھٰؤُلَاءِ بَنَاتِیْ ھُنَّ اَطْھَرُ لَکُمْ یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمہارے لئے پاکیزہ ہیں۔ ان آیات کی تفسیر میں علماء نے لکھا ہے کہ حضرت لوط ؑ کی قوم اجنبی مردوں سے بے حیائی کا ارتکاب کرتی تھی۔ حضرت لوطؑ کے مہمانوں کی آمد پر قوم نے انہیں منع کیا تو آپؑ نے فرمایا یہ میری بیٹیاں ہیں اگرتم یہی کام کرنا چاہتے ہو یعنی لذت اور اپنی خواہش پوری کرنا ہے تو میری بیٹیوں سے شادی کرلو۔ آپ نے بیٹیوں کے بدلہ مہمانوں کو قبیح فعل سے بچانا چاہا۔

(تفسیر مراح اللبید جز اول صفحہ466)

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔
’’حضرت لوطؑ کی دو بیٹیاں اس شہر کے لوگوں میں بیاہی ہُوئی تھیں۔مسلمان مفسر اس جگہ غلطی سے یہ معنی کرتے ہیں کہ میری لڑکیوں سے اپنی شہوت پوری کرو اور میرے مہمانوں کو نہ چھیڑو۔ یہ ایک خطرناک خیال ہے اور ایک نبی کی ذات پر حملہ ہے۔ آیت کا مفہوم صاف ہے کہ ان لوگوں کو جیسا کہ قرآن مجیداور بائیبل سے ثابت ہے کہ یہ غصّہ تھا کہ لوط اجانب کو کیوں لائے یہ خواہش نہ تھی کہ انہیں اپنی شہوت کا شکار بنائیں۔اور جیسا کہ بائبل کہتی ہے دولڑکیاں پہلے سے ان میں بیاہی ہوئی تھیں۔ ان کی طرف اشارہ کرنا لوط کو بیو قوف بنانا ہے۔ لوط صرف یہ کہتے تھے کہ ان لڑکیوں کی موجودگی سے تم سمجھ سکتے ہوکہ میں یا میرے مہمان تم سے کوئی غداری نہیں کریں گے۔پس خواہ مخواہ گھبراتے کیوں ہو۔

(تفسیر صغیر صفحہ 282)

قصہ زلیخاء اور حضرت یوسف ؑ کی براءت

حضرت یوسف ؑ اور زلیخا کے قصہ میں بھی مفسرین نے خدا کے ایک نبی کی طرف ایسی باتیں منسوب کی ہیں ۔ جن کی ایک نبی تو کجا ایک عام خدا ترس انسان سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ایسی روایات حضرت ابن عباسؓ وغیرہ کی طرف صحیح سند سے ثابت ہیں کہ نعوذ با للہ حضرت یوسفؑ نے اس عورت کے ساتھ بدی کا ارادہ کر لیا تھا ۔ جیساکہ ان کے شاگرد مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت یوسفؑ زلیخا کے سامنے ایسے بیٹھ گئے جیسے خاوند اپنی بیوی سے ہم صحبت ہوتے ہوئے بیٹھتا ہے۔

(تفسیر طبری جز12 صفحہ183 مطبوعہ مصر)

سید نا حضرت مصلح موعود ؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’اس آیت میں بتایا ہے کہ عزیز کی بیوی نے حضرت یوسف ؑ کے متعلق ایک ارادہ کیا لیکن وہ اسے پورانہ کرسکی۔ اسی طرح حضرت یوسف ؑ نے اس کے متعلق ایک ارادہ کیا لیکن وہ بھی اس ارادہ کو پورا نہ کرسکے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ دونوں نے آپس میں بدی کا ارادہ کیا لیکن یہ درست نہیں کیونکہ اس کی نفی پہلی آیت میں ہو چکی ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ یوسف کو عزیز کی بیوی نے اس کے دلی خیالات کے خلاف پھسلانا چاہا اور اس کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ اس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کا م کے بد انجام سے اس عورت کو بھی ڈرایا۔ اس آیت کی موجودگی میں ھَمَّ بِھَا کے یہ معنی کسی طرح نہیں کئے جا سکتے کہ یوسف نے اس عورت سے کسی بری بات کا ارادہ کر لیا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ297)

حضرت داؤدؑ پرایک جرنیل کی بیوی پسند آ جانے کا الزام

حضرت داؤدؑ کے بارہ میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی خواہش اور دعا کے نتیجہ میں آزمائش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے۔ کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کی 99بیویاں تھیں۔ ایک جرنیل اھریا کی بیوی کو نہاتے دیکھا تو وہ پسند آ گئی۔اس جرنیل کو محاذ پر بھجوا دیا جہاں وہ مارا گیا اور آپؑ نے اس کی بیوہ سے شادی کرلی۔

(تفسیر طبری جز23 صفحہ147)

سید نا حضرت مصلح موعود سورۃ ص کی آیت24 اور25 کی تفسیر میں اصل حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’مفسر کہتے ہیں حضرت داؤد کی ننانوے بیویاں تھیں مگر ایک جرنیل کی بیوی آپ کو پسند آئی انہوں نے جرنیل کو خطرناک مقام پر بھجوا دیا تا مارا جائے پھر اس کی بیوی پر قبضہ کر لیا اللہ تعالیٰ نے سبق دینے کے لئے فرشتوں کو بھیجا جنہوں نے نعوذ باللہ یہ نبیوں والا جھوٹ بنایا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت داؤد ؑ کی بادشاہت جب لمبی ہو گئی تو ان کے دشمنوں نے سر اٹھانا شروع کیا اور ان کے دشمن گھر میں کود کر آگئے۔ جب حضرت داؤدؑ کو چوکس پایا تو ڈر گئے کہ ایک آواز پرباڈی گارڈ جمع ہو جائیں گے اور گھبراہٹ میں یہ قصہ گھڑ کر سنایا جس کی تعبیر درحقیقت یہ تھی کہ انہوں نے حضرت داؤد ؑ پر الزام لگایا کہ تم طاقتور ہو کر اردگرد کے غریب قبائل کو کھاتے جاتے ہو۔ حالانکہ وہ تعداد میں تھوڑے ہیں اور تم زیادہ ہو۔حضرت داؤدؑ کا ملک چھوٹا تھا اور ان کے اردگرد کے قبائل عراق تک پھیلے ہوئے تھے جن کی تعداد حضرت داؤد ؑکے قبیلہ کی تعداد سے سینکڑوں گنے زیادہ تھی۔‘‘

(تفسیر صغیر ص598 حاشیہ نمبر2)

قصہ ملکہ بلقیس اور حضرت سلیمانؑ کا حسن تبلیغ

حضرت سلیمان ؑ کے بارہ میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ ملکہ سبا بلقیس سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ جنّوں نے اس سے روکنے کے لئے ان کو بتایا کہ اس کے پاؤں پر گدھے کی طرح بال ہیں۔ اس حقیقت کو جاننے کے لئے حضرت سلیمان ؑنے پانی پر ایک شیش محل بنوایا تا کہ ملکہ کی پنڈلیاں دیکھ سکیں۔ پھر آپ نے بال صفا پاؤڈر تیار کیا جس سے اس کے بال دور ہوئے۔

(تفسیر طبری جز29 صفحہ168تا170)

حضرت مصلح موعود اس آیت کی لطیف تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ان باتوں کا نہ تو دین سے تعلق ہے نہ عرفان سے نہ خدا تعالیٰ کے انبیاء ایسے لغو کام کیا کرتے ہیں۔ اصل بات صرف اتنی ہے کہ ملکہ سبا ایک مشرکہ عورت تھی اور سورج پرست تھی۔ حضرت سلیمانؑ چاہتے تھے کہ وہ شرک چھوڑ دے اس کے لئے آپ نے اسے زبانی بھی نصیحت فرمائی مگر پھر آپ نے چاہا کہ عملاً بھی اس کے عقیدہ کی غلطی اس پر ظاہر کریں ……… آپ نے ایک ایسا محل تجویز فرمایا۔ جس میں شیشے کا فرش تھا اور اس کے نیچے پانی بہتا تھا۔ جب ملکہ اس کے فرش پر سے گزرنے لگی تو اسے شبہ ہوا کہ یہ پانی ہے اور اس نے جھٹ اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا یا اسے دیکھ کر گھبرا گئی۔ حضرت سلیمانؑ نے اسے تسلی دی کہ ……… جسے تم پانی سمجھتی ہو یہ تو دراصل شیشہ کا فرش ہے اور پانی اس کے نیچے ہے ……… اس نے فوراً سمجھ لیا کہ انہوں نے ایک عملی مثال دے کر مجھ پر شرک کی حقیقت کھول دی ہے کہ جس طرح پانی کی جھلک تجھے شیشہ میں نظر آئی ہے اور تو نے اسے پانی سمجھ لیا ہے۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ کا نور اجرام فلکی میں سے جھلک رہا ہے۔ چنانچہ اس دلیل سے وہ بڑی متاثر ہوئیں اور بے اختیار کہہ اٹھیں کہ ……… اب میں سلیمان کے ساتھ یعنی اس کے دین کے مطابق اس خدا پر ایمان لاتی ہوں۔ جو سب جہانوں کا رب ہے اور سورج اور چاند وغیرہ بھی اسی سے فیض حاصل کر رہے ہیں۔

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ397)

نماز قضاء ہونے پر حضرت سلیمانؑ کا گھوڑوں کو ہلاک کرنا

حضرت سلیمان ؓ کے بارہ میں سورۃ صٓ کی آیات32تا34 کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کی عصر کی نماز گھوڑوں کے معائنہ کی وجہ سے قضا ہو گئی جس پر انہوں نے گھوڑے ذبح کروا دیئے اور پھر سورج کو حکم دیا تو وہ واپس عصر کے مقام پر آیا اور انہوں نے نماز عصر ادا کی ۔

(تفسیر حسینی جلد دوم صفحہ333)

سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے ان آیات کی نہایت عمدہ تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:۔
‘‘قرآن کریم میں اِنِّی اَ حْبَبْتُ حُبَّ الْخیْرِعَنْ ذِکْرِرَبِّی ہے۔ مفسرین نے کہا ہے کہ گھوڑے دیکھتے ہوئے نماز کا وقت جاتا رہا لیکن اصل مطلب یہ ہے کہ گھوڑوں کو میں نے خدا کی یاد میں خریدا ہے۔ یعنی جہاد کے لیے اور یہی بات نبی کی شایان شان ہے۔ نہ وہ جو کہ مفسرین کہتے ہیں۔ چنانچہ عَنْ کے معنی لغت میں ’سب سے‘ کے بھی ہیں۔(اقرب)

قرآن کریم میں مَسَحَ کا لفظ ہے۔ جس کے معنے تھپکنے اور کاٹ ڈالنے دونوں کے ہوتے ہیں۔مفسرین چونکہ ایک غلطی کر چکے تھے اُنھوں نے کاٹ ڈالنے کے معنے کو تھپکنے کے معنے پر ترجیح دی اور آیت کے یہ معنے کر دیئے کہ گھوڑے واپس بلاکر اس غصہ میں کہ ان کے دیکھنے میں نماز جاتی رہی،ان کو کاٹ ڈالا۔ حالانکہ یہ فعل ایک مجنون کا تو ہو سکتا ہے خدا کے نبی کا نہیں ہو سکتا۔ حقیقتًا اس جگہ یہی ذکر ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے گھوڑے واپس بلائے اور چونکہ اُن کو جہاد کے لئے پالا تھا ان کے پُٹھوں پر ہاتھ مار کر تھپکنے لگے اور پیار کرنے لگے کہ میں نے ایسے اعلیٰ درجہ کے گھوڑے جہاد کے لئے تیار کئے ہیں۔

(تفسیر صغیر صفحہ600 حاشیہ نمبر1۔2)

حضرت ابراہیم ؑ کا پرندے زندہ کرنا

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے مردے زندہ کرنے کا مشرکانہ عقیدہ بھی عوام میں رائج ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت 361میں حضرت ابراہیم ؑ کو چار پرندے پکڑنے کا حکم ہے۔مفسرین کے مطابق فَصُرْ ھُن سے مراد تھی کہ حضرت ابراہیم ؑ ان کو ذبح کر کے ان کا قیمہ باہم ملا دیں اور چار پہاڑوں پر رکھ دیں پھر انہیں آواز دیں تو وہ دوڑے آئیں گے اور یہ بادشاہ نمرود کے مقابل پر مردے زندہ کرنے کا ایک نشان تھا۔

(تفسیر طبری جز3 صفحہ57)

حضرت مصلح موعود ؓ سورہ بقرہ کی آیت 361کی وضاحت میں فرماتے ہیں:
’’مطلب یہ ہے کہ پہاڑ کی چار چوٹیوں پر چار پرندے بٹھا دو ۔جز کے معنے ایک پرندے کے ٹکڑے کے نہیں بلکہ چاروں پرندوں کا جز مراد ہے جو ایک کا عدد ہے۔ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر اسی محاورہ میں جز کا لفظ استعمال ہوا ہے۔فرماتا ہے۔ وَاِنَّ جَھَنَّمَ لَمَوْعِدُھُمْ اَجْمَعِیْنَ لَھَاسَبْعَۃُ اَبْوَابِ لِکُلِّ بَابٍ مِّنْھُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ (الحجر :45،44) یعنی جہنم سب کفار کے لئے مقررہ جگہ ہے۔ اس کے در وازے ہیں اور ہر دروازہ کے لئے کفار کا ایک حصہ مقرر ہوگا۔ اس جگہ بھی جز کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لیکن کوئی یہ معنی نہیں کرتا کہ کفار کا قیمہ کر کے ان کے قیمہ کا تھوڑا تھوڑا حصہ سب دروازوں میں سے ڈال دیا جائے گا۔ بلکہ سب مفسر متفق ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ کافر ایک دروازے سے جائیں گے۔کچھ دوسرے سے کچھ تیسرے سے۔ اس طرح سب دروازوں سے اپنی اپنی سزا کے مطابق داخل ہوں گے۔ انہی معنوں میں جز اس آیت میں استعمال ہوا ہے۔اور مراد ہر پرندے کا جزء نہیں بلکہ چار کا جز ہے اور وہ ایک ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہر چوٹی پر ایک ایک پرندہ رکھ دو‘‘۔

(تفسیر صغیر صفحہ 70-71)

پھر حضور نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ عقلاً بھی اس آیت کے ظاہری معنے کرنے میں بہت سے اعتراض پیدا ہوتے ہیں۔اوّل مردے زندہ کرنے کے نشان سے پرندوں کو سدھانے کا کیا تعلق؟ دوسرے چار پرندے کیوں جبکہ ایک سے ہی غرض پوری ہو سکتی ہو۔ تیسرے پہاڑوں پر رکھنے کا کیا؟ جبکہ کیا کسی اور جگہ رکھنے سے کام نہ چلتا تھا؟ پھرخود حضور اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’حقیقت یہ ہے کہ یہ ظاہری کلام نہیں بلکہ مجازی کلام ہے۔ حضرت ابراہیم ؑنے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی احیاء مولیٰ کا جو کام تونے میرے سپرد کیا ہے ۔ اسے پورا کرکے دکھا ………… اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو چار پرندے لے کر سدھا یعنی اپنی اولاد میں سے چار کی تربیت کرّوہ تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس احیاء کی تکمیل کریں گے۔ یہ چار روحانی پرندے حضرت اسماعیلؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑ ہیں۔ ان میں سے دو کی حضرت ابراہیم ؑ نے خود براہ راست تربیت کی اور دو کی بالواسطہ۔ پہاڑ پر رکھنے کے معنے بھی یہی تھے۔کہ ان کی نہایت اعلیٰ تربیت کر ……… پہاڑ پر رکھنے میں ان کے رفیع الد رجات ہونے کی طرف اشارہ ہے۔چار پرندوں کو علیحدہ علیحدہ چار پہاڑوں پر رکھنے کے یہ معنے تھے کہ یہ احیاء چار علیحدہ علیحدہ وقتوں میں ہوگا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ603)

حضرت مسیح ؑ کا پرندے اور مردے زندہ کرنا

حضرت عیسیٰ ؑ کے بارہ میں مفسرین نے مٹی سے پرندہ پیدا کرنے اور مردے زندہ کرنے کا مفہوم مائدہ آیت 111 سے نکالنے کی کوشش کی۔

(صفوۃ التفاسیر جلد اوّل ص373و قرطبی و طبری جز 3صفحہ275)

سیدنا حضرت مصلح موعود اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیحؑ مردے زندہ کرتے تھے حالانکہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ مُردے سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی زندہ نہیں کرتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ لَآاِلٰہَ اِلَّاھُوَ یُحْیِی وَ یُمِیْتُ رَبُّکُمْ وَرَبُّ اٰبَاءِکُمُ اَلْاَوَّلِیْنَ (الدخان:9) کہ خدا تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں وہی زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے اور وہ تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے باپ دادوں کابھی رب تھا۔ اسی طرح فرماتا ہے۔ اَمِ اتَّخَذُواْ مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآءَ فَاللّٰہُ ھُوَ الْوَلِیُّ وَ ھُوَ یُحْیٖ الْمَوْتٰی وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر (الشوریٰ:10) یعنی کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو پناہ دینے والا تجویز کر لیا ہے۔ پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی پناہ دینے والاہے اور وہی مردے زندہ کرتا ہے اور وہ اپنے ہر ارادہ کو پورا کرنے پر قادر ہے۔ پس قرآن کریم کے رُوسے خدا تعالیٰ ہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ ہاں مردے زندہ کرنے کا لفظ رسول کریمﷺ کے لئے آتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یَااَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِیْبُو ا لِلّٰہِ وَ ِللرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَایُحْیِیْکُمْ (الانفال:25) یعنی اے مومنو! جب خدا اور اس کا رسول تم کو زندہ کرنے کے لئے بلائیں تو ان کی بات مان لیا کرو ۔ یہاں مفسرین یہ معنے کر دیتے ہیں کہ روحانی تربیت کے لئے بلائیں تو خدا اور رسول کی بات کا جواب دیا کرو لیکن جب مسیحؑ کی نسبت یہی احیاء کا لفظ آتا ہے تو اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ وہ سچ مچ کے مردے زندہ کیا کرتے تھے اور اس طرح اس کو خدا قرار دیتے ہیں اور عیسائیوں کی مدد کرتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہ ِرَاجِعُوْنَ۔

(تفسیر صغیر صفحہ161حاشیہ نمبر2)

نبی کریم ؐ کی بلند شان اور مقام

خود نبی کریم ؐ کے بارہ میں بھی مفسرین نے بعض افسانے ضعیف روایات سے متاثر ہوکر منسوب کردیئے ہیں ۔

(1) چنانچہ سورۃ تحریم کی ابتدائی آیت کہ اے نبی !تو اسے کیوں حرام کرتا ہے جسے خدا نے تیرے لئے حلال کیا۔ کے بارہ میں مفسرین نے لکھا ہے کہ نبی کریمؐ کی باری حضرت حفصہ کے ہاں تھی۔ وہ والد سے ملنے گئیں تو حضرت ماریہ قطبیہ کو نبی کریم ؐ کے ساتھ اپنے کمرے میں دیکھا اور ان کے چہرے پر غصہ کے آثار دیکھ کر کہا کہ عائشہؓ سے اس بات کا ذکر نہ کریں مگر انہوں نے بتادیا اور حضرت عائشہ ؓکے اصرار پر آپ نے قسم کھائی کہ کبھی حضرت ماریہ کے قریب نہ جائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ اتاری۔

(تفسیر فتح البیان جز9 صفحہ432)

سید نا حضرت مصلح موعودؓ اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’رسول کریم ﷺ کو ایک دفعہ ایک بیوی نے جس کے گھر باری تھی شہد کا شربت پلایا جو آپ کو پسند تھا ۔ اس وجہ سے آپﷺ دیر تک اس کے ہاں ٹھہرے ۔ دوسری بیو یوں کو یہ برا لگا ۔ ایک بیوی نےجسے شہد شاید پسند نہ تھا ۔ آپ ﷺ سے کہا یا رسول اللہ آپؐ کے منہ سے بُو آتی ہے۔ آپ ﷺ بہت نازک طبع تھے آپ ﷺ نے دل میں عہد کیا کہ آئندہ شہد نہیں پئیں گے۔ اس پر یہ آیات نازل ہو ئیں اور کہا گیا کہ شہد کو خُدا تعالیٰ نے اچھا قرار دیا ہے کسی بیوی کی خاطر اس کا ترک بُری بات ہے۔

بعض مفسرین نے اس آیت کی بہت گندی تفسیر کی ہے۔ یعنی یہ کہ آپ نے حضرت ماریہ سے جو آپ کی لونڈی تھی صحبت کی اور پھر یہ بات ایک بیوی سے عہد لے کر بتا دی۔ اس نے دوسری بیویوں کو بتا دیا اور یہ بات پھیل گئی۔ یہ سب قصہ غلط ہے اور رسول کریم ﷺ کو بدنا م کرنے کے لئے گھڑا گیا ہے۔ صحیح واقعہ وہی ہے جو ہم نے لکھا ہے۔ آپؐ نے ایک بیوی کے ہاں شہد پیا اور دوسری بیوی کو دیر کی وجہ بتائی۔ اس پر اس نے اور اس کی کسی سہیلی نے سمجھا کہ شہد تو بعض دفعہ بدبو دار بوٹیوں کا بھی ہوتاہے۔ آپ سے کہنا چاہئے کہ شہد سے بعض دفعہ بو آتی ہے اس سے آپ اس بیوی کے ہاں زیادہ جانا چھوڑ دیں گے۔ اس واقعہ کا اس جگہ ذکر ہے‘‘۔

(تفسیر صغیر صفحہ755)

(2) سورہ التحریم کی آیت 5 کے بارہ میں بھی مترجمین و مفسرین نے غلطی کھائی اورنبی کریمؐ کی ازواج مطہرات کی طرف بعض اعتراض منسوب کئے اس کی تردید کرتے ہوئے سیدنا حضرت مصلح مو عودؓ نے تحریرفرمایا ۔
’’مفسرین نے پھر یہاں غلطی کی ہے اور معنی یہ کئے ہیں کہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو گئے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے دل تو پہلے ہی توبہ کی طرف مائل ہیں۔ لغت میں لکھا ہے صَغیٰ اِلَیْہِ کے معنی ہیں مَالَ (مفردات راغب) پس فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ تمہارے دل تو پہلے ہی توبہ کی طرف مائل ہیں۔ نامعلوم مفسرین کویہ کیوں شوق ہوا کہ ازواج مطہرات کو جن کے متعلق خدا تعالیٰ فرما چکا ہے کہ اِنَّمَایُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً۔ (الاحزاب:34) گندہ قرار دادیں۔ شاید کسی شیعہ نے تفسیروں میں یہ بات لکھ دی ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اہل بیت صرف حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ اور آپ کے بچے ہیں ۔ بیویاں اہل بیت نہیں۔ حالانکہ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی کو اہل بیت قرار دیا ہے۔‘‘

(تفسیر صغیر صفحہ756)

(3) سورہ احزاب کی آیت 38 میں حضرت زیدؓ کے حضرت زینبؓ کو طلاق دینے پر رسول اللہ ؐکے ان سے نکاح کا ذکر ہے۔ اس بارہ میں مفسرین کہتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے حضرت زینب ؓ کو اس حال میں دیکھا کہ ان کی محبت آپ کے دل میں گھر کر گئی۔ نبی کریم ؐ خواہش رکھتے تھے کہ زیدؓ سے علیحدگی کی صورت میں آپؐ زینب سے نکاح کر لیں۔ مگر زیدؓ کو یہی کہتے رہے کہ بیوی کوطلاق مت دو۔ اور لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ اللہ سے ڈرنا زیادہ مناسب تھا۔

(تفسیر طبری جز22 صفحہ12)

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’بعض مفسرین کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نعوذ باللہ دل میں حضرت زینبؓ کو نکاح میں لانے کا ارادہ رکھتے تھے مگر اس کو چھپاتے تھے تا کہ لوگ ٹھوکر نہ کھائیں مگر اصل میں اس کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو معلوم ہوچکا تھا کہ حضرت زیدؓ حضرت زینبؓ کو طلاق دینا چاہتے ہیں اور آپﷺاس معاملہ کو پوشیدہ رکھ کر حضرت زیدؓ کو نصیحت کرتے تھے تا کہ لو گوں کو ٹھو کرنہ لگے کہ ایک شریف خاندان کی لڑکی ایک آزاد غلام سے بیاہ کر رسول کریم ﷺنے اچھا نہیں کیا بلکہ فتنہ کا دروازہ کھول دیا ہے ۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ زینب کا نکاح آنحضرتﷺسے خدا تعالیٰ نے عرش پر پڑھ دیا تھا اس لئے دنیا میں ان کا نکاح نہیں پڑھا گیا مگر یہ درست نہیں ۔ تاریخ میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت زینبؓ کا نکاح آپ سے پڑھا گیا ۔(سیرت الحلبیہ جلد سوم صفحہ340)۔‘‘

(تفسیر صغیر صفحہ550)

(4) سورہ فتح کی آیت3 میں مفسر ین نے لفظ ’’ذنب‘‘ یعنی گناہ کو سیّد المعصومین حضرت رسول کریم ﷺ سے نسبت دی ہے۔سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی تفسیرمیں فرمایا ہے۔
’’بعض مفسرین نے غلطی سے حضرت زینب ؓ کو دیکھ کر نکاح کی خواہش کو نبی کریم ؐ کا گناہ صغیرہ قرار دیا اور سورہ فتح وغیرہ جہاں آپ کی مغفرت کا ذکرہے۔ یہ سمجھا کہ ان کی معافی ہو گئی۔ یہ سورہ صلح حدیبیہ کے متعلق ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ فتح سے پہلے ایک اور فتح آنے والی ہے یعنی حدیبیہ کی صلح۔جس میں عرب کے بہت سے قبیلے رسول کریم ﷺسے معاہدہ کریں گے۔ محمد رسول اللہ ﷺکو چاہیے اس وقت عفو سے کام لیں اور جو خطائیں عرب پہلے کر چکے ہیں ان کے لئے بھی مغفرت چاہیں اور ان کے لئے بھی جو صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے زمانہ کے درمیان ہونے والی ہیں ورنہ یہ مراد نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے کوئی گناہ کیا تھا۔ چنانچہ ہر شخص سمجھ سکتاہے کہ جہاں بھی ذنب کا ذکر آتا ہےفتح کے موقع پر آتا ہے۔ پس ذنب سے مراد آپ کا کیا ہوا گناہ نہیں بلکہ آپ کے متعلق کیا ہوا عرب قبائل یا کفار کا گناہ ہے۔‘‘

(تفسیر صغیر صفحہ677)

(5) سورۃ الضحیٰ کی آیت نمبر 8میں نبی کریم ﷺ کی نسبت لفظ ’’ضال‘‘ استعمال ہوا ہے ۔ جس کے معنے گم شدہ راہ کے ہوتے ہیں۔ بعض مفسرین نے انہی معنوں کو ہادیٔ برحق سے نسبت دے دی۔ اس آیت کا صحیح ترجمہ اور تفسیر آنحضرت ﷺ کی شانِ اقدس کا لحاظ رکھتے ہوئے سیدنا حضرت مصلح موعود نے ان الفاظ میں فرمایا ہے۔
ترجمہ:۔ ’’اور جب اس نے تجھے (اپنی قوم کی محبت میں) سرشار دیکھا تو (اُن کی اصلاح کا)صحیح راستہ تجھے بتادیا‘‘ نیز فرمایا۔
’’یہاں ’’ضال‘‘ کا لفظ ہے۔ مفسروں نے لکھا ہے کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ تو گمراہ تھا ہم نے تجھے ہدایت دی۔ مگر لغت میں ضالّ کے معنی محبت میں سرشار ہونے کے بھی ہیں (دیکھو مفردات راغب) اور یہی معنی رسول کریم ﷺ کی شان کے مطابق ہیں۔یعنی اے رسول! تو اپنی قوم کی ہدایت کی خواہش میں سرشار تھا۔ سو ہم نے تجھے وہ راستہ بتا دیا جس سے تو قوم کی اصلاح کرسکے۔‘‘

(تفسیر صغیر صفحہ831)

سورۃ فاتحہ سے قبولیت دعا کے سات اصول کے انکشاف کانشان

جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے سیدنا حضرت مصلح موعود کو سورۃ فاتحہ کی تفسیرایک رؤیا کے ذریعہ سکھائے جا نے کے بعد ہمیشہ اس سورۃ کے نئے مضامین کا انکشاف آپ پر کیا جاتا رہا۔سورۃ فاتحہ سے قبو لیت دعا کے اصولوں کا استنباط آپ کے علم قرآن سکھانے کی ایک عمدہ مثال ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں۔
’’سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھتے وقت میرے دل میں خیال گزرا کہ اس موقعہ پر بھی اللہ تعالیٰ کوئی نئے مطالب اس سورۃ کے کھولے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سات اصول کا انکشاف ہوا جو دعا کے متعلق اس سورۃ میں بیان ہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ

ان سات اصول کاحضور کے الفاظ میں مختصراً ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ آپ نے تحریر فرمایا۔
’’اوّل بِسْمِ اللّٰہِ میں یہ بتایاگیا ہے کہ جس مقصد کے لئے دعا کی جائے وہ نیک ہو یہ نہیں کہ چور چوری کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو وہ بھی قبول کر لی جائے گی۔ خدا کا نام لے کر اور اس کی استعانت طلب کر کے جو دعاکی جائے گی لازماََ ایسے ہی کام کے متعلق ہو گی جس میں اللہ کی ذات بندہ کے ساتھ شریک ہو سکتی ہو۔ بہت لوگوں کو دیکھا ہے۔ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی دعائیں کرتے ……… اسی طرح ناجائز مطالب کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ بعض لوگوں نے جھوٹا جامہ زہدو اتّقا کا پہن رکھا ہے اور ناجائز امور کے لئے تعویذ دیتے اور دعائیں کرتے ہیں حالانکہ یہ سب دعائیں اور تعویذ عاملوں کے مُنہ پر مارے جاتے ہیں۔

دوسرا اصل اَلحَمْدُلِلّٰہِ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ میں بتایا ہے یعنی دعا ایسی ہو کہ اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کے دوسرے بندوں کا بلکہ سب دنیا کا فائدہ ہو یا کم سے کم ان کا نقصان نہ ہو اور اس کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی حمد ثابت ہوتی ہو اور اس پر کسی قسم کا الزام نہ آتا ہو۔

تیسرے یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو جنبش دی گئی ہو اور اس دعا کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ظاہر ہوتی ہو۔

چوتھے یہ کہ اس دعا کا تعلق اللہ تعا لیٰ کی صفت رحیمیت سے بھی ہو یعنی وہ نیکی کی ایک ایسی بنیاد ڈالتی ہو جس کا اثر دُنیا پر ایک لمبے عرصہ تک رہے اور جس کی وجہ سے نیک اور شریف لوگ متواتر فوائد حاصل کریں یا کم سے کم ان کے راستہ میں کوئی روک نہ پیدا ہوتی ہو۔

پانچویں یہ کہ دُعامیں اللہ تعالیٰ کی صفت مٰلِکِ یَوم الدِّیْنَ بھی رکھا گیا ہویعنی دعا کرتے وقت ان ظاہری ذرائع کو نظر اندازنہ کر دیا گیا ہو جو صحیح نتائج پید اکرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تجویز کئے ہیں کیونکہ وہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے طر یق کو چھوڑ کر اس سے مدد مانگنا ایک غیر معقول بات ہے گو یا جہاں تک اسباب ظاہری کا تعلق ہے بشرطیکہ وہ موجود ہوں یا ان کا مہیّا کرنا دُعا کرنے والے کے لئے ممکن ہوان کا استعمال بھی دُعا کے وقت ضروری ہے ہاں اگر وہ موجود نہ ہوں تو پھر مٰلِکِ یَوم الدِّیْنَ کی صفت اسباب سے بالا ہو کر ظاہر ہوتی ہے ایک اشارہ اس آیت میں یہ بھی کیا گیا ہے کہ دعا کرنے والا دوسروں سے بخشش کا معاملہ کرتا ہو اور اپنے حقوق کے طلب کرنے میں سختی سے کام نہ لیتا ہو ۔

چھٹا اصل یہ بتایا ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق ہو اور اس سے کامل اخلاص حاصل ہو اور وہ شرک اور مشرکانہ خیالات سے کلی طورپر پاک ہو۔

اور ساتویں بات یہ بتائی ہے کہ وہ خدا کا ہی ہو چکا ہو اور اس کا کامل توکل اسے حاصل ہو اور غیر اللہ سے اس کی نظر بالکل ہٹ جائے اور وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ خواہ کچھ ہو جائے اور کوئی بھی تکلیف ہو۔ مانگوں گا تو خداتعالیٰ ہی سے مانگوں گا۔ یہ سات اموروہ ہیں کہ جب انسان ان پر قائم ہو جائے تو وہ لِعَبْدِیْ مَا سَئَلَ کا مصداق ہو جاتا ہے اور حق بات یہ ہے کہ اس قسم کی دعا کا کامل نمونہ رسول کریم ﷺ یا آپؐ کے کامل اتباع نے ہی دکھایا ہے اور انہی کے ذریعہ سے دعاؤں کی قبولیت کے ایسے نشان دنیا دیکھے ہیں جن سے اندھوں کو آنکھیں اور بہروں کو کان اور گونگوں کو زبان عطا ہوئی ہے مگر اتباع رسول کا مقام بھی کسی کے لئے بند نہیں جو چاہے اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کر سکتا ہے اور اس مقا م کو حاصل کر سکتا ہے۔‘‘

(تفسیر سورۃ بقرہ صفحہ5)

قرآن کے تمام مشکل مضامین کا حل ہونا

سیدنا حضرت مصلح موعود نے فرشتہ کے ذریعے تفسیر فاتحہ سیکھنے کے رؤیا کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’یہ رؤیا اصل میں اِس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بیج کے طور پر میرے دل اور دماغ میں قرآنی علوم کا ایک خزانہ رکھ دیا ہے۔ چنانچہ وہ دن گیا اور آج کا دن آیا، کبھی کسی ایک موقع پر بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے سورہ فاتحہ پر غور کیا ہو یا اُس کے متعلق کوئی مضمون بیان کیا ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے سے نئے علوم مجھے عطا نہ فرمائے گئے ہوں۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے قرآن کریم کے تمام مشکل مضامین مجھ پر حل کر دئیے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض ایسی آیات جن کے متعلق حضرت خلیفہ اوّلؓ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اُن کے متعلق پوری تسلی نہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان آیات کے معانی بھی مجھ پر کھول دیئے گئے ہیں اور اَب قرآن کریم میں کوئی بات ایسی موجود نہیں جس کے مضمون کو میں ایسے واضح طور پر نہ بیان کر سکوں کہ دشمن سے دشمن کیلئے بھی اُس پر اعتراض کرنا ناممکن ہو۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی شخص اپنی شکست تسلیم نہ کرے لیکن یہ ہو نہیں سکتا کہ میں قرآن کریم کے رُو سے دشمن پر حجت تمام نہ کر دوں اور اُس کے اعتراضات کا ایسا جواب نہ دوں جو عقلی طور پر مُسکِت اور لاجواب ہو۔‘‘

(تفسیرکبیر جلد اوّل صفحہ5)

اس جگہ قرآن کریم کے مشکل مقامات کے حل کے چند نمونے بطور مثال پیش کئے جاتے ہیں۔

1۔حروف مقطعات کی شاندار تحقیق

حروف مقطعات کو مفسرین میں سے بعض نے بے معنی حروف قرار دیاجن کا علم صرف اللہ کو ہے۔ اوربعض نے سرسری تاویلات کیں۔سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے حروف مقطعات کو قرآنی سورتوں کے مضامین کی کلید قرار دیتے ہوئے جومنفرد، عمدہ اورشاندار تحقیق فرمائی اس کا ما حصل یہاں پیش کیا جاتا ہے ۔آپ فرماتے ہیں:۔
’’اب میں حروف مقطعات کے بارہ میں وہ تحقیق لکھتا ہوں جس کی بنیاد حضرت ابن عباسؓ اور حضرت علیؓ کے کئے ہوئے معنوں پر ہے اور وہ تحقیق یہ ہے۔ حروف مقطعات اپنے اندر بہت سے راز رکھتے ہیں ان میں سے بعض راز بعض ایسے افراد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا قرآن کریم سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں ہونا چاہئے لیکن اس کے علاوہ یہ الفاظ قرآن کریم کے بعض مضامین کے لئے قفل کا بھی کام دیتے ہیں کوئی پہلے ان کو کھولے تب ان مضامین تک پہنچ سکتا ہے جس جس حد تک ان کے معنوں کو سمجھتا جائے ۔ اسی حدتک قرآن کریم کا مطلب کھلتا جائے گا۔

میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب حروف مقطعات بدلتے ہیں تو مضمون قرآن جدید ہو جاتا ہے اور جب کسی سورۃ کے پہلے حروف مقطعات استعمال کئے جاتے ہیں تو جس قدر سورتیں اس کے بعد ایسی آتی ہیں۔ جن کے پہلے مقطعات نہیں ہوتے ان میں ایک ہی مضمون ہوتا ہے اسی طرح جن سورتوں میں وہی حروف مقطعات دہرائے جاتے ہیں وہ ساری سورتیں مضمون کے لحاظ سے ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں۔

اس قاعدہ کے مطابق میرے نزدیک سورہ بقرہ سے لے کر سورہ توبہ تک ایک ہی مضمون ہے اور یہ سب سورتیں الٓــمٓ سے تعلق رکھتی ہیں۔ سورہ بقرہ الٓــمٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورہ آل عمران بھی الٓــمٓ سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورۃ نساء، سورۃ مائدہ اور سورۃ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں اور اس طرح گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں جن کی ابتداء الٓــمٓ سے ہوتی ہے ان کے بعد سورہ اعراف المص سے شروع ہوتی ہے اس میں بھی وہی الٓــمٓ موجود ہے ہاں حرف ص کی زیادتی ہوئی ہے اس کے بعد سورہ انفال اور براء ۃ حروف مقطعات سے خالی ہیں ۔ پس سورۃ براءۃ تک الٓــمٓ کا مضمون چلتاہے سورۃ اعراف میں جو ص بڑھا یا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حرف تصدیق کی طرف لے جاتا ہے۔ سورہ اعراف انفال اور توبہ میں رسول کریم ﷺ کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورہ اعراف میں اصولی طور پر اور انفال اور توبہ میں تفصیلی طور پر تصدیق کی بحث ہے اس لئے وہاں ص کو بڑ ھا دیا گیا ہے۔

سورہ یونس سے الٓــمٓ کی بجائے الٓرٰشروع ہو گیا ہے ال تو وہی رہا اور ‘م’ کو بدل کر ‘ر’ کر دیا ۔پس یہاں مضمون بدل گیا۔ اور فرق یہ ہوا کہ بقرہ سے لےکرتوبہ تک تو علمی نقطہ نگاہ سے بحث کی گئی تھی اور سورہ یونس سے لے کر سورہ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی ہے اور واقعات کے نتائج پر بحث کو منحصر رکھا گیا ہے اس لئے فرمایا کہ الٓرٰ یعنی اَنَا اللّٰہُ اَرٰی میں اللہ ہوں جو سب کچھ دیکھتا ہوں اور تمام دُنیا کی تاریخوں پر نظر رکھتے ہوئے اس کلام کو تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ غرض ان سورتوں میں رویت کی صفت پر زیا دہ بحث کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں علم کی صفت پر زیادہ بحث تھی۔‘‘

(تفسیرکبیرجلداوّل صفحہ65۔66)

2۔سورۃ بقرہ کی کلید کا عطا ہونا

سورۃ بقرہ قرآن کی سب سے بڑی سورۃ اور اسلام کے بنیادی احکام ومسائل کے خلاصہ پر مشتمل ہے۔ اس کی تفسیر بھی اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مصلح موعود ؓکو القا فرمائی۔ آپؓ فرماتے ہیں:
’’میں سورہ فاتحہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس کی تفسیر مجھے ایک فرشتہ نے رؤیا میں سکھائی تھی سورہ بقرہ کی تفسیر مجھے اس طرح تو حاصل نہیں ہوئی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک القا کے طور پر مجھے اس کی تفسیر بھی سکھائی ہے ۔ اور جو شخص بھی ذرا غور سے دیکھے گا اسے معلوم ہو گا کہ جو نکتہ اس بارہ میں مجھے بتایا گیا ہے وہ ساری سورہ کو ایک باترتیب مضمون کی صورت میں بدل دیتا ہے اور اس امر کے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یہ تفہیم صرف اور صرف فضل الٰہی سے حاصل ہوئی ہے۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ستائیس سال کا عرصہ گزرا کہ میں چنددوستوں کو قرآن کریم پڑھا رہا تھا ۔ سورہ بقرہ کا درس تھا جب میں اس آیت پر پہنچا کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ (بقرہ ع15) تو یکدم میرے دل پر القاء ہوا کہ یہ آیت اس سورۃ کے مضامین کی کُنجی ہے اور اس سورۃ کے مضامین اس آیت کے مطابق اور اسی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں میں نے جب اس علم سے فائدہ اُٹھاکر سورہ بقرہ کا مطالعہ کیا تو میری حیرت اور عقیدت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ سورہ بقرہ کو میں نے نہ صرف اس آیت کے مضامین کے مطابق پایا بلکہ اس کے مضامین باوجود مختلف قسم کے ہونے کے میرے ذہن میں ایسے مستحضر ہو گئے کہ مجھے یُوں معلوم ہوا کہ گویا اس کے مضامین مو تیو ں کی لڑی کی طرح پروئے ہوئے ہیں۔

اس آیت کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم ؑکی ایک دُعا کا ذکر ہے جو انہوں نے مکّہ میں ایک نبی کے مبعوث ہونے کے لئے کی ہے اور اس دُعا کا مضمون یہ ہے کہ اس شہر اور اس قوم میں ایک ایسا نبی مبعوث ہو (1) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان اور یقین کو درست اور مضبوط کرنے والے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے دلائل لوگوں کے سامنے بیان کرے جو دُنیا کو خدا تعالیٰ تک پہچانے کے لئے راستہ کے نشان اور شمع ہدایت ثابت ہوں (2) وہ لوگوں کے سامنے ایک مکمل کتاب پیش کرے (3) جو شریعت وہ دُنیا کے سامنے پیش کرے اس کے اندر احکام اور مذہب کی اور ان تمام دینی امور کی جن پر مذہب کی ترقی کا مدار ہے حکمت بھی بیان کی گئی ہو (4) وہ ایسے ذرائع اختیا ر کرے اور ایسے طریق بتائے جن سے قوم کی ترقی اور پاکیزگی کے سامان پیدا ہوں۔

ان مضامین کو سامنے رکھ کر جب میں نے سورہ بقرہ کو دیکھا تو اس کے مضامین کو لفظاً لفظاً ان مضامین کے مطابق پایا بلکہ میں نے دیکھا کہ وہ مضامین بیا ن بھی اسی ترتیب سے ہوئے ہیں جس ترتیب سے ان کا اس آیت میں ذکر ہے اور ہر حصّہ میں اس آیت کے الفاظ کی طرف اشارہ بھی کر دیا گیا ہے یعنی آیات کے مضمون میں آیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پھر کتاب اور حکمت کا مضمون بیان کیا ہے اور کتاب اور حکمت کے الفاظ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر تزکیہ کا مضمون بیان کیا ہے تو اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چنانچہ مضامین کے لحاظ سے یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ کا مضمون 20رکوع تک بیان ہوا ہے اور کتاب اور حکمت کا مضمون 31رکوع تک بیان ہوا ہے۔ اور پھر تزکیہ کا مضمون 31ویں رکوع سے شروع ہو کر آخر سورۃ پر یعنی 40ویں رکوع پر ختم ہواہے جو شخص اس امر کو مدّنظر رکھ کر سورہ بقرہ کو پڑھے گا اس کے مطالب کی وسعت اور جامعیت اور ترتیب کی خوبی اور تاثیر کا حیرت انگیز مطالعہ کرے گا۔‘‘

(تفسیرکبیرجلداوّل صفحہ55۔56)

3۔ھاروت ماروت کے مشکل مسئلہ کا خوبصورت حل

سورہ بقرہ کی آیت103 میں ہاروت ماروت کا ذکر آیا ہے۔ کتب تفسیر میں ان کا قصہ یہ بیان کیا جا تا ہے کہ یہ دو فرشتے تھے ۔ جنہوں نے انسانوں پر اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے دو بہترین نمائندے بطور امتحان زمین پر بھجوائے اور فرمایا کہ تم بھی زمین پر جاکر انسانی قویٰ پاکر یہی کچھ کرو گے۔ یہ فرشتے لوگوں کے فیصلے بھی کیاکرتے تھے۔ ایران کی ملکہ زہرہ اپنے خاوند کا جھگڑا لے کر آئی تو اس پر عاشق ہوئے۔اور اس سے اپنی خواہش پوری کرنی چاہی۔ وہ خاوند کے قتل اور شراب پینے کی شرط پر راضی ہوئی ۔ بدکا ری کے بعد وہ عورت تو زہرہ ستارہ بن گئی اور ہاروت وماروت بابل میں آگ کے گہرے کنوئیں میں آج تک الٹے لٹکے سزا بھگت رہے ہیں۔

(تفسیر مظہری جلد اوّل صفحہ108)

اس آیت کے بارہ میں مفسرین کو بہت دقتیں پیش آئیں اور مذکورہ بالاتفسیر کے ساتھ وہ آیت کے یہ معنے کرنے پر مجبور ہوئے کہ دنیا میں دو دفعہ سحر سیکھا گیا۔ ایک حضرت سلیمان ؑ کے زمانہ میں دوسرے بابل میں ہاروت وماروت فرشتوں کے نزول کے وقت۔ اس معنی اور تفسیر سے فرشتوں خود اللہ تعالیٰ کی ذات اور انبیا پر جو اعتراض پیدا ہوتے ہیں وہ ظاہر ہیں۔اس آیت کے بارہ میں سید نا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جو ہمیشہ لوگوں کے لئے اضطراب کا موجب رہی ہے مجھ پر ابتدائی زمانہ میں کھول دی تھی۔

اس آیت کی مکمل تفسیرکا لطف تو تفسیر کبیر کے مطالعہ سے ہی اہل ذوق اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس جگہ اختصار پیش نظر ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے فرشتوں اور حضرت سلیمان ؓ کے جادو سکھانے کی تفسیر کو اس لئے رد فرمایا ہے کہ اس سے انبیا اور ملائکہ دونوں پر اعتراض پڑتا ہے۔ خصوصاً جبکہ یہ بات تاریخ کے بھی خلاف ہے۔نیز اگر مفسرین کے قصے درست ہوں تو اس آیت کا جوڑ پچھلی آیات سے کوئی نہیں بنتا اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے حکیمانہ کلام پر بھی اعتراض آتا ہے۔اور آیت کا کوئی مقصد واضح نہیں ہوتا۔حضور فرماتے ہیں:۔
’’لیکن میرے اس مضمون سے جو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولا ہے۔ اس کا جوڑ پچھلی آیات سے قائم رہتا ہے ……… ملائکہ پر بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا ۔ اور یہ آیت رسول اللہ کی صداقت کا ایک بڑا ثبوت بن جاتی ہے۔’’حضور کی بیان فرمودہ تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں رسول کریم ؐکے زمانہ کے یہود کی بعض خفیہ سازشوں کا ذکر ہے جو وہ فری میسن سوسائیٹیاں بنا کر کیا کرتے تھے۔جیسے نبی کریمؐ کے زمانہ میں یہودیوں نے آپ کے خلاف کسریٰ شاہ ایران کو بھڑکا کر آپ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کروائے تھے۔

یہود کا یہ وہی پرانا طریق تھا جو حضرت سلیمان ؑکے زمانہ میں ان کی حکومت کے حاجب یربعام کو ساتھ ملا کر یہود نے حکومت سلیمان کے خلاف بغاوت کروائی تھی۔ یربعام حکومت سنبھالتے ہی بتوں کے مندر بنواکر شرک میں مبتلاہو گیا تھا۔اور بنی اسرائیل اپنی اس سازش کے نتیجہ میں ذلیل، کمزور اور متفرق ہوکر بابل سے جلاوطن کئے گئے۔یربعام کو بھاگ کرمصر جانا پڑا۔مگر انہی یہودیوں نے جب خدا کے دو نبیوں حجیّ اور زکریا (جن کے صفاتی نام ھاروت ماروت ہیں) کے ماتحت اللہ کے حکم کے مطابق آزادی کے حصول کے لئے مخفی طور پر کام کیا اور اندرونی طور پر مدد کرنے کا بادشاہ خورس سے مخفی سمجھوتہ کیا تو بابل فتح ہوگیا۔ یہود کے دشمن تباہ ہوئے اور وہ جلا وطنی سے اپنے وطن واپس آگئے۔

دراصل اس آیت میں دو بظاہر مشابہ مثالیں بیان کیں جن کے نتائج مختلف تھے اور بتایا گیا کہ نبی کریم ؐ کے عہد کے یہودی آپ کی مخالفت میں حضرت سلیمان ؑکے دشمن یہود کی طرح کی مخفی تدبیریں کررہے ہیں۔ اس لئے ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو ان یہود کا ہوا تھا۔ یعنی جلاوطن ہوں گے۔ چنانچہ تا ریخ گواہ ہے کہ مدینہ کے یہود کا یہی انجام ہوا۔

(بحوالہ از تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ67تا86)

4۔استعارہ کی حقیقت

یہود کی نا فرمانیوں اور زیادتیوں کے بعدسورہ بقرہ کی آیت66میں ان کی اس سزا کا ذکر ہے کہ ’’ہم نے انہیں کہا ذلیل بندر ہو جاؤ۔‘‘ مفسرین نے اس سے مراد ظاہری مسخ لیا ہے کہ وہ لوگ واقعی بندر شکل ہو گئے اورمختلف روایات کے مطابق ساٹھ دن تک زندہ رہے پھر مر گئے۔

(روح المعانی جزاوّل صفحہ283)

مولوی مودودی صاحب لکھتے ہیں۔ ’’بعض اس سے مراد لیتے ہیں کہ ان میں بندروں کی سی صفات پیدا ہوگئی تھیں۔ لیکن قرآن کے الفاظ اورانداز بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسخ اخلاقی نہیں بلکہ جسمانی تھا۔‘‘

(تفہیم القرآن جلد اوّل صفحہ84)

سید ناحضرت مصلح موعود اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’اس آیت کے معنے کرنے میں بعض مفسرین نے دھوکا کھایا ہے اور ……… یہ سمجھا ہے کہ اس آیت میں ……… نافرمانی کرنی والی قوم کے بندر بن جانے کی خبر دی گئی ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں کیونکہ قرآنی کریم میں یہ واقعہ اس جگہ کے علاوہ دو اور جگہ (المائدہ:61، الاعراف:165 میں بھی) بیان کیا گیا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ درحقیقت بندر نہ بنے تھے بلکہ بندر کا لفظ تشبیہ اور مثال کے لئے آیا ہے۔ پھر آپ نے بندر سے تشبیہ کی وضاحت یہ فرمائی کہ ان کے اخلاق بندروں جیسے ہو گئے۔ یعنی بندروں کی طرح ذلیل دوسروں کے ہاتھ پر ناچنے والے، نقالی کرنے والے اور بدکاری کرنےوالے ہو گئے۔

(بحوالہ تفسیر کبیر جلد اول صفحہ49)

5۔محکمات و متشابہات

سیدناحضرت مصلح موعودؒ مشکل سے مشکل مضمون نہایت آسان پیرائے میں بیان فرمایا کرتے تھے۔ فضائل القرآن کے مو ضوع پر آپ نے 1928ء سے 1938ء کے جلسہ سالانہ پر معرکہ آراء تقاریر فرمائیں۔ ان میں آپؐ دیگر علوم ومعارف کے دریا بہانے کے علاوہ محکمات و متشابہات اور استعارہ کے مشکل مسئلہ کو خوب حل کر دکھایا۔ آپ نے سورہ آل عمران کی آیت 8 پر بنا کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ قرآن کی کچھ آیات کو محکمات کہا ہے جن کے مضامین محکم ہیں ان میں استعارہ استعمال نہیں ہوا ۔ مگر کچھ آیتیں متشا بہات کہلاتی ہیں جن میں استعارے استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی الفاظ میں تشابہ ہے۔وہ لوگ جو کچھ کجی چاہتے ہیں وہ استعاروں والی آیات کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہی حقیقت ہے اگر یہود کے متعلق کہا گیا کہ خدا نے انہیں بندر بنا دیا تو کہتے ہیں کہ واقعہ میں انسانی شکل مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا تھا۔ جو سمجھنے والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آیت بھی خدا کی طرف سے ہے۔ جو استعارے والی ہے اور وہ بات بھی اس کی طرف سے ہے جو اسے حل کرنے والی ہے اور نا ممکن ہے کہ ان دونوں میں اختلاف ہو ……… جب تم استعارہ کو حقیقت قرار دو گے تو قرآن کریم کی بعض آیات جھوٹی ہو جاتی ہیں………

ایک موٹی مثال احیاء موتیٰ کی ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ مردے زندہ کیا کرتے تھے۔ دوسری طرف قرآن میں بھی لکھا کہ مردے کی روح اس جہان میں واپس نہیں آتی۔ اب اگر ہم مردوں کوزندہ کرنے سے حقیقی مردوں کا احیاء مراد لیں تو ان میں سے ایک آیت کو نعوذباللہ جھوٹا ماننا پڑے گا۔ لیکن اگر مردوں سے روحانی مردے مراد لیں تو دونوں آیتیں سچی ہو جاتی ہیں۔رسول کریمؐ نے فرمایا۔ کہ تم سے پہلی قومیں اسی اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کی کتاب اس لئے اتری ہے کہ اس کی ہر آیت دوسری آیت کی تصدیق کرے۔ پس جو آیت دوسری آیت کی تصدیق نہ کرے اس کے معنے بدلنے چاہئیں۔ اور دونوں آیات کے مضمون میں مطابقت پیدا کرنی چاہئے۔یہ اصول سامنے رکھتے ہوئے آپ نے پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح، جنّات، وادی نمل،خلق طیر کی لطیف تفسیر بیان کی ہے۔

(فضائل القرآن، انوارالعلوم جلد14، ص371)

علم قرآن میں مقابلہ کا چیلنج

سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے علم قرآن کے بارہ میں بارہا یہ چیلنج اپنی زندگی میں شائع کروا یا جو آج تک لاجواب ہے۔ وہ چیلنج یہ ہے۔
’’غیر احمدی علماء مل کر قرآن کریم کے وہ معارف ِ روحانیہ بیان کریں جو پہلے کسی کتاب میں نہیں ملتے اور جن کے بغیر روحانی تکمیل ناممکن تھی۔ پھر میں ان کے مقابلہ پر کم سے کم دگنے معارف ِ قرآنیہ بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھے ہیں اور ان مولویوں کو تو کیا سوجھنے تھے پہلے مفسرین و مصنفین نے بھی نہیں لکھے۔ اگر میں کم سے کم دگنے ایسے معارف نہ لکھ سکوں تو بے شک مولوی صاحبان اعتراض کریں۔طریق فیصلہ یہ ہو گا کہ مولوی صاحبان معارف ِ قرآنیہ کی ایک کتاب ایک سال تک لکھ کر شائع کر دیں اور اس کے بعد میں اس پر جرح کروں گا جس کے لئے مجھے چھ ماہ کی مدت ملے گی ۔ اس مدت میں جس قدر باتیں ان کی میرے نزدیک پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں ان کو میں پیش کروں گا۔ اگر ثالث فیصلہ کر دیں کہ وہ باتیں واقعہ میں پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں تو اُس حصہ کو کاٹ کر صرف وہ حصہ ان کی کتاب کا تسلیم کیا جائے گا جس میں ایسے معارف ِ قرآنیہ بیان ہوں جو پہلی کتب میں نہیں پائے جاتے ۔ اِس کے بعد چھ ماہ کے عرصہ میں ایسے معارف قرآنیہ حضرت مسیح موعود کی کتب سے یا آپ کے مقرر کردہ اصول کی بناء پر لکھوں گا جو پہلے کسی مصنف اسلامی نے نہیں لکھے اور مولوی صاحبان کو چھ ماہ کی مدت دی جائے گی کہ وہ اس پر جرح کر لیں اور جس قدر حصہ ان کی جرح کا مصنف تسلیم کریں اس کو کاٹ کر باقی کتاب کا مقابلہ ان کی کتاب سے کیا جائے گا اور دیکھا جائے گاکہ میرے بیان کردہ معارف قرآنیہ جو حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے لئے گئے ہوں گے اور جو پہلی کسی کتاب میں موجود ہوں گے، اِن علماء کے معارف ِ قرآنیہ سے کم از کم دگنے ہیں یا نہیں جو انہوں نے قرآن کریم سے ماخوذ کئے ہوں اور وہ پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہوں۔ اگر میں ایسے دُگنے معارف دکھانے سے قاصر رہوں تو مولوی صاحبان جو چاہیں کہیں لیکن اگر مولوی صاحبان اِس مقابلہ سے گریز کریں یا شکست کھائیں تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا دعویٰ منجانب اللہ تھا۔یہ ضروری ہو گا کہ ہر فریق اپنی کتاب کی اشاعت کے معاً بعد اپنی کتاب دوسرے فریق کو رجسٹری کے ذریعہ سے بھیج دے۔ مولوی صاحبان کو میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ دگنی چوگنی قیمت کا ، وی پی میرے نام کر دیں۔ اگر مو لوی صاحبان اس طریق فیصلہ کو نا پسند کریں اور اس سے گریز کریں تو دوسرا طریق یہ ہے کہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادنیٰ خادم ہوں میرے مقابلہ پر مولوی صاحبان آئیں اور قرآن کریم کے تین رکوع کسی جگہ سے قرعہ ڈال کر انتخاب کر لیں اور وہ تین دن تک اُس ٹکڑے کی ایسی تفسیر لکھیں جس میں چند ایسے نکات ضرور ہوں جو پہلی کتب میں موجو د نہ ہوں اور میں بھی اُسی ٹکڑے کی اسی عرصہ میں تفسیر لکھوں گا اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم کی روشنی میں اُس کی تشریح بیان کروں گا اور کم سے کم چند ایسے معارف بیان کروں گا جو اس سے پہلے کسی مفسر یا مصنف نے نہ لکھے ہوں گے اور پھر دنیا خود دیکھ لے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کی کیا خدمت کی ہے اور مولوی صاحبان کو قرآن کریم اور اُس کے نازل کرنے والے سے کیا تعلق اور کیا رشتہ ہے۔‘‘

(الموعود، انوارالعلوم جلد17 صفحہ572)

اسی طرح آپ نے فرمایا۔
’’میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایساہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطافرمایاگیا ہو۔ خدا نے مجھے علم ِ قرآن بخشاہے اور اِس زمانہ میں اُس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا میں استاد مقرر کیا ہے۔‘‘

(المو عود، انوار العلوم جلد17 صفحہ647)

غیروں کا اعتراف

یہ چیلنج آج تک کسی عالم دین کو قبول کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ بلکہ اس چیلنج کا جواب تودر کنار الٹا مخالف وموافق محققین نے حضرت مصلح موعود کے علم قرآن کو تسلیم کیا۔ اس کی چند مثالیں پیش ہیں۔

(1)مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر اخبار ’زمیندار‘ نے احراریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

احراریو! کان کھول کر سن لو۔ تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود صاحب کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے۔ مرزا محمود کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا خاک دھرا ہے۔تم میں سے کوئی ہےجو قرآن کے سادہ حرف بھی پڑھ سکے۔ تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا تم خود کچھ نہیں جانتے ۔تم لوگوں کو کیا بتاؤ گے۔ مرزا محمود کی مخالفت تمہارے فرشتے بھی نہیں کرسکتے۔ میں حق بات کہنے سے باز نہیں آ سکتا۔

(ایک خوفناک سازش مصنفہ مظہر علی اظہر صفحہ196)

(2) سیدجعفر حسین صاحب بی اے، ایل ایل بی حیدرآباد دکن حضرت مصلح موعود کی رقم فرمودہ تفسیر کبیر کے مطالعہ کی رُوداد یوں بیان کرتے ہیں۔
’’میں نے تفسیر کبیر کا مطالعہ شروع کیا ۔۔۔ تو مجھے اس تفسیر میں زندگی سے معمور اسلام نظر آیا۔ اس میں وہ سب کچھ تھا جس کی مجھ کو تلاش تھی۔ تفسیر کبیر پڑھ کر میں قرآن کریم سے پہلی دفعہ روشناش ہوا۔‘‘

(الفضل 23جون 1962ء)

(3) ہندوستان کے ایک مشہور اہل قلم اور محقق ادیب نیاز فتح پوری جو دقیق النظر بھی ہیں۔تفسیر کبیر سورۃ یونس کے مطالعہ کے بعد اپنی رائے لکھتے ہیں۔
’’ تفسیر کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے اور میں اسے نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہء فکر آپ نے پیدا کیا ہے۔اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے۔جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحر علمی آپ کی وسعت نظر آپ کی غیرمعمولی فکر وفراست آپ کا حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک اس سے بے خبر رہا۔ کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا۔کل سورہ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط ؑپر آپ کے خیالات معلوم کرکے جی پھڑک گیا۔ اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا۔ آپ نے ھٰو لَاءِ بَنَاتِیْ کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں۔ خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے۔‘‘

(مکتوب نیاز فتح پوری بنام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی۔اکتوبر1959ء)

(4) ’’صدق جدید‘‘ کے مدیر شہیر مولانا عبد الماجد صاحب دریا آبادی نے حضرت مصلح موعود کے وصال پر تحریر فرمایا۔
’’قرآن و علوم ِقرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی اور اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں ان کا اللہ انہیں صلہ دے۔ علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح، تبیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ہے۔‘‘

(صدق جدید18نومبر1965ء)

اشاعت علم قرآن کی تڑپ اور خواہش

سیدنا حضرت مصلح موعود ؑ کو قرآن سے جو گہری محبت تھی اس کا ایک اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1955ء میں قاتلانہ حملہ کے بعدجب حضور کی علالت انتہائی تشویشناک صورت اختیار کر گئی اور بغرض علاج آپ کو یورپ تشریف لے جانا پڑا۔ اس موقع پر حضور نے احباب جماعت کے نام ایک خصوصی پیغام میں تحریر فرمایا کہ
’’میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے خدا! ابھی دنیاتک تیرا قرآن صحیح طور پر نہیں پہنچا اور قرآن کے بغیر نہ اسلام ہے نہ مسلمانوں کی زندگی۔ تو مجھے پھر سے توفیق بخش کہ میں قرآن کے بقیہ حصّہ کی تفسیر کر دوں اور دنیا پھر ایک لمبے عرصے کے لئے قرآن شریف سے واقف ہو جائے اور اس پر عامل ہو جائے اور اس کی عاشق ہو جائے۔‘‘

(الفضل 10۔اپریل 1955ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم خلیفہ کی یہ خواہش پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

پچھلا پڑھیں

امریکن عیسائی مشنری زویمر کی قادیان آمد اور حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 فروری 2021