• 29 اپریل, 2024

جوبلی سیرالیون کی تقریبات کا باقاعدہ آغاز

نائب صدر مملکت سیرالیون کی شرکت

سابق نائب صدر مملکت،منسٹرز، سابق منسٹرز،ممبران پارلیمنٹ، مختلف ممالک کے ایمبیسڈرز، چیف آف فائر فورس، ڈسٹرکٹ چئیرمین، پیرامؤنٹ چیفس ونمائندگان، چیفڈم سپیکرز، متعدد قبائلی سردار، اعلیٰ حکومتی عہدیداران، ڈسٹرکٹ آفیسرز، اعلیٰ پولیس افسران، سپریم کورٹ و دیگر ججز، ڈسٹرکٹ امامز، چیفڈم امامز، صدر، نائب صدر و دیگر ممبران اسلامک فورم، کثیر تعداد غیر از جماعت آئمہ کرام، بزنس مین، بینک مینیجرز، ڈاکٹرز،مختلف میڈیا ہاؤسز سے تعلق رکھنے والے صحافی حضرات کے علاوہ مختلف طبقہ ہائے فکر کے معزز افراد نے شرکت کی۔

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے جماعت احمدیہ کے سو سال مکمل ہونے کی خوشی میں ایک تقریب کاانعقاد کیا گیا۔تقریبات کا آغاز تو گذشتہ ماہ میں ہو گیا تھا لیکن ان تقریبات کے باقاعدہ آغاز کیلئے اس تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

اس تقریب کے انعقاد سے قریبا دو ہفتے قبل ہی تمام اعلیٰ افسران اور اہم حکومتی شخصیات کو باقاعدہ دعوت نامے بھجوائے گئے اور بار بار یادد ہانی بھی کروائی گئی۔اس تقریب میں نائب صدر مملکت سیرالیون شامل ہوئے اور ان کے ساتھ بڑی تعداد میں منسٹرز، سابق منسٹرز، ججز،اعلیٰ سرکاری عہدیداران،اعلیٰ فوجی و پولیس افسران بھی شامل ہوئے۔

پروگرام کا باقاعدہ آغازتلاوت قرآن کریم سے ہواجو مکرم الحاجی ابوبکر بنگورا صاحب نے کی اور اس کا ترجمہ بھی پیش کیا۔ اس کے بعد جامعہ المبشرین سیرالیون کے طلبہ نے رسول کریم ﷺ کی مدح میں قصیدہ ، یاعین فیض اللہ والعرفان، بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بمع اردو و انگریزی ترجمہ نہایت ترنم کے ساتھ پیش کیا۔

اس کے بعد مکرم موسیٰ میوا صاحب نے پروگرام میں شامل ہونے والے معزز مہمانوں کا تعارف کروایا۔ مکرم محترم مولانا سعیدالرحمٰن صاحب، امیر و مشنری انچارج سیرالیون، نے مختصر طور پر افتتاحی کلمات ادا کئےجن میں آپ نے 23 مارچ کے دن کی جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اہمیت کو بیان کیا کہ آج کے دن 40 افراد نے حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اسی طرح 1891ء میں منعقد ہونے والے پہلے جلسہ سالانہ کا بھی ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کیلئے انہیں جلسہ کیلئے مدعو کیا اور 75افراد نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ اور حضرت مسیح موعودؑ نے ان احباب کو ارشاد فرمایا کہ جلسہ کے بعد قادیان کی گلیوں میں ایک چکر لگایا جائے تا کہ لوگوں کو پتا چلے کہ جماعت کتنی بڑھ چکی ہے۔جبکہ آج کے دن ہم دیکھتے ہیں کہ 212 سے زائد ممالک میں جماعت قائم ہو چکی ہے اور ہر سال ہم کئی ہزار لوگوں کو جلسہ سالانہ میں شامل دیکھتے ہیں اور اس سال جو کہ جوبلی کا سال ہے ہمارا اندازہ تھا کہ جلسہ سالانہ سیرالیون میں شاملین کی تعداد 50 ہزار کے قریب ہو گی۔اسی طرح مکرم امیر صاحب نے رسول کریم ﷺ کی بیان فرمودہ پیشگوئیاں بابت آمد مسیح موعود و مھدی موعود کا بھی ذکر کیا۔ آپ نے آج کل کے دنیاوی حالات کا بھی ذکر کیا کہ لوگ خدا تعالیٰ کی حدود اور انسانی فطرت کو بدلنا چاہتے ہیں۔ آپ نے بیان کیا کہ مسیح موعودؑ کی کیا ضرورت تھی۔یہی تھی کہ مسلمان ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور آپس میں اختلافات بہت بڑھ گئے ہیں یہی وقت تھا کہ مسیح اور مھدی آتا اور لوگوں کی اصلاح کر کے انہیں خدا تعالیٰ کی طرف بلاتا۔اسی طرح آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوں گا‘‘ کا بھی ذکر کیا کہ لوگ کہتے تھے یہ آواز تو قادیان سے باہر نہیں جائے گی اور آپ دنیا کی بات کرتے ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اگر میں خدا کی طرف سے ہوں تو یہ پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔اسی پیش گوئی کے تناظر میں حضرت مسیح موعود ؑ کا پیغام 1921 میں سیرالیون کی سرزمین پر پہنچا جب حضرت مسیح موعودؑ کے ایک نامور صحابی حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب رضی ا للہ عنہ نے یہ پیغام پہنچایا۔ سیرالیون کی جماعت بہت خوش قسمت ہے کہ اس کی بنیاد حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی نے رکھی اور ان کے بعد جو دوسرے مبلغ یہاں آئے یعنی حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحب وہ بھی حضرت مسیح موعود ؑ کے قریبی ساتھی تھے۔ان کے بعد مولوی الحاجی نذیر احمد علی صاحب تشریف لائے جنہوں نے یہاں باقاعدہ جماعت کی بنیاد رکھی اور 1938 میں پہلا اسلامی سکول بھی Rokupr میں قائم کیا۔ اس وقت کے لوگوں نے ان کو کہا کہ انگریزی زبان تو حرام ہے ہم اپنے بچوں کوآپ کے سکول میں نہیں بھیجیں گے۔اس پر مولوی صاحب نے ان کو سمجھایا کہ کوئی بھی زبان حرام نہیں ہے۔ سب زبانیں اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں آپ اپنے بچوں کو بھیجیں میں انہیں عربی سکھاؤں گا، قرآن سکھاؤں گا اور انگریزی بھی۔ اگر وہ انگریزی نہیں سیکھیں گے تو وہ صرف مزدور بن کر رہ جائیں گے یا کسی جگہ کے چوکیدار بن جائیں گے۔وہ کبھی بھی اس ملک کے منسٹرز یا صدر نہیں بن سکیں گے۔ اس پر لوگوں نے اپنے بچوں کو بھجوانا شروع کر دیا اور سکول کا پہلا رول نمبر مسٹر ایس آئی کروما کا تھا جو بعد میں اس ملک کے پہلے نائب صدر بنے۔یہاں آنے والے ابتدائی مشنریز اور ابتدائی احمدیوں نے بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا لیکن یہ سب تو الٰہی لوگوں کو برداشت کرنے ہی پڑتے ہیں۔ اور ان کا ان مشکلات پر صبر اس بات کی گارنٹی ہوتی ہے کہ یہ لوگ اور جماعت بڑھیں گے اور ترقی کریں گے۔ آپ نے ایک ابتدائی احمدی پرنسپل مکرم عبدالسلام ظافر صاحب کی مثال دی جنہیں Jawi نامی جگہ پر سکول شروع کرنے کیلئے بھجوایا گیا جب سکول اچھی طرح چل پڑا تو ان کا تبادلہ ہوگیا۔ جانے سے پہلے سارے لوگ اکٹھے ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کو کچھ تحفے دینا چاہتے ہیں تا کہ آپ ہمیں یاد رکھیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ایک تحفہ میں بھی آ پ کو دے کر جارہا ہوں اور وہ یہ سکول ہے۔ کیونکہ یہاں آپ لوگ، آپ کے بچے اور آنے والی نسلیں بھی پڑھیں گی۔ اس سکول کی عمارت کی تعمیر کے وقت میرے پاس سیمنٹ اور ریت کیلئے تو پیسے تھے لیکن بلاکس بنانے کیلئے پیسے نہ تھے تو میں خود اور میرے دو بیٹوں نے مل کر اپنے ہاتھوں سے بلاکس بنائے۔اس عمارت کے ہر بلاک میں میری محنت اورپسینہ شامل ہے۔ اسی طرح ہمارے بہت سارے ڈاکٹرز بھی یہاں خدمت کیلئے آئے۔Boajibu اس وقت سیرالیون اور لائیبیریا میں بہت مشہور تھا کیونکہ یہاں پر لندن کے کنگز کالج سے پڑھ کر مکرم ڈاکٹر امتیاز احمد چوہدری صاحب تشریف لائے تھے۔ اور انہوں نے لمبا عرصہ یہاں خدمت کی تھی۔ آج جب ہم سو سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں توہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم نے اسی طرح قربانیاں کر کے بہت سارے محنتی اور قابل بھروسہ لوگ پیدا کرنے ہیں۔ اور آج یہاں پر موجود ہر احمدی کو اس بات کا پختہ عہد کرنا چاہیئے۔ آخر پر آپ نے شامل ہونے والے پیراماؤنٹ چیفس اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران کا شکریہ ادا کیا۔

اس کے بعد مکرم نذیر احمد علی کمانڈا بونگے صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جانب سے بھجوایا گیا پر شفقت پیغام پڑھ کر سنایا۔ (حضورِ انور کے انگریزی پیغام کا اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا :

احمدیہ مسلم جماعت سیرالیون۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مجھے بہت خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیہ مسلم جماعت سیرالیون اپنے سو سال مکمل ہونے کی تقریبات منا رہی ہے۔ ماشاءاللہ

اس عرصہ کے دوران جماعت نے سیرالیون میں تمام میدانوں میں بہت کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن ابھی آپ کے سامنے ایک لمبا سفر ہے جسے آپ نے مکمل کرنا ہے۔ اوراس کے لئے آپ کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سیرالیون کے تمام لوگوں تک پہنچانی ہوں گی۔آپ کو ان کو آگاہ کرنا ہوگا کہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ایک قریبی تعلق پیدا کرے۔ انسان کو اپنے خالق سے متعلق آگاہی حاصل کرنی ہوگی۔ اور یہی حضرت مسیح موعود ؑ کی آمد کا مقصد تھا، جن کے آنے کی واضح پیشگوئی حضرت محمد ﷺ نے فرمائی تھی۔ آپ کے آنے کا ایک بنیادی مقصد یہ تھا کہ انسان کو یہ پتہ چلے کہ ہماراخالق اللہ ہے جو ایک ہے، جو تمام جہانوں کا رب ہے اور تمام طاقتوں کا مالک ہے۔

اس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی تمام زندگی ہمیں یہ سکھانے میں وقف کی کہ ہمیں اپنے آپ کو مکمل طور پر، واحد و یگانہ اور حقیقی طاقتور اللہ کے سپرد کردینا چاہئے اور اس کے سامنے جھکنا چاہئے۔

مولانا عبدالرحیم نیر صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے مبلغ تھے جنہوں نے 19؍فروری 1921ء کو سیرالیون کے ساحل پر قدم رکھا۔ آپ کے بعد کے ابتدائی مبلغین میں مولانا حکیم فضل الرحمٰن صاحب اور مولانا نذیر احمد علی صاحب شامل ہیں جنہوں نے اسلام کے لئے بڑی قربانیاں دیں۔

اللہ تعالیٰ آپ کو ان کو قربانیوں کی حقیقی روح کو سمجھنے کا موقع دے اور آپ کو اپنے آپ میں ایک خالص تبدیلی لانے کی توفیق دے تاکہ آپ ان کے روشن نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلام کا حقیقی پیغام اس زمین میں رہنے والے ہر ایک بندہ تک پہنچا سکیں اور ان کو حضرت محمد ﷺ کے جھنڈے تلے لے آئیں تا وہ خدائے واحدویگانہ کے عبادت گذار بندے بن جائیں۔ اللہ آپ کو یہ ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق دے آمین۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ آپ کے سامنے ایک لمبا سفر ہے۔ اب جب کہ پہلے سو سال مکمل ہوچکے ہیں، آپ کو اب ایک نئے جوش وجذبے کے ساتھ اپنے آپ کو جماعت کی خدمت کے لئے وقف کردینا چاہیئے۔ آپ کو صرف اس بات پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے اور خوش نہیں ہونا چاہئے کہ سیرالیون میں جماعت کو قائم ہوئے سو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ بلکہ آپ کو ایک سچا تجزیہ کرنا چاہئے کہ آپ نے ان گذرے ہوئے سو سالوں میں کیا کیا ہے؟ آپ کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیئے کہ آپ نے کیا کامیابیاں حاصل کیں ہیں اور کس طرح آپ زیادہ رفتار کے ساتھ مزید کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔ اور کس طرح اپنی کمزوریوں کو دور کرسکتے ہیں؟ صرف وہی قومیں کامیاب ہو رہی ہیں جو مسلسل اپنی کارکردگی میں بہتری لارہی ہیں اور نئے منصوبے بناتی ہیں کہ کس طرح مزید آگے بڑھا جاسکے۔ اس لئے آپ کو تبلیغ اور احبابِ جماعت کی تربیت کے لئے ملکی سطح پر نئی حکمتِ عملی اپنانی ہوگی تاکہ آپ اس قدر مسلسل آگے بڑھتے چلے جائیں کہ آنے والے سالوں میں جماعت کی ترقی میں کئی گنا اضافہ ہو۔ سب سے ضروری یہ ہے کہ یہ صرف عہدیداران کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ضروری ہے کہ تمام احبابِ جماعت اس میں مکمل طور پر شامل ہوں اور ان پروگراموں کو نافذ کریں اور ان عظیم مقاصد کو حاصل کریں۔ اللہ آپ کو ایسا کرنے کی توفیق دے۔ اللہ آپ پر فضل فرمائے۔ آپ کا مخلص

مرزا مسرور احمد
خلیفۃ المسیح الخامس

خوشنودی کے پیغامات

اس کے بعد مختلف مہمانوں نے اس موقع پر خوشنودی کے پیغامات دئیے۔سب سے پہلے مکرم الحاجی مرتضیٰ سیسے صاحب نے خوشنودی کا پیغام دیا۔ موصوف بطور چیئرمین حج کمیٹی سیرالیون خدمت بجا لا رہے ہیں اسی طرح انٹر ریلیجیئس کونسل سیرالیون کے نائب صدر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا:
’’آج کا دن ہمارے ملک اور جماعت احمدیہ سیرالیون کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے آج کے دن ہم جماعت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے کی خوشیاں منا رہے ہیں۔یہ سو سال دراصل ملکی ترقی میں اہم کردار، تعلیمی میدان میں اعلیٰ خدمت ، طبی میدان میں خدمت اور روحانی اسلامی ترقی کے سو سال ہیں۔ اور یقیناً ان خدمات اور ترقیات کے پیچھے کئی لوگوں کی سخت محنت ہے اور ہم ان ترقیات پر اللہ تعالیٰ کے مشکور ہیں۔ میں آج کے دن جماعت احمدیہ کو سو سال مکمل کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس موقع پر ہمیں ابتدائی خدمت گذاروں اور موجودہ خدمت کرنے والوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیئے۔ جیسا کہ 1937ء میں مکرم الحاجی نذیر احمد علی صاحب مغربی افریقہ کے ایک مشکل سفر کے بعد باقاعدہ مشنری کے طور پر سیرالیون تشریف لائے اور پھر خدمت کرتے کرتے یہاں ہی وفات پائی۔‘‘

دوسرا پیغام جناب Hon. Kandeh Kolleh Yumkella نے پیش کیا۔ موصوف سیرالیون کی ایک سیاسی پارٹی N.G.C. کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے کہا:
’’میرے لئے بہت فخر کی بات ہے کہ مجھے آج جماعت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر اس پروگرام میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔ جماعت احمدیہ سیرالیون ہر سال نہایت شاندار جلسہ جات کا انعقاد کرتی ہے۔ آج سے 30 سال قبل سیرالیون کی تاریخ میں ایک نہایت ہولناک خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا اور ہماری دعا ہے کہ آئندہ کبھی بھی ایسا وقت نہ آئے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ہمارے ملک اور قوم کیلئے دعائیں کرتی رہے گی۔ اور ہم سیاسی لیڈرز کیلئے بھی دعا کریں کہ ہم اپنے غلطیوں سے سبق سیکھیں اور ایسی غلطیاں نہ دہرائیں جو کہ اس ہولناک جنگ کا باعث بنیں۔ میں جماعت احمدیہ کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں کہ انہوں نے ہمارے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے آپ ہی کی جماعت ہے جو ہمارے ملک میں حقیقی اسلام اور سائنسی تعلیم لائے کیونکہ جب کوئی بھی کسی ملک میں تعلیم کا انتظام کرتا ہے تو وہ اس ملک کے بچوں اور مستقبل کو سنوارتا ہے۔اور میں اس بات کا برملا اظہار کرتا ہوں کہ ہمارے ملک نے جو بھی اچھی چیزیں سیکھی ہیں اور جو بھی ترقیات حاصل کی ہیں ان سب میں جماعت احمدیہ کا اہم کردار ہے۔ اور میں اس بات پر آپ کا تہہ دل سے شکرگذار ہوں۔اسی طرح میں ان لوگوں کا بھی شکر گذار ہوں جنہوں نے ہمارے ملک میں جماعت احمدیہ کے پیغام لانے کیلئے اپنے ملکوں کو چھوڑا اور ان کا مقصد صرف اور صرف انسانیت کی خدمت تھا۔‘‘

موصوف نے اپنے زمانہ طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا :
’’میں ایک عیسائی سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں مقیم تھا لیکن ہر جمعہ کے روز میں سکول کی انتظامیہ سے اجازت لے کر کچھ مسلمان طلباء کو ساتھ لیتا اور جمعہ کی نماز احمدیہ مسجد میں اد اکرتا۔اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ نزدیک تھی اور دوسری اور اہم وجہ یہ تھی کہ جمعہ کے بعد مسجد میں اسلامی موضوعات پر انگریزی اور کریول (creole) زبان میں لیکچرز ہوتے تھے اور ان لیکچرز کی مدد سے ہم اسلام کو مزید بہتر رنگ میں جانتے اور سمجھتے۔اسی طرح میں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے بہت فائدہ اٹھایا ہے نہ صرف اسلامی تعلیمات ان سے سیکھیں بلکہ کئی اہم موضوعات کے متعلق قرآنی آیات بھی اس لٹریچر کی مدد سےسیکھیں۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے‘‘۔

اس کے بعد Rev. Dr. Edward Tamba Charles نے اظہارخیال کیا۔ موصوف سیرالیون کے ایک بڑے عیسائی لیڈر ہیں اور انٹرریلیجیئس کونسل کے صدر بھی ہیں۔ انہوں نے کہا:
’’میں جماعت احمدیہ کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں کہ آج کی صد سالہ جوبلی کی تقریب میں مجھے خصوصی پیغام دینے کی دعوت دی گئی۔ جماعت احمدیہ نے اپنے ماٹو ’’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ پر عمل کرتے ہوئے اپنی جماعت کے لوگوں کی روحانی اصلاح کے ساتھ ساتھ سارے ملک کے لوگوں کیلئے تعلیم، طب اور دیگر کئی اہم امور میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور یہ سب کام انہوں نے تمام لوگوں کیلئے بغیر کسی مذہب اور رنگ و نسل کی تفریق کے کئے ہیں۔ اور میں انٹرریلیجیئس کونسل کی طرف سے جماعت احمدیہ کا ان خدمات پر بہت شکرگذار ہوں۔ اور جماعت احمدیہ انٹرریلیجیئس کونسل کی بھی بہت ایکٹو ممبر ہے۔ اسی طرح میں بطور آرچ بشپ آف سیرالیون جماعت احمدیہ کو آج جوبلی پروگرام کے موقع ان کی تمام دینی، تعلیمی اور طبی خدمات پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آج ان کے ساتھ مل کر ان کے پہلے سو سال مکمل ہو نے پر اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہوں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنے فضل فرماتا چلا جائےاور آنے والے سالوں میں بھی ان کی اسی طرح راہنمائی کرنے والا ہو‘‘۔

Hon. Dr Kaifala Marah جو کہ مختلف اوقات میں کئی منسٹریز اور اہم حکومتی عہدوں پر خدمت کی چکے ہیں، نے اپنے پیغام میں کہا:
’’میں آج احمدیہ مسلم جماعت کے سو سال پورے ہونے پربطور نمائندہ احمدیہ مسلم جماعت ایک مختصر پیغام دینا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ احمدیہ جماعت کا ماٹو ’’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ نفرت پھیلانے والے لوگوں کے دلوں میں سنہرے رنگ سے لکھ دیا جائے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ احمدیہ جماعت بہترین رنگ میں ان خوشیوں کو منانے والی ہو اور آپ کو مزید روشن مستقبل میسر آئے۔ جماعت احمدیہ اپنی اچھی خصوصیات کی وجہ سے مشہور ہے مثلاً امن کا فروغ، سب لوگوں کیلئےطبی و تعلیمی سہولیات کا مہیا کرنا اور اس بات کو ایک سو سال مکمل ہو چکے ہیں۔ اور میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ان خدمات کو جاری رکھیں۔ میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ آپ روز بروز ترقی کرتے جائیں اور آپ کا مستقبل ماضی سے بہتر ہوتا چلا جائے۔ آج کا پروگرام صرف جماعت احمدیہ کے سو سال مکمل ہونے کا نہیں ہے بلکہ ہم سب سیرالیون والوں کیلئے ایک سبق ہے کہ ہم نے جماعت احمدیہ کے ماٹو ’’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ سے کیا سیکھا۔ ہم سیرالیون کا 60واں یوم آزادی منانے والے ہیں۔ کیا ہم ایک دوسرے سے دلی محبت کرتے ہیں؟ ہمارا شمار دنیا کی ایسی اقوام میں ہوتا ہے جو مذہبی رواداری کی اعلیٰ مثال ہیں؟ ہمیں یہ رواداری اپنی سیاست اور عام زندگی میں بھی قائم کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

P.C. Sheikhu A.T. Fasuluki Sonsiama جو کہ سیرالیون کی نیشنل پیراماؤنٹ چیفس کونسل کے چیئرمین ہیں۔ نے اپنے پیغام میں کہا:
’’میں نے ذاتی طور پر تو احمدیہ سکول میں پڑھائی نہیں کی لیکن ہمیں پڑھانے والوں کے متعلق میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ انہوں نے احمدیہ سکولز سے سب کچھ سیکھا ہے۔میں نے گذشتہ سال ہونے والے جلسہ سالانہ سیرالیون میں نائب صدر مملکت کی تقریر کو بغور سنا تھا اور جماعت احمدیہ کی ان خدمات کا ذکر بار بار ہوا جو آپ نے انسانی ترقی کیلئے کی ہیں۔ آج کی دنیا میں کسی کوعزت دینے کا معاملہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ اگر آپ مجھے عزت دیں گے تو میں بھی آپ کو عزت دوں گا۔ جماعت احمدیہ سیرالیون میں 1921ءمیں آئی اور اس وقت ہمارے آبا و اجداد کی خدمت کی۔ اور اس کے بدلہ میں آج تک ہم جماعت احمدیہ کے شکر گزار ہیں۔ آپ کی جو خدمات تعلیم، طب، زراعت اور امن کے قیام کیلئے ہیں اس کا مقابلہ کوئی بھی فرد یاجماعت نہیں کر سکتی کیونکہ 100 سال کا عرصہ بہت لمبا عرصہ ہے۔ اسلئے کسی اور کیلئے ایسی خدمات بجالانا ممکن نہیں ہو گا۔میں اپنی اور اپنے تمام ساتھی پیراماؤنٹ چیفس کی طرف سے جماعت احمدیہ کو مکمل سپورٹ کی یقین دہانی کرواتا ہوں اور میں جماعت احمدیہ کا بہت شکرگذار ہوں۔‘‘

H.E. Akbar Khosravinzehadجو کہ ایران کے ایمبیسیڈر ہیں، نے اپنے پیغام میں کہا:
’’جماعت احمدیہ کے پروگراموں میں شرکت کرکے مجھے دلی خوشی ملتی ہے۔ گذشتہ سال ساری دنیا کیلئے خصوصاً مشکل تھا اور اس کی وجہ Covid-19 کی بیماری تھی جس کی وجہ سے ساری دنیا کی اکانومی کی بنیادیں ہل گئیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس بیماری کے جلد خاتمے سے اس دنیا میں دوبارہ امن و سکون آ جائے گا۔ ان شاءاللہ۔ اسی طرح میں آج کا اس پروگرام منعقد کرنے پر تمام جماعت احمدیہ کاشکر گزار ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ جلد اپنے مقصد کو حاصل کر لیں۔ آمین۔‘‘

غانا کے ایمبیسیڈر خود اس پروگرام میں شامل نہیں ہو سکے۔ان کے نمائندہ نے ان کی طرف سے پیغام دیا کہ ’’میں غانا کے لوگوں اور سیرالیون میں رہائش پذیر غانا کے افراد کی جانب سے احمدیہ جماعت کو ان سو سالوں پر محیط خدمات پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘

Hon. Haja Isata Abdulai Kamaraجو کہ سیرالیون کےشمال مغربی صوبہ کی Resident Minister ہیں، نے اپنے پیغام میں کہا:
’’میں خوش ہوں کہ آج کے دن اسپروگرام میں آپ کے ساتھ شریک ہوں۔ آج کا پروگرام اعتماد کو قائم کرنے اور ترقی کی طرف قدم بڑھانے کے سفر کی خوشیاں منانے کا پروگرام ہے۔ میں اپنی اور اپنے صوبہ کے لوگوں کی طرف جماعت احمدیہ کو ان کی اعلیٰ خدمات پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔آپ لوگوں نے سیرالیون کے انتہائی دور دراز مقامات پر جا کر لوگوں کی خدمت کی ہے۔ آپ نے لڑکیوں کے سکولوں میں ایک ایسی اعلیٰ روایت ہے جو کہ عورت کی عزت کو بڑھاتی ہے اور وہ آپ کا مکمل یونیفارم ہے، یعنی لمبی شرٹ اور مکمل ٹراؤزر۔ اگر آپ کی طرف سے بروقت مدد نہ کی جاتی تو ہماری کمیونیٹیز تعلیم اور تربیت کے میدان میں بہت پیچھے رہ جاتیں۔ سیرالیون میں بہت سارے اہم افراد ہیں جو کہ آپ کے سکولز سے پڑھے ہوئے ہیں اور اس وقت ملک کی خدمت کر رہے ہیں جیسا کہ موجودہ نائب صدر مملکت اور بہت بڑی تعداد میں پیراماؤنٹ چیفس۔‘‘

Hon. Abu Abu Koroma جو کہ Resident Minister North ہیں، نے کہا:
’’میں جس علاقہ کی نمائندگی کیلئے یہاں موجود ہوں وہاں 80 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ لیکن آج کے پروگرام کی خوشی میں صرف وہی مسلمان شامل نہیں بلکہ باقی لوگ بھی شامل ہیں اور جماعت احمدیہ کی خدمات پر ان کے شکرگزار ہیں۔ اور میں تمام مسلمان لیڈرز کو آج اس موقع پر اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر اللہ تعالیٰ کی رسی کو پکڑ لیں اور کسی کو بھی یہ نہ کہیں کہ تم مسلمان نہیں۔‘‘

Hon. Baindu Dassama جو کہ Social Welfareکی منسٹر ہیں ، نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’بہت شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے ایسی جماعت کے لوگوں کو پیغام دینے کا موقع دیا جس کے ساتھ مل کر میں بہت سارے اچھے کام کرتی ہوں۔ اور آج اس موقع پر آپ لوگوں کی خدمت اور محنت پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔جومحنت اور لگن آپ لوگ اپنے کاموں میں کرتے ہیں اس کا نتیجہ ہمارے سارے ملک میں نظر آتا ہے۔آپ کی سو سالہ خدمت جس میں سکولز اور مساجد کی تعمیر، مشنریز کی تربیت اور طب کے میدان میں خدمت نےہماری سوسائٹی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔آپ کی ترقیات بہت عظیم ہیں آپ نے امن کے قیام اور انسانیت کی خدمت میں اہم کردار ادا کیا ہے،اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آپ لوگ ایک نئے جذبہ کے ساتھ اس ملک کی خدمت کو جاری رکھیں گے۔میں آپ کی تہہ دل سےشکرگزار ہوں ,خصوصاً آپ کے یہاں امن و بھائی چارہ کے ساتھ رہنے پر ، اور ہماری سوسائٹی میں بہت سارے اہم لوگ مہیا کرنے پر۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے عظیم الشان مقاصد جلد حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘

Hon. Anthony Y. Brewah منسٹر آف جسٹس اور اٹارنی جنرل سیرالیون نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’میں جماعت احمدیہ کا تہہ دل سے شکرگذار ہوں کہ آپ نے مجھے اس پروگرام میں مدعو کیا اور پیغام دینے کا موقع بھی دیا۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ جماعت احمدیہ نے بہت ساری بنیادی سہولیات لوگوں کو مہیا کی ہیں جیسا کہ طب، امن کا قیام، سولر انرجی کی ترسیل اور سب سے اہم تعلیمی سہولیات۔ آج کے دن بہت سارے غیر احمدی بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ کے سکولز سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔میرا یہ گہرا مشاہدہ ہے کہ احمدی احباب ساری دنیا میں اپنی مخالفت اور مظالم کے باوجود امن پسند اور قوانین کا احترام کرنے والے ہیں اور سب کے سب اپنےخلیفہ کی بھرپور اطاعت کرنے والے ہیں۔ اور میں اس بات کی امید رکھتا ہوں کہ یہ احمدی کمیونٹی سوسائٹی کی ترقی کیلئے اچھے کام مسلسل جاری رکھے گی۔اور میں آپ کو آپ کی سو سال پر محیط مخلصانہ خدمت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی، سیرالیون اور ساری دنیا میں کی جانے والی خدمات کو قبول فرمائے اور ان میں برکت ڈالے۔‘‘

Hon. Victor Bockarie Foh جو کہ سابق صدر مملکت ہیں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ مجھے فری ٹاؤن کے سب سے پہلے احمدیہ سیکنڈری سکول میں بطور استاد پڑھانے کا موقع ملا اور اس وقت سٹاف کے اکثر ممبر نہایت نیک اور مہربان پاکستانی دوست تھے۔اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ میرا آج کا پیغام میرے اکیلے کی طرف سے نہیں ہے بلکہ سارے سیرالیون کی طرف سے ہے۔ احمدی لوگ بہت اچھے اور خوبصورت اخلاق کے مالک ہیں۔ اور ان کا ماٹو ’’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ بہت ہی عاجزی والا ہے۔ جماعت احمدیہ کی ایک بہت بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ انہوں نے سب کو اکھٹا کر دیا ہے جیسا کہ موجودہ گورنمنٹ اور سابقہ گورنمنٹ کے لوگ، سارے علاقوں کے پیرامؤنٹ چیفس اکھٹے ہیں، مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگ اکھٹے ہیں اسی طرح انٹر ریلیجئیس کونسل کے ممبران بھی یہاں جمع ہیں اور جب ہم سب جمع ہوتے ہیں تو ایک دوسرے سے بہت ساری اچھی باتیں سیکھتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہم سب کو اکھٹا رکھتے ہیں اور یہ خصوصیت صرف جماعت احمدیہ میں ہے۔ اور میری یہ درخواست ہے کہ براہ مہربانی اس سلسلہ کو جاری رکھیں۔ جماعت احمدیہ نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ ہمیشہ عاجز اور امن پسند بن کر رہیں۔ جماعت احمدیہ نے صحت کے میدان میں بہت خدمت کی ہے۔ Ebola کےدوران جماعت احمدیہ کی بہت خدمات ہیں اسی طرح Covid-19 کے دوران بھی جماعت احمدیہ نے لوگوں کی بہت مدد کی ہے۔ جو اخلاقی تعلیم آپ نے ہمیں دی ہے وہ ہمیں ناسمجھی سے ہٹا کر اچھی راہ پر چلانے والی ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی طرح سیاست میں شامل ہوتا ہے اور یہ بات جماعت احمدیہ نے ہمیں صحیح معنوں میں سمجھائی ہے کہ تمام طاقتوں کا منبع خدا تعالیٰ ہی ہے اور تمام طاقت خدا کی طرف سے ہی آتی ہے۔ اور سیاسی طاقت بھی کھیل کی طرح ہے ہر کوئی اپنی باری پر کھیلتا ہے اور اس کے بعد دوسرے کی باری آتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ جو کھیل چکا ہے وہ آنے والوں کے ساتھ سچائی اور مخلصی سے پیش آئے۔ میں انٹر ریلجئیس کونسل سے بھی استدعا کروں گا کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ مل کر امن کے قیام میں کوششیں کرتے رہیں۔ میں جماعت احمدیہ کا بھی شکرگزار ہوں کہ وہ عورتوں کو ہر میدان میں آگے لانے میں بھی اہم کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح میں شکرگزار ہوں کہ جماعت احمدیہ بچوں کو بھی آگے لانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ ایک خوبصورت پروگرام ہے جس میں مسجد والے بھی موجود ہیں اور چرچ والے بھی۔ جماعت احمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تفریق نہیں کرتے۔کوئی بھی آتا ہے تو آپ نہیں پوچھتے کہ تم کیا کرنے آئے ہو۔ میں گذشتہ 50 سال سے جماعت احمدیہ کے ساتھ ہوں اور میری دعا ہے کہ آئندہ بھی ایسے ہی آپ لوگوں کے ساتھ رہوں۔‘‘

سب سے آخر میں Hon. Dr. Mohamed Juldeh Jalloh نائب صدر مملکت سیرالیون نے ایک مختصر تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ ’’میں سابقہ نائب صدر، وزراء، مذہبی رہنماؤں، پیراماؤنٹ چیفس اور معزز مہمانوں کو صدر مملکت عزت مآب بریگیڈئر ریٹائرڈ مادا بیئو (Rtd. Brig. Julius Mada Bio) کی جانب سے اور اپنی طرف سے السلام علیکم کہتا ہوں۔ اس کے بعد جناب نائب صدر ممکت نے احمدیت زندہ باد کے نعرے لگائے اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔

آپ نے خاکسار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن احمدیہ جماعت سیرالیون کے لئے اور دنیا بھر کے احمدیوں کیلئے ایک بہت بڑا دن ہے۔ اور یہ ہمارے ملک سیرالیون کے لئے بھی ایک بہت بڑا دن ہے کیونکہ آج ہم نہ صرف جماعت احمدیہ کے سیرالیون میں سو سال مکمل ہونے کی خوشی منا رہے ہیں بلکہ ہم اس ملک میں جماعت احمدیہ کی خدمت اور وقف کے سو سال منا رہے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ایک مقرر نے کہا کہ یہ انسانی بہبود کی ترقی کے سو سال ہیں۔ جماعت احمدیہ کے مبلغ جو 1921ء میں سیرالیون آئے وہ اپنے ساتھ تعلیم اور مذہب کو لے کر آئے اور آج احمدیہ جماعت کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے سیرالیون کے لاکھوں لوگوں کو تعلیم فراہم کی ہے اور آج یہاں جماعت کے 300؍ سے زائد سکول ہیں اور جماعت نے یہاں ملک بھر میں 1400؍ مساجد تعمیر کی ہیں۔ اور ایک سیاست دان کے طور پر مجھے اس بات کا علم ہے کہ ایک مسجد کا تعمیر کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ اور کسی جماعت کے لئے چودہ سو مساجد تعمیر کرنا ایک آسان بات نہیں ہے۔ جماعت نے ملک بھر میں کلینک بنائے ہیں جن کے ذریعے وہ ملک کے لوگوں کی صحت اور بہبود کا کام کررہی ہے۔ احمدیہ جماعت نے زراعت کے میدان میں بھی بہت خدمت کی ہے اور اسی وجہ سے جب میں گذشتہ سال جلسہ سالانہ سیرالیون BO میں شامل ہوا تھا، میں نے واضح طور پر کہا تھا کہ احمدیہ جماعت انسانی بہبود کی ترقی کی سفیر ہے۔ اور اسی وجہ سے صدرِ مملکت عزت مآب بریگیڈئر ریٹائرڈ مادا بیئو

(Rtd. Brig. Julius Mada Bio) احمدیہ جماعت کو پسند کرتے ہیں۔ اور انسانی ترقی ہماری حکومت کا مطمحِ نظر ہے۔ اور جیسا کہ میں نے BO میں جلسہ سالانہ میں کہا تھا کہ احمدیہ جماعت انسانی ترقی کی سفیر ہے, احمدیہ جماعت ہماری حکومت کی طرح تعلیم کے میدان میں بھی خدمت کررہی ہے۔ جس طرح ہم لوگوں کو طبی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں احمدیہ جماعت بھی کررہی ہے۔ زراعت کے میدان میں بھی جماعت نے بہت نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ اور ان میدانوں مِیں خدمت پر مَیں جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہی وہ تمام وجوہات ہیں جن کی وجہ سے صدرِ مملکت جماعت احمدیہ کو پسند کرتے ہیں اور آپ سے تعاون کے لئے تیار ہیں۔

ایک اور کام جو جماعت نے کیا ہے وہ امن کا قیام ہے۔ اور یہ ایک مزید وجہ ہے جس کی وجہ سے صدرِ مملکت جماعت کی بہت قدر کرتے ہیں۔ آج صدرِ مملکت کی طرف سے میں جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ہم یہاں آج آپ کے ساتھ خوشی منا رہے ہیں اور آج ہم یہاں اس ملک کے لوگوں کی بے لوث خدمت کے سو سال پورے ہونے کی خوشی منارہے ہیں۔ آپ کی کامیابیاں بے شمار ہیں اور ہم ان کی قدر کرتے ہیں اور ان کی خوشی منا رہے ہیں۔ ہم ان ابتدائی مبلغین کی کامیابیوں کو یاد کرتے ہیں اور ان کی خدمات کے معترف ہیں۔

میں اس موقع پر احمدیہ جماعت کے عالمگیر راہنما حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کو صدرِ مملکت کی طرف سے مبارکباد کا پیغام دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ سیرالیون کے لوگ جماعت کی خدمات کے معترف ہیں اور اس ملک میں ان کی خدمات پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس موقع پر میں صدرِ مملکت کی طرف سے آپ کو سو سالہ جشن تشکر پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں آپ کو یقین دہانی کرواتا ہوں کے آپ کے کاموں میں اور ان کو جاری رکھنے کے لئے صدرِ مملکت کا تعاون آپ کے ساتھ ہے۔ آپ انسانی بہبود کے سفیر ہیں اور اس ملک کے لوگوں کی خدمت کررہے ہیں۔ اور اب میں صدر مملکت کی طرف سے سوسالہ تقریبات کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ سبحان وتعالیٰ آپ کے کاموں میں آپ کی راہنمائی کرے اور آپ پر فضل فرمائے کیونکہ ایک سیرالیون شہری کے طور پر میں یقین رکھتا ہوں کے باہم مل کرہم اس ملک کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور ترقی کرسکتے ہیں۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں اس وقت ملک سابق صدر، وزراء ، پیراماؤنٹ چیفس، بزرگ ، مائیں اور جوان موجود ہیں اور باہم مل کر ہم بہت سی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں اور اس ملک کو ترقی دے سکتے اور آگے بڑھا سکتے ہیں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

نائب صدر مملکت کی تقریر کے بعد خاکسار نے دعا کروائی اور اس طرح یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔روانگی سے قبل تمام مہمانوں کی خدمت میں کھانا بھی پیش کیا گیا۔

سیرالیون کے سب سے زیادہ دیکھے اور پسند کئے جانے والےTVچینل AYV نے اس پروگرام کی کارروائی کو اپنے ملکی چینلز، انٹرنیشنل چینل، Youtube Channel ،Mobile App اور Facebook پر براہ راست نشر کیا۔

احمدیہ مسلم ریڈیو سیرالیون نے جلسہ سالانہ کی تمام کارروائی کو Live Stream کیانیز آڈیو ویڈیو سیکشن سیرالیون نے اپنے YouTube چینل پر بھی اس پروگرام کی کارروائی کو براہ راست نشر کیا۔

بڑی تعداد میں ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات کے نمائندگان نے اس پروگرام میں شرکت کی اور مکرم امیر صاحب کے انٹر ویوز بھی کئے۔

دعا کی عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری مساعی میں برکت ڈالے اور ہمیں مقبول خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(رپورٹ: آصف محمود، عبدالہادی قریشی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مئی 2021