• 27 اپریل, 2024

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کی تردید از روئے قرآن

غیرت کی جا ہے عیسیٰ زندہ ہو آسماں پر
مدفون ہو زمین میں شاہِ جہاں ہمارا

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کفارکے اس مطالبہ کا ذکر کیاہے جس میں وہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے آسمان پر جانے اور ایک الٰہی کتاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے:

وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ۫ فَاَبٰۤی اَکۡثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوۡرًا۔وَ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفۡجُرَ لَنَا مِنَ الۡاَرۡضِ یَنۡۢبُوۡعًا۔اَوۡ تَکُوۡنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الۡاَنۡہٰرَ خِلٰلَہَا تَفۡجِیۡرًا۔اَوۡ تُسۡقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمۡتَ عَلَیۡنَا کِسَفًا اَوۡ تَاۡتِیَ بِاللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓائِکَۃِ قَبِیۡلًا۔ اَوۡ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰی فِی السَّمَآءِؕ وَ لَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیۡنَا کِتٰبًا نَّقۡرَؤُہٗ ؕ قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا۔ وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَہُمُ الۡہُدٰۤی اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوۡلًا

(سورۃبنی اسرائیل : 90تا95)

ترجمہ:اور ہم نے ىقىناً اس قرآن مىں لوگوں کى خاطر ہر قسم کى مثالىں خوب پھىر پھىر کر بىان کى ہىں پس اکثر انسانوں نے محض ناشکرى کرتے ہوئےانکار کردىا اور وہ کہتے ہىں کہ ہم ہرگز تجھ پر اىمان نہىں لائىں گے ىہاں تک کہ تُو ہمارے لئے زمىن سے کوئى چشمہ پھاڑ لائے ىا تىرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا کوئى باغ ہو پھر تُو اس کے بىچوں بىچ خوب نہرىں کھود ڈالے ىا جىسا کہ تُو گمان کرتا ہے ہم پر آسمان کو ٹکڑوں کى صورت گِرا دے ىا اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے ىا تىرے لئے سونے کا کوئى گھر ہو ىا تُو آسمان مىں چڑھ جائے مگر ہم تىرے چڑھنے پر بھى ہرگز اىمان نہىں لائىں گے ىہاں تک کہ تُو ہم پر اىسى کتاب اتارے جسے ہم پڑھ سکىں تُو کہہ دے کہ مىرا ربّ (ان باتوں سے) پاک ہے (اور) مىں تو اىک بشر رسول کے سوا کچھ نہىں۔ اور لوگوں کو جب ان کے پاس ہداىت آئى اس کے سوا کسى چىز نے اىمان لانے سے نہىں روکا کہ انہوں نے کہا کىا اللہ نے اىک بشر کو رسول بناکر بھىجا ہے۔

اس آیت کے مطابق آپ ﷺ نے بتقاضائے بشریت اور رسالت آسمان پر جانے سے انکار کیا ہےتو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بشر اور رسول ہوتے ہوئے کیونکر آسمان پر جا سکتے ہیں۔ اب حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کی تردید کی دو صورتیں ہیں۔

اول: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اگر بشر اور رسول ثابت کردیا جائے تو وہ بھی آسمان پر جانے سے معذور سمجھے جائیں گے۔

دوم: آخری راہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمان پر جانے کی یہ ہے کہ وہ ما فوق البشر کوئی وجود تھے یا واقعی خدا کے بیٹے یا خود خدا تھے، کہ آسمان سے اترے اور آسمان کی طرف رفع ہوا۔ (یاد رہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت مریم علیھا السلام کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اور قرآن آپ کا ذکربار بار ابن مریم کے نام سے کرتاہے۔ اسلئے جو آسمان سے نہیں اترا وہ آسمان پر کیونکر چڑھے گا؟)

مندرجہ بالا دونوں صورتوں کا رد قرآن کریم سے پیش ہے۔ اول الوہیتِ مسیح کا رد پیش ہے کیونکہ ہرمسلمان کا ایمان طبعاً شرک کی پلیدی سے نفرت کرتا ہے۔ اور پھر جس مطالبہ کے پورے کرنے (رفع الی السماء) سے آپ ﷺ نے بتقاضائے بشریت معذوری ظاہر فرمائی ہو اس کام کا کسی اور نبی سے صادر ہونا قبول کرنا ، ایک با غیرت اور محبِ رسول ﷺ کے لئے مرنے سے کم نہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خدا یا خدا کا بیٹا نہ ہونا

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :

لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ

(سورۃ الاخلاص:4)

نہ اُس نے کسى کو جنا اور نہ وہ جنا گىا۔ اس آیت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا اور خدا کا بیٹے ہونے کی صریح تردید فرمادی ہے۔

وَّ یُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِہِمۡ ؕ کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ؕ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا کَذِبًا}

(سورۃ الكهف:5تا6)

اور وہ ان لوگوں کو ڈرائے جنہوں نے کہا کہ اللہ نے بىٹا بنا لىا ہے ان کو اس کا کچھ بھى علم نہىں،نہ ہى ان کے آباءو اجداد کو تھا۔بہت بڑى بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکلتى ہے وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہىں کہتے۔

لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ ؕ قُلۡ فَمَنۡ یَّمۡلِکُ مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا اِنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّہۡلِکَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ وَ اُمَّہٗ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ؕ وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ؕ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ

(سورۃ المائدة:18)

ىقىناً ان لوگوں نے کفر کىا جنہوں نے کہا کہ ىقىناً اللہ ہى مسىح ابنِ مرىم ہے۔ تُو کہہ دے کہ کون ہے جو اللہ کے مقابل پر کچھ بھى اختىار رکھتا ہےاگر وہ فىصلہ کرے کہ مسىح ابنِ مرىم کو اور اس کى ماں کو اور جو کچھ زمىن مىں ہے سب کو نابود کرے اور آسمانوں اور زمىن کى بادشاہت اللہ ہى کى ہے اور اُس کى بھى جو اُن دونوں کے درمىان ہے۔وہ جو چاہے پىدا کرتا ہے اور اللہ ہر چىز پر جسے وہ چاہے دائمى قدرت رکھتا ہے۔

وَ اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالَ سُبۡحٰنَکَ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اَقُوۡلَ مَا لَیۡسَ لِیۡ ٭ بِحَقٍّ ؕ؃ اِنۡ کُنۡتُ قُلۡتُہٗ فَقَدۡ عَلِمۡتَہٗ ؕ تَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِیۡ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِکَ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ

(سورۃ المائدة:117)

اور (ىاد کرو) جب اللہ عىسى ابنِ مرىم سے کہے گا کہ کىا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور مىرى ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ وہ کہے گا پاک ہے تُو۔ مجھ سے ہو نہىں سکتا کہ اىسى بات کہوں جس کا مجھے کوئى حق نہ ہوا۔ گر مىں نے وہ بات کہى ہوتى تو ضرور تُو اسے جان لىتا ۔تُو جانتا ہےجو مىرے دل مىں ہے اور مىں نہىں جانتا جو تىرے دل مىں ہے۔ ىقىناً تُو تمام غىبوں کا خوب جاننے والا ہے۔ (قیامت کے روز حضرت عیسیٰ علیہ السلام خودبتقاضائے بشریت الوہیت کی منافی کریں گے)۔

اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ

(سورۃآل عمران:60)

ىقىناً عىسى کى مثال اللہ کے نزدىک آدم کى مثال کى سى ہے اسے اس نے مٹى سے پىدا کىا پھر اسے کہا کہ ہو جا تو وہ ہونے لگا (اورہو کر رہا)۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس سوچ کا رد فرمایا ہے جو لوگ گمان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے اس لئے وہ خدا، خدا کے بیٹے یا کوئی ما فوق البشر شخصیت تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال حضرت آدم جیسی ہے ۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیدا ہوکر خدائی کے دعویٰ کے حقدار ہیں تو حضرت آدم علیہ السلام تو بن ماں باپ کے پیدا ہوئے تھے اس لئے وہ بہر حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے زیادہ خدائی کے دعویٰ کے حقدار ہیں۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بشر یا رسول سے زیادہ تصور کرنا شرک کرنا ہے یا ایسی راہ تو ضرور ہے جو شرک کی طرف لے جاتی ہے۔

قَالَ اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ ۟ؕ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ ۪ وَ اَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمۡتُ حَیًّا وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ ۫ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا

(سورۃ مريم:31تا34)

اُس نے کہا ىقىناً مىں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا کى ہے اور مجھے نبى بناىا ہے نىز مجھے مبارک بنا دىا ہے جہاں کہىں مىں ہوں اور مجھے نماز کى اور زکوۃ کى تلقىن کى ہے جب تک مىں زندہ رہوں۔ اور اپنى ماں سے حسن سلوک کرنے والا (بناىا) اور مجھے سخت گىر اور سخت دل نہىں بناىا اور سلامتى ہے مجھ پر جس دن مجھے جنم دىا گىا اور جس دن مىں مروں گا اور جس دن مىں زندہ کرکے مبعوث کىا جاؤں گا۔

یہاں نہایت صراحت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بندہ قرار دیاگیا ہے اور ساتھ ہی ان کے اللہ کے مخلوق ہونے کی دلیل یہ پیش فرمائی ہے کہ وہ اللہ کی دائمی صفات کے برخلاف فرماتے ہیں کہ جب تک میں زندہ رہوں یعنی میں بھی لازماً فوت ہونے والا ہوں ۔ نیز خود حضرت عیسیٰ اپنے لئے بعینہ وہی تین مدارج اختیار فرماتے ہیں جو ہر بشر پرآتے ہیں یعنی جنم، وفات اور بعث بعد الموت۔

لَنۡ یَّسۡتَنۡکِفَ الۡمَسِیۡحُ اَنۡ یَّکُوۡنَ عَبۡدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الۡمَلٰٓئِکَۃُ الۡمُقَرَّبُوۡنَ ؕ وَ مَنۡ یَّسۡتَنۡکِفۡ عَنۡ عِبَادَتِہٖ وَ یَسۡتَکۡبِرۡ فَسَیَحۡشُرُہُمۡ اِلَیۡہِ جَمِیۡعًا

(سورۃالنساء:173)

مسىح تو ہرگز ناپسند نہىں کرتا کہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ ہى مقر ّب فرشتے اور جو بھى اس کى عبادت کو ناپسند کرے اور تکبر سے کام لے ان سب کو وہ اپنى طرف ضرور اکٹھا کرکے لے آئے گا۔

آیات متذکرہ بالا میں حضرت عیسیٰ کے خدا ہونے، خدا کا بیٹا ہونے یا ما فوق البشر کوئی مخلوق ہونے کی قطعیت سے تردید کی گئی ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بشر اور رسول ہونا

قرآن کریم بڑی صراحت سے حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کو اللہ کا رسول اور بشر قرار دیتا ہے۔چنانچہ فرماتا ہے:

وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ

(سورۃاٰل عمران:50)

اور وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) رسول ہوگا بنى اسرائىل کى طرف۔ یہاں خود اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کے رسول ہونےکی صراحت فرما دی اور اسی آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے والوں کو بھی مایوس ہو جا نا چاہیئے کیونکہ اول تو دونوں صورتوں کا رد ہوگیا جو آپ ﷺ نے آسمان پر نہ جانے کی بیان فرمائی ہیں اور دوسرا اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے تشریف لے بھی آئے (گو ان کا آسمان پر جانا ثابت ہی نہیں ہوتا )تو قرآن کی اس آیت کے مطابق وہ بنی اسرائیل کے رسول ہوں گے کیونکہ پورے قرآن میں کسی اور جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے امتی نبی کے طور پر آنے کی کوئی صراحت نہیں ملتی۔

مَا الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ ؕ کَانَا یَاۡکُلٰنِ الطَّعَامَ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُبَیِّنُ لَہُمُ الۡاٰیٰتِ ثُمَّ انۡظُرۡ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ

(سورۃالمائدة:76)

مسىح ابنِ مرىم اىک رسول ہى تو ہے اس سے پہلے جتنے رسول تھے سب کے سب گزر چکے ہىں اور اس کى ماں صِدىقہ تھى دونوں کھانا کھاىا کرتے تھے دىکھ کس طرح ہم ان کى خاطر اپنى آىات کو کھول کھول کر بىان کرتے ہىں پھر دىکھ وہ کدھر بھٹکائے جارہے ہىں۔

اس آیت میں ایک طرف تو صراحت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رسول بیان فرمایا ہے دوسری طر ف اسی آیت میں اس عظیم الشان مضمون کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یہود جس ایلیا نبی کو آسمان پر بٹھائے اس کے آسمان سے اترنے کا انتظار کر رہے ہیں وہ یہ اعلان سن لیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل جملہ انبیاء فوت ہوچکے ہیں۔ اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل انبیاء کی بات تو قرآن نے بڑی تحدی سے پیش فرمادی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ماننے والوں کے عقیدہ پر ایک دوسری آیت یوں قیامت برپا کرتی ہے جس میں فرماتا ہے وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ

(سورۃ اٰل عمران:145)

اور محمدنہىں ہے مگر اىک رسول ىقىناً اس سے پہلے رسول گزر چکے ہىں پس کىا اگر ىہ بھى وفات پا جائے ىا قتل ہو جائے تو تم اپنى اىڑىوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو بھى اپنى اىڑىوں کے بل پھر جائےگا تو وہ ہرگز اللہ کو کوئى نقصان نہىں پہنچا سکےگا اور اللہ ىقىناً شکرگزاروں کو جزا دے گا ۔ پس المائدۃ 176 کے بعد ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت شدہ انبیاء سے باہر رہ گئے تھے اور اس آیت نے آپ علیہ السلام کی وفات کو بھی تحدی سے پیش فرمادیاہے (خلا کے لفظ کے معنی ہمارے مخالفین کریں گے ہم قبول کریں گے بشرطیکہ دونوں جگہ ایک ہی معانی لئے جائیں)۔ اس لئے جس طرح آج تک یہود کا فرضی ایلیا آسمان پر بیٹھا ہے ویسے ہی حضرت عیسی ٰعلیہ السلام کو آسمان پر بٹھانے والے قیامت تک ان کے منتظر رہیں گے مگر کبھی ان کو آسمان سے اترتا نہیں دیکھیں گے۔

پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشریت پر اس آیت نے صراحت فر مادی کہ آپ اور آپ کی والدہ کھانا کھایاکرتے تھے گویا آپ علیہ السلام کی بشریت کی دلیل یہ دی کہ آپ اور آپ کی والدہ کھا نا کھایا کرتے تھےجیسا کہ ہر بشر بوجہ بشریت کے کھانا کھاتا ہے۔

وَّ جَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ ۪ وَ اَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمۡتُ حَیًّا وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیۡ ۫ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا ذٰلِکَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ ۚ قَوۡلَ الۡحَقِّ الَّذِیۡ فِیۡہِ یَمۡتَرُوۡنَ

(سورۃ مريم:32تا35)

نىز مجھے مبارک بنا دىا ہے جہاں کہىں مىں ہوں اور مجھے نماز کى اور زکوٰ ۃ کى تلقىن کى ہے جب تک مىں زندہ رہوںاور اپنى ماں سے حسن سلوک کرنے والا (بناىا) اور مجھے سخت گىر اور سخت دل نہىں بناىا اور سلامتى ہے مجھ پر جس دن مجھے جنم دىا گىا اور جس دن مىں مروں گا اور جس دن مىں زندہ کرکے مبعوث کىا جاؤں گاىہ ہے عىسٰى بن مرىم (ىہ) وہ حق بات ہے جس مىں وہ شک کر رہے ہىں۔

اس آیت میں بڑی صراحت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشریت کے متعدد دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ اولاً آپ کا یہ فرمانا کہ جب تک میں زندہ رہوں یعنی بتقاضائے بشریت مجھے موت آجائے گی۔ دوم آپ کا ماں کے پیٹ سے جنم لینا۔ سوم آپ کی سلامتی کے متعلق جو ترتیب بیان فرمائی گئی ہے وہ بعینہ وہی ہے جو عام بشر (انسان ) کی ہوتی ہے یعنی ہر انسان جنم لیتا ہے، پھراس پر موت وارد ہوتی ہے پھر بروز قیامت وہ زندہ کیا جائے گا۔ چنانچہ یہ پرحکمت ترتیب خود بتا رہی ہے کہ آپ علیہ السلام ایک بشر ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں جیساکہ دیگر تمام انبیاء بشر ہیں تاکہ وہ اپنے جیسے لوگوں کے لئے قابلِ تقلید نمونہ بنیں۔ ورنہ عوام الناس کیونکر انبیاء کی پیروی کریں جب کہ وہ جانتے ہوں کہ انبیاء ما فوق البشر مخلوق ہیں ۔ جیسا کہ خود قرآن کریم فرماتا ہے کہ قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ

(سورۃ الکہف:111)

تو کہہ دے مىں محض تمہارى طرح کا اىک بشر ہوں مىرى طرف وحى کى جاتى ہے۔ یعنی آپ ﷺکے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ ﷺ ایک بشر ہیں ہاں ایک فرق ضرور ہے کہ آپﷺ کے مطہر قلب پر پاک وحی نازل ہوتی ہے۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ وَ مَا جَعَلۡنٰہُمۡ جَسَدًا لَّا یَاۡکُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَ مَا کَانُوۡا خٰلِدِیۡنَ

(سورۃ الانبياء:8تا9)

اور تجھ سے پہلے ہم نے کبھى کسى کو نہىں بھىجا مگر مردوں کو جن کى طرف ہم وحى کرتے تھے پس اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہىں جانتے اور ہم نے انہىں اىسا جسم نہىں بناىا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور وہ ہمىشہ رہنے والے نہىں تھے۔

اس آیت نے توحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشریت کو اس رنگ میں پیش فرمادیا ہے مسیح علیہ السلام کے رفع الی السماء کے عقیدہ کو ماننے والے پوری طرح مبہوط ہوجائیں اور قرآن کی حکمرانی اپنے سروں پر قبول کریں یا مولوی کی خود ساختہ کہانیوں کے ڈھکونسلے پر انتظار میں بیٹھے رہیں۔ چنانچہ فرماتا ہےکہ آپ ﷺ سے قبل جملہ انبیاء بشر ہی تھے جن میں حضرت عیسیٰ ؑ علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ مزید فرماتا ہے کہ انکی بشریت کی دلیل یہ ہےکہ وہ سب بتقاضائے بشریت کھانا کھاتے تھے اور پورے قرآن میں صرف حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کا نا م لے کر فرمایا گیا ہے کہ آپ اور آپ کی والدہ کھانا کھاتے تھے۔ جیسا کہ فرماتا ہے کہ کَانَا یَاۡکُلٰنِ الطَّعَامَ (المائدة 76) دونوں کھانا کھاىا کرتے تھے۔ پس ان دونوں آیات سے صراحت سے ثابت ہوجاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بشر اور رسول تھے اور اگر بتقاضائے بشریت اور رسالت ہمارے آقا و مولی ٰ حضرت محمد ﷺ آسمان پر جانے سے انکار کرتے ہیں تو ایک سچے عاشق رسولﷺ کی غیرت یہ کیونکر گوارا کر سکتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی بشر اور رسول ہوتے ہوئے دو ہزار سال سے زائدعرصہ گزرجانے کے با وجود زندہ آسمان پر موجود ہوں اور بادشاہِ ہر دو سرا ﷺ کو محض تریسٹھ سال کی مہلت ملے اور مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کا روضہ مبارک ہو ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشریت اور رسالت کے مستنبط ہونے کے بعد ایک آیت سے صراحت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فوت ہوجانابھی ثابت ہے جیساکہ فرماتا ہے کہ وَ مَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ الۡخُلۡدَ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مِّتَّ فَہُمُ الۡخٰلِدُوۡنَ (سورۃالانبياء:35) اور ہم نے کسى بشر کو تجھ سے پہلے ہمىشگى عطا نہىں کى پس اگر تُو مر جائے تو کىا وہ ہمىشہ رہنے والے ہوں گے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ ﷺ کی زندگی تک زندہ متصوربھی کیے جاتےتھے تو اس آیت کے نزول کے بعدبہر حال آپ ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی وہ بھی فوت ہو گئے خواہ آسمان پر ہوں یا کہیں بھی۔ (جماعت احمدیہ کے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ جو سلوک اپنے برگزیدوں کے ساتھ کیا کرتا ہے وہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا اور آپ کو صلیب کی لعنتی موت سے نجات دی جس کے یہودی خواہاں تھے۔ تاکہ نعوذ باللہ مصلوب ہونے کے بعد آپ کی مبارک پیدائش کے متعلق بھی تحدی سے اپنے اعتراض (نعوذ باللہ ولد الزنا ہونے) کو یقینی بنا کر پیش نہ کرسکیں۔ اور نجات دے کر اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کی طرف آپ نے ہجرت کی تاکہ ان کی ہدایت کا سامان فرمائیں۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام سری نگرکشمیر محلہ خان یارمیں مدفون ہیں جہاں آپ شہزادہ نبی، یوز آسف وغیرہ ناموں کے ساتھ اب تک یاد کیے جاتے ہیں اور آپ کے مزار کا زمانہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا بتایا جاتا ہے۔ صلیب سے نجات کی ایک بڑی دلیل مرہمِ عیسیٰ بھی ہے اگر یہ مرہم حضرت عیسیٰ کے صلیبی زخموں کے لئے تیار نہیں ہوئی تھی تو اسکو مرہمِ عیسیٰ کا نام کیوں دیا گیا جبکہ اس کا نسخہ بعینہ ان زخموں کے علاج کے لئے نہایت مفیدہے جو بالخصوص صلیب کے زخموں کے لئے مسیحائی کا رنگ رکھتی ہے۔ اسلام کی آمد سے بھی پہلے سے اطباء اس مرہم کا ذکر اپنی کتابوں میں کرتے چلے آتے ہیں۔

پس متذکرہ بالا نصوص صحیحہ اور تاریخی حوالہ جات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بشر اور رسول ہیں اور ان دونوں صفات سے متصف ہونے کی وجہ سے آپ زندہ آسمان پر جانے سے قاصر ہیں کیونکہ ان دونوں صفات کا ذکر کرکے ہی آنحضرت ﷺ نے سورۃ بنی اسرائیل میں اپنے زندہ آسمان پر جانے کی تردید کی ہے اور اگر آپ ﷺ بشر اور رسول ہوتے ہوئے زندہ آسمان پر نہیں جاسکتے تو کسی دوسرے بشر اور رسول کے لئے یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ دو ہزار سال سے زائد عرصہ گزرنے کے با وجود آسمان پر زندہ موجود ہوں۔

(ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

کیا جانور اپنا عکس پہچانتے ہیں؟

اگلا پڑھیں

فلسطین کے مظلوم مسلمانوں اور پاکستان و الجزائر کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک