• 27 جولائی, 2025

مکرم بشیرالدین احمد مرحوم

یادرفتگان
مکرم بشیرالدین احمد مرحوم المعروف بی ڈی احمد

گذشتہ چند سالوں میں جماعت گوتھن برگ (سویڈن) اپنے کئی نیک، عالم اور دعا گو بزرگوں سے محروم ہو گئی ہے۔ مکرم عبداللطیف انور صاحب، مکرم عبدالمجید ڈوگر صاحب اور مکرم قریشی فیروز محی الدین صاحب ہم سے جدا ہو گئے۔ اب مؤرخہ 30 نومبر 2020ء کو ہماری جماعت کے ایک اور بزرگ دوست مکرم بشیرالدین احمد صاحب المعروف B.D. Ahmad گوتھن برگ سویڈن میں بعمر 86سال بقضائے الہٰی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

آپ سویڈن کے ابتدائی احمدی آبادکاروں میں سے ایک تھے۔ آپ نے کاروبار کو ہی اپنا ذریعۂ روزگار بنایا۔ بعد ازاں آپ لندن اور پھر لاہور شفٹ ہو گئے۔

مکرمہ ڈاکٹر قانتہ صاحبہ نے اپنی یادداشتوں میں تحریر کیا ہے کہ جماعت کے اوّلین اجلاسات اور تربیتی کلاسز مکرم بشیرالدین صاحب مرحوم کی دکان کے تہہ خانہ (basement) میں ہی ہوتی تھیں۔

تبلیغ کے میدان میں آپ ایک پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ خاکسار کا آپ سے تعارف 1999ء میں ہوا جب آپ لاہور سے نقل مکانی کر کے دوبارہ واپس سویڈن آئے تھے۔ سویڈن نقل مکانی سے قبل آپ حلقہ کینٹ لاہور کے سیکرٹری تبلیغ تھے۔ آپ کے اسی شوق کو مدّنظر رکھتے ہوئے خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے آپ کی منظوری بطور نیشنل سیکرٹری تبلیغ سویڈن لی تھی۔ آپ نے بڑے جذبہ سے اس میدان میں کام کیا اور ایک موقع پر 10 سے زائد سویڈش نَومبائعین مرد و خواتین کوجلسہ سالانہ برطانیہ پر لے کر گئے۔ جماعتی ریکارڈ میں ان نَومبائعین کی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے ملاقات کی تصویر موجود ہے۔

عیدین کے موقع پر آپ اپنے زیرِ تبلیغ احباب کو اپنے گھر ضرور مدعو کرتے تھے۔ اس موقع پر آپ نے مہمانوں کیلئے بُوفے (buffet) کا انتظام و اہتمام کیا ہوتا تھا اور جو دوست بھی اس موقع پر آ جاتا وہ بلا تکّلف اس دعوت میں شامل ہو جاتا تھا۔

آپ کو اپنے پرانے تعلقات کی وجہ سے ایک بڑا وسیع فلیٹ Partille میں مل گیا تھا جہاں آپ تا وفات قیام پذیر رہے۔ چونکہ آپ کا فلیٹ میرے گھر سے قریب ہی تھا اس وجہ سے آپ سے بکثرت ملاقات کے مواقع ملتے رہتے تھے۔

عمر کے لحاظ سے مَیں آپ کے بیٹوں جتنا تھا تاہم یہ آپ کا بڑا پن ہی تھا کہ ہم آپس میں بہت فری تھے اور آپ ہماری باتیں ہنستے مسکراتے ہوئے سن لیتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے خاکسار کے ہاتھ اپنی بیٹی کیلئے، جو کہ لاہور میں مقیم ہیں، کچھ تحائف بھجوائے اور کہا کہ وہ خود ہوٹل آکر یہ سامان لے جائیں گی۔ چنانچہ وہ حسبِ پروگرام فون کر کے اپنا سامان لینے ہوٹل آ گئیں۔ مَیں خاصی دیر تک ہوٹل کے استقبالیہ پر کھڑا آپ کی بیٹی کا انتظار کرتا رہا لیکن کوئی نہ آیا۔ اس دوران مجھے ایک خاتون قدرے فاصلہ پر کھڑی نظر آئیں۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کسی کا انتظار کر رہی ہیں؟ اس پر انہوں نے میرا نام لیا تو مَیں نے بتایا کہ آپ جن سے ملنے آئی ہیں وہ مَیں ہی ہوں۔ یہ سن کر ایک لمحہ کیلئے تو وہ خاتون ساکت ہی ہو گئیں اور پھر کہنے لگیں کہ مَیں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ابّا کے دوست آپ ہوں گے کیونکہ انہوں نے آپ کا تعارف اتنے احترام سے کروایا تھا کہ میرے ذہن میں ایک عمررسیدہ شخص کا تصور بن گیا تھا۔ یہ مکرم بشیرالدین صاحب مرحوم کی ذرہ نوازی تھی کہ انہوں نے اتنی عزّت و تکریم سے میرا تعارف کروایا تھا۔

آپ کو لاہور کے ایک خاص سٹور کا ایک خاص پرفیوم بہت پسند تھا۔ آپ بڑی بےتکلفی سے اس پرفیوم کی فرمائش کیا کرتے تھے۔

آپ تمام کاموں کی قبل از وقت مکمل پلاننگ کر لیا کرتے تھے اور ہر معاملہ پر گہری نظر رکھتے ہوئے اسے آخری وقت تک مکمل کیے بغیر نہ چھوڑتے تھے۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ کو کوئی خدمت تفویض کی گئی ہو اور آپ نے بعد از تکمیل اس کی باقاعدہ رپورٹ دینے میں کچھ سستی کی ہو۔

آپ کے بیٹے مکرم سلیمان بشیر صاحب کے نکاح کی تقریب اوسلو (ناروے) میں ہونا تھی۔ اس کی پلاننگ خاصا عرصہ قبل ہی کر چھوڑی تھی کہ کتنے افراد جائیں گے؟ اور کتنی گاڑیاں؟ وغیرہ۔ ایک مرتبہ مجھ سے فرمانے لگے کہ آپ نے حال ہی میں اپنے بیٹے کی شادی کی ہے اور آپ کو تمام امور کا علم اور تجربہ ہے لہٰذا آپ مجھے نکاح کے موقع پر جو بِد (شیرینی) ہوتی ہے وہ تیار کروا دیں اور چھ ماہ قبل ہی اس انتظام کیلئے زبردستی مجھے رقم تھما دی۔ خاکسار نے بہت کہا کہ بعد میں لے لوں گا مگر پھر آپ کے بےحد اصرار پر اور آپ کی فکر کو کم کرنے کیلئے وہ رکھنی ہی پڑی۔

آپ کے گھرانے کا شمار جماعت کے انتہائی بزرگ گھرانوں میں ہوتا تھا۔ تاہم آپ نے کبھی اس بات کو اپنی بڑائی کے طور پر پیش نہیں کیا۔

آپ کے دادا جان حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین ؓصاحب کا شمار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانثار صحابہ میں ہوتا تھا۔ اُنہیں ایک مرتبہ حضرت اقدسؑ نے حکماً مزید مالی قربانی کرنے سے تحریراً منع فرمایا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں ہی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (مصلح موعوؓد) کا نکاح و رخصتانہ حضرت ڈاکٹر صاحب کی بیٹی حضرت محمودہ بیگم صاحبہ (المعروف امِّ ناصر) سے کر دیا تھا۔

آپ کے والد کرنل ڈاکٹر تقی الدین صاحب حضرت مصلح موعوؓد کے برادرِ نسبتی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے پھوپھا تھے۔ اس نسبت سے آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے فرسٹ کزن تھے اور ہمارے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ بنصرہ العزیز کی والدہ کے ماموں زاد بھائی اور حضورِ انور کے رشتہ میں ماموں تھے۔ اسی طرح حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ صاحب آپ کے سگے خالو تھے۔

آپ اکثر حضرت مصلح موعوؓد کے واقعات بیان کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ ایک دفعہ آپ کو حضرت مصلح موعوؓد کو دبانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی تھی۔

اسی طرح آپ کے پاس حضرت مسیح موعوؑد کے تبرک کے علاوہ متعدد بزرگان کے تبرکات بھی موجود تھے۔

موجودہ وبائی ایّام (COVID-19) کے آغاز سے قبل تک باوجود پیرانہ سالی کے تقریباً 20 کلومیٹر کا سفر کر کے بڑی باقاعدگی سے نمازِ جمعہ کی ادائیگی اور دیگر جماعتی پروگرامز میں شمولیت کیلئے تشریف لاتے رہے۔ آخری سالوں میں اپنے والد صاحب مرحوم کی قراقلی کی ٹوپی اور چھڑی استعمال فرمایا کرتے تھے۔

ایک دفعہ آپ نے مجھے بھی قرآن کریم کے چند صفحات، جو کہ ہاتھ سے خوش خط لکھے ہوئے تھے، بطور تحفہ عنایت فرمائے تھے۔

مؤرخہ 8 دسمبر 2020ء کو آپ کی تدفین نمازِ ظہر کے بعد Billdals کے مقبرہ موصیاں میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ 7/1 کے موصی تھے۔

COVID-19 کےموجودہ وبائی ایّام کی وجہ سے صرف 20افراد کو جنازہ میں شرکت کی اجازت تھی۔ چار انصار کے علاوہ تمام خدام تھے جنہوں نے تدفین کے تمام امور انجام دیے نمازِ جنازہ پڑھانے کیلئے سٹاک ہالم سے مکرم کاشف محمود ورک صاحب مربی سلسلہ تشریف لائے تھے۔ نمازِ جنازہ کے بعد قبر تیار ہونے پر مکرم کاشف محمود ورک صاحب نے ہی دعا کروائی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے اور رحمت و مغفرت کا سلوک کرتے ہوئے اعلیٰ علّییّن میں بلند مقام عطا فرمائے اور اپنے نیک پاکباز لوگوں کے قرب میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین ثمّ آمین

پچھلا پڑھیں

حضرت ام المؤمنین ؓ کی اپنی خادمہ سے شفقت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اگست 2021