• 27 جولائی, 2025

کیوں غضب بھڑکا خدا کا مجھ سے پوچھو غافلو!!!

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنے بھیجے گئے انبیاء، امام زمانہ اور مسیح زمانہ کے انکار اور پھر توہین کرنے والوں پر عذاب لانے کے بارے میں فرماتا ہے:

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ؕ قَالُوۡا شَہِدۡنَا عَلٰۤی اَنۡفُسِنَا وَ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ شَہِدُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰفِرِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾ ذٰلِکَ اَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ رَّبُّکَ مُہۡلِکَ الۡقُرٰی بِظُلۡمٍ وَّ اَہۡلُہَا غٰفِلُوۡنَ﴿۱۳۲﴾

(الانعام: 131تا132)

اے جنوں اور عوام الناس کے گروہو! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کیا کرتے تھے اور تمہیں تمہاری اِس دن کی ملاقات سے ڈرایا کرتے تھے؟ تو وہ کہیں گے کہ (ہاں) ہم اپنے ہی نفوس کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔ اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں مبتلا کر دیا تھا اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کفر کرنے والے تھے۔

یہ اس لئے (ہوگا) کہ اللہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک نہیں کرتا اس حال میں کہ اس کے رہنے والے غافل ہوں۔

یعنی اللہ تبارک تعالیٰ کبھی بھی کسی بھی قوم پر اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک کہ وہاں کوئی ڈرانے والا اور اصلاح کرنے والا نہ بھیج چکا ہو۔ یا بار بار تنبیہ نہ کی ہو۔

اسی طرح آخری زمانے میں بھی جیسے ایک مہدی و مسیح نبی اللہ کے مبعوث ہونے کا ذکر اور وعدہ سورۃ الجمعہ میں موجود ہے

ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۳﴾ وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۴﴾

(الجمعہ: 3تا4)

وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔

اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔

اسی طرح اس آخری زمانے میں عذاب آنے کی بھی پیشگوئی موجود ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ اِنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا نَحۡنُ مُہۡلِکُوۡہَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ اَوۡ مُعَذِّبُوۡہَا عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا ﴿۵۹﴾

(بنی اسرائیل: 59)

اور کوئی بستی نہیں مگر اسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک کرنے والے یا اُسے بہت سخت عذاب دینے والے ہیں۔ یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔

چنانچہ اس آخری زمانے میں اپنے وعدے کے مطابق اللہ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کو مامور کیا اور صرف ایک خطے یا علاقے کے لئے نہیں۔ بلکہ ساری دنیا کی اقوام، خطے، قبیلے اور مذاہب اور مسلمانوں کے ہر فرقے کی اصلاح اور اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غلبہ دینے کے لئے زمانے کا امام اور مسیح بنا کے بھیجا اور ساتھ ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو 1897ء میں الہام کیا کہ:
’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘

حضور علیہ السلام نے تحریر فرمایا:
’’وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا‘‘۔

(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد17 صفحہ182)

اور اس الہام اور پیشگوئی کے عین مطابق ایک صدی کے اندر اندر اللہ نے اپنی تقدیر کے عین مطابق اپنے مہدی کے پیغام، نام اور جماعت کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔ اور خلافت علیٰ منہاج نبوت کو مضبوط بنایا۔ نیک فطرت لوگوں نے خوشی اور تقوی ٰسے اس پیغام کو سنا اور قبول کیا۔ مذہب سے دور لوگوں نے اسکی پرواہ بھی نہیں کی۔ لیکن انتہا پسند اور انکار کرنے والوں نے نہ صرف انکار کیا۔ بلکہ تکذیب بھی کی۔ اور اس جماعت کے افراد کو نقصان پہنچانے، تکالیف دینے اور شہید کرنے کے ساتھ ساتھ ہجرت پر بھی مجبور کردیا۔

تو پھر اللہ کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت بھی آگیا کہ
دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔

(تذکرہ صفحہ148)

چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ اس عرصہ میں کس طرح اللہ نے زور آور حملے کئے۔ اور کثرت سے وبائیں، زمینی، آسمانی اور سمندری آفات عذاب کی صورت میں ساری دنیا پر نازل کئے۔ اور دنیا کی توجہ اس طرف پھیری کہ زمانے کا امام اور مسیحا آچکا ہے۔

غرض یہ کہ یورپ، آسڑیلیا، امریکہ، کینیڈا، الاسکا، اور ایشیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں ان آفات نے تباہی نہ مچائی ہو۔ چائنا کے ساتھ ساتھ پچھلے سال پہلے انڈیا میں بارشوں سے ایئر پورٹ میں کھڑے ہوائی جہاز تک ڈوب گئےاور بہہ گئے۔ پھر پچھلے سال سارا کراچی ڈوب گیا اور صوبہ سندھ میں صدی کی سب سے بڑی تباہی آئی۔ اور حکومت اور عوام کو جانی نقصان کے ساتھ ساتھ شدید مالی نقصان اٹھانا پڑا اور ہر گھر گٹر کی بو سے بھر گیا۔ جسکی صفائی اور بو نکالتے مہینوں لگ گئے۔ لیکن پھر بھی کسی نے عبرت نہ پکڑی۔ اور ظلم کرنے اور کلمہ مٹانے اور مساجد گرانے میں مصروف رہے۔ پھر اسی طرح کا ایک اور عذاب پنڈی اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں آیا۔ گندے نالے کا پانی اُبل اُبل کے سڑکوں اور گھروں کو برباد کر گیا۔ اور گاڑیاں سڑکوں پے تیرتی نظر آئیں۔ اور یہ تباہی بھی آدھی صدی کے بعد آئی۔ کہ اللہ نے بہت ڈھیل دی۔

لیکن پھر بھی ظلم کی انتہا ختم ہی نہیں ہورہی اور احمدیوں کے ساتھ ساتھ مجبور اور غریب لوگ بھی حکومت اور بااثر لوگوں کی نا انصافی اور زیادتی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ اور گناہ اور ظلم بڑھتا ہی گیا۔اور وبائی کیڑے دابتہ الارض نے بھی رنگ بدل بدل کے کرونے کی شکل میں دنیا کے ہر خطے کے ساتھ ساتھ انڈیا اور پاکستان میں بھی کیڑوں کی طرح انسانی اموات لینا شروع کردیں۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ۔ اللہ کبھی کسی پے ظلم نہیں کرتا لیکن دنیا کی حالت یہ ہو گئی کہ

؎کثرت گناہ سے زندگی بکھر گئی
آسماں بھی رو پڑا زمین بھی اجڑ گئی

اللہ کے بھیجے گئے مامورا ور اس زمانے کے امام و مسیحا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مہدی ومسیح موعود علیہ السلام نے بہت پہلے ایک پیشگوئی میں فرمایا تھا:
’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گاتب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں اگر میں نہ آیا ہوتا تو اِن بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا:

مَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا ﴿۱۶﴾

(بنی اسرائیل: 16)

جو ہدایت پا جائے وہ خود اپنی جان ہی کے لئے ہدایت پاتا ہے اور جو گمراہ ہو تو وہ اسی کے مفاد کے خلاف گمراہ ہوتا ہے۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ اور ہم ہرگز عذاب نہیں دیتے یہاں تک کہ کوئی رسول بھیج دیں (اور حجت تمام کردیں)۔

اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگایہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھو گے۔ اے یورپ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا !تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ، 268تا269)

اور آج کا زمانہ اپنی آنکھوں سے اللہ کے اس نذیر اور بشیر کی پیشگوئی اپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھ رہا ہے۔

اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ جمعہ 22مئی 2020ء کو اسلام آباد، برطانیہ میں فرماتے ہیں :
آج کل ہم جس حالت سے گزر رہے ہیں اس میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے۔ یہ آفات اور طوفان اور بلائیں جو اس زمانے میں آ رہی ہیں ان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے خاص تعلق ہے۔ پس ہمیں اپنے ایمان و ایقان اور انجام بخیر کے لیے بھی بہت دعائیں کرنی چاہئیں اور دنیا کے بچانے کے لیے بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔

مناسب ہے کہ ان ابتلا کے دنوں میں اپنے نفس کو مار کر تقویٰ اختیار کریں۔ میری غرض ان باتوں سے یہی ہے کہ تم نصیحت اور عبرت پکڑو۔ دنیا فنا کا مقام ہے، آخر مرنا ہے۔ خوشی دین کی باتوں میں ہے۔ اصلی مقصد تو دین ہی ہے۔‘‘

اللہ ہمیں حضور انور کے اس ارشاد کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ تقویٰ کا معیار بلند کرنے اور اپنے ساتھ ساتھ دنیا کے لئے بھی دعا کرنے کی توفیق دیتا چلا جائے۔ آمین ثمّ آمین

؎اک بڑی مدت سے دِیں کو کُفر تھا کھاتا رہا
اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن
دن بہت ہیں سخت اور خوف و خطر درپیش ہے
پر یہی ہیں دوستو! اُس یار کے پانے کے دن

(درثمین)

(امۃ القدوس قدسیہ۔ناروے)

پچھلا پڑھیں

لمبی عمر اور رزق

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اگست 2021