• 29 اپریل, 2024

سورۃ الاَنعام اور الاَعراف کا تعارف (ازحضرت خلیفۃ المسیح الرابع)

سورۃ الاَنعام اور الاَعراف کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃالاَنْعام

یہ سورت مکی دور میں نازل ہوئی تھی۔ بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو چھیاسٹھ آیات ہیں ۔

گزشتہ سورت کی آخری آیت میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ تمام جہانوں اور جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے ان کا مالک اللہ ہے اور اس سورت کے آغاز میں یہی ذکر اَور زیادہ وضاحت اور شان کے ساتھ کیا گیا ہے یعنی تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اور ان کی کنہ کو معلوم کرنے کی راہ میں کئی قسم کے اندھیرے حائل ہونے کے باوجودوہ نور فراست بھی عطا فرمایا جس کے ذریعہ وہ اندھیرے ٹلتے چلے جائیں گے۔ پس آج کی سائنسی ترقی نے زمین و آسمان کی پیدائش کے اندھیروں پر سے اس طریق پر پردہ اٹھایا ہے کہ ان کی کنہ اور مَا فِیْھَا کا زیادہ سے زیادہ علم انسان کو ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہر اندھیرا نور میں تبدیل ہو رہا ہے ۔جس طرح آغاز میں آسمان کے اندھیروں کے دُور کئے جانے کا ذکر ملتا ہے اسی طرح خشکی اور سمندر کے اندھیروں کے نور میں تبدیل کئے جانے کا بھی اس میں ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح آسمان سے انسانوں پر عذاب بھی نازل ہوتے ہیں جن کو ان کے باطن کے اندھیرے کھینچتے ہیں ۔اس مضمون کا اس سورت کی آیت نمبر66 میں ذکر ملتا ہے۔

ایک تو سائنس دان ہیں جن پر زمین و آسمان کے اندھیرے ان کی جستجو کے نتیجہ میں روشن کئے جاتے ہیں اور ایک اللہ تعالیٰ کے وہ عظیم بندے ہیں ،جیسے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام ،جن کو اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے ملکوت دکھا دیتا ہے اور آسمان سے ان پر نور برستا ہے جیسا کہ آیت 76میں ذکر فرمایا گیا ہے۔

اس سورت میں مسلسل انبیاء کا اور ان پر کتابیں نازل ہونے اور نورِ ہدایت نازل ہونے کا ذکر مل رہا ہے۔

اسی سورت میں بند بیجوں اور گٹھلیوں کو پھاڑ کر ان کے اندھیروں میں سے زندگی کے لہلہاتے ہوئے پودے نکالنے کا ذکربھی ہے ۔اسی طرح ستاروں کا ذکر ہے کہ کس طرح وہ خشکی اور تری کے اندھیروں کو دور کر کے مسافروں کی راہنمائی کا موجب بنتے ہیں ۔

آیت 96سے شروع ہونے والے رکوع میں ایک بہت ہی عظیم الشان آیت اس مضمون پر مشتمل ہے کہ سبزے سے ہر قسم کے تہہ بہ تہہ بیج پھوٹتے ہیں اور پھر ہر قسم کے ثمرات اُگتے ہیں ۔ ان ثمرات کے پکنے کے نظام پر غور کرو۔ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں ، ان کے لئے اس میں بے شمار نشانات ہیں۔

سبزہ کلوروفِل (CHLOROPHYLL) سے بنتا ہے جو اپنی ذات میں ایک عظیم نشان ہے جس میں سائنس دانوں کو کوئی بھی ارتقائی منازل دکھائی نہیں دیں۔ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ کیمیاوی مادہ ہے جو ہر دوسرے کیمیاوی مادہ سے زیادہ پیچیدہ ہے اور زندگی کے آغاز پر ہی کلوروفِل کی ضرورت پیش آتی ہے جس سے انسان پیدا ہوا۔ اُس وقت کلورو فِل کن ارتقائی منازل سے گزر کر پیدا ہوا ،یہ سوال ابھی تک لا ینحل ہے ۔اور خاص طور پر قابل توجہ امر یہ ہے کہ کلورو فل نور سے زندگی بناتا ہے اور آگ سے نہیں ۔وہی نور کا مضمون کہ اس نے زمین و آسمان میں کیا کیا انقلابات برپا کئے ہیں اس سورت کے آخر پر اپنے معراج کو پہنچ جاتا ہے۔

اس سورت میں مشرکین کے ایسے فرسودہ توہمات کا ذکر بھی ہے جن کا تعلق اَنعام یعنی مویشیوں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا مگر انہوں نے طرح طرح کی مشرکانہ رسومات کے ذریعہ مویشیوں کے بارہ میں تمام پُر حکمت باتوں کو ضائع کر دیا۔

اس سورت کے آخر پر نہ صرف مویشیوں کے تعلق میں حلا ل اور حرام کی وضاحت فرمائی گئی بلکہ اخلاقی حلا ل اور حرام سے تعلق رکھنے والی باتیں بھی سب بیان فرما دیں گویا جسمانی غذا کے حلا ل و حرام کے ساتھ روحانی حلال و حرام کا بھی ذکر فرما دیا اور والدین کے ساتھ احسان کی تعلیم دی جو اپنے بچوں کے لئے بہت تکلیف اٹھاتے ہیں ۔

اس سورت کے آخر پر ایک ایسی آیت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ربّ کے حضور کامل مطیع ہونے کا اس کمال کے ساتھ ذکر کرتی ہے کہ اس سے بہتر ذکر ممکن نہیں اور تمام دنیا کی الہٰی کتب میں اس مضمون کی کوئی آیت موجود نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعلان کرنے کا ارشاد فرمایا گیا ہے کہ میری نمازیں اور میری سب قربانیاں یعنی صرف اَنعام کی قربانیاں نہیں بلکہ اپنے دلی جذبات کی قربانیاں اور میری زندگی اور میری موت خالصتہ ً اپنے اللہ کے لئے وقف ہو چکی ہیں۔

سورۃالاَعْراف

یہ سورت سوائے چند آیات کے مکّہ میں نازل ہوئی تھی۔ بسم اللہ سمیت اس کی دو سو سات آیات ہیں۔ اس سے پہلے دو سورتوں یعنی سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران کا آغاز مقطعاتِ قرآنی الٓمّٓ سے ہوا تھا ۔اس سورت میں الٓمّٓ پر صٓ کا اضافہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو مضامین پہلی سورتوں میں گزر چکے ہیں ان پر بعض اَور مضامین کا اضافہ ہونے والا ہے جو اللہ کے صادق ہونے سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس میں صٓ سے مراد صَادِقُ الْقَوْلِ بھی لیا جاتا ہے لیکن اس کی آیت نمبر 3 میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کا ذکر صَدْر کے لفظ سے ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الٓمّٓ سے شروع ہونے والی سورتوں کے مضامین اور ان کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر کامل شرح صدر حاصل تھا۔

اس سورت میں پہلی سورتوں سے ایک زائد مضمون یہ بیان ہوا ہےکہ صرف وہ لوگ ہی نہیں پوچھے جائیں گے جو انبیاء کا انکار کرتے ہیں بلکہ انبیاء بھی پوچھے جائیں گے کہ انہوں نے کس حد تک اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا۔

اس سورت میں آدمؑ کا پھر ذکر کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اَمْر سے پیدا کیا گیا اور جب اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی تو پھر بنی نوع انسان کو اس کی اطاعت کا حکم دیا ۔ یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ان معنوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سب سے عظیم سجدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور اسی نسبت سے تمام بنی نوع انسان کو آپؐ کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سجدہ کا ذکر گزشتہ سورت کے آخر پر ان الفاظ میں ملتا ہے قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ پس جس کا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے وقف ہو جائے اس کے حضور جھکنا کوئی شرک نہیں بلکہ اس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو گی۔

اس کے بعد اُس لباس کا ذکر ہے جو بظاہر پتّوں کی صورت میں آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اوڑھا تھا مگر اس سے مراد لِبَاسُ التَّقۡوٰی کے سوا اور کوئی لباس نہیں تھا ۔ اسی طرح بنی نوع انسان کو متنبّہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح ایک دفعہ شیطان نے آدمؑ کی قوم کو پھسلایا تھا وہ آج بھی اسی طرح انبیاء کی قوموں کو پھسلا رہا ہے۔ اور جنت سے نکلنے کا اصل مفہوم دائرۂ شریعت سے باہر نکلنے پر اطلاق پاتا ہے کیونکہ دائرۂ شریعت میں ہی جنت ہے اور اس سے باہر جہنم کے سوا کچھ نہیں۔ آج بھی قرآن کریم کے دائرہ شریعت سے باہر نکلنے کے نتیجہ میں سارے بنی نوع انسان ہر قسم کے جسمانی اور روحانی جہنم میں مبتلا کر دیئے گئے ہیں۔ اسی مضمون کو کہ زینت اصل میں تقویٰ کی زینت ہے ، اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا کہ مسجد میں جانے سے تمہیں کوئی زینت نہیں ملے گی جب تک کہ تم اپنی زینت یعنی تقویٰ کو ساتھ لے کر نہیں جاؤ گے۔

اس سورت میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند ترین مقام کا ذکر ملتا ہے جو کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا یعنی آپؐ اور آپؐ کے صحابہ ؓ کو اہلِ جنت کا ایسا عرفان نصیب تھا کہ وہ اپنی روحانی بلندیوں سے قیامت کے دن ہر روح کو پہچان لیں گے کہ یہ جنتی روح ہے یا جہنمی۔

اس کے بعد اس سورت میں گزشتہ کئی انبیاء کا ذکر ہے کہ وہ بھی اپنی قوموں کی راہنمائی کے لئے ہی بھیجے گئے تھے اور انہوں نے اپنی اپنی قوم کے لئے انتہائی قربانیاں دے کر ان کی ہدایت کے سامان کئے تھے لیکن ان تمام انبیاء سے بڑھ کر ہدایت کا سامان کرنے والے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے

اس کے بعد وضاحت سے اس بات کا ذکر فرما دیا گیا کہ گزشتہ انبیاء بھی بڑے بڑے روحانی مراتب پر فائز تھے مگر ان کا فیض محدود تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی عالمی فیض پہنچانے والا نہیں آیا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب نبیوں کے سردار کے طور پر اس لئے چنا گیا کہ آپؐ سب دنیا کے لئے رحمت تھے یعنی مشرق و مغرب کے لئے بھی رحمت تھے اور عرب و عجم کے لئے بھی رحمت تھے ۔انسانوں کے لئے بھی رحمت تھے اور جانوروں کے لئے بھی رحمت تھے ۔اور یہ وہ امر ہے جس کا کثرت سے احادیث میں ذکر ملتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو قیامت برپا کی جانے والی تھی اس میں سے پہلی قیامت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں برپا ہو گئی جس کا ذکر اِقْتَرَ بَتِ السَّا عَۃُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ میں ملتا ہے۔اور دوسری قیامت آخَرِ ین کے زمانہ میں برپا ہونے والی تھی کہ وہ مر دے جو زندہ کئے جانے کے بعد پھر مردہ بن گئے ان کو از سرِ نو زندہ کیا جانا تھا ۔اور پھر ایک وہ بھی قیامت ہے جو اَشْرَ ارُالنَّاسِ پر آنی تھی ۔یہ تمام قیامتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔

(عائشہ چوہدری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

آج کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اگست 2021