حضرت مولانامحمد ابراہیم بقا پوری جو رشتہ میں میرے دادا تھے 1873ء میں بمقام چک چٹھہ پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سات سال کی عمر تک تیسری جماعت سرکاری مدرسے میں حاصل کی۔ 1884ء میں اپنے جدی گاؤں بقا پور سے دو میل کے فاصلے پر موضع حمید پور میں ایک مولوی صاحب کے پاس قرآن شریف کے علاوہ گلستان و بوستان تک فارسی پڑھی اور اسی سال نیلہ گنبد لاہور کے مدرسہ رحیمیہ میں داخل ہو کر قدوری، کافیہ اور فصول اکبری وغیرہ کتب پڑھیں۔ 1889ء تا 1890ء میں دو سال لدھیانہ میں حضرت مولانا عبدالقادر صاحب ؓ (یکے از 313 صحابہ) سے تعلیم حاصل کی۔1891ء میں ایک دفعہ استاد محترم نے آپ کو نصف روپیہ دے کر محلہ اقبال گنج روانہ کیا تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کتاب ’’فتح اسلام‘‘ لے آئیں اس موقع پر آپ کو حضرت مسیح موعود ؑکی اقتداء میں عصر کی نماز ادا کرنے کا موقع بھی ملا۔ اس وقت آپ کی عمر 18سال تھی۔
قادیان کی زیارت اور حصول قرب احمدیت
آپ نے 1891ء تا 1893ء مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں تعلیم مکمل کی۔ 1894ء میں جبکہ آپ ریاست کچھ بھوج کے شہر مندراکے مدرسہ عربی میں اول مدرس عربی تھے اور آپ کی عمر 21 سال تھی رمضان شریف میں کسوف و خسوف ہوا اور آپ سے لوگوں نے پوچھا کہ کیا اس نشان کی رو سے حضرت مرزا صاحب صادق ہیں آپ نے کہا کہ یہ علامت ہے کہ حضرت امام مہدی پیدا ہو چکے ہیں لیکن آپ کے دل پر اس نشان کا یہ اثر ہوا کہ حضرت مسیح موعود کی طرف آپ کی توجہ ہو گئی اور آپ کبھی کبھی قادیان آتے اور اپنے پرانے دوستوں حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور حضرت قاضی امیر حسین سے بھی ملاقات ہوتی اور ہر بار قادیان آنے پر جماعت کے ساتھ آپ کا تعلق زیادہ پختہ ہو جاتا بالآخر 1905ء میں آپ بیعت کے ارادہ سے قادیان کے لئے روانہ ہوئے اور قادیان پہنچنے کے چوتھے روز آپ نے بیعت کا ارادہ کر لیا اس دن حضرت مسیح موعود کی طبیعت ناساز تھی حضور کی عیادت کے لئے حضرت خلیفۂ اولؓ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب، خواجہ کمال الدین اور شیخ رحمت اللہ صاحب وغیرہ بیت الفکر میں بیٹھے تھے کہ حضور کو مولانا بقا پوری صاحب کے متعلق اطلاع دی گئی کہ وہ حاضر ہونا چاہتے ہیں حضور نے آپ کو بھی اندر آنے کی اجازت دی چونکہ اس وقت وہاں پر کوئی خالی کرسی یا موڑھا وغیرہ نہ تھا اس لئے مولوی صاحب نیچے بیٹھنے کے لئے جھکے ہی تھے کہ حضور نے فرمایا۔ نہیں نہیں۔ آپ میرے پاس چاپائی پر بیٹھ جائیں۔ آپ جھکتے ہوئے پاؤں نیچے لٹکا کر چارپائی پر بیٹھ گئے تو حضور نے کمال مہربانی سے فرمایا ؛۔ مولوی صاحب میری طرح چارپائی پرپاؤں رکھ کر بیٹھ جائیں۔ چنانچہ آپ حضور کے سامنے بیٹھ گئے اور عرض کی کہ حضور اب مجھے کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہا میری بیعت لے لیں حضور نے ہاتھ بڑھایا اور آپ کی بیعت لے لی۔ اس نظارہ سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ جو وہاں تشریف فرما تھے بہت ہی متاثر ہوئے اور فرمایا۔
’’مولوی صاحب اس طرح کی بیعت کرنا آپ کو مبارک ہو۔‘‘
بیعت کرنے کے بعد آپ کی مخالفت شروع ہو گئی 1905ء تا 1908ء، 3 سال بقا پور میں ہر طرح کی مالی اور بدنی ابتلاؤں کے گزرے۔ کئی کئی دن فاقہ کشی تک بھی نوبت پہنچی۔ لیکن روحانی مسرتوں کے باعث ان تکالیف کا احساس نہ ہوا چونکہ آ پ زمینداری نہیں کرتے تھے اس لئے آمد کی کوئی صورت نہ تھی۔ پھر چند لڑکے آپ سے فارسی پڑھنے لگے اس طرح قدرے معاش کا سامان ہو گیا۔
آپ کی پہلی شادی آپ کے ماموں کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر سے ایسا گہرا اثر پڑا کہ جانبر نہ ہو سکیں اور 2 دسمبر 1908ء کو وفات پا گئیں ان کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہو جو غالبا ً7-8 سال کی عمر میں وفات پا گیا تھا۔ آپ نے جلسہ سالانہ 1908ء پر حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ سے انکی وفات کا ذکر کرکے نکاح ثانی کے لئے دعا کی درخواست کی۔ جب جلسہ سالانہ کے بعد واپسی کی اجازت کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے دعا فرمائی اور کہا کہ مولانا صاحب میں نے آپ کے نکاح کے متعلق دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ قبول کر لی گئی ہے چنانچہ 1909ء میں چک 98 شمالی سرگودھا میں امام الصلوٰۃ قریشی غلام حسین کی صاحبزادی مکرمہ حیات بیگم سے آپ کی شادی ہو گئی بعد میں مولوی صاحب 1909ء سے 1914ء تک اسی علاقہ یعنی سرگودھا میں ٹھہرے اور آپ کی تبلیغ سے کئی جماعتیں قائم ہوئیں۔
تائید خلافت
آپ ہمیشہ سے خلافت کے موّید رہے ہیں خلافت اولیٰ میں بعد میں ہونے والے مخالفین خلافت کے فتنہ کا آغاز ہو چکا تھا وہ تمام حالات آپ ہی کے سامنے گذرے ہیں آپ 1911ء میں بعد استخارہ انجمن انصار اللہ کے ممبر بن گئے تھے اور خلافت ثانیہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دست راست رہے۔ حضرت مولوی فضل الہٰی بھیروی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی خدمت میں 1914ء میں تحریر کیا کہ مولوی صاحب عالم اور نیک ہیں اور اس وقت جماعت کو ایسے ہی افراد درکار ہیں انکو مبلغین میں شامل کرنا مفید ہو گا۔ چنانچہ حضور نے آپ کو اکتوبر 1914ء میں سرگودھا سے بلا کر فرمایا کہ ترقی اسلام کے منتظم اعلیٰ حضرت مولوی شیر علی صاحب سے مل کر اپنے گذارے کے متعلق بھی بات چیت کر لیں۔ مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضرت مسیح موعود نے بوقت بیعت میرے عرض کرنے پر فرمایا تھا کہ لوگوں سے کہہ دینا کہ میں نے حق کو پا لیا ہے اور دعا کرنے کے بعد تبلیغ کرنا اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا پھر جب حضور نے وقف زندگی کی تحریک کی تو حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت بابا حسن محمد صاحب اور حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ وغیرہ کے ساتھ میں نے بھی زندگی وقف کی تھی اور جس طرح 10 سال سے گزارہ انتظام ہے اب بھی ہوتا رہے گا۔ حضور نے فرمایا کہ اب چونکہ آپ کلیۃً انجمن کے ماتحت ہونگے۔ اس لئے گزارہ لینا جائز ہے حضرت مولوی شیر علی صاحب نے 22 روپے مقرر کر دئیے۔ اور حضور ایدہ اللہ تعالی ہمیشہ خود آپ کی ترقی کا خیال رکھتے رہے۔ چنانچہ پنشن قاعدہ کی رو سے قریبا 25 روپے بنتی تھی۔ حضور نے چالیس روپے کر دی حضور کی نظر میں آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔ چنانچہ حضور نے اپریل 1936ء کی مشاورت میں یہ بتاتے ہوئے کہ مبلغین کیسے ہونے چاہئیں۔ آپ کا بھی ذکر مثالی رنگ میں فرمایا۔
آپ کو ملازمت میں ہندوستان کے بہت سے مقامات پر تبلیغ پر جانے کی توفیق حاصل ہوئی اور سندھ میں بھی 6 سال 1923ء تا 1928ء رئیس التبلیغ متعین رہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس وقت بیعت لینے کی بھی اجازت مرحمت فرما دی تھی۔ سندھ سے واپسی پر قادیان میں واعظ مقامی مقرر ہوئے اور 1935 میں آپ نے پنشن پائی۔
آپ نے مؤرخہ 6 نومبر 1915ء میں وصیت کی۔ آپ نے تحریک جدید کے جہاد میں دفتر اول میں قریباً ایک ہزار روپے اور آپ کی کل اولاد نے قریباسوا تین ہزار روپے دئے۔ آپ کا کوڈ 660 ہے آپ کو بطور ممبر مجلس کار پرداز مصالح قبرستان بہشتی مقبرہ بھی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ آپ محلہ دارلفضل قادیان (بشمول دارلصنعہ) کے 3سال کے لئے امین منتخب ہوئے آپ کو سالانہ مشاورت میں بھی بعض دفعہ شمولیت کا موقع ملتا رہا ہے اس طرح بعض دیگر خدمت کا بھی آپ کو موقع ملا۔ آپ کے بعض مضامین بھی سلسلہ کے لٹریچر میں ہیں۔
آپ کو یہ شدید احساس ہوا کہ میں نے 1891ء میں کیوں نہ بیعت کر لی اور تلافی کے طور پر آپ نے 13 سال تک شدید مجاہدات کئے آپ ہر ماہ قادیان 45 میل کا پیدل سفرکر کے آتے اور حضرت اقدس کی صحبت میں دو ہفتہ قادیان میں قیام کرتے جس کے نتیجہ میں قرآن مجید کے معارف آپ پر کھلے اور اس کا فہم عطا ہوا۔
الہٰی مدد
مَنْ کَانَ لِلّٰہِ۔ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ۔ کا ایک عجیب واقعہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے رمضان شریف میں سارے قرآن مجید کا درس دینا تھا ادھر بھائیوں کی طرف سے اطلاع تھی کہ والد مرحوم کی جائیداد کے انتقال کے لئے فلاں روز پہنچنا ضروری ہے۔ آپ نے سوچا کہ اس طرح تین دن صرف ہو کر 3 سپارے کے درس سے محروم رہ جاؤں گا ان کواطلاع دی کہ میں قادیان درس قرآن شریف میں شمولیت کے لئےجا رہا ہوں خواہ میرے نام انتقال ہو یا نہ ہو۔ تحصیلدار بندو بست کی آنکھیں اس خط کو دیکھ کر پر آشوب ہو گئیں اور اس نے کہا کہ ایمان تو ایسے لوگوں کا ہے میں مسل دبا رکھتا ہوں مولوی صاحب کے آنے پر مہتمم بندو بست کے پیش کر دوں گا۔
تقسیم ملک کے وقت آپ کو بھی احباب جماعت کی طرح یکم اکتوبر1947 کو قادیان سے ہجرت کرنی پڑی پہلے آپ کاقیام اپنے بیٹے میجر ڈاکٹر محمد اسحاق صاحب کے ہاں ماڈل ٹاون لاہور میں رہا پھر آپ بالقائے ربانی ربوہ منتقل ہو گئے جہاں حضرت صاحب کی خاص شفقت سے آپ کو رہائش کے لئے ایک پکا کواٹر دیا گیااکتوبر 1956ء میں آپ کو اور حضرت دادی جان کو جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی توفیق ملی۔
دعاؤں کی قبولیت
اللہ تعالیٰ کاخاص فضل آپ پر ہوا کہ مجاہدات کو اللہ تعالی قبول کر کے آپ کی دعاؤں کو قبول کرنا شروع کیا اور رؤیا کشوف کا سلسلہ جاری ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعودؑ، حضرت جبرئیلؑ، حضرت عائشہؓ اور بزرگان کی زیارت ہوئی آپ نے اپنی زندگی میں اپنی سوانح حیات بقا پوری کی شکل میں پانچ جلدوں میں چھپوائی تھی جن میں اپنے رؤیا کشوف حیات بقا پوری حصہ دوم اور سوم میں درج ہیں جلسہ سالانہ کے مستورات سیکشن میں آپ کی تقریر رکھی جاتی تھی۔
اولاد
آپ کی اہلیہ ثانی مکرمہ حیات بیگم صاحبہ سے تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ بڑی بیٹی مبارکہ بیگم جو 1912ء میں پیدا ہوئی۔ 15 سال کی عمر میں 1927ء میں اچانک وفات پا گئی۔ وہ اپنی دماغی صلاحیتوں کے لحاظ سے لَیۡسَ الذَّکَرُ کَالۡاُنۡثٰی کا مصداق تھی واور اتنی چھوٹی عمر میں اردو، عربی ا، انگریزی میں تقریر کرتی تھی جس کی وفات پر حضرت اقدس نے فرمایا۔ ’’زندہ رہتی تو بڑی قابلیت کی عورت ہوتی۔‘‘
دوسری بیٹی مکرمہ امۃ الحفیظ صاحبہ 1918ء میں پیدا ہوئی ان کی شادی سید عباس علی شاہ صاحب جو شیعہ سے احمدی ہوئے تھے اور ڈیرہ غازی خان کے رہنے والے تھے کے ساتھ ہوئی۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا سید محمد مبشر شاہ صاحب جو دو سال پہلے کینیڈا میں وفات پا گئے۔مکرمہ امۃ الحفیظ صاحبہ نے بڑی لمبی عمر پائی 99 سال کی عمر میں 2017ء میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔ میرے والد مکرم محمد اسماعیل اور چچا محمد اسحاق توام پیدا ہوئے تھے ان کی ولادت 17 اگست 1921ء ہے۔ والد صاحب نے سرکاری ملازمت دہلی سے شروع کی اور پارٹیشن کے بعد کراچی منتقل ہو گئے اور 2001ء میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ چچا محمد اسحاق نے ڈاکٹری تعلیم حاصل کی اور فوج سے کمیشن لے کربطور میجر ریٹائر ہوئے اور 2007ء میں وفات پائی۔ آپ کی تدفین لاہور میں ہوئی۔ تیسری بیٹی مبارکہ بیگم تھیں۔ 1928ء میں پیدا ہوئیں ان کے میاں کا نام محمد اشرف خان سوری تھا۔ وہ سرکاری ملازم تھے۔ اب دونوں وفات پا چکے ہیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے مبارک احمد تھے جو 1932ء میں پیدا ہوئے۔ سر کاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہو کر 1995ء میں فوت ہوئے اور کراچی میں مدفون ہیں۔ ہماری دادی جان مکرمہ حیات بیگم صاحبہ جو 1895ء میں پیدا ہوئیں وہ 6 ستمبر 1988ء بعمر 93 سال ربوہ میں وفات پاگئیں۔ وہ بھی بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔
اسی طرح آپ کے بھتیجے محمد حفیظ بقا پوری صاحب نے قادیان میں درویشانہ زندگی گزاری آپ اخبار البدر کے ایڈیٹر تھے مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر اور کئی عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کی وفات 1987ء میں ہوئی اور قادیان کے قطعۂ درویش میں تدفین ہوئی۔ آپ کے خاندان میں اس وقت چوتھی نسل چل رہی ہے جس کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں مثلا یورپ، آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ، پاکستان اور انڈیا میں رہائش پذیر ہے۔
ہمارے دادا جان نے مؤرخہ 17 مارچ 1964ء میں بعمر 91 سال لاہور میں وفات پائی ان کو پراسٹیٹ کی تکلیف تھی اگلے دن جنازہ ربوہ لایا گیا جہاں قطعہ صحابہ میں تدفین عمل میں آئی۔ خاکسار جو حضرت دادا جان کا بڑا پوتا ہے۔ مجھے ان کے ساتھ 1954ء تا 1956ء دو سال ربوہ میں رہنے کا موقع ملا۔ اس وقت میری عمر 11 یا12 سال تھی اس وقت بھی دادا جان باوجود ضعیف ہونے کے نوجوانوں والی ہمت رکھتے تھے اور شب بیداری میں نوافل کے لئے صبح 3 سے 4 گھنٹہ پہلے اٹھ کھڑے ہوتے اور اگر طبیعت اچھی ہو تو بیت الذکر میں ورنہ گھر پر نماز ادا کرتے تھے اور اس کے بعد تلاوت قرآن مجید ان کا معمول تھا۔ فجر کی نماز کے بعد بعض دفعہ احباب کے گھروں پر جانا ان کا حال پوچھنا یہ بھی ان کے معمولات میں سے تھا۔ لین دین کے معاملات میں بہت کھرے تھے اگر کبھی قرض کی ضرورت پڑی تو وقت سے پہلے ادائیگی کا فکر رکھتے اور شکایت کا موقع پیدا نہیں ہونے دیتے۔ہاؤس ٹیکس بجلی کے بل کی ادائیگی کے سلسلہ میں ہمیشہ یہی نصیحت کرتے کہ وقت سے پہلے ادا کیا کرو۔ اور معمولی داد دستہ بھی مانگنے سے پہلے ادا کرتے اگر کسی مزدور سے مزدوری کراتے تو دو چار پیسے زیادہ ہی دیتے گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے۔ معمولی سوال کو برا جانتے۔ جب پانی پینے کی ضرورت ہوتی تو خود ہی پی لیتے اگر کہا جائے کہ ہمیں کہہ دیں تو جواب دیتے جتنی دیر تم کو کہوں گا اس سے جلدی میں خود ہی پی لوں گا۔
گھر کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ صفائی پسند اور حتی الوسع متعلقین کو راحت و آرام پہنچانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے اور ان کی تکلیف کے ازالہ کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ اولاد کی تربیت کا خاص خیال رکھتے اور کسی کام میں مشورہ کی ضرورت ہو تو پھرسب چھوٹے بڑے بچوں کو شامل کر لیتے اگر کہا جاتا کہ چھوٹوں کی شمولیت کی کیا ضرورت ہے تو کہتے اس سے بچوں میں بہادری، جرات اور خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ بچوں سے زیادہ تر بڑوں والی باتیں کرتے تا کہ انکے حوصلے بلند اور ہمتیں قویٰ ہوں بچوں پر بار بار غصہ نہیں ہوتے تھے اگر تربیت کے خیال سے سزا دینی ہو تو ایسے طریقے استعمال کرتے کہ بچے کو احساس ہو کہ مجھے ناجائز طور پر سزا نہیں ملی۔ بلکہ واقعی طور پر اس کا مستحق تھا آپ رقیق القلب اور نرم دل کے انسان تھے شرعی احکامات کے پابند اور حضرت مصلح موعودؓ کے عاشق اور خاندان حضر ت مسیح موعود علیہ السلام سے سچی عقیدت اور ارادت تھی ہمیں ہمیشہ یہی تلقین کی کہ اگر تم اپنی زندگیوں کو اسلامی اور اپنے گھروں کو جنت بنانا چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اختیار کرواور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اور آپ کے خلفائے کرام کے پاک نمونہ کو اپنا طریقہ عمل بنا لو۔ اصلی کام اور نمونہ وہی ہے۔ جو انسان خود کر کے دکھلائے صرف اپنے باپ دادوں کے کار ناموں پر فخر کرنا حماقت اور نادانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کا پوری توفیق بخشے۔ آمین
(ایم وائی بقاپوری۔یاد رفتگان)