انسان کی پیدائش کا اوّلین مقصد عبادت الہٰی قرارد یا گیا ہے۔ عبادت صرف نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ کا نام ہی نہیں ہے بلکہ مخلوق خدا کی خدمت اور اُس سے حسن سلوک بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا مطالعہ کرتا رہے اور اُن پر غوروفکر کرنے کی عادت ڈال لے تو وہ اپنی پیدائش کے مقصد کو بہت بہتر رنگ میں سمجھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے کہ: صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً (البقرہ: 139) ’’اللہ کا رنگ پکڑو۔ اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہوسکتا ہے۔‘‘ نیز فرمایا: وَ لِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی فَادۡعُوۡہُ بِہَا (الاعراف: 181) ’’اور اللہ ہی کے سب خوبصورت نام ہیں۔ پس اُسے ان (ناموں) سے پکارا کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’اَلْعَفْوُ‘‘ ہے یعنی گناہوں سے درگزر کرنے والا، گناہوں کو مٹانے والااور بہت معاف کرنے والا۔چنانچہ کوئی انسان جس قدر اس خلق کو اپنائے گا، وہ اُسی قدر اس صفت میں رنگین ہوکر اس صفتِ باری کا مظہر بنتا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوۡرًا (النّسآء:44) ’’یقینا اللہ بہت درگزر کرنے والا (اور) بہت بخشنے والا ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیۡرًا (النّسآء:150) یقیناً اللہ بہت درگزر کرنے والا (اور) دائمی قدرت رکھنے والا ہے۔ ’’قرآن کریم میں مختلف پیرائے میں عفوودگزر کی تعلیم دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (اٰل عمران:135)‘‘ (یعنی) وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام یافتہ بندوں کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہ اُن کا بہت بڑا خلق غصے کو دبا جانا ہے اوروہ لوگوں سے عفو کا سلوک کرنے والے اور درگزر سے کام لینے والے ہیں۔ یعنی وہ اُس کی مخلوق سے نرمی، شفقت اور احسان کا سلوک کرتے ہیں اور اُن کی غلطیوں پر اُنہیں معاف کر دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں امن قائم رہے اورفتنہ نہ پھیلے۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’چھوٹی موٹی غلطیوں سے درگزر کردینا ہی بہتر ہوتا ہے تاکہ معاشرے میں صلح جوئی کی بنیاد پڑے، صلح کی فضا پیدا ہو۔ عموماً جو عادی مجرم نہیں ہوتے وہ درگزر کے سلوک سے عام طور پر شرمندہ ہوجاتے ہیں اور اپنی اصلاح بھی کرتے ہیں اور معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔‘‘
(خطبات مسرور جلد دوم صفحہ142۔شائع کردہ نظارت اشاعت۔2005ء)
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے ایک اور مقام پر فرمایا ہے: وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا (النّور:23) ’’پس چاہئے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔‘‘ ایک آیت کریمہ میں فرماتا ہے : وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ (الشورٰی:41) ’’اور بدی کا بدلہ، کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہوتو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے، لیکن اگر کوئی عفو کرے، مگر وہ عفو بے محل نہ ہو، بلکہ اس عفو سے اصلاح مقصود ہو تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ مثلاً اگر چور کو چھوڑ دیا جاوے تو وہ دلیر ہوکر ڈاکہ زنی کرے گا۔ اس کو سزا دینی چاہیے۔ لیکن اگر دونوکر ہوں اور ایک ان میں سے ایسا ہوکہ ذرا سی چشم نمائی ہی اس کو شرمندہ کر دیتی اور اس کی اصلاح کا موجب ہوتی ہے تو اس کو سخت سزا مناسب نہیں، مگر دوسرا عمداً شرارت کرتا ہے، اس کو عفو کریں تو بگڑتا ہے، اس کو سزا ہی دی جاوے۔ تو بتاؤ مناسب حکم وہ ہے جو قرآن مجید نے دیا ہے یا وہ جو انجیل پیش کرتی ہے؟ قانون قدرت کیا چاہتا ہے؟ وہ تقسیم اور رؤیت محل چاہتا ہے۔ یہ تعلیم کہ عفو سے اصلاح مدنظر ہو، ایسی تعلیم ہے جس کی نظیر نہیں اور اسی پر آخر متمدن انسان کو چلنا پڑتا ہے اور یہی تعلیم ہے جس پر عمل کرنے سے انسان میں قوت اجتہاد اور تدّبر اور فراست بڑھتی ہے۔ گویا یوں کہا گیا ہے کہ ہر طرح کی شہادت سے دیکھو اور فراست سے غور کرو۔ اگر عفو سے فائدہ ہوتو معاف کرو، لیکن اگر خبیث اور شریر ہے تو پھر جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ پر عمل کرو۔ اسی طرح پر اسلام کی دوسری پاک تعلیمات ہیں جو ہر زمانہ میں روزِ روشن کی طرح ظاہر ہیں۔‘‘
(الحکم جلد4 نمبر14مؤرخہ 17/اپریل 1900ء صفحہ6-5 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد ہفتم صفحہ135-134مطبوعہ 2015ء)
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐ کی مطہر زندگی کو کامل نمونہ قرار دیا ہے۔ آپ ؐنے اپنی ساری زندگی صفات الہٰیہ کی روشنی میں بسر کی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے آپ کو نرمی اختیار کرنے والا اور دَرگزر کرنے والا بنادیا تھا۔جیسا کہ فرماتا ہے: ’’پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تُو ان کے لئے نرم ہوگیا۔ اور اگر تُو تُند خُو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گِرد سے دُور بھاگ جاتے۔ پس ان سے دَرگزر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعاکر۔‘‘ (اٰل عمران: 160) اسی طرح اللہ تعالیٰ رسول کریم ؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے : خُذِ الۡعَفۡوَ وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِیۡنَ (الاعراف:200) ’’عفو اختیار کر اور معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر۔‘‘ کسی نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے رسول اللہ ؐ کی توریت میں بیان فرمودہ علامات پوچھیں تو آپؓ نے جن صفات کا ذکر کیا اُس میں یہ صفات بھی شامل تھیں کہ: ’’وہ بدخلق درشت کلام نہیں اور نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور مچانے والا اور نہ بدی کا بدلہ بدی سے دیتا ہے، بلکہ معاف کرتا اور پردہ پوشی کرتا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری۔کتاب البیوع۔ بَاب کَرَاھِیَۃالسَّخَبِ فِی الْاَسْوَاقِ)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاصۡفَحِ الصَّفۡحَ الۡجَمِیۡلَ (الحجر:86) ’’پس بہت عمدہ طریق پر درگزر کر۔‘‘ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر صغیر میں اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ: ’’تو (ان کی زیادیتوں پر) بہت درگزر سے کام لے۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ ؐ کی مبارک زندگی عفو و درگزر، رحم وکرم اور محب وشفقت کے بے شمار واقعات سے مزّین ہے۔ آپؐ نے اپنے عملی نمونے سے ثابت کرکے دکھا دیا کہ آپؐ ہی اللہ تعالیٰ کی صفت ’’اَلْعَفْوُ‘‘ کے بہترین مظہر ہیں۔ آپؐ نے ساری زندگی اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا، کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ کسی کو بُرا بھلا کہا۔ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، رسول اللہ ؐکے اخلاق کریمانہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں: نبی کریم ؐ تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم، عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے تھے۔ آپؐ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ نیز آپ ؓ فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت ؐ نے کبھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ اٹھایا، نہ کبھی کسی خادم کو مارا۔
(شمائل ترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ)
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’آنحضرتؐ کے عفو کی تو بے انتہا مثالیں ہیں کس کس کو بیان کیا جائے ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ یہ اس تعلیم کا عملی نمونہ تھا جسے لے کر آپ آئے تھے۔ اس تعلیم کو آج پھر ہر احمدی نے اس معاشرے میں جاری کرنا ہے، اپنے پہ لاگو کرنا ہے کیونکہ زمانے کے امام کے ساتھ ہم نے عہد کیا ہے کہ اس تعلیم کا عملی نمونہ بن کر دکھائیں گے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے، اس کی طرف جھکتے ہوئے اس طرف بہت زیادہ توجہ دیں۔ درگزر اور عفو کی عادت ڈالیں ۔۔۔۔۔۔ میرے خیال میں تو ذرا سی بھی برداشت کا مادہ پیدا ہوجائے تو آدھے سے زیادہ مسائل اور جھگڑے ختم ہوسکتے ہیں گو دوسروں کی نسبت یہ جھگڑے بہت کم ہوتے ہیں۔ ان میں سے بھی آدھے جھڑ سکتے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 20/فروری 2004ء۔ خطبات مسرور جلد دوم صفحہ150۔ نظارت اشاعت۔2005ء)
رسول اللہ ؐ کے ارشادات سے پتہ چلتا ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے اور عفو سے کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی عزت بڑھا دیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ: صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور عفو کرنے سے اللہ بندہ کو عزت میں ہی بڑھاتا ہے اور کوئی بھی اللہ کی خاطر انکساری نہیں کرتا ہے مگر اللہ اس کا درجہ بڑھاتا ہے۔
(صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ والآداب،بَاب اسْتِحْبَابِ الْعَفْوِ وَالتَّوَاضُعِ)
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عَمْرِوقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلرَّاحِمُوْنَ یَرْحَمُھُمُ الرَّحْمٰنُ۔ اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ۔ اَلرَّحِمُ شِجْنَۃٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَمَنْ وَصَلَھَا وَصَلَہُ اللّٰہُ وَمَنْ قَطَعَھَا قَطَعَہُ اللّٰہُ
(جامع ترمذی، اَبْوَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَۃِ،بَابُ مَا جَآءَ فِیْ رَحْمَۃِ النَّاسِ،حدیث:1989)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے۔ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ رحم بھی رحمٰن کی شاخ ہے جس نے اس کو جوڑا اللہ تعالیٰ بھی اس سے رشتہ جوڑ لے گا اورجو اسے قطع کرے۔ اللہ تعالیٰ بھی اس سے قطع تعلق کرلے گا۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: مَنْ یُّحْرَمِ الرِّفْقَ یُحْرَمِ الْخَیْرَ
(صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃ والآداب،باب فَضْلِ الرِّفْقِ،حدیث:4680)
جسے نرمی سے محروم کیا جاتا ہے وہ خیر سے محروم کیا جاتا ہے۔ رسول اللہؐ کی زندگی میں متعدد بار ایسے مواقع آئے جب آپ ؐنے انتہا درجہ تکلیفیں دینے والے اور اپنے جانی دشمنوں تک کو اللہ کی خاطر معاف کر دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِہٖ (صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب مُبَاعَدَتُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلْاٰثَامِ وَاخْتِیَارُہٗ مِنَ الْمُبَاحِ أَسْھَلَہٗ۔۔۔) رسول اللہ ؐ نے اپنی ذات کے لئے کبھی انتقام نہیں لیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری اس ابرِرحمت ؐکے بارہ میں فرماتے ہیں:
؎آں ترحمہا کہ خلق از وے بدید
کس ندیدہ در جہاں از مادرے
ہمدردی خلق اور رحم وکرم کے جو نظارے مخلوق خدا نے آپؐ کے بابرکت وجود میں دیکھے، ایسے نظارے تو کسی شخص نے اپنی ماں سے بھی نہ دیکھے ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے عفو کا ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: ’’کہتے ہیں کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نوکر چائےکی پیالی لایا۔ جب قریب آیا تو غفلت سے وہ پیالی آپؓ کے سر پر گِر پڑی۔ آپؓ نے تکلیف محسوس کرکے ذرا تیز نظر سے غلام کی طرف دیکھا۔ غلام نے آہستہ سے پڑھا۔ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ (آل عمران:135) یہ سُن کر امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کَظَمْتُ غلام نے پھر کہا : وَالۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ۔ کظم میں انسان غصّہ دَبا لیتا ہے اور اظہار نہیں کرتا ہے، مگر اندر سے پوری رضامندی نہیں ہوتی، اس لیے عفو کی شرط لگادی ہے۔ آپؓ نے کہا کہ مَیں نے عفو کیا۔ پھر پڑھا: وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔ محبوبِ الہٰی وہی ہوتے ہیں جو کظم اور عفو کے بعد نیکی بھی کرتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: جا آزاد بھی کیا۔ راستبازوں کے نمونے ایسے ہیں کہ چائے کی پیالی گِرا کر آزاد ہوا۔ اب بتاؤ کہ یہ نمونہ اصول کی عمدگی ہی سے پیدا ہوا۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ115۔ ایڈیشن 2003ء۔ ناشرنظارت نشرو اشاعت قادیان)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عفوودرگزر کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام حسن ؓ کے متعلق آتا ہے کہ آپ کا ایک نوکر ہمیشہ بے احتیاطیاں کرتا تھا اور کئی چیزیں توڑ پھوڑ دیتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ کے پاس کوئی شخص تحفۃً ایک شیشے کا نہایت ہی خوبصورت برتن لایا جو اُس نوکر نے توڑ دیا۔ اُنہوں نے خشمگیں نگاہوں سے نوکر کی طرف دیکھا تو اُس نے جھٹ کہا: وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ آپؓ نے سنتے ہی کہا: اچھا میں تمہیں کچھ نہیں کہتا۔ نوکر نے کہا کہ: وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ آپؓ نے کہا: اچھا میں تمہیں معاف بھی کرتا ہوں۔ نوکر نے پھر کہا: وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ آپ نے کہا: اچھا میں تمہیں آزاد کرتا ہوں۔
(انصاف پر قائم ہوجاؤ۔ انوارالعلوم جلد18صفحہ600۔ فرمودہ 17/مئی 1947ء)
حضرت امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی لونڈی آپ کو وضو کروا رہی تھی کہ اچانک اُس کے ہاتھ سے پانی کا برتن آپ ؓ کے چہرے پر گر گیا جس سے چہرہ زخمی ہوگیا۔ آپؓ نے اُس کی طرف سر اُٹھا کر دیکھا تو اُس نے عرض کی: اللہ تعالیٰ کا ارشاد فرماتا ہے: وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ اور غصہ دبا جانے والے، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اُس نے پھر عرض کی: وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، آپؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے۔ لونڈی پھر عرض گزار ہوئی: وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: جا میں تجھے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد کرتا ہوں۔
(ابن عساکر، ذکر من اسمہ علی، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دنیا کے مختلف معاشروں میں عدم برداشت اور معاف نہ کرنے کی عادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’معاشرے میں جب برائیوں کا احساس مٹ جائے تو ایسے معاشرے میں رہنے والا ہر شخص کچھ نہ کچھ متاثر ضرور ہوتا ہے اور اپنے نفس کے بارے میں، اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ حساس ہوتا ہے اور دوسرے کی غلطی کو ذرا بھی معاف نہیں کرنا چاہتا، چنانچہ دیکھ لیں، آج کل کے معاشرے میں کسی سے ذرا سی غلطی سرزد ہوجائے تو ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے چاہے اپنے کسی قریبی عزیز سے ہی ہو اور بعض لوگ کبھی بھی اس کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اور اسی وجہ سے پھر خاوند بیوی کے جھگڑے، بہن بھائیوں کے جھگڑے، ہمسائیوں کے جھگڑے، کاروبار میں حصہ داروں کے جھگڑے، زمینداروں کے جھگڑے ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض دفعہ راہ چلتے نہ جان نہ پہچان ذراسی بات پر جھگڑا شروع ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ جب اس قسم کے حالات ہوں تو سوچیں کہ ایک احمدی کی ذمہ داری کس حد تک بڑھ جاتی ہے۔ اپنے آپ کو، اپنی نسلوں کو اس بگڑتے ہوئے معاشرے سے بچانے کے لئے بہت کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ہمارے لئے کس قدر ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم قرآن تعلیم پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 20/فروری 2004ء۔ خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 138۔نظارت اشاعت۔2005ء)
پس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو اپنے اوپر لاگو کریں اور جہاں تک ممکن ہو، ایک دوسرے کی غلطیوں سے صرفِ نظر کریں اور معاف کرنے کی عادت اپنائیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نویں شرط بیعت یہ مقرر فرمائی ہے کہ: ’’نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ 12/جنوری 1889ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جماعت کو تیار کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کرجاوے۔ تقویٰ کا نُور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاقِ حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔ اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بُغض پیدا ہوجاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقّت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چُپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔چاہیے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لیے دردِ دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کردیوے۔ اَور دل میں کینہ ہرگز نہ بڑھاوے ۔۔۔۔۔۔ خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حِلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات ِ حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ99۔ شائع کردہ نظارت نشرواشاعت قادیان 2003ء)
پس وہی عفو قابل تعریف ہے جس کے نتیجہ میں اصلاح ہوجبکہ حقیقی معنوں میں مومن وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں اور تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے اللہ کی رضا کے طالب ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی صفات میں رنگین ہونے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اِن صفات کی روشنی میں اُس کی مخلوق سے معاملات کرنے والے بن جائیں۔ آمین
(ظہیر احمد طاہر۔ نائب صدر مجلس انصاراللہ جرمنی)