اسلام ایک سرسبز و شاداب اور پھولوں پھلوں سے لدا ہوا خوبصورت اور حسین و جمیل باغ ہے، جس کے باغبان سیّدنا وامامنا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ ہیں۔ اس باغ کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں آ نحضور ﷺ نے اپنے وفادارو مخلص صحابہ کی مدد وتعاون سے سینچا اور بعد میں اصفیاء، صلحاء اور اتقیاء نے اس کی آ بیاری کی اور آخری دور میں اللہ تعالیٰ نے اس باغ کو مہدی آخر الزمانؑ کے سپرد فرمایا۔ جن کے پانچویں خلیفہ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد نَصَرَهُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ بِرُوْحِ الْقُدُسِ نہایت مستعدی، محنت، لگن اور شب وروز کی دُعاؤں سے نہ صرف نگرانی فرما رہے ہیں بلکہ موجودہ حالات کے مطابق مناسب اور جدید دور کے مطابق آ بیاری فرما رہے ہیں که اب اس روحانی باغ کے 220سے زائد باغیچے دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کی صورت میں پھل پھول رہے ہیں اور کروڑوں لوگ اس باغ اور باغیچوں سے استفادہ کرتے اور ان کے پھلوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ان باغیچوں میں جو فصلیں پھل لا رہی ہیں۔ سر سبز و شاداب پودوں پر جو کونپلیں اور شگوفے پھوٹ رہے ہیں اور خوشبودار اور ذائقے دار پھلوں سے یہ باغیچے آ راستہ اور خوبصورتی میں رنگ بھر رہے ہیں۔ ان میں احمدی بھائیوں، خواتین، نوجوانوں، بچوں اور بچیوں کی خضوع وخشوع اور الحاح سے پڑھی ہوئی نمازیں، نوافل اور ذکر الہٰی کے پھل نظر آتے ہیں۔ قرآن کریم کی روزانہ سنوار کر اور لحن داؤدی سے تلاوت اور درس القرآن کی کلاسز بالخصوص ایم ٹی اے کے ذریعہ قرآن و تفاسیر کی محفلوں کے پھل نظر آ تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید،ذکر الہٰی اور آ نحضور ﷺ پر درود کے سر سبزو شاداب پھلدار درخت بھی باغیچوں میں اپنی خوشبو بکھیر رہے ہیں اور جن پودوں اور درختوں کے پتوں، پھولوں اور پھلوں کی مہک ہمارے احمدیوں کے جسم وروح میں رچ بس جاتی ہے وہ ایم ٹی اے کے صدا بہار پودے ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنے بہت ہی پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات، درس اور ورچوئل ملاقاتوں میں پُر اثر ہدایات و نصائح سے محظوظ ہوتے ہیں۔
یہ وہ سدا بہار درخت ہیں جن کاا شارہ ہمیں قرآن کریم کی سورة ابراہیم آیت 25۔26 میں یوں ملتا ہے:
ترجمہ:۔ کیا تونے غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ نے مثال بیان کی ہے ایک کلمۂ طیّبہ کی ایک شجرۂ طیبہ سے۔ اس کی جڑ مضبوطی سے پیوستہ ہے اور اس کی چوٹی آسمان میں ہے۔
وہ ہر گھڑی اپنے ربّ کے حکم سے اپنا پھل دیتا ہے۔ اور اللہ انسانوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔
یعنی یہ درخت،اس کی بر وقت دیکھ بھال اورمحنت و پرداخت سے اس قدر مضبوط ہوگیا ہے اور جڑیں مضبوطی سے زمین میں پیوست ہو چکی ہیں کہ مخالفت کی آندھیاں بھی اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں اور اس کی شاخیں آ سمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ جس سے سیٹلائٹ کے ذریعہ فضاؤں سے ہوتا ہوا ہمارے گھروں میں روحانیت بکھیرنے والا ایم ٹی اے بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ مخالفین نے اس درخت کو اکھیڑنے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ اس کی جڑیں زمین میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں اوریہ روحانی مائدہ فراہم کرنے والا چینل اتنا پھیلا، پھولا اور بڑھتا چلا گیا کہ اس کی شاخیں آ سمانو ں سے باتیں کرنے لگیں۔ جہاں دشمنان احمدیت کی پہنچ تو دُور کی بات نقصان پہنچانے کی سوچ بھی نہیں جاسکتی۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میںسےہر ایک بطورادنیٰ مالی اس درخت کی، اس باغیچے کی حفاظت کرے۔ ایک کھیت کی بہتری کے لئے جو جوطریقے ایک کسان اپناتا ہے وہی طریقے اورحربے ہم میں سے ہر ایک کو اپنانے ہوں گے۔ ایک کسان زمین پر کلبہ رانی کرتا، ہل چلاتا اورگوڈتا، بیج پھینکتا، اس کی حفاظت کرتا، اُسے پانی دیتا، اس کھیت سے غیر ضروری جڑی بوٹیاں نکالتا، چھوٹے چھوٹے پودوں کی نشوونما کے لئے مناسب کھاد ڈالتا ہے تب وہ ایک عمدہ فصل سے مستفید ہوتا ہے۔ بعینہٖ ایک احمدی کو اپنے دل کی کھیتی پر ایک کسان کی طرح کلبہ رانی اور مندرجہ بالا طریقے استعمال کرنے ہوں گےاور جماعت کے باغیچے کو بھی اپنے نیک اعمال سے سنوار نا ہوگا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’بیعت ایک بیج ہے جو آج بویا گیا اب اگر کوئی کسان صرف زمین میں تخم ریزی پر ہی قناعت کرے‘‘ بیج بو دے اور کہہ دے کہ ٹھیک ہو گیا سب کچھ ’’اور پھل حاصل کرنے کے جو جو فرائض ہیں ان میں سے کوئی ادا نہ کرے۔ نہ زمین کو درست کرے، اور نہ آبپاشی کرے، اور نہ موقعہ بہ موقعہ مناسب کھاد زمین میں ڈالے۔ نہ کافی حفاظت کرے تو کیا وہ کسان کسی پھل کی امید کر سکتا ہے۔‘‘ کہ جو اپنے باغ کی یا فصل کی صحیح نگہداشت نہیں کرے گا ’’اُس کا کھیت با لضرور تباہ اور خراب ہوگا۔ کھیت اسی کا رہے گا جو پورا زمیندار بنے گا۔ سو ایک طرح کی تخم ریزی آپ نے بھی آج کی ہے‘‘۔ اِن لوگوں کو سمجھا رہے ہیں جو آپؑ کے سامنے موجود تھے اور آج ہم اس کے مخاطب ہیں کہ ہم نے بیج بویا ہے۔ احمدیت کو قبول کیا ہے ’’خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کے مقدر میں کیا ہے لیکن خوش قسمت وہ ہے جو اس تخم کو محفوظ رکھے اور اپنے طور پر ترقی کے لئے دعا کرتا رہے۔ مثلاً نمازوں میں ایک قسم کی تبدیلی ہونی چاہئے۔‘‘
(ملفوظات جلد7 صفحہ38 ایڈیشن 1985ء)
• آپؑ جماعت کو ایک درخت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مَیں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت ایک درخت کی طرح ہے …. پس تم ِ استقامت اور اپنے نمونے سے اس درخت کی حفاظت کرو۔ کیونکہ تم میں سے ہر ایک اس درخت کی شاخ ہے اور وہ درخت اسلام کا شجر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ اس شجر کی حفاظت کی جائے گی‘‘
( ملفوظات جلد7 صفحہ322تا323۔ ایڈیشن 1984ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ بالا بصیرت افروز ارشاد میں ایک احمدی کے لئے شاخ کا لفظ استعمال فر مایا ہے۔ ٹہنی کا نہیں۔ کیونکہ ٹہنی اور شاخ میں اس کی افادیت کے لحاظ سے بہت فرق ہے۔ قارئین کی سہولت کے لئےایک مومن کو شاخ سے نسبت دینے کی حکمت کے حوالے سے درج ذیل معلومات پیش ہیں:
- شاخ اپنی غذا براہ راست جڑ سے لیتی ہے۔ اس کے ساتھ پیوست رہتی ہے۔ اور تازہ رہتی ہے اسی طرح جس طرح ایک مومن خلافت سے پیوست رہ کر ترو تازہ رہتا ہے۔
- پھل پھول تازہ شاخ کو ہی لگتے ہیں خشک ٹہنی کو نہیں لگا کرتے۔ ایک مومن بھی تازہ بتازہ پھلوں سے لدا رہتا ہے۔
- جب شاخ کوپھل لگتے ہیں تو وہ زمین کی طرف جھک جایا کرتی ہے۔ ایک مومن بھی تشکر الٰہی کے لئے اللہ کے حضور جُھک جاتا ہے۔
- تازہ شاخ کو انسان جب اور جس طرف موڑنا چاہے وہ اُسے موڑ سکتا ہے جبکہ خشک ٹہنی کو موڑنا چاہے تو وہ ٹوٹ جایا کرتی ہے۔ ایک مومن کو بھی جونہی کوئی ہدایت دربار خلافت سے ملتی ہے فوراً اپنے آپ کو اس طرف مائل کر لیتا ہے۔
- سر سبز شاخوں پر پھل لگتا ہے جو آنکھوں کو بھاتا اور خوبصورت لگتا ہے۔
- شاخوں پر لگے پھلوں سے لوگ محظوظ ہوتے ہیں، کھاتے اور صحت مند رہتے ہیں۔اسی طرح ایک مومن اس قدر پھل سے لد جاتا ہے کہ ہر کوئی اس کے پاس بیٹھ کر نیک صحبت حاصل کرتا ہے۔
- شاخ پھیلتی پھولتی اور بڑی ہوتی ہے اسی طرح ایک مومن دعوت الیٰ اللہ کر کے اپنی نفری بڑھاتا رہتا ہے۔
ایسے ہی مومن احمدیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت ہی مان سے مخاطب ہو کر فر مایا تھا۔
اے میرے درخت وجودکی سرسبز شاخو!
ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت کی سر سبز شاخیں بناتے ہوئے سر سبز شاخ کے تمام عوامل کو اپنے اُوپر لاگو کر لیں ورنہ اس کے مقابل پر ٹہنی کے حوالہ سے آپؑ فرماتے ہیں۔
’’ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو، وہ خشک ٹہنی ہے۔ اس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اس کو سرسبز نہیں کر سکتا۔ بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے۔ پس ڈرو۔ میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ458 کمپیوٹرائزڈایڈیشن)
(ابو سعید)