اسلام میں آزادئ اظہار كی حدود وقیود
تقریر جلسہ سالانہ یوكے 2021ء
وقُلْ لِعِبَادِيْ يَقُولُوا الَّتِيْ هِيَ أَحْسَن إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا
(الإسراء: 54)
انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے اور آزادئ اظہار انسان کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے۔ اِسی لئے دنیا کے تمام مذاہب نے اِسے قبول كیا ہے اور تمام قوموں نے اِسے تسلیم كر كے اپنے دساتیر میں اس كی ضمانت دی ہے۔
اظہار رائے کی آزادی کا سادہ مفہوم یہ ہے كہ ہر انسان تقریر وتحریر اورعمل كے ذریعہ اپنے خیالات كے اظہار میں آزاد ہے۔
مگر آج كے ترقی یافتہ معاشرے نے اس سے مراد مادر پدر آزادی لے لی ہے۔
گویا یہ كہا جارہا ہے كہ ہر انسان جو چاہے، جس طرح چاہے اور جس کے خلاف چاہے اپنی تقریرو تحریر یا عمل کے ذریعہ اس کا اظہار کر سكتاہے خواه اس سے كسی كی دلآزاری ہی كیوں نہ ہوتی ہو۔
خواه اس سے دوسروں کی عزت و آبرو پر حملے ہی كیوں نہ ہورہے ہوں !اور خواه اس كی وجہ سے پاک اور مقدس وجودوں کی توہین ہی كیوں نہ ہورہی ہو! اور خواه اس كی وجہ سے لاكھوں كروڑوں انسانوں كے جذبات ہی كیوں نہ مجروح ہورہے ہوں!
آزادئ اظہار كے ایسے غیر فطری اور غیر حقیقی نعروں كے عملی نظاروں كو دیكھ كر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے كہ كیا اظہار رائے كی ایسی آزادی كوانسان كا بنیادی حق قرار دیا جاسكتا ہےجوفساد فی الارض كا موجب بنے؟ جس سے معاشرتی امن برباد ہوتا ہو اور شرفِ انسانی اور احترامِ آدمیت جیسی اعلى اقدار پامال ہو جائیں؟
كیا اظہار كی ایسی آزادی كو انسان كا بنیادی حق قرار دیا جاسكتا ہے جس سے معاشره تقسیم ہو كر ره جائے اورباہمی تعلقات كی زمین میں محبت والفت اور ادب واحترام كے پھولوں كی بجائےنفرت و كراہت، جھوٹ وبد گوئی، اورتہمت بازی وبہتان تراشی كے كانٹے اگیں؟
كیا اظہار رائے كی ایسی آزادی انسان كی مطلوبہ آزادی ہو سكتی ہے جس كی بساط پر معصوموں كی عزت كو اچهالا جائے۔ محترم ہستیوں كی تضحیك كی جائے۔اور شائستگی كے حسین لباس كو تار تار كر كے اخلاقیات كا جنازه نكالا جائے؟
یقینًا ایسی مطلَق اور بے مہار آزادی كو انسان كا بنیادی حق قرار نہیں دیا جاسكتا۔
اس باره میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمه الله تعالى فرماتے ہیں:
’’معاشرے کے حوالے سے مطلق آزادی کا نعرہ بالکل کھوکھلا، بے معنَی غیر فطری اور غیر حقیقی نعره ہے۔ بعض اوقات آزادی کے ایسے غلط معنے لیے جاتے ہیں اور اس کے تصور کو اتنا غلط استعمال کیا جاتا ہے کہ آزادئ تقریر کا حسین اصول بےحد بدنما اور بد صورت بن کر رہ جاتا ہے۔
گالی گلوچ دوسروں کی عزت و آبرو پر حملے اور پاک اور مقدس وجودوں کی توہین آخر کہاں کی آزادی ہے؟‘‘
(اسلام اور عصر حاضر كے مسائل كا حل ص44)
اسلام نہ صرف آزادئ اظہار كا داعی ہے بلكہ آزادئ اظہار كے اصول كی جس دلیری اور جرأت كے ساتھ اسلام حمایت كرتا ہے اس كی مثال كسی اور نظریاتی نظام یا مذہب میں دور دور تك نظر نہیں آتی۔
آزادئ اظہار كے باره میں اسلام ایك كامل اورمكمل ضابطہ پیش كرتا ہے۔ جس كے خدوخال میں تین باتیں بڑی نمایاں نظر آتی ہیں:
1) اسلام نے ایك طرف تو آزادئ اظہار كی عمارت كو نہایت مثبت اورتعمیر ی بنیادوں پر اٹهایا ہے تاكہ یہ آزادی اپنے اصل ہدف كو پوری كرنے والی ہو یعنی عامتہ الناس كیلئے خیر وبھلائی كا موجب ٹھہرے اوراسكے ذریعہ سے معاشرے كے ہر فرد كو قوم وملت كی تعمیر میں بنیادی كردار ادا كرنے كا موقع ملے۔
2) دوسری جانب اسلام ایسا ماحول پیدا كرتا ہے جس میں آزادئ اظہار كے حق كا درست نہج پر استعمال كرنے كیلئے ہر فرد كی تربیت ہوتی رہتی ہے۔
3) اور تیسری بات یہ ہے كہ اسلام نے اس آزادی كی كچھ حدودوقیود مقرر كی ہیں تا كسی فرد كی آزادی كسی دوسرے فردیا قوم كی دل آزاری اور استحصال كا باعث نہ بنے اوریہ آزادی مفاد عامہ كو مجروح كرنے والی نہ ہو۔
خاكسار اختصار كے ساتھ ان تینوں امور كو اسلامی تعلیم كی روشنی میں بیان كرنے كی كوشش كرے گا۔
*سب سے پہلی بات یعنی آزادئ اظہار كی عمارت كو مثبت اورتعمیر ی بنیادوں پر اٹهانے اور اسے مفاد عامہ كا محافظ بنانے كے لئے اسلام ایك نہایت حسین اصول اور خوبصورت ضابطہ پیش كرتے ہوئے كہتا ہے كہ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة: 84) یعنی لوگو ں سے ہمیشہ اچھی بات ہی كہا كرو۔
كیونكہ اگر بات اچھی نہ ہویا اچھے طریق پر نہ كی جائے یا اس میں تخفیف و تنقیص اور توہین وتضحیك كی آمیزش ہو جائے تو یہ شیطانی عمل قرار پاتا ہے۔ اس لئے الله تعالی نے نبی كریم صلی الله علیہ وسلم كو حكم دیا ہے كہ:
وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ
(الإسراء: 54)
یعنی (اے پیغمبر) تو میرے بندوں سے کہہ دے كہ ایسی بات كیا كریں جو سب سے اچھی ہو۔ کیونکہ شیطان بُری بات کہلوا کر لوگوں میں فساد ڈلواتا ہے۔
حُسنِ كلام پر اور گفتار میں الَّتِي هِيَ أَحْسَن كا پاس كرنے پر اسلام اس قدر زور دیتا ہے كہ مذہبی بحثوں اور مناظرات كے باره میں بھی حكم دیتا ہے كہ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل: 126) یعنی غیر مذاہب كے لوگوں كے ساتھ بحث كے دوران بهی اچھے طریق اور اچهی دلیل سے بات كرو۔
یہی نہیں بلكہ اسلام تو كہتا ہے كہ حقیقی مسلمان ہے ہی وہی جس كی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں۔
* آزادئ اظہار كی عمارت كو مثبت اور تعمیری بنیادوں پرقائم كرنے كے لئے اسلام ایك اور اصول پیش كرتے ہوئے كہتا ہے كہ
وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الأحزاب: 71) یعنی صاف سیدھی اور سچی بات كہا كرو۔ بلكہ جو بات كرو سچی ہو اور جھوٹ بولنے اور جھوٹی شہادت دینے سے بچو۔
* اسلام سچی بات كہنے پر اتنا زور دیتا ہے كہ بعض حالات میں اسے جہاد بلكہ افضل تر ین جہاد قرار دیتاہے۔ چنانچہ نبی كریمؐ نے فرمایا ہے کہ؛ ’’سب سے افضل جہاد، ایک ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے‘‘۔
(مسند احمد مسند ابو سعید الخدری)
* پهر اسلام آزادئ اظہار كے شجر كی آبیاری كے لئے ایك او رضابطہ پیش كرتے ہوئے كہتا ہے کہ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا (الأنعام :153) یعنی جب بھی بولیں عدل و انصاف پر مبنی بات كریں۔
عدل نہیں ہوگا تو ظلم پھیلے گا اور جس معاشرے میں ظلم پھیلے گا وہاں اظہار رائے كی آزادی كا خون ہوتا رہے گا۔
* دوسری بات یہ ہے كہ اسلام آزادئ اظہار كے حق كو استعمال كرنے كا مناسب ماحول فراہم كرتا ہے تا ہر فرد امت كی اس حق كو درست طو رپر استعمال كرنے كی تربیت ہوتی رہے۔ اس باره میں اسلام كہتا ہے كہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران :111)
یعنی ہر فرد امت پر لازم ہے كہ وه نیكی كی باتوں كی ترغیب دے اور بُرائی كی باتوں سے منع كرے۔گویا ہر ایك كی ذمہ داری ہے كہ وه اپنےقول و فعل اور تحریر و تقریر سے خیر کی شمعیں روشن كرے اور برائی سے روك كرشر کے اندھیروں کو مٹانے كی كوشش كرتا رہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنكر كو نہ صرف ہر فردِ امت کا حق بلكہ مسلمانوں کا انفرادی و اجتماعی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔
*پهر اسلام آزادئ اظہار كے حق كو درست طریق پر استعمال كرنے كی تربیت كے لئے مشاورت كا نظام پیش كرتا ہے۔
اسلام ہر فرد کو اظہار رائے كا موقع اور اسکی اجازت دیتا ہے۔
وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ
(آل عمران :160)
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ قابل غور معاملات میں (جن میں حکومت سے متعلقہ معاملات بھی شامل ہیں) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا کریں۔ چنانچہ غزوه احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے بعض اکابر صحابہ کی رائے یہ تھی کہ شہر کے اندر مورچے بنائے جائیں مگر نوجوانوں کی رائے تھی کہ باہر نکل کر کھلے میدان میں دشمن کا مقابلہ کیا جائے چنانچہ رسول اللہؐ نے نوجوانوں کی رائے كے مطابق فیصلہ فرمایا اور کوہِ اُحُد کے دامن میں جنگ کا محاذ قائم فرمایا۔
اسی طرح جنگ احزاب میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا اور تمام آراء میں سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اورمدينہ كے گرد خندق کھدوائی۔
شوری كے ذریعہ آزادی كے ساتھ اپنی رائے كے اظہاركی اس تربیت كا صحابہ كرام پر ا س قدر اثر تھا كہ وه جہاں اور جب كسی مشوره كو مفید خیال كرتے بلا جھجھك پیش كر دیتے تھے۔
اس كی ایك مثال غزوه بدر كا واقعہ ہے۔ اس غزوه میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایك مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ ایك صحابی حُبَاب بْن الْمُنْذِرِ نے براه راست نبی كریم صلی الله علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہو كر عرض كیا كہ جس مقام پرآپ ٹھہرے ہیں یہ کسی خدائی الہام کے ماتحت ہے یا یہ جگہ آپؐ نے خود پسند کی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا كہ جنگی حکمت عملی کے باعث میرا خیال تھا کہ یہ جگہ اونچی ہے اس لئے بہتر ہو گی۔ یہ سن كر حُبَاب بْن الْمُنْذِرِ نے ادب كے ساتھ كہا كہ پھر شاید یہ جگہ مناسب نہیں ہے۔
آزادئ اظہار كی یہ كتنی اعلی مثال ہے كہ ایك عام آدمی ریاست مدینہ كے حكمران اور نبی كریمؐ كے سامنے بلا خوف اپنی رائے كا اظہار كرتا ہے۔ اور نبی كریمؐ نے بهی اس جسارت كے خلاف كوئی ردّ عمل ظاہر نہیں فرمایا بلكہ ساده طورپر صرف یہ پوچھا كہ تمہاری یہ رائے كس بنیاد پر ہے اور جب اس نے اپنی رائے كی اہمیت بتائی تو آپؐ نے فورًا اسے قبول كر لیا۔
* پھر اسلام آزادئ اظہار كے پروان چڑھنےكے لئے مثالی ماحول فراہم كرتے ہوئے رحمت اور نرمی كے سلوك كو اپنانے كا درس دیتا ہے۔ چنانچہ اس باره میں ارشاد باری تعالی ہے كہ: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ (آل عمران :160)
یعنی لوگوں كو متحد ركھنے كے لئے اور انكے سماجی و دینی رشتوں كی عمارت كو تفرقہ اور نفرتوں كی دراڑوں سے بچانے كے لئے لوگوں سے نرم زبان سے پیش آئیں۔ سختی نہ كریں۔ اگر ان سے كچھ سخت بات صادر بھی ہو جائے تو عفو ودرگزر سے كام لے كر بات ختم كردیں اور انكی غلطیوں كے باره میں الله تعالی سے بخشش كی دعا كریں۔
اس حكم الہی پر عمل كرتے ہوئے رسول كریم صلی الله علیہ وسلم نے بھی نصیحت فرمائی كہ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ یعنی الله تعالی تمام معاملات میں رفق اور نرمی كو پسند فرماتا ہے۔ یہی نہیں بلكہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اسوه سے اسكے نمونے بھی قائم فرمائے۔
زید بن سعنہ ایك یہودی عالم تھا اس سے کسی موقع پر آنحضرت صلی ا لله علیہ وسلم نے قرض لیا تھا، اور قرض لیتے وقت واپسی کی ایک تاریخ مقرر كی تھی، لیکن زید مقررہ تاریخ سے دو تین دن پہلے ہی قرض کا تقاضا کرنے آگیا، اور بڑے گستاخانہ انداز میں آپؐ كی چادر کھینچی اور بدزبانی كرتے ہوئے كہنے لگا کہ: ’’تم بنی عبدالمطلب قرض ادا كرنے كے معاملہ میں بہت ہی برے اور ٹال مٹول سے كام لینے والے ہو‘‘، حضرت عمرؓ وہاں پر موجود تھے، انہوں نے كہا مجھے اگر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا ڈر نہ ہوتا تو میں اس گستاخی كی وجہ سے اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔ یہ سن كر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: ’’اے عمر! اسے جھڑکنے کے بجائے مناسب یہ تھا کہ تم مجھے ادائے قرض اور وعدہ وفائی كا كہتے، اور اُسے حسن طلب اور نرمی سے تقاضا کرنے کی نصیحت کرتے، یہ کہہ کر آپؐ نے حضرت عمر کو ارشاد فرمایا کہ: اس کا قرض ادا کردو اور اس پر سختی كرنے کے معاوضہ كے طور پر بیس صاع (یعنی قریبا ساٹھ کلو) كھجوریں اسے زیاده دو‘‘!
اس طرزِ عمل، نرمی اور خوش خلقی، اور حسن ادا سے یہودی بہت متاثر ہوا، اور بالآخر وہ مسلمان ہوگیا۔
آزادئ اظہار كی یہ كیسی اعلی مثال ہے كہ آزادی كے غلط استعمال كرنے والے كونرمی سے نہ صرف اچھے انداز میں نصیحت فرمائی بلكہ اپنے اخلاق سے اس كا عملی نمونہ بھی پیش فرمادیا جس كا نیك نتیجہ بھی فورًا ظاہر ہو گیا۔
* اسلام آزادئ اظہار كا اس قدر قائل او رحامی ہے كہ ہر قسم كے جبرو اكراه اور دھمكی اور دهونس كی نفی كرتے ہوئے مذہبی آزادی كے لئے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة : 257) اور وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الكہف : 30) جیسے عظیم اصولوں كا اعلان كرتا ہے۔ یعنی دین كے معاملہ میں كوئی جبر واكراه جائز نہیں اور حق تو وہی ہے جو تمہارے رب كی طرف سے ہو پس اب جو چاہےوه ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انكار كرے۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی زندگی رواداری اور آزادئ مذہب و ضمیر کی بے شمار روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
دشمنِ اسلام عكرمہ کا واقعہ بہت مشہور ہے۔ جنگی جرائم کی وجہ سے اس کے قتل کا حکم جاری ہو چکا تھا۔ اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی معافی کی طالب ہوئی تو آپؐ نے بڑی شفقت فرماتے ہوئے اسے معاف فرما دیا۔ عکرمہ كی بیوی اسے لیكر نبی كریم صلی الله علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوئی تو عكرمہ نے پوچھا : كیا آپ نے واقعی مجھے معاف كردیا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعی میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔
عکرمہ نے پھرپوچھا کہ اپنے دین پر رہتے ہوئے ؟یعنی میں مسلمان نہیں ہوا۔ اس شرک کی حالت میں مجھے آپ نے معاف کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کر عکرمہ مسلمان ہو گیا۔
(السیرۃالحلبیہ جلد سوم صفحہ109 مطبوعہ بیروت)
یہ واقعہ ذكر كر كے حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایده الله بنصره العزیز فرماتے ہیں:
اسلام حسن اخلاق اور آزادئ ضمیر و مذہب کے اظہار کی اجازت سے پھیلا ہے۔ حسن خلق اور آزادئ مذہب کا یہ تیر ایک منٹ میں عکرمہ جیسے شخص کو گھائل کر گیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں اور غلاموں تک کو یہ اجازت دی تھی کہ جو مذہب چاہو اختیار کرو۔
ثمامہ بن اُثال، بنو حنِیفہ كا سربراه تھا۔ یہ شخص نبی كریم صلی الله علیہ وسلم كے قتل كے درپے رہا۔ پھر صحابہ كی ایك جماعت كو گھیر كر اس نے شہید كردیا۔ جب یہ گرفتا رہو كر رسول كریم صلی الله علیہ وسلم كے پاس لایا گیا تو آپؐ نے اسے فرمایا کہ اے ثمامہ !تیرا کیا خیال ہے کہ تجھ سے کیا معاملہ كیا جائے گا؟ اس نے کہا اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک خون بہانے والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر آپ انعام کریں تو ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو احسان کی قدر دانی کرنے والا ہے۔
تین روز تك آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے رہے اور ثمامہ سے یہی سوال پوچھتے رہے اور ثمامہ بھی یہی جواب دیتا رہا۔ بالآخر تیسرے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ثمامہ كو آزاد کر دو۔ اس پر وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے باغ میں گیا اور غسل کیا اور مسجد میں داخل ہو کر کلمہ شہادت پڑھ كر كہنے لگا۔ اے محمد ! بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ نا پسند آپ کا چہرہ ہوا کرتا تھااور اب یہ حالت ہے کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب آپ کا چہرہ ہے۔ بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ دین آپ کا دین ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب یہ حالت ہے کہ میرا محبوب ترین دین آپ کا لایا ہوا دین ہے۔ بخدا میں سب سے زیادہ ناپسند آپؐ کے شہر کو کرتا تھا۔ اور اب یہی شہر میرا محبوب ترین شہر ہے۔
(بخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفہ۔ وحدیث ثمامہ بن اُثال4372)
حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایده الله بنصره العزیز فرماتے ہیں:
(نبی كریم صلی الله علیہ وسلم نے)’’قیدی ثمامہ سے یہ نہیں کہا کہ اب تم ہمارے قابو میں ہو تو مسلمان ہو جاؤ۔ تین دن تک ان کے ساتھ حسن سلوک ہو تا رہا اور پھر ۔۔۔ آزاد کر دیا ۔۔۔۔ ثمامہ بھی بصیرت رکھتے تھے اس آزادی کو حاصل کرتے ہی انہوں نے اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں جکڑے جانے کیلئے پیش کر دیا کہ اسی غلامی میں میری دین و دنیا کی بھلائی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 10؍ مارچ 2006ء)
* اسلام تمام دنیا كو اپنے باره میں تنقید كی مكمل آزادی فراہم كرتا ہے بلكہ تنقید کے آخری درجہ کی آزادی کے ساتھ قرآن اور اسلام کھڑا ہے۔لیكن ناجائزاور ناروا تنقید كے برعكس وه عقل و شعور اور حجت وبرهان كو استعمال كرنے پر ابھارتا اور هاتوا برهانكم كی دعوتِ مبارزت دیتا ہے۔
یہود ونصاری نے جب یہ دعوی كیا كہ صرف وہی جنت میں داخل ہوں گے تو اسلام نے یہ نہیں كہا كہ تمہیں اس دعوی كے اعلان كی آزادی كا كوئی حق نہیں بلكہ بڑے باوقار طریقے سے انہیں كہا كہ
هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ۔ گو ہر بات كہنے كی آزادی ہے لیكن اگر سچے ہو تو دلیل سے بات كرو۔
یوں اسلام نے تنقید كی مكمل آزادی تو دی لیكن تنقید کو اخلاقی حد میں رکھنے کا اصول فراہم کیا ہے کیونکہ حدود کے احترام سے شعور جنم لیتا ہے۔ جہاں صحت مند تنقید کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے نا مطلوب تنقیص اور تضحیك شروع ہو جاتی ہے۔اس لئے یہ كہنا بجا ہے كہ اسلام آزادئ اظہار كا حامی اور داعی ہے لیكن مطلَق یا بے قید و بے مہار آزادی كا قائل نہیں ہے۔ چنانچہ اسلام آزادئ اظہار كو احترام آدمیت، شرف انسانیت، عدل وانصاف، ادب واحترام اور امن وآشتی كے دائرے میں ركھنے كے لئے ایسی حدود وقیود اور قواعد وضوابط بیان كرتا ہے جو اس حق كی افادیت كو چار چاند لگا دیتے ہیں اور اس كی عظمت وخوبی كو بڑھانے والے اور اس كے حسن كو دوبالا كرنے والے ہیں۔
اس سلسلہ میں اسلام یہ جامع مانع ضابطہ پیش كرتاہے كہ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (البقرة: 206)۔ اور الله فساد كرنے والوں كو پسند نہیں كرتا۔ یعنی ہمیشہ یہ خیال رہے كہ آپ كی رائے قول و فعل یا تقریر وتحریر فساد فی الأرض كا باعث نہ ہو۔
اسی بات كو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم نے ایك اور پیرائے میں یوں بیان فرمایا ہے كہ: ’’لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ‘‘ (سنن ابن ماجہ۔ كتاب الأحكام) یعنی كسی كی آراء وتصرف اور قول وعمل سے اگر خو د اس كی یا كسی دوسرے كی عزت مال نفس اورحقوق كا نقصان ہو تا ہو تو ایسی آزادی گناه اور جرم بن جائے گی۔
* پھر اسلام ایك او ر ضابطہ قائم كرتے ہوئے كہتا ہے كہ سنی سنائی باتیں اور ملكی سلامتی سے متعلقہ امور كو بغیر تحقیق كے پھیلانا بهی آزادی اظہار میں نہیں آتا۔
اسلام ایسے اعمال كی حوصلہ شكنی كرتے ہوئے كہتا ہے كہ: وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ (النساء :84)
یعنی آزادئ اظہار كے نام پر مختلف خطرات اور خوف سے متعلقہ امور اور ملكی امن سے وابستہ خبروں كو پھیلانے كے باره میں احتیاط نہ كی جائے تو بے چینی پھیلے گی اور ملكی سلامتی اور معاشرتی امن برباد ہو جائے گا۔ ایسے امور كو متعلقہ حكام سے تسلی كئے بغیر پھیلانے سے گریز كرنا چاہئے۔
اس بات كی ایك اور طریقے سے وضاحت كرتے ہوئے نبی كریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے كہ :
كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ
(صحيح مسلم، كتاب المقدمة)
یعنی كسی انسان كے جھوٹا ہونے كے لئے یہی كافی ہے كہ وه ہر سنی سنائی بات كو بغیر تحقیق كے آگے بیان كرتا پھرے۔
*اسلام كہتا ہے كہ آزادئ اظہار كے نام پربے بنیاد پروپیگنڈا كا حصہ نہ بنو
فرمان باری تعالیٰ ہے: وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ
(الإسراء : 37)
’’اور جس بات کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ لگو۔‘‘ یعنی اگر كوئی آزادئ اظہار كے نام پر ایسی باتیں پھیلا رہا ہو جن كی صحت كے باره میں تم لاعلم ہو تو تم اس پروپیگنڈه كا حصہ نہ بنو۔
آج اس امر كی پابندی كی اشد ضرورت ہے۔ آج كوئی شخص كہیں سے كوئی خبر اڑاتا ہے اور دیكھتے ہی دیكھتے وه ٹرینڈ بن جاتی ہے۔ اب اگر وه خبر درست نہ ہو تو اسكے نتیجہ میں نا قابل تلافی نقصان ہونے كا اندیشہ ہے۔ اسلام آزادئ اظہار كے نام پر اس قسم كے پروپیگنڈه كا حصہ بننے سے بشدت منع كرتا ہے۔
* پھر اظہار رائے كے باره میں اسلام ایك اور ضابطہ یہ قائم كرتے ہوئے كہتا ہے كہ: قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ
(الأعراف : 34)
یعنی آزادئ اظہار ِ رائے میں یہ خیال رہے كہ آپ كا كلام فواحش سے پاك ہونا چاہئے۔ آپ كی رائے اور آپ كا كلام گناه كو دعوت دینے والا نہ ہو۔ آپ كی رائے لوگوں كو بغاوت اور سركشی پر اكسانے والی نہ ہو۔ یہ سب باتیں فساد كا موجب ہیں۔ اس لئے اسلام نے ان سے منع فرمایا ہے۔
* پھر اسلام اظہار رائے كے ضمن میں: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ (الهمزة : 2) كہہ كر ہرقسم كی غیبت اور عیب چینی سے منع كرتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
’’لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلا اللَّعَّانِ وَلا الْفَاحِشِ وَلا الْبَذِيءِ‘‘
یعنی ‘‘مومن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت کرنے والا۔ نہ فحش گوئی کرنے والا ہوتا ہے اور نہ بد زبان‘‘
چنانچہ اسلام آزادئ اظہار كی آڑ میں كسی کی بری تشہیر، طعنہ زنی فحش گوئی اور بہتان تراشی کی اجازت نہیں دیتا۔
* اسلام یہ بھی كہتا ہے كہ آزادئ اظہار رائے كا یہ معنی نہیں كہ كسی كی تحقیر كی جائے۔ الله تعالی فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ
(الحجرات : 12)
نہ كوئی مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے اورنہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں۔نہ ایک دوسرے پر عیب لگائیں۔ نہ دوسروں كو برے ناموں اور بے ہوده القاب سے پكاریں۔
آزادئ اظہار كے نام پر لوگوں كی تحقیر كرنا ان سے تمسخر اور استہزاء كا سلوك كرنا ان كی بُری تصویریں بنا نا اور بے ہوده وتوہین آمیز خاكے بنا كر ان كے بُرے نام ركھنا سب منع ہیں كیونكہ یہ روش یقینًا معاشرے میں منافرت۔ بے چینی اور بد امنی كا سبب بنے گی۔
* پھر اسلام كہتا ہے كہ آزادئ اظہار كی آڑ میں كسی انسان كی عزت نفس كو مجروح نہ كیا جائے۔ الله تعالی نے فرمایا ہے كہ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آَدَمَ (الإسراء 71) یعنی ہم نے سب بنی آدم كا عزت نفس اور شرف انسانیت قائم كیا ہے جو ہر انسان كا بنیادی حق ہے۔ اورنبی كریم صلی الله علیه وسلم نے فرمایا ہے كہ : ’’يا أيّها الناس إنّ دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكـم حرام…‘‘ یعنی اے لوگو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر حرام ہے۔
اسلام نے دیگر مذاهب اور اقوام كے جذبات كا خیال ركھنے كی خاص ہدایت فرمائی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے كہ مدینہ كی ریاست میں ایک مسلمان اوریہودی كا جھگڑا ہو گیا۔ مسلمان كہتا تھا كہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں اوریہودی كہتا تھا كہ موسیٰ علیہ السلام كو یہ فضیلت حاصل ہے۔ اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ یہودی شکایت لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑے كی تفصیل سننے كے بعد فرمایا: لَا تُخَیِّرُونْی عَلٰی مُوْسٰی کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو۔
(بخاری کتاب الخصومات باب ما یذکر فی الأشخاص والخصومۃ بین المسلم والیھود حدیث نمبر 2411)
حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایده الله بنصره العزیز یہ حدیث پیش فرمانےكے بعد فرماتے ہیں:
یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معیارِ آزادئ مذہب اور ضمیر، کہ اپنی حکومت ہے۔۔ لیکن اس حکومت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ دوسری رعایا کے دوسرے لوگوں کے، جذبات کا خیال نہ رکھا جائے۔ قرآن کریم کی اس گواہی کے باوجود کہ آپؐ تمام رسولوں سے افضل ہیں، آپؐ نے یہ گوارا نہ کیا کہ انبیاء کے مقابلہ کی وجہ سے فضا کو مکدر کیا جائے۔ آپؐ نے اس یہودی کی بات سن کر مسلمان کی ہی سرزنش کی کہ تم لوگ اپنی لڑائیوں میں انبیاء کو نہ لایا کرو۔ ٹھیک ہے تمہارے نزدیک ميں تما م رسولوں سے افضل ہوں۔ اللہ تعالیٰ بھی اس کی گواہی دے رہا ہے۔لیکن ہماری حکومت میں ایک شخص کی دلآزاری اس لئے نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے نبی کو کسی نے کچھ کہا ہے۔ اس کی میں اجازت نہیں دے سکتا۔ میرا احترام کرنے کیلئے تمہیں دوسرے انبیاء کا بھی احترام کرنا ہو گا۔
فرمایا: ۔۔۔ یہ تھے آپؐ کے انصاف اور آزادئ اظہار کے معیار جو اپنوں غیروں سب کا خیال رکھنے کیلئے آپ نے قائم فرمائے تھے۔ بلکہ بعض اوقات غیروں کے جذبات کا زیادہ خیال رکھا جاتا تھا۔
(خطبہ جمعہ 10؍ مارچ 2006ء)
* اسلام دیگر ادیان كی توہین اور ان كی مقدسات كو گالی دینے كو آزادئ اظہار كے خلاف سمجھتا ہے۔
اسلام كہتا ہے كہ یہ درست ہے كہ تم اظہار رائے میں آزاد ہو اور یہ بهی درست ہے كہ خدا كے سوا جن كی عبادت كی جاتی ہے وه جھوٹے خدا ہے پھر بهی انہیں برا بھلا نہ كہو اور دیگر مذاہب واقوام كے جذبات كا خیال ركھو۔
ایک روایت میں آتا ہے فتح خیبر کے دوران توریت کے بعض نسخے مسلمانوں کو ملے۔ یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہماری کتابِ مقدس ہمیں واپس کی جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں ان کو واپس کر دو۔
(السیرۃ الحلبیۃ باب ذکر مغازیہ، ذکر غزوہ خیبر جلد 3صفحہ49) (از خطبہ جمعہ 10؍ مارچ 2006ء)
ذرا غور كریں كہ جنگ كے حالات ہیں۔ یہودی قلعہ بند ہیں اور مسلمانوں نے انكا محاصره كیا ہوا ہے ایسے حالات میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ برداشت نہیں فرمایا کہ دشمن سے بھی ایسا سلوک کیا جائے جس سے اس کے مذہبی جذبات کوٹھیس پہنچے۔
اسلام كی اس اعلی اور حسین تعلیم كے برعكس آج كے زمانے میں اظہار کی آزادی کی آڑ میں ذرائع ابلاغ کے سر کش گھوڑے کو ایسا بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے كہ اس نے ایمانیات کے ساتھ انسانوں کی اخلاقیات کو بھی پیروں تلے روند کر رکھ دیا۔ یہ جرأت اس انتہا کو پہنچ گئی کہ مقدس مقامات، شخصیات اور انبیاء کرام بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکے۔
آزادئ اظہار كے نام پر اہانت آمیز كارروائیوں كی یہ لہر آج كی نہیں بلكہ كبھی یہ كوشش ’’اندرونہ بائیبل‘‘ اور ’’امہات المؤمنین‘‘ جیسی كتابوں كی صورت میں سامنے آئی تو كبھی ’’رنگیلا رسول‘‘ جیسی توہین آمیز تاليف كی شكل میں ظاہر ہوئی۔ كبھی ’’شیطانی آیات‘‘ كی شكل میں تو كبھی كارٹونوں اور بری فلموں كے ذریعہ اس مكروه ترین فعل كا ارتكاب كیا گیا۔ اور ہر بار بانی جماعت احمدیہ اور خلفائے كرام نے ان فتنوں كا اسلامی تعلیم كی روشنی میں سب سے مؤثر اور بھر پور جواب دیا۔
گزشتہ سالوں میں جب یہ توہین آمیز روش ظاہر ہوئی تو جس ایك شخص نے اسلامی تعلیمات كی روشنی میں اس كا مدلل، جامع اور نہایت خوبصورت جواب دیا وه امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایده الله بنصره العزیز ہیں۔
آپ نے جہاں احمدیوں كو نبی كریم صلی الله علیہ وسلم كی سیرت كے اعلی نمونے اپنانے اور انہیں دنیا كے سامنے پیش كرنے كی نصیحت فرمائی وہاں بعض مسلمانوں كے غلط ردّ عمل كو اسلامی تعلیمات سے جوڑنے كی بهى نفی فرمائی۔
آپ نے ایك طرف افراد جماعت كو نصحیت كی كہ اپنے اپنے علاقے اور ملك كے سیاستدانوں اور ارباب حل وعقدكو ایسی توہین آمیز حركات كے خطرات سے آگاه كریں
تو دوسری طرف آپ نے خود اپنے خطبات میں ان امور پر مفصل روشنی ڈالی۔
ایك طرف آپ نے اسلامی حكومتوں كو مخاطب كر كے بعض اقدامات كرنے كی طرف توجہ دلائی
تو دوسری طرف مغربی حكومتوں اور اقوام متحده كو بھی ایسے قوانین كی تبدیلی كے باره میں غور كرنے كی دعوت دی۔
حضور انور ایده الله بنصره العزیز نے ایك خطبہ جمعہ میں آیت كریمہ: لَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِ الله فَیَسُبُّوا الله عَدوًا بِغَیرِ عِلمٍ (الانعام: 109) پیش كر كے فرمایا:
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دوسروں کے بتوں کو بھی بُرا نہ کہو کہ اس سے معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے۔ تم بتوں کو بُرا کہو گے تو وہ نہ جانتے ہوئے تمہارے سب طاقتوں والے خدا کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کریں گے جس سے تمہارے دلوں میں رنج پیدا ہو گا۔ دلوں کی کدورتیں بڑھیں گی۔ لڑائیاں اور جھگڑے ہوں گے۔ ملک میں فساد برپا ہوگا۔ پس یہ خوبصورت تعلیم ہے جو اسلام کا خدا دیتا ہے۔
(خطبہ جمعہ 21؍ ستمبر 2012ء)
پھر حضور ایده الله بنصره العزیز نے مسلمان حكومتوں كو مخاطب كر كے فرمایا كہ:
قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق کیوں دنیا کے سامنے یہ پیش نہیں کرتے کہ مذہبی جذبات سے کھیلنا اور انبیاء اللہ کی بے حرمتی کرنا یا اُس کی کوشش کرنا یہ بھی جرم ہے اور بہت بڑا جرم اور گناہ ہے۔ اور دنیا کے امن کے لئے ضروری ہے کہ اس کو بھی یو این او کے امن چارٹر کا حصہ بنایا جائے کہ کوئی ممبر ملک اپنے کسی شہری کو اجازت نہیں دے گا کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے۔ آزادیٔ خیال کے نام پر دنیا کا امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(خطبہ جمعہ 21؍ ستمبر 2012ء)
حضور انور نے مغرب كو متنبہ كرتے ہوئے فرمایا:
’’كسی بھی مذہب كی مقدس ہستیوں كے باره میں، كسی بھی قسم كا نازیبا اظہار خیال، كسی بھی طرح كی آزادی كے زمرے میں نہیں آتا۔
تم جو جمہوریت اور آزادئ ضمیر كے چیمپئن بن كر دوسروں كے جذبات سے كھیلتے ہو، یہ نہ ہی جمہوریت ہے، نہ ہی آزادئ ضمیر ہے۔
ہر چیز كی ایك حد ہوتی ہے اور كچھ ضابطہ اخلاق ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ آزادئ رائے كا قطعًا یہ مطلب نہیں ہے كہ دوسرے كے جذبات سے كھیلا جائے۔ اس كو تكلیف پہنچائی جائے۔ اگر یہی آزادی ہے جس پر مغرب كو ناز ہے تو یہ آزادی ترقی كی طرف لے جانے والی نہیں ہے بلكہ تنزل كی طرف لے جانے والی آزادی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 17 فروری 2006)
پھر حضور ایده الله بنصره العزیز نے مغرب اور یو این كو مخاطب كركے فرمایا:
آزادی كے متعلق قانون كوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے ۔۔۔ پس اپنے قانون کو ایسا مکمل نہ سمجھیں کہ اس میں کوئی ردّوبدل نہیں ہو سکتا۔۔۔ آزادیٔ اظہار کا قانون تو ہے لیکن نہ کسی ملک کے قانون میں، نہ یو این او (UNO) کے چارٹر میں یہ قانون ہے کہ کسی شخص کو یہ آزادی نہیں ہو گی کہ دوسرے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرو۔
یہ کہیں نہیں لکھا کہ دوسرے مذہب کے بزرگوں کا استہزاء کرنے کی اجازت نہیں ہوگی کہ اس سے دنیا کا امن برباد ہوتا ہے۔ اس سے نفرتوں کے لاوے ابلتے ہیں۔ اس سے قوموں اور مذہبوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی چلی جاتی ہے۔
پس اگر قانونِ آزادی بنایا ہے تو ایک شخص کی آزادی کا قانون تو بیشک بنائیں لیکن دوسرے شخص کے جذبات سے کھیلنے کا قانون نہ بنائیں۔
(خطبہ جمعہ 21؍ ستمبر 2012ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےايسى توہین آمیز كوششوں كو روكنے اور امن وامان كو قائم ركھنے كی خاطر آج سے تقریبا 124 سال قبل اسلامی اصولوں اور قرآنی تعلیم كى روشنى ميں ایك تجویز دیتے ہوئے فرمایا تھا كہ:
یہ اصول نہایت صحیح اور نہایت مبارک اور باوجود اس کے صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا ہے کہ ہم ایسے تمام نبیوں کو سچے نبی قرار دیں جن کا مذہب جڑ پکڑ گیا اور عمر پاگیا اور کروڑ ہا لوگ اس مذہب میں آگئے۔
یہ اصول نہایت نیک اصول ہے۔ اور اگر اس اصل کی تمام دنیا پابند ہو جائے تو ہزاروں فساد اور توہینِ مذہب جو مخالفِ امنِ عامہءِ خلائق ہیں اٹھ جائیں۔… یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سكھلایا…. امن کو دنیا میں پھیلانے والا صرف یہی ایک اصول ہے جو ہمارا اصول ہے۔
(تحفۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد12 صفحہ258 تا 262)
اسلام آزادئ اظہار كے متعلق كہتا ہے كہ شائستگی كے ساتھ لوگوں سے اچھی بات كرو۔ عدل اور سچ سے ہٹی ہوئی بات نہ كرو۔ ایسی بات نہ كرو جس سے فساد فی الارض اور بدامنی پھیلے۔ کسی کی بری تشہیرنہ كرو۔ طعن وتشنیع اور گالم گلوچ نہ كرو، كسی كی تحقیر نہ كرو اورتمسخر واستہزاء نہ كرو۔
* اسلام كہتا ہے كہ آزادئ اظہار رائے كی آڑ میں كسی عام سے عام انسان كی بهی عزت نفس كو مجروح نہ كرو۔
* اسلام كہتا ہے كہ دیگر ادیان اور دوسروں كی مقدسات اور محترم شخصیات كی توہین آزادئ اظہار كے خلاف ہے۔
یقینا آزادئ اظہار كے باره میں اسلام كی پیش كرده تعلیم نہایت كامل او رہرسقم سے پاك اور ہر خیر كی جامع ہے۔ اوریقینا اسلام كی بیان كرده حدود وقیود آزادئ اظہار كی خوبی كو نكھارنے والی اور اسكے حسن كو دوبالا كرنے والی ہیں۔ اور آج یا كل، جلدی یا بدیر، اقوام عالم كو ان حدودو قیود كو اپنانا پڑے گا اور ان اصولوں كو لاگو كرنا پڑے گا كیونكہ دنیا كو ترقی كی طرف لے جانے والی حقيقى آزادی یہی آزادی ہے جو اسلام نے بیان كی ہے .اور دنیا میں امن پھیلانے والے كامياب اصول یہی اصول ہیں جو اسلام نے پیش كئے ہیں۔
٭…٭…٭
(محمد طاہر ندیم۔لندن)