پھولوں کو جو سینے کا لہو دے کے گیا ہے
دنیا کے مناظر سے بظاہر وہ جدا ہے
وہ شخص تو دھڑکن میں دعاؤں میں بسا ہے
ہم اہل ِ چمن اُس کو سدا یاد کریں گے
پھولوں کو جو سینے کا لہو دے کے گیا ہے
اب یونہی معطر نہیں نمناک سا موسم
مِٹی میں گلابوں سا کوئی سویا ہوا ہے
پیکر تھا محبت کا اطاعت کا دعا کا
اُس کو یہ خبر تھی کہ یہی رسمِ وفا ہے
اب شام ہے، تنہائی ہے، برسات ، مبارک
رنجیدہ ہے نم دیدہ ہے اور محوِ دعا ہے
(مبارک صدیقی ۔ لندن)