• 30 اپریل, 2024

پھولوں کو جو سینے کا لہو دے کے گیا ہے

پھولوں کو جو سینے کا لہو دے کے گیا ہے
دنیا کے مناظر سے بظاہر وہ جدا ہے
وہ شخص تو دھڑکن میں دعاؤں میں بسا ہے
ہم اہل ِ چمن اُس کو سدا یاد کریں گے
پھولوں کو جو سینے کا لہو دے کے گیا ہے
اب یونہی معطر نہیں نمناک سا موسم
مِٹی میں گلابوں سا کوئی سویا ہوا ہے
پیکر تھا محبت کا اطاعت کا دعا کا
اُس کو یہ خبر تھی کہ یہی رسمِ وفا ہے
اب شام ہے، تنہائی ہے، برسات ، مبارک
رنجیدہ ہے نم دیدہ ہے اور محوِ دعا ہے

(مبارک صدیقی ۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

پولینڈکا تاریخی سفر (قسط اول)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2021