• 29 اپریل, 2024

سورج کو دیکھنے پر چھینک کیوں آتی ہے ؟

آپ میں سے کئی لوگوں نے تجربہ کیا ہوگا کہ وہ جب اندھیرے یا کم روشنی سے کھلی دھوپ میں آتے ہیں تو انہیں چھینک آ جاتی ہے۔ایسے افراد کو Sun Sneezer کہا جاتا ہے۔ اس عمل کو Photic Sneeze Refelex بھی کہتے ہیں۔ قریب ایک ہزار سال قبل لوگوں نے اس عمل کو نوٹس کرنا شروع کیا۔ معروف یونانی فلسفی ارسطو بھی Sun Sneezer تھا۔ اپنی ایک کتاب میں وہ یہ سوال کرتا ہے کہ لوگ سورج کو دیکھنے پر چھینک کیوں مارتے ہیں ؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ سورج سے آنے والی تپش ناک کے اندرونی حصہ میں پسینہ کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ اس کے رد عمل میں چھینک آتی ہے کہ تاکہ اس پسینے سے چھٹکارا ملے۔ لیکن چند دھائیوں بعد سر فرانسس بیکن نے اس خیال کو رد کرتے ہوئے کہا کہ سورج کو دیکھنے پر چھینک آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کیونکہ آنکھیں بند کرکے سورج کی طرف دیکھنے پر چھینک نہیں آتی۔ پھر اس کی وجہ کیا ہے ؟ فرانسس بیکن بیان کرتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تیز روشنی کا سامنا ہونے پرہماری آنکھوں سے پانی نکلتا ہے جس کا کچھ حصہ ناک میں پہنچنے پر ہمیں چھینک آتی ہے۔لیکن اس تھیوری میں بھی سقم تھا، کیونکہ آنکھ سے پانی کا اخراج بذات خود ایک بہت سست عمل ہے جو چھینک جیسے تیز عمل کو انجام نہیں دے سکتا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ Photic Sneeze Refelex انسانوں میں ارتقائی عمل کے دوران تب ہوا جب وہ اندھیری غاروں میں بودوباش رکھتے تھے۔ چھینک کے دوران جو ہوا اور پانی کے ذرات خارج ہوتے ہیں ان میں کئی بیماریوں کے وائرس اور بیکٹریا وغیرہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ چھینک بیماری پھیلانے کا باعث بھی بن سکتی ہے اگر چھینکتے وقت منہ اور ناک کو صحیح طریقے سے نا ڈھانپا جائے۔

جب انسان تاریک اور نمی والی غاروں میں رہتے اور چھینکتے تھے اور خارج ہونے والے وائرس غار کی دیواروں اور فرش پر کئی ہفتوں تک زندہ رہ کر دوسرے انسان کو متاثر کر سکتے تھے۔ اس کے مقابل پر کھلی ہوا میں چھینکنے پر وائرس دھوپ اور گرمی کے باعث جلد ختم ہوجاتے ہیں اور ان سے دوسرے انسانوں کے متاثر ہونے کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔اس لیے وقت کے ساتھ نوع انسانی میں یہ تبدیلی پیدا ہوئی کہ کھلی ہوا میں چھینکیں اور سورج کی گرمی سے وائرس اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم ختم ہو جائیں۔

1960ء میں کی گئی تحقیق میں پتہ چلا کہ Photic Sneeze Refelex موروثی بھی ہوسکتی ہے۔ تحقیق میں ایک Sun Sneezer شخص پر تجربہ کیا گیا،جب وہ تیز روشنی میں آتا تو دوبار چھینکتا تھا، اسی طرح اس کی چار ہفتوں کی بیٹی کو بھی اندھیرے سے سورج کی تیز روشنی میں لایا جاتا تو وہ بھی اپنے والد کی طرح دو بار چھینکتی تھی۔

1980ء تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ تیز روشنی کو دیکھنے سے چھینک کا آنا Autosomal Dominant کے باعث ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک انسان میں پائی جانے والی خصلتیں اپنے والدین کی جینز کی کاپی ہوتی ہیں۔ لیکن جب کافی سارے لوگوں پر اس معاملہ میں تحقیق کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ صرف 18 سے 35 فیصد افراد ہی Sun Sneezer ہوتے ہیں۔ بعد ازاں اس خیال کو بھی رد کرنا پڑا کہ Sun Sneezer ہونا کسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے کیونکہ Sun Sneezer ہونے کا کوئی فائدہ یا نقصان سامنے نہیں آیا۔ تحقیق یہی ظاہر کرتی ہے کہ جینز ہی Photic Sneeze Refelex کا باعث ہیں جو کہ دوسرا کروموسوم ہے۔ یہ انسانی ڈی این اے میں صرف ایک حرف کی تبدیلی کے باعث ہے۔ Sun Sneezer افراد کے دوسرے کروموسوم میں ایک C ہوتا ہے جبکہ جو لوگ Sun Sneezer نہیں ہوتے ان کے ڈی این اے میں C کی جگہ پر T ہے۔ یہ بات تب سامنے آئی جب 2010ء میں 10000 افرادسے ایک آن لائن سروے میں پوچھا گیا کہ وہ Sun Sneezer ہیں یا نہیں۔ اور ان کے ڈی این اے کو پرکھا گیا۔ تمام Sun Sneezer میں ایک بات مشترک تھی اور وہ تھا ان کے ڈی این اے میں T کا موجود ہونا۔ یہ تو واضح ہو گیا کہ یہ سب ڈی این اے میں موجود صرف ایک حرف کی کارستانی ہے کہ لیکن ایسا ہوا کیوں اس بارے میں ابھی صرف قیاس آرائیاں ہی کی جاتی ہیں۔اب اگر آپ کو دھوپ میں چھینک آئے تو جان لیں کہ اس کی وجہ آپ کے ڈی این اے میں موجود C ہے،جو سو میں سے اوسطاً اٹھارہ افراد میں ہوتا ہے اور آپ ان اٹھارہ افراد میں سے ایک ہیں۔

(ابو حمزہ ظفر)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 ستمبر 2021