میرے پیارےابوجان
مکرم منصور احمد تاثیر (مرحوم)
جنت ماں کے قدموں تلے ہے مگر باپ اس جنت کے دروازے کی کنجی ہے جس کے ذریعے تم اس جنت کے وارث بن سکتے ہو۔ باپ وہ درخت ہے جس کے سائے میں تم بے فکری سے اپنی زندگی گزارتے ہو۔ وہ ایسا سایہ دیتا ہے جس سے دنیا کی گرمی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ نہصرف خوراک دیتا ہے بلکہ اس کی مضبوط جڑیں تمہاری محافظ ہوتی ہیں اور اس درخت کی بدولت اولاد اپنے اپنے گھونسلے بناسکتی ہے باپ اور بیٹی کا رشتہ بہت انمول ہوتا ہے ۔میرا اور میرے ابا کا رشتہ بھی کچھ ایسا تھا ۔میں نے اپنی 27 سالہ زندگی میں چند ہی مہینے شاید ابو کے بغیر گزارے ہوں گے۔ ہم دوست، ہم راز، ایک دوسرے کا سہارا اور ایک دوسرے کی طاقت تھے۔ شاید اپنا اور اپنے ابو کا رشتہ الفاظ میں بیان کر بھی نہ سکوں۔
ابا کا بچپن بہت ہی نیک بزرگوں کی صحبت میں گزرا جن میں سے ایک مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ تھے ۔ابا کی دعاؤں میں اثر تھا اور ہاتھ میں شفا تھی یہ ان بزرگوں کی وجہ سے ہی تھا لوگ ان سے دعائیں کراتے استخارہ بھی کرواتے اور ان سے دم کروانے بھی آتے اکثر لوگ آدھی رات کو دم کروانے کے لیے آجاتے اور وہ ہمیں بتائے بغیر اس کو دم کرنے کے لیے اس کے گھر چلے جاتےاور پوچھنے پر کہتے کہ وہ تکلیف میں تھا تو میں کیوں نہ جاتا؟ میں وقت ضائع کرتا تم لوگوں کو پیچھے بتانے کے لئے آتا کہ میں اس کو دم کرنے جا رہا ہوں؟لوگوں کے لئے مسیحا تھے دعائیں بھی کرتے تھے ایک بار میں نے بولا ابا کل سے امتحانات شروع ہو رہے ہیں آپ میرے لیے دعا کریں ہم شام کو کچھ چیز لینے کے لیے بازار گاڑی میں جا رہے تھے تو راستے میں ابا کو کئی لوگ ملے ۔اس دن میں نے غور کیا کہ ابا تو سارا راستہ ہاتھ نیچے نہیں کرتے ہر طرف سے سلام شاہ جی سلام شاہ جی کی آوازیں آتی ہیں اور ہر طبقے کے لوگ ابا کو سلام کر رہے ہیں اور باہر گزرتے ہوئے عام سے عام آدمی کو بھی چاہے وہ مستری ہو مزدور ہو کوئی صفائی کرنے والا ہو اس کو بولتے کل سے بیٹی کا امتحان ہے دعاؤں میں یاد رکھنا سب ۔میں حیرت اور مذاق کے لہجے سے بولی کہ ابا کسی کام کے بندے کو بھی دعا کے لیے کہہ دیں۔ابا ناراضگی کے لہجے میں بولے یہی تو لوگ ہیں جن کی خدا سنتا ہے یہ لوگ سچے دل سے دعا کرتے ہیں۔ کس کی دعا کب سنی جائے تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو بڑے بڑے لوگوں کو دعا کے لیے کہو گی تو شاید وہ تمہارے لئے دعا نہ کرے مگر یہ انسان جن کو تم کم سمجھ رہی ہومیرے حق میں ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ انہی لوگوں کی دعائیں مجھے لگتی ہیں میں تو انہیں لوگوں کو دعا کے لیے کہوں گا۔
ابا صوم وصلاۃ کے پابند قرآن بڑی خوش الحانی سے پڑھتے تھے ۔ بہت مہمان نواز تھے گھر میں کوئی بھی آتا تو اس کو کچھ کھائے پئے بغیر نہ جانے دیتے۔ ہر رشتہ دار کا خیال رکھتے ہر کسی کی خوشی اور غمی میں پہنچتے نہ صرف اپنے ماں باپ کی بلکہ اپنے بیوی بچوں کے آگے سسرال تک ہر کسی کو خوشی سے ملتے ہر کسی کی خدمت کرتے ہر غریب اور ضرورت مند کی مدد کرتے اور پردہ پوشی سے کرتے۔ گرمی میں سڑک پر کوئی کام کر رہا ہوتا تو گھر سے ٹھنڈا جوس لے کر جاتے اور ان کو پلاتے گھر میں کام کرنے والوں کو کبھی زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانےنہیں دیا بلکہ ساتھ میز پر بٹھا کر کھانا کھلاتے اور ان کی ہر ضرورت کو جہاں تک ہو سکتا پورا کرتے ۔غصے کے تیز تھے غلط بات ان سے بالکل برداشت نہیں ہوتی تھی کبھی غصےمیں جھڑک بھی دیتے کسی کو کچھ کہہ بھی دیتے مگر دل میں کبھی کسی کے لیے کوئی بد گمانی یا کوئی بغض نہیں رکھتے تھے غیبت سے پرہیز کرتے تھے اگر کہیں ہوتی تھی تو خاموش رہتے تھے۔
خلافت سے والہانہ عشق تھا جماعت کا کوئی بھی عہدہ کوئی کام ملتا اسے پوری ایمانداری اور دل لگی سے کرتے ۔ خلیفہ وقت کے خطبے سنتے تو شہداء کا ذکر ہوتا یا صحابہ کرام کا ذکر ہوتا تو بہت روتے اتنا روتے کہ کبھی کبھی ہچکی بن جاتی خلیفہ وقت کسی خطبے میں کسی کی وفات کا اعلان کرتے تو بہت روتے اور کہتے کتنے خوش نصیب لوگ ہیں کہ خلیفہ وقت ان کا ذکر کر رہے ہیں اور الحمد للہ یہ خوش نصیبی ابا کے حصے میں بھی آئی۔
ابا نے دفتر حفاظت مرکز، صدر عمومی اور امور عامہ میں بہت سال کام کیا۔ ادھر ایسی خبریں ہوتی ہیں جو بعض اوقات آگ کی طرح پھیل جاتیں اور جب ہمیں بھی لوگوں سے پتہ لگتا کہ آج یہ ہوا آج یہ ہوا ہم آپ کو کہتے تھے ابا سب لوگوں کو پتہ لگ جاتا ہے آپ ہمیں گھر آکر کوئی بات نہیں بتاتے ہیں ۔ا باغصےمیں آ جاتےاور کہتے وہاں جو ہوتا ہے وہ میرے پاس ایک امانت ہے میں اس کا ذکر کسی سے نہیں کروں گا ہاں تم لوگوں سے پتہ لگ جاتا ہے تو یہ علیحدہ بات ہے مگر میں اپنی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا اور گھر آکر جماعت کی کوئی بات تم لوگوں کو نہیں بتاؤں گا۔
بچوں کے رشتہ کرتے وقت ابا نے کبھی کچھ اور نہیں دیکھا صرف نیکی اور تقوی دیکھا نہ کبھی پوچھا کہ کماتے کتنا ہیں گھر کیسا ہے کیا دیں گے صرف نیکی دیکھی اور ہمارے رشتے منسوب کر دیے الحمدللہ آج ہم چاروں بہن بھائی اپنے گھروں میں بہت خوش اور پرسکون، ابا کی دعاؤں کی بدولت زندگی گزار رہے ہیں۔
میرے والد بہت سی خوبیوں کے مالک تھے مگر ایک وقف نو بیٹی کی تربیت کے لیے ساری زندگی جیسے انھوں نے میرا ساتھ دیا وہ میری شخصیت کے لیے بہت اہم ثابت ہوا ۔انہیں میری ہر چیز کی فکر رہتی تھی میری نماز، قرآن، دین و دنیا دونوں کی ترقی غرض ہر چیز کی ۔اور یقیناًہر بچے کی تربیت کے لئے ماں کے ساتھ باپ کا بھی کردار بہت اہم ہوتا ہے۔
چھوٹی عمر سے ہی وہ مجھے ایک مقرر بنانا چاہتے تھے اپنی تحریروں کا اپنے علم کا سارا اثر مجھ میں ڈالنا چاہتے تھے۔ میں نصرت جہاں اکیڈمی کی طالبہ تھی۔ کلاس پریپ میں تھی ۔ تقاریر کے مقابلے کا اعلان ہوا میں نے ہر چیز میں حصہ لیا۔ اردو کی تقریر ابا نے لکھ کر دی اور دن رات ہم اس کی مل کر تیاری کرتے میری والدہ نے کہا اس کی انگریزی کی تقریر ابھی تک تیار نہیں میں چاہتی ہوں یہ اس میں بھی حصہ لے مگر آپ تو جانتے ہیں میں پڑھی لکھی نہیں ہوں اس میں بھی آپ کو ہی کچھ کرنا ہوگا ابا نے بولا اچھا تم کسی انگریزی مقرر سے اس کی تقریر لکھوا لو باقی ہم تیاری کریں گے۔جب تقریر آئی توابا نے انگریزی کے ہر لفظ کو اردو کی تحریر میں لکھ دیا جس سے میری اماں بآسانی انگریزی پڑھ سکتی تھیں۔تقریر تو انگریزی کی تھی مگر لکھی ہوئی اردو میں تھی۔اماں ابا نے مجھے اس طرح تقریر یاد کرا دی کہ کاغذ کی ضرورت ہی نہیں رہی اور میں نے پوزیشن حاصل کرلی اہم بات یہ نہیں ہے اہم بات یہ ہے کہ اس دن مجھ میں جو ہمت آئی ایک کلاس کی بچی کو جو بات اب تک یاد ہے وہ میری ماں کی خوشی اور اس کا اعتماد تھا جو شاید دوسری ماؤں کو دیکھ کر اس میں احساس کمتری آ رہی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو انگریزی نہیں بلوا سکتی مگرابا کے اعتماد سے اور ان کی یہ کوشش کہ میری بیٹی کو کسی میدان میں ہماری کمی کی وجہ سے پیچھے نہ رہنا پڑے اور انہوں نے اپنی بیٹی اور بیوی دونوں کو ایسا اعتماد دلایا جو آج تک قائم ہے۔
میری تربیت میں وہ ہر پہلو پر غور کرتے۔ اسکول میں تیسری جماعت تک اس وقت شرٹ کا رواج تھا جب میں تیسری جماعت میں ہوئی تو اماں کو بولاکل اس کا کلاس کا پہلا دن ہے نئی جماعت کا جاؤ اس کا یونیفارم لے آؤ اور یاد رہے کہ شلوار قمیض لانا۔ صبح میں تیار ہوئی تو رونے لگی کہ کلاس میں کوئی یہ نہیں پہن کر آیا ہوں گا میں عجیب لگوں گی سب میرا مذاق اڑائیں گے اور ٹیچر نے پوچھا تو؟ ابانے پاس بلا کر کہا کہ یہ کوئی پوچھے تو کہنا میں وقف نو بچی ہوں اور میرے ابو نے بولا ہے کہ آج سے تم شلوار قمیض ہی پہنو گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ یونیفارم چیکنگ میں جب مجھے روکا گیا تو میرا یہ جواب سنتے ہی انہوں نے مجھے پیار کیا اور ٹیچر نے بولا جوابا کہتے ہیں وہ ٹھیک کہتے ہیں اس دن میرا اعتماد اور بڑھ گیا اور میں سر اٹھا کر فخر سے سارا دن سکول میں بیٹھی اور چند ماہ بعد اسکول انتظامیہ کی طرف سے تیسری جماعت سے ہی شلوار قمیض یونیفارم میں داخل ہوگئی۔
مجھے اماں ابا نے حافظ قرآن بنا یا۔ یہ بھی ان کی میرے بچپن سے خواہش تھی اور اس کے لیے انہوں نے محنت بھی بہت کی۔ بچپن سے ہی میرے دل میں قرآن کا عشق ڈالا تب جا کر یہ ان کی خواہش نہیں بلکہ میری بھی خواہش بن گئی سکول میں پریپ جماعت میں داخل ہونے سے پہلے مجھے ناظرےسے قرآن مکمل کروایا اور قصیدہ بھی حفظ کروایا تاکہ میری عربی میں زبان کھلےاور حفظ اسکول جانے سے پہلےمجھے قرآن کی قرأت قواعد اور اس کو ترجمہ کے ساتھ مکمل یاد کروایا۔اسکول میں رکشے پر میں آتی جاتی تھی مگر جب حفظ سکول جانے لگی توا با خود چھوڑ کے جاتے خود لینے آتے کہ اس کے پاس قرآن ہوتا ہے اس کے لیے انہوں نے موٹرسائیکل بھی خریدا۔ ڈیڑھ سال دونوں نے میرے ساتھ بہت محنت کی میں نے قرآن کے فائنل امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کا ریکارڈ بنایا اور دوسرا ریکارڈ سب سے کم دنوں میں قرآن کا ٹیسٹ دینے کا بنایا ابا بہت خوش تھے مگر میں نے اپنے حافظ قرآن ہونے کے معاملے میں ہمیشہ ان کو پریشان پایا تھا وہ ہمیشہ ہی کہتے کہ اس کو صرف یاد نہیں کرنا ہے بلکہ تا عمر اس کو یاد رکھنا اصل مقصد ہے۔ فارعہ! اگر تم اس کو بھول گئی تو بہت گناہ ہے۔ اتنے سال گزر گئے میں بڑی ہو گئی ان کو شاید میری تعلیم کی کبھی اتنی فکر ہوئی نہ شادی کی۔ فکر تھی تو صرف کہ قرآن پڑھا تم نے؟ یاد رکھو اسے ۔روز سناؤ۔ رمضان آتے ہی کہتے گھر کی عورتوں کو تراویح پڑھاؤ اور واقعی ایسا کرنے سے میرا قرآن پختہ ہوتا چلا گیا ۔اب وہ نہیں ہیں مگر خدا کرے کہ یہ قرآن میرے سینے میں ہمیشہ میرے ساتھ رہے اور ابا آپ کو کوئی شرمندگی نہ ہو اگلے جہان میں۔ آمین
میرا سرگودھا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہوا تو کہنے لگے کہ تم وہاں جارہی ہوں جہاں غیراحمدی بھی بہت سارے لوگ ہوں گے تو تمہیں اپنے کردار سے اپنی عادات سے اپنے عمل سے یہ ظاہر کرنا ہے کہ تم ایک احمدی لڑکی ہو اصل امتحان وہ نہیں جو تم کالج کے پرچے دو گی بلکہ یہ ہوگا کہ تم وہاں پر لوگوں کو اپنے کردار سے ان کا دل جیتوگی اور یہ ظاہر کرو کہ ہم احمدی جو ہیں وہ کتنے مخلص لوگ ہیں۔
ان پانچ سالوں میں ابا نے میرا بہت ساتھ دیا ہر سال کے امتحان ابا مجھے خود دلوانے جاتے وہاں باہر کھڑے رہتے اور میرا انتظار کرتے لوگ ابا سے اتنا مانوس ہوگئے کہ کالج کا ہر بچہ پرچہ دینے جانے کے لئے کہتا کہ انکل میرے لیے دعا کریں میرے لیے دعا کریں اور سب کو انتظار ہوتا کہ ابا کب آئیں گے اور آپ سب کو کہیں گے کہ ان شاء اللہ پیپر اچھا ہو جائے گا۔ابا کی رہنمائی سے میں اپنی کلاس کی نمائندہ (GR) بنی بعد ازاں کالج کی پریذیڈنٹ (President) تک جا پہنچی اور میرا فائنل ایئر تھا ابا مجھے لینے کے لئے آئے تو کلاس کے بچے آپ سے ملنے کے لیے گئے اور کہنے لگے آپ کو اپنی بیٹی پر فخر ہوگا اور ہر احمدی اگر فارعہ جیسا ہے تو پھر آپ لوگ واجب القتل نہیں ہو سکتےیہ سن کر ابا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے آج میں سرخرو ہو گیا ہوں۔
میری شادی ہوگئی اس لئے میں ستمبر میں اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر پاکستان سے انگلینڈ آگئی۔ میرے بھائی نے ان کا ویزہ اپلائی کیا اور معجزانہ طور پر ان کا ویزہ لگ گیا تو یہاں یوکے میرے بھائی کے پاس رہنے کے لیے چار دسمبر کو آگئے ان کے یہاں آنے سے ہفتہ پہلے میں نے خواب دیکھی کہ ابا ہمارے ربوہ والے گھر کے صحن میں آرام کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ پروفیسر منور شمیم صاحب لیٹے ہوئے ہیں جو چند ماہ قبل وفات پائے گئے تھے۔ میں ابا کوان کے پاس سے بلا لیتی ہوں اور ان کو اپنے پاس لے آتی ہوں اور زور سے ان کے ساتھ لپٹ جاتی ہوں میں کہتی ہوں ابا جہاز گر رہے ہیں تباہی ہورہی ہے ہر طرف دھواں ہے کچھ نظر نہیں آ رہا تو کہتے ہیں کہ زور زور سے پڑھنا میرے ساتھ مل کر یہ بولتی چلی جاؤ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اتنی اونچی آواز ہو جاتی ہے میں اور ابا زور زور سے پڑھنے لگتے ہیں وہاں گاڑیاں آرہی ہیں میں کہتی ہوں کون لوگ ہیں یہ کیا کریں گے ہر طرف اذیت کی موت ہو رہی ہے اتنے میں ایک گاڑی میں سےحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ان کو لینے کے لیے آتے ہیں میں پوچھتی ہے آپ ابا کو کہاں لے کر جا رہے ہیں فرماتے ہیں کہ میں جنتی لوگوں کو لینے کے لئے آیا ہوں اتنے میں وہ ابا کو لے جاتے ہیں اور میں پیچھے رہ جاتی ہو۔
2020ء میں ہم ابا کو اکثر کہتے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور ہمیں بتائیں کہ کرونا کب ختم ہوگا تو ایک روز کہنے لگے میں نے دعا کی ہے عربی الفاظ مجھے یاد نہیں میں نہیں بتا سکتا مگر 30 تاریخ کو کرونا شاید ختم ہو جائے اور اسی طرح 30 دسمبر 2020ء کو ابا کے لئے کرونا ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم ہو گیا اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔
جاتے ہوئے ا با کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کے لئے ان کو فکر ہو اپنی بیوی کو اپنے بچوں کے پاس امانت کے طور پر چھوڑ گئے اپنی تمام اولاد کو ان کے گھونسلوں میں آباد دیکھتے رہے اپنی نسل کو اپنے سامنے بڑھتے ہوئے دیکھا ان کی خوشیاں دیکھیں الحمدللہ نہ کوئی بینک بیلنس نہ کوئی اکاؤنٹ نہ کوئی جائیداد صرف وصیت کے کاغذات جو آتے ہی اپنے بیٹے کو دے دیئے کہ اس کو سنبھال کے رکھو اس کی تمہیں ضرورت پڑے گی۔ وفات کے وقت صرف ایک اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی انگوٹھی جو آخری دم تک ان کے ہاتھ میں رہی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ابا کے درجات بلند کرتا چلا جائے ان سے رحمت اور مغفرت کا سلوک کرے ہمیں بھی ان جیسا خلافت سے والہانہ عشق کرنے والا بنائے اور ہمیں صبر جمیل دے اور ہم سب کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین ۔
(حافظہ ڈاکٹر فارعہ منصور۔ کرائیڈن برطانیہ)