• 28 اپریل, 2024

دسویں شرط بیعت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر دسویں شرط یہ ہے: ’’یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض للہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اُس پر تا وقتِ مرگ قائم رہے گا اور اس عقدِ اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیاوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ160 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں۔‘‘ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں فرما رہے ہیں) ’’اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے۔ اور پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ناپاک کو حرام ٹھہراتا ہے اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں۔ پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اُس کو قوت دیں گے۔ اور اُس کی مدد کریں گے اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اُس کے ساتھ اتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے۔‘‘

(براہین احمد یہ، حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21 صفحہ420)

یعنی یہ شرعی احکامات ہیں اور یہی معروف احکام ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے اور ایک انسان کی دنیاوی طوقوں سے نجات بھی اسی میں ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’اب میری طرف دوڑوکہ وقت ہے کہ جو شخص اس وقت میری طرف دوڑتا ہے مَیں اُس کو اس سے تشبیہ دیتا ہوں کہ جو عین طوفان کے وقت جہاز پر بیٹھ گیا۔ لیکن جو شخص مجھے نہیں مانتا۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ طوفان میں اپنے تئیں ڈال رہا ہے اور کوئی بچنے کا سامان اُس کے پاس نہیں۔ سچا شفیع مَیں ہوں جو اس بزرگ شفیع کا سایہ ہوں‘‘ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ہوں) ’’اور اس کا ظل جس کو اس زمانے کے اندھوں نے قبول نہ کیا اور اس کی بہت ہی تحقیر کی، یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘

(دافع البلاء، روحانی خزائن جلد18 صفحہ233)

پھر آپ فرماتے ہیں۔ اب ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آخر میں بیان ہے ’’اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درختِ وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو۔‘‘ (پھر فرماتے ہیں اس بارے میں کہ کون عزیز ہیں؟) فرمایا کہ ’’میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے۔ مجھے کون پہچا نتا ہے؟ صر ف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں۔ اور مجھے اُس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں۔ دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ مَیں دنیا میں سے نہیں ہوں۔ مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصّہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے۔ جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے مَیں آیا ہوں۔ میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصّہ لے گا۔ مگر جو شخص وہم اور بد گمانی سے دُور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جا ئیگا۔ اس زمانہ کا حصن حصین میَں ہوں‘‘ (مضبوط قلعہ میں ہوں، حفاظت میں رکھنے والا قلعہ میں ہوں ) ’’جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔ مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے۔ اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔ مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جوبدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندۂ مطیع بن جاتاہے۔ ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور مَیں اُس میں ہوں۔ مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نفس مُزکّی کے سایہ میں ڈال دیتا ہے۔ تب وہ اُس کے نفس کی دوزخ کے اندر اپنا پَیر رکھ دیتا ہے تووہ ایسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ گویا اُس میں کبھی آگ نہیں تھی۔‘‘ (انسان جب پاک بنتا ہے، نفس کی دوزخ میں جب پاؤں رکھتا ہے جب انسان اپنے آپ کو، اپنے نفس کو پاک کرتا ہے تو پھر جتنی بھی اُس کی نفس کی آگ تھی وہ ٹھنڈی ہو جاتی ہے) فرمایا: ’’تب وہ ترقی پر ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی روح اُس میں سکونت کرتی ہے اور ایک تجلّی ٔ خاص کے ساتھ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ کا اسْتویٰ اس کے دل پر ہوتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اُس کے دل پر اپنا عرش قائم کرتا ہے) تب پرانی انسانیت اس کی جل کر ایک نئی اور پاک انسانیت اُس کو عطا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ بھی ایک نیا خدا ہو کر نئے اور خاص طور پر اُس سے تعلق پکڑتا ہے اور بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان اِسی عالم میں اُس کو مل جاتا ہے۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ34-35)

(خطبہ جمعہ23 ؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

محترم ڈاکٹرا حتشام الحق صاحب مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2021