• 26 جولائی, 2025

آج کی دعا

اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنۡۢبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔ اَشْھَدُاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنۡۢبِیْ فَا غْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ۔


ترجمہ: میں اللہ اپنے رب سے بخشش طلب کرتا ہوں ۔میں اللہ اپنے رب سے بخشش طلب کرتا ہوں۔ میں اللہ اپنے رب سے بخشش طلب کرتا ہوں ۔اور اسی کی طرف جھکتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اپنے گناہوں کا اعتراف کیا پس میرے گناہ بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔

یہ حضرت مسیحِ موعودؑ کے بیعت لینے کے الفاظ ہیں۔ پہلے دن جب آپؑ نے بیعت لی تو وہ تاریخ 20رجب 1306ھ مطابق 23مارچ 1889ء تھی اور اس وقت بیعت کے الفاظ یہ تھے:
’’آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں مَیں مبتلا تھا اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کے لذات پر مقدم رکھونگا اور 12جنوری کے دس شرطوں پر حتی الوسع کاربند ہونگا اور اب بھی اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں۔

اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنۡۢبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔ اَشْھَدُاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنۡۢبِیْ فَا غْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ۔

حضرت مسیح موعودؑ بیعت کنندگان کو قیمتی نصائح کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے۔ اس کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہے تو اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہو گا۔ لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشوونما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اُوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے۔ اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتاہے اسے ہرگز فیض حاصل نہیں ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ454 ،455)

(مرسلہ: مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

محترم ڈاکٹرا حتشام الحق صاحب مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2021