• 27 اپریل, 2024

احمدی اور ان کی دعائیں پاکستان کے لئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پاکستان میں بھی 23؍مارچ کو یومِ پاکستان منایا جا رہا ہے اور اس حوالے سے بھی پاکستانی احمدیوں کو مَیں کہوں گا کہ دعا کریں کہ جس دورسے آج کل ملک گزر رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو بچائے۔ احمدیوں کی خاطر ہی اس کو بچائے۔ کیونکہ احمدیوں نے اس ملک کو بچانے کی خاطر بہت دعائیں کی ہیں لیکن پھر بھی یہی کہاجاتا ہے اس لئے چند حقائق بھی مَیں پیش کروں گا کہ احمدی کس حد تک اس ملک کے بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے؟

’دورِ جدید‘ ایک اخبار تھا، اُس نے 1923ء میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق یہ لکھا کہ ’’پنجاب کونسل کے تمام مسلمانوں نے (جو) (یقینا مسلمانانِ پنجاب کے نمائندے کہلانے کا جائز حق رکھتے ہیں) جبکہ یہ ضرورت محسوس کی کہ پنجاب کی طرف سے ایک مستند نمائندہ انگلستان بھیجا جانا چاہئے تو عالی جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہی کی ذاتِ ستودہ صفات تھی جس پر اُن کی نظر انتخاب پڑی۔ چنانچہ چوہدری صاحب نے اپنا روپیہ صرف کر کے اور اس خوبی اور عمدگی سے حکومتِ برطانیہ اور سیاسینِ انگلستان کے رو برو یہ مسائل پیش کئے جس کے مداح نہ صرف مسلمانانِ پنجاب ہوئے بلکہ حکومت بھی کافی حد تک متأثر ہوئی ……۔

(اخبار دورِ جدید لاہور 16اکتوبر 1923ء بحوالہ تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ کی قربانیاں از مرزا خلیل احمد قمر صفحہ11)

یہ وہ واقعات ہیں اور وہ روشن حقائق ہیں جن سے کم از کم اخباری دنیا کا کوئی شخص کسی وقت بھی انکار نہیں کر سکتا۔

پھر ممتاز ادبی شخصیات میں سے مولانا محمد علی جوہر صاحب ہیں۔ اپنے اخبار ’’ہمدرد‘‘ مؤرخہ 26؍ستمبر 1927ء میں لکھتے ہیں کہ:
’’ناشکری ہو گی کہ جناب میرزا بشیر الدین محمود احمد اور اُن کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنے تمام تر توجہات، بلا اختلافِ عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں …… اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقے کا طرزِ عمل سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کے بلند بانگ و در باطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں، مشعل راہ ثابت ہو گا۔‘‘

(اخبار ’’ہمدرد‘‘ مورخہ 26ستمبر 1927ء بحوالہ تعمیرو ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردار صفحہ7)

یعنی مولانا محمد علی جوہر صاحب بھی نہ صرف جماعت احمدیہ کی کوششوں کو سراہ رہے ہیں بلکہ جماعت احمدیہ کومسلمان فرقہ میں شمار کر رہے ہیں۔ جبکہ آجکل تاریخِ پاکستان میں سے احمدیوں کا نام نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور آئینی لحاظ سے مسلمان تو وہ لوگ ویسے ہی تسلیم نہیں کرتے۔ پھر اسی طرح ایک بزرگ ادیب خواجہ حسن نظامی نے گول میز کانفرنس کے بارہ میں لکھا کہ:
’’گول میز کانفرنس میں ہر ہندو اور مسلمان اور ہر انگریز نے جو چوہدری ظفر اللہ خان کی لیاقت کو مانا اور کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی ایسا آدمی ہے جو فضول اور بے کار بات زبان سے نہیں نکالتا اور نئے زمانے کی پولیٹکس پیچیدہ کو اچھی طرح سمجھتا ہے تو وہ چوہدری ظفر اللہ خان ہے۔‘‘

(اخبار ’’منادی‘‘ 24اکتوبر 1934 بحوالہ تعمیرو ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار صفحہ24)

پھر ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’گول میز کانفرنس کے مسلمان مندوبین میں سے سب سے زیادہ کامیاب آغا خان اور چوہدری ظفر اللہ خان ثابت ہوئے۔‘‘

(اقبال کے آخری دو سال صفحہ16 بحوالہ تعمیرو ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردارصفحہ 24)

یہ بھی ایک کتاب ہے ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ اور اس کی ناشر اقبال اکیڈمی پاکستان ہے۔

پھر حضرت قائد اعظم نے خود سیاست میں واپس آنے کے بارے میں ہندوستان واپس جانے کے بارے میں فرمایا کہ:
’’مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ مَیں ہندوستان کی کوئی مددنہیں کر سکتا۔‘‘ (جب یہ واپس چلے گئے تھے ہندوستان چھوڑ کے، انگلستان آ گئے تھے) ’’نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کر سکتا ہوں، نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں۔ آخر مَیں نے لنڈن ہی میں بودوباش کا فیصلہ کر لیا۔‘‘

(قائد اعظم اور ان کا عہد از رئیس احمد جعفری صفحہ192 بحوالہ تعمیرو ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردار صفحہ8)

یہ رئیس جعفری صاحب کی کتاب ’’قائد اعظم اور ان کا عہد‘‘ میں یہ درج ہے۔ تو اُس وقت جماعت احمدیہ نے ان کو واپس لانے کی کوشش کی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے امام مسجد لنڈن مولانا عبدالرحیم درد صاحب کو بھیجا کہ قائد اعظم پر زور ڈالیں کہ وہ واپس آئیں اور مسلمانوں کی رہنمائی کریں تا کہ اُن کے حق ادا ہو سکیں۔ آخر قائد اعظم ہندوستان واپس گئے اور مسلمانوں کی خدمت پر کمر بستہ ہونے کی حامی بھر لی اور بے ساختہ انہوں نے یہ کہا کہ:

The eloquent persuasion of the Imam left me no escape

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد6 صفحہ102 جدید ایڈیشن)

یعنی امام مسجد لنڈن کی جو فصیح و بلیغ تلقین اور ترغیب تھی، اُس نے بھی میرے لئے کوئی فرار کا رستہ نہیں چھوڑا۔

(خطبہ جمعہ 23؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مقابلہ کوئز Current Affairs جامعۃ المبشرین گھانا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 ستمبر 2021