• 27 اپریل, 2024

حضرت چودھری نواب دین رضی اللہ عنہ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت چودھری نواب دین رضی اللہ عنہ۔داؤوالہ ضلع نارووال

حضرت چودھری نواب دین رضی اللہ عنہ ولد محمد بخش صاحب داؤوالہ ضلع نارووال کے رہنے والے تھے ۔ آپ ریڈر سب جج کے طور پر ملازم تھے اور نہایت ایمانداری، نیک نیتی اور محنت سے کام کرنے والے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی قبول احمدیت کی توفیق پائی اور صحابی ہونے کا شرف پایا۔ آپ کو بطور امیر حلقہ نمبر 2 ضلع سیالکوٹ خدمت کی توفیق ملی، اخبار الفضل میں ایک جگہ یوں اعلان درج ہے:
’’چوہدری نواب دین صاحب پنشنر ساکن داؤ والہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حلقہ نمبر 2 ضلع سیالکوٹ (جس میں مندرجہ ذیل گاؤں شامل ہیں: داؤوالہ، ظفروال، چہور، مالوکے، دھنی دیو، نارووال، عینووالی، ننگل، رندھیر) کا مقامی امیر یکم دسمبر 1930ء سے 30؍اپریل 1932ء تک کے لیے مقرر فرمایا ہے۔‘‘

(الفضل 15 جنوری 1931ء صفحہ2 کالم3)

آپ نے مورخہ 5؍نومبر 1932ء کو بعمر 64 سال وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 3369) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔خبر وفات دیتے ہوئے آپ کے بیٹے مکرم چوہدری فضل الٰہی صاحب نے لکھا:
’’میرے والد بزرگوار چودھری نواب الدین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے صحابی تھے، قضائے الٰہی سے 5،4نومبر 1932ء کی درمیانی شب کو فوت ہوگئے۔ مرحوم جماعت احمدیہ حلقہ 2 نارووال ضلع سیالکوٹ کے امیر تھے اور پنشنر ریڈر اور نمبردار تھے۔ احباب دعائے مغفرت فرمائیں۔ خاکسار محمد فضل الٰہی ریڈر سب جج ڈنگہ۔‘‘

(الفضل 15نومبر 1932ء صفحہ2 کالم2)

آپ کی نیکی اور تقویٰ کے متعلق ایک غیر احمدی دوست مکرم عبدالغنی ایڈووکیٹ لاہور نے درج ذیل مضمون لکھا:
’’مَیں اپنی ملازمت کے ابتدائی دور میں جبکہ ابھی تک مستقل نہیں ہوا تھا، 1927ء میں نارووال ضلع سیالکوٹ میں بطور سب جج درجہ چہارم تعینات کیا گیا ….. میری خوش قسمتی سے نارووال سب جج کی عدالت میں ریڈر کے عہدہ پر ایک نہایت دیانتدار نیک سیرت اور ہمدرد شخص متعین تھا جس کے بر وقت مشورہ نے کئی نامساعد حالات میں میری رہبری کی۔ اُس مرد خدا کا نام چوہدری نواب دین صاحب تھا اور وہ قریب کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے اور احمدی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ میرے نارووال جانے سے قبل وہ اپنی ملازمت کی مدت گذارنے کے بعد ایک سال کی توسیع ملازمت حاصل کر چکے تھے۔ بطور وکیل اور بعد میں دوران ملازمت خانیوال، ملتان و نواں شہر مجھے ریڈروں اور دوسرے عدالتی اہلکاروں کی کارکردگی کا کافی تجربہ ہو چکا تھا اور میں ان سب سے شاکی تھا مگر میں نے اس بزرگ صورت ریڈر کو باقی سب ریڈروں اور اہلکاروں سے بالکل مختلف پایا۔ وقت کی پابندی میرا عمر بھر کا مسلک رہا ہے اس لیے میں ہمیشہ عدالت میں وقت سے 15 منٹ پہلے پہنچ جاتا تھا ، چوہدری نواب دین صاحب کا معمول یہ تھا کہ میرے عدالت میں پہنچنے سے قبل وہ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوتے تھے۔ دوران اوقات عدالت نہ انہیں کھانسی آتی تھی، نہ پانی پینے یا کسی اور ضرورت سے اٹھنا پڑتا تھا، صرف ظہر کی نماز کے لیے اس وقت اٹھتے تھے جبکہ میں خود اٹھتا تھا۔ کبھی اشارۃً یا کنایۃً بھی کسی مقدمہ میں کسی فریق کی طرفداری نہ کرتے تھے، اس پر طرہ یہ کہ جب کبھی میں نے کسی مقدمہ کے فریقین سے یہ کہا کہ واقعات کے پیش نظر انہیں آپس میں راضی نامہ کر لینا چاہیے تو دونوں فریق خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم بیک آواز یہ کہتے تھے کہ چوہدری نواب دین صاحب کو ثالث مقرر کر دیا جائے اور چوہدری صاحب ہمیشہ معذرت خواہ ہوتے تھے۔

ایک دفعہ مَیں ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران ایک فریق کے کسی فعل پر ناراض ہوگیا اور میں نے اس فریق کو بر سرِ اجلاس سخت الفاظ میں سرزنش شروع کی۔ چوہدری نواب دین صاحب نے فوراً ایک چٹ پر یہ لکھ کر میرے آگے خاموشی سے رکھ دی کہ ’’نماز کا وقت ہوگیا ہے‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ میں غالبا ًضرورت سے زیادہ سختی کر رہا ہوں چنانچہ میں فوراً نماز کے لیے اٹھا۔ جب نماز سے فارغ ہوکر واپس کمرہ عدالت میں آیا تو چوہدری صاحب نے مجھے بتایا کہ جس شخص کو میں سرزنش کر رہا تھا وہ سیالکوٹ کے ایک مشہور وکیل کا والد تھا اور خود ہیڈ ماسٹر رہ چکا تھا۔ اس پر جب مقدمہ دوبارہ پیش ہوا تو میں نے اپنی تیز کلامی کے لیے ہیڈ ماسٹر صاحب سے معذرت چاہی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے نہایت خندہ پیشانی سے کہا ’’جج صاحب! میرا چوتھا لڑکا آپ کی عمر کا ہے وہ کبھی کبھی تیز کلامی کر ہی لیتا ہے۔ آپ مجھے علم ہے نہایت دیانتدار اور نیک نیت افسر ہیں۔ ان خصوصیتوں کے پیش نظر آپ کی تیز کلامی ہمارے سر آنکھوں پر۔‘‘ میں نادم ہوا۔ اس کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب جب کبھی عدالت میں آئے تو میں ان سے نہایت عزت سے پیش آتا رہا۔ چند دنوں کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب کا بڑا لڑکا جو سیالکوٹ کے چوٹی کے وکیلوں میں تھا، مجھے خاص طور پر ملنے آیا اور اس نے میرا شکریہ ادا کیا۔

میں نے ایک دفعہ چوہدری نواب دین صاحب سے پوچھا کہ انہوں نے اپنی ملازمت میں اتنی دیانتداری کیسے اختیار کی؟ انھوں نے اپنا قصہ یوں بیان کیا کہ کوئی 17،16 سال کی عمر میں انھوں نے ملازمت شروع کی تھی، دفتر سے فارغ ہوکر اپنے گاؤں ہر روز شام کو چلے جاتے تھے۔ ابھی ملازمت ہوئے تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ ایک مقدمہ والے سے ایک روپیہ رشوت کا لیا، شام واپس گھر جاکر کھانا کھایا۔ جاڑے کا موسم تھا، نماز شروع کی جوں ہی اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ پڑھا، خیال آیا کہ رشوت لے کر صراط مستقیم کی دعا کس قدر بے معنیٰ ہے۔ رقّت طاری ہوگئی، نماز وہاں ہی چھوڑ دی، دو میل پر اس اہل مقدمہ کا گھر تھا، اُسے جاکر روپیہ واپس کیا اور پھر لوٹ کر نماز مکمل کی۔ اس کے بعد کبھی کوئی رشوت وغیرہ لینے کا خیال نہیں آیا۔ تنگدستی میں بھی خدا کا شکر کیا اور اس طرح زندگی گذاری، طمانیت قلب حاصل رہی۔

چوہدری صاحب کی توسیع ملازمت کا سال گذرنے پر میں نے پھر سفارش کی کہ اور توسیع دی جاوے، ایک سال اور مل گیا۔ وہ بھی ختم ہونے والا تھا کہ میں نے پھر اپنی سفارش کو دوہرایا، ڈسٹرکٹ جج صاحب نے جواباً لکھا کہ دوسروں کی حق تلفی ہوگی۔ میں نے اس پر یہ نوٹ لکھا کہ اگر چوہدری نواب دین کو مزید توسیع ملازمت نہ دی گئی تو میں سمجھوں گا کہ حکومت کا یہ دعویٰ کہ ایماندار ملازمین کی قدر کی جاتی ہے، بالکل نادرست ہے۔ اس پر مزید ایک سال انھیں مل گیا۔ بعض لوگوں نے اپیلیں کیں جو لاہور ہائی کورٹ میں مسٹر جسٹس سکمپ کے روبرو پیش ہوئیں، وہ گورداسپور میں ڈسٹرکٹ جج رہ چکے تھے اور میرے تعلقات ان سے نہایت اچھے تھے، دوران سماعت انہوں نے اپیلائنان کو کہا کہ سب جج نے لکھا ہے کہ مزید توسیع ملازمت نہ ہوئی تو وہ سمجھے گا کہ گورنمنٹ ایماندار اہل کاروں کی قدر نہیں کرتی۔ اس پر ایک اپیلانٹ نے کہا کہ افسران سفارش کرتے وقت ایسے الفاظ لکھ ہی دیا کرتے ہیں۔ فاضل جج صاحب نے جواب دیا کہ وہ سب جج سے ذاتی طور پر واقف ہیں وہ اپنے حقیقی بھائی اور بیٹے کو بھی غلط سرٹیفیکٹ نہ دے گا چنانچہ جملہ اپیلیں خارج ہوئیں اور چوہدری صاحب کو مزید ایک سال کی ملازمت میں توسیع کا حکم بحال رہا مگر میں اس سال کے دوران تبدیل ہوکر بھیرہ چلا گیا۔

چوہدری صاحب کے ریٹائر ہونے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ان کا لڑکا چوہدری فضل الٰہی دیوانی عدالتوں میں ملازم ہوچکا تھا۔ میں نے بھگت جگن ناتھ صاحب کو جو ڈسٹرکٹ سیالکوٹ میں تھے، اس کی بابت لکھا اور سفارش کی کہ اس کے والد کی خدمات کا صلہ اسے ملنا چاہیے۔ بھگت صاحب نے مجھے جوابًا لکھاکہ وہ ہر ممکن مدد چوہدری فضل الٰہی کی کریں گے۔ چوہدری فضل الٰہی نے اپنی ملازمت کس طرح گذاری اس کا مجھے علم نہیں ہے۔

چوہدری نواب دین صاحب عرصہ سے فوت ہوچکے ہیں مگر میں انہیں ہمیشہ عزت سے یاد رکھتا ہوں اور ان کا ذکر متعدد بار اپنے دوستوں سے کرتا رہا ہوں چنانچہ میرے دوست چوہدری عزیز احمد صاحب ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے جو چوہدری نواب دین صاحب کو بخوبی خود بھی جانتے تھے، مجھ سے ان واقعات کو قلمبند کرنے کا کہا۔ ان کے ارشاد کی تعمیل میں مَیں نے یہ سطور لکھی ہیں، ممکن ہے ان سطور کو پڑھ کر کوئی اور اہل کار چوہدری صاحب مرحوم کے نقش قدم پر چلنے کا ارادہ کرلے۔ آخر میں خدائے عزوجل سے دست بدعا ہوں کہ چوہدری صاحب کو غریق رحمت کرے اور ان کی دیانتداری کا صلہ انہیں عطا کرے اور ان کی زندگی کی تقلید کی توفیق دوسروں کو دے۔

کیا خوب آدمی تھا، خدا مغفرت کرے

(الفضل 2؍فروری 1968ء صفحہ5)

آپ کی اہلیہ محترمہ کرم بی بی صاحبہ نے 1906ء میں بیعت کی اور یکم اگست 1958ء بعمر 84 وفات پائی اور بوجہ موصیہ (وصیت نمبر 8059۔ حصہ وصیت 3/1) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔

(الفضل 12 اگست 1958ء صفحہ6)

آپ کے بیٹے چوہدری محمد فضل الٰہی صاحب ریڈر سب جج درجہ اول سیالکوٹ کا ایک خط حضرت مصلح موعود ؓ کے نام سیرت المہدی میں روایت نمبر 759 کے طور پر درج ہے۔

(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

محترم ڈاکٹرا حتشام الحق صاحب مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2021