• 29 اپریل, 2024

’خلافت سے وابستہ یادوں پر‘‘ صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب

صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب کے ساتھ ’’خلافت سے وابستہ یادوں پر‘‘ ایک شام کا اردو ترجمہ اور مختصر رپورٹ

بمقام نیشنل اجتماع مجلس خدام الا حمدیہ برطانیہ 2021ء

اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کےپروگرام کے مطابق پہلے روزمورخہ 18 ستمبر 2021ء کو شام قریباً سوا سات بجے اس سیشن کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے صدر مجلس خدام الا حمدیہ یوکے مکرم عبد القدوس عارف  نے پروگرام میں تشریف لانے پر  مکرم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد  صاحب کا شکریہ ادا کیا  بعد ازاں مکرم میاں صاحب نے بھی صدر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ خدام الا حمدیہ کے ہر پروگرام پر آکر بہت اچھا لگتا ہے۔ مجھے خلافت کی برکات پر  چند سوالات دیئے گئے ہیں ۔ جیسا کہ آپ تمام کو علم ہے کہ دُنیا اس وقت  ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ کووڈ کا دور ہے۔ لندن سے اِسلام آباد شفٹ ہونے کے بعد چند ماہ تو بہت اچھے گزرے لیکن 2019  ء کے آخر میں یہ وائرس آہستہ آہستہ پھیلنا شروع ہوا اور پھر 2020 ء کے اوائل میں برطانیہ پر بھی مشکلات کا دور شروع ہوا۔ ہر احمدی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے لئے دُعا گوتھا۔ ان تمام حالات میں مجلس خدام الا حمدیہ برطانیہ نے اِسلام آباد کی حفاظت کی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر حکومت برطانیہ کے ٹاپ تھنک ٹینک اور مینجمنٹ کی طرف سے مختلف آراء آرہی تھیں کہ آگے کا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے پر ہمارے پیارے حضور تمام لیڈروں سے آگے سوچ رکھتے تھے۔ وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ مسجد مبارک اِسلام آباد میں نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء جمع ہوا کریں گی۔ ساتھ ہی ساتھ مسجد مبارک میں کارپٹ پر ایک کپڑا/ چادر ڈال دی گئی تا وائرس پھیل نہ سکے۔ حضور نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ مسجد مبارک میں آنے والے نمازی سماجی دوری کے ساتھ اور ماسک پہن کر نماز ادا کریں گے۔ مجھے بہت اچھے طرح سے یاد ہے کہ ایک دفعہ نماز پر جاتے وقت میں اپنا ماسک بھول گیا تو میں نے صدر صاحب مجلس سے درخواست کی آپ کے پاس زائد ماسک ہے تو مجھے بھی دے دیں، جس پر صدر صاحب مجلس نے اپنی کار سے مجھے ماسک لا کر دیا اور میں آج بھی ان سے اس بات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

جیسے کہ مجلس خدام الا حمدیہ کے عہد میں لکھا ہے کہ خلافت کی حفاظت کرنی ہے۔ اِسی طرح ہر احمدی حضرت خلیفتہ المیسح کی حفاظت کے لئے پریشان تھا۔ پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب مسجد مبارک میں جمعہ والے دن حضور انور کے علاوہ صرف مؤذن موجود ہوتے تھے۔ اس پر بہت سے احباب بہت غمزدہ بھی ہوئے کہ حضور اکیلے مسجد میں خطبہ دے رہے ہیں لیکن حضور انور نے حکومتی قوانین پر عمل کیا۔ اسی دوران جامعہ احمدیہ برطانیہ کے طلباء کو بھی ہدایت ملی کہ اِسلام آباد میں رہائش رکھ کر ڈیوٹی کی کمی کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد Antibody ٹیسٹ متعارف ہوا اور ہدایت ملی کہ اِسلام آباد میں آنے والے تمام احباب کا Antibody ٹیسٹ کیا جائے اور بعد ازاں Lateral Flow Test بھی شروع ہوگیا۔ یہاں پر مکرم میاں صاحب مسکرائے اور بولے کہ شروع میں یہ نام زبان سے بولنا بھی کافی مشکل لگتا تھا Lateral Flow Test۔ اور پھر آہستہ آہسہ حضور انور کی طرف سے مزید ہدایات موصول ہوتی رہیں جن میں ویکسین لگوانا، سماجی دوری کو برقرار رکھنا اور ماسک پہننا شامل  تھا۔ اِس تمام صورت حال میں مجلس خدام الاحمدیہ نے بہت تعاون کا۔ اِسلام آباد میں داخلے کے لئے Antibodyٹیسٹ کی ذمہ داری بھی مجلس خدام الاحمدیہ نے نبھائی۔ میں ابھی بھی دیکھ رہا ہوں کہ اس اجتماع چند خدام نے ماسک نہیں لگائے ہوئے ہیں ۔ ہم سب کو حضور انور کی ہدایت پر پورا اترتے ہوئے ماسک پہننا چاہیئے۔

*ایک خادم نے سوال پوچھا کہ مکرم میاں صاحب آپ کا لاک ڈاؤن کا تجریہ کیسا رہا۔

مکرم میاں صاحب مسکراتے ہوتے بولے ۔ایک دفعہ کسی نے میرے سے پوچھا کہ خدام الاحمدیہ سے انصاراللہ کا تجربہ کیسا ہے؟ تو میں نے کہا کہ خدام الاحمدیہ سے لاک ڈاؤن کا تجریہ پوچھیں۔ مجھے  لاک ڈاؤن میں اکثر  کالز آتیں تھیں کہ چونکہ میں کافی لوگوں سے ملتا ہوں اور پھر حضور انور سے بھی ملتا ہوں تو کہیں خدا نخواستہ حضور انور تک یہ وائرس نہ پہنچ جائے تو میں نے کہا کہ میں نے آجکل ملنا کافی کم کر دیا ہے۔

*ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ حضور انور کی مجلس خدام الاحمدیہ میں کیا خدمات رہی ہیں۔

مکرم میاں صاحب مسکرائے اور بولے کہ کافی مشکل سوال پوچھا ہے۔ بہرحال حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سائق بھی رہے ہیں۔ منتظم اطفال بھی رہے ہیں۔ ناظم عمومی بھی رہے ہیں۔ مہتمم نیشنل عاملہ ممبر بھی رہے ہیں۔ افریقہ میں بھی خدمات کی ہیں۔ مہتمم تجنید اور مہتمم بیرون بھی رہے ہیں۔ پہلے پوری دنیا کے ایک ہی صدر مجلس خدام الاحمدیہ ہوتے تھے اور مہتمم بیرون کا کام تمام دُنیا کے ممالک سے رپورٹیں لینا ہوتا تھا۔ حضور انور بطور نمائندہ، اجتماع خدام جرمنی میں بھی شامل ہوئے۔ حضور انور آخری مہتمم بیرون تھے۔ مکرم میاں صاحب نے بتایا کہ مجھے یاد ہے کہ 1989ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے مجلس خدام الاحمدیہ کو اجتماع منعقد کرنے کی اجازت ملی لیکن ایک دِن کے بعد روکنے کا کہہ دیا گیا۔ جس پر احباب جماعت بہت روئے اور غمزدہ بھی ہوئے۔ حضور انور نے فرمایا کہ صرف دُعا کرو۔ میاں صاحب نے اس سوال کے آخر میں کہا کہ ہم لوگ بہت خوش قسمت ہیں جو یہاں برطانیہ میں بآسانی اپنے اسلامی منصب و فرائض کو نبھا سکتے ہیں اور کسی قسم کی روک ٹوک نہیں ہے۔

*ایک خادم نے سوال پوچھا کہ بچپن کی کوئی اچھی یاد سے آگاہ کر دیں۔

مکرم میاں صاحب نے بتایا کہ جب برٹش گورنمنٹ کینال سسٹم کو متعارف کروارہی تھی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1930ء میں جماعت کے لئے سندھ میں زمین خریدی۔ اس وقت سفر آسان نہ ہوتے تھے۔ ربوہ سے سندھ تک کا سفر بذریعہ ٹرین قریباً 24 گھنٹے کا ہوتا تھا اور گرمی بھی بہت ہوتی تھی۔ ہم لوگ عموماً ٹرین میں ایک کیبن کرائے پر لے لیا کرتے تھے اور اس طرح سفر انجوائے کرتے تھے۔

*ایک خادم نے سوال پوچھا کہ خلافت کے بعد حضور انور کے ساتھ  آپ کے تعلق میں کس طرح کی تبدیلی آئی ہے ۔

 مکرم میاں صاحب نے بتایا کہ جب حضور انور خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور جب حضور انور کو پگڑی پہنائی گئی اور ’’الیس اللہ بکاف عبدہ‘‘ اور ’’مولا بس‘‘ کی انگوٹھیاں پہنائی گئیں تو وہ موقع میرے لئے بہت اہم تھا اور اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ اب میرا تعلق حضور کے ساتھ ماسٹر اور سرونٹ میں  بدل گیا ہے۔ میں صرف تین میٹر کے فاصلے پر یہ سارا عمل دیکھ رہا تھا ۔ میں اپنے آ پ کو بہت خوش قسمت سجھتا ہوں کہ میں بھی حضور انور کے ہاتھ پر اس دن بیعت کرنے والوں میں شامل تھا۔ 

*ایک خادم نے سوال پوچھا کہ جب آپ والد بنے تو آپ کے کیا جذبات تھے۔ مکرم  میاں صاحب نے بتایا ایک دفعہ میرا بڑا بیٹا سعد میری گود میں تھا اور رو رہا تھا۔ حضور انور نے مجھے فرمایا کہ It’s not an easy task to become a father۔ اس کے بعد میاں صاحب مسکراتے ہوئے بولے کہ I realise now ۔ (اس جملے کے دوران مکرم میاں صاحب نے بتایا کہ اب تو سعد بڑے ہو گئے ہیں اور یہاں اس وقت موجود ہیں)۔

*ایک خادم نے سوال پوچھا کہ جب بھی جماعت پر کوئی مشکل وقت آتا ہے تو حضور انور کا کیا رد عمل ہوتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں مکرم میاں صاحب نے بتایا کہ جب لاہور کا واقعہ ہوا۔ حضور انور کی والدہ محترمہ کی وفات ہوئی اور ابھی حال ہی میں مکرم سّید طالع احمد کی شہادت ہوئی تو ان تمام مواقع پر حضور انور نے بہت حوصلے سے کام لیا۔ مجھے پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ اس وقت حضور انور اندر سے غمزدہ ہیں لیکن اظہار نہیں کرتے۔ حضور ہمیشہ کہتے ہیں کہ خدا کے حضور دعا کرو اور اللہ کی مرضی کے مطابق ہی ہمیشہ رہنا چاہیے۔ ۔ سید طالع احمد شہید کی وفات کی خبر حضور انور کو تہجد کے وقت ملی تھی۔ پریشانی والی کسی صورتحال میں حضور انور خاموش ہوجاتے ہیں اور صرف دُعا کرتے ہیں اور دعا کرنے کا کہتے ہیں۔

*ایک خادم نے مکرم میاں صاحب سے سوال پوچھا کہ آپ کے بطور صدر خدام الاحمدیہ پہلے اجتماع پر کیا تاثرات تھے ۔

 آپ نے بتایا کہ پہلے اجتماع پر حضور کا تینوں دن تشریف لانا، خدام الا حمدیہ کا گروپس کی شکل میں حضور انور سے ملنا میرے لئے بہت خوشی کاباعث تھا۔

*ایک افریقی طفل عزیزم Salik نے مکرم میاں صاحب سے سوال پوچھا کہ جب آپ چھوٹے تھے تو آپ کا بچپن کیسا گزرا۔

 مکرم میاں صاحب نے بتایا کہ میں وقار عمل میں بھی حصہ لیتا تھا۔ سیکورٹی کی ڈیوٹی بھی کرتا تھا۔ جب میں نے اپنی پہلی نائٹ شفٹ کی تو میں بہت خوش تھا۔

اس دلچسپ اور ایمان افروز شام کا اختتام قریبا 7:45  پر ہوا۔ صدر صاحب مجلس نے مکرم میاں صاحب کا  شکریہ ادا کیا اور اُمید ظاہر کی کہ ان شاء اللہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ صدر صاحب نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے اس نشست کے بارے مکرم میاں صاحب سے درخواست کی تو مکرم میاں صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا تھا اب تو میری جان چھوڑ دو۔ اس جملے پر وہاں موجود تمام خدام و اطفال مسکرائے۔ مکرم میاں صاحب نے آخر پر بتایا کہ خدام الاحمدیہ کے چہروں پر ہمیشہ بشاشت ہوتی ہے جو کہ ہم سب کو جوان بنادیتی ہے اور اس طرح انرجی ملتی ہے ۔ اس نشست کے بعد نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں ۔

(ادارہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

دور مسیح موعود