• 27 اپریل, 2024

حضرت بابو محمد نواز خان رضی اللہ عنہ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت بابو محمد نواز خان رضی اللہ عنہ۔ سیالکوٹ

حضرت بابو محمد نواز خان صاحب رضی اللہ عنہ ولد عطا محمد خان قوم افغان شیرانی اصل میں ڈیرہ اسماعیل خان کے رہنے والے تھے لیکن فوج میں ملازمت کے سلسلے میں سیالکوٹ میں مقیم تھے اور یہیں آپ کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔ آپ بیان کرتے ہیں:
’’میں غیر احمدی تھا مگر میری بیوی احمدی تھی۔ حافظ عبدالعزیز صاحب احمدی کی ہمشیرہ تھی۔ حضرت صاحب جب 1904ء میں سیالکوٹ تشریف لائے تو اس وقت مولوی ثناء اللہ صاحب نے سخت مخالفت کی تھی۔ اس شورش کے بعد مَیں مولوی مبارک علی صاحب کے ساتھ سالانہ جلسہ پر گیا۔ مولوی عبدالواحد صاحب جو آج کل میرٹھ میں سائیکل مرچنٹ ہیں وہ بھی ساتھ تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے بھی بیعت کرانے میں میری امداد کی۔ مولوی صدرالدین صاحب میرے دوست تھے۔ میرا حضور سے تعارف کرایا گیا مگر میں حضور سے بات کرنے میں حجاب رکھتا تھا۔ مولوی مبارک علی صاحب نے عرض کی کہ حضور یہ علاقہ صوبہ سرحد کے ہیں۔ سیالکوٹ میں ملازمت کے سلسلہ میں رسالہ نمبر 15میں اسکوڈررائٹر ہیں۔ بیوی ان کی احمدی ہے اور میں نے ہی ان کا نکاح پڑھا ہے۔ ان کو بھی ہمارے سلسلہ سے بہت لگاؤہے لیکن والدین کی مخالفت سے بہت ڈرتے ہیں اور بیعت کے لئے یہ آئے ہیں۔ حضور نے فرمایا:
’’بغیر مشکلات اور تکالیف کے کوئی اعلیٰ چیز میسر نہیں ہوتی اور پھر خدا تعالیٰ کی ہستی کو حاصل کرنے کے لئے اگر انسان مشکلات میں مبتلا نہ ہو تو کس طرح صادق الایمان ہو سکتا ہے۔‘‘

اس کے بعد حضور نے میری بیعت لی۔ بیعت کرنے والے اور بھی بہت سے دوست تھے۔ یہ بیعت مسجد اقصیٰ میں ہوئی۔ جب میں بیعت کر کے سیالکوٹ آیا اور نماز جمعہ پڑھنے کے لئے غلام قادر اینڈ سنز صدر بار سیالکوٹ جن کا سارا خاندان احمدی تھا ان کے ہمراہ نماز پڑھنے کو جا رہا تھا کہ مسجد کے کونے میں میرے والد صاحب، چچا اور چند ایک فوجی سپاہیوں نے مجھ کو پکڑ لیا اور مجھے ملزم کی طرح گرفتار کر کے کور نمبر 32 کے حوالات میں بند کر دیا۔ غلام قادر صاحب اور چند اور معزز احمدی انسپکٹر پولیس کے پاس گئے اور تمام حالات ان کو سنائے۔ انسپکٹر صاحب فورًا موقع پر آئے اور حوالات سے مجھے رہائی دلائی۔ رہائی کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ یا تو تم میرے گھر سے نکل جاؤ یا اس بیوی کو طلاق دے دو کیونکہ اس کی وساطت سے تم نے اپنا دین خراب کیا ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو دین کو سنوارا ہے خراب نہیں کیا اور نہ میں اپنی بیوی میں کوئی نقص دیکھتا ہوں۔ ہاں خوبیاں بے شمار ہیں۔ اخیر میرے رشتہ دار چچا، تایا، والد صاحب اور محلہ داروں نے جمع ہو کر کہا کہ ایسی صورت میں کہ تم احمدی ہو ان کے ساتھ رہ نہیں سکتے۔ میری بیوی کے زیورات ، کپڑے اور میرے کپڑے اور سامان سب کچھ اپنے قبضہ میں کر لیا اور مجھ کو گھر سے نکال دیا۔ اس کے بعد وہ میرے رسالہ میں گئے جہاں میں ملازم تھا۔ وہاں کہا کہ چونکہ یہ عیسائی ہو گیا ہے اس لئے یہ اب اسلامی رسالہ میں ملازمت کے لائق نہیں رہا۔ اخیر جب میں نے رسالہ میں بھی بہت تکلیف اٹھائی تو اپنا نام خارج کرا لیا۔ اس کے بعد میں نے حافظ عبدالعزیز صاحب کی امداد سے سلسلہ چھاپہ خانہ میں ملازمت کی اور آج تک اپنے وطن نہیں گیا اور والدین اور رشتے داروں کو چھوڑ دیا اور خدا کی رضا کے ساتھ اکیلا گزارا کر رہا ہوں۔

ایک اور قابل ذکر بات یاد آگئی۔ 1906ء میں یہاں سیالکوٹ میں طاعون کا از حد زوروشور تھا۔ رسالہ بند ہو گیا۔ ہر طرف مردے ہی مردے نظر آتے تھے۔ مولوی مبارک صاحب صدر میں مولا بخش صاحب کے مکان پر درس (دے) رہے تھے ۔ میں لیٹا ہوا تھا۔ مجھے بھی طاعون کی گلٹی نکل آئی۔ میں نے دعا کی کہ یا مولا! میں نے تو تیرے مامور کو مان لیا ہے اور مجھے بھی گلٹی نکل آئی ہے۔ بس اب میں تو گیا مگر خدا کی قدرت کہ صبح تک وہ گلٹی غائب ہو گئی اور میرا ایک ساتھی محمد شاہ ہوا کرتا تھا۔ اسے میں نے دیکھا کہ مرا پڑا ہے۔ محمد شاہ اور میں دونوں ایک کمرہ میں رہتے تھے۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر10 صفحہ141-143)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت کے ساتھ کامل اطاعت کا جذبہ رکھتے ہوئے منسلک ہوگئے، خلافت کی صداقت میں خود بھی رؤیا میں تسلی پا چکے تھے، آپ نے ایک مرتبہ الفضل میں اپنی یہ رؤیا شائع کرائی:
’’میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ یہ بیان کرتا ہوں کہ میں نے ماہ جولائی 1913ء یا 1914ء کو رؤیا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام مسجد میں تشریف رکھتے ہیں اور بہت سارے اپنی جماعت کے آدمی اور مخالفین میں سے بھی موجود ہیں۔ آپؑ سٹیج کے قریب لیکچر دینے کے لیے کھڑے ہوئے، پیشتر ازیں کہ آپ لیکچر شروع کرتے، آپؑ نے حضرت مرزا محمود احمد بشیر الدین خلیفۃ المسیح الثانی کو کھڑا کر کے جماعت کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ مولا کریم کے وہ تمام وعدے جو میرے ساتھ تھے، وہ اس کے وقت میں پورے ہو رہے ہیں۔ ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

خاکسار محمد نواز خان مینجر جنرل سیونگ مشین کمپنی جہلم‘‘

(الفضل 29؍ستمبر 1921ء صفحہ2)

آپ پہلے فوج میں ملازم تھے بعد ازاں Singer نامی سلائی مشین بنانے والی کمپنی کی ایجنسی کھول لی۔ آپ نے 9؍نومبر 1967ء کو 78 سال کی عمر میں وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 1747) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ آپ کی وفات پر آپ کے داماد محترم چوہدری عبدالسلام اختر صاحب ایم اے نے لکھا:
’’خاکسار کے خسر محترم جناب بابو محمد نواز خان صاحب مرحوم ….. کے بعض اوصاف حمیدہ اتنے نمایاں تھے اور ان کی بعض خوبیاں ایسا رنگ رکھتی تھیں کہ اُن کا ذکر کیے بغیر دل تسکین نہیں پاتا۔

محترم خان صاحب نے خلافت اولیٰ کے اتبدائی ایام میں بیعت کی (یہ سہو معلوم ہوتا ہے کیونکہ رجسٹر روایات صحابہ کے مندرجہ بالا روایت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت اقدسؑ کی زندگی میں بیعت کر لی تھی۔ ناقل) اور پھر بیعت کے فوراً ہی بعد اپنے ایمان میں ایسی استقامت اور اپنے اخلاص میں ایسی پختگی دکھائی کہ ڈیرہ اسماعیل خاں میں جہاں ان کے بھائی اور دیگر رشتہ دار نہایت اعلیٰ عہدوں اور وسیع زمین پر متمکن تھے، باوجود اُن کے شدید اصرار کے نہیں گئے، مجھ سے کئی دفعہ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ مجھے بڑے اصرار سے بلاتے ہیں مگر ان کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں اور مجھے بار بار خیال آتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے کوئی طعنہ دیں یا طنز کریں، مَیں اسے برداشت نہیں کر سکوں گا اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہی رشتہ جوڑا ہے تو غیر اللہ کے آگے جھکنا کیا معنیٰ؟ زیادہ سے زیادہ جائیداد یا زمین ہی ہے نا؟ یہ چیزیں تو سب یہیں رہ جاتی ہیں۔ اُن کی ایک بہن جو اَب نہایت ضعیف ہو چکی ہیں ہنوز ڈیرہ اسماعیل خان میں ہیں، دونوں بہن بھائیوں میں شدید محبت تھی مگر غالبا ً25 سال سے دونوں نے ایک دوسرے کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھا البتہ دونوں طرف سے جب ان کے عزیز ایک دوسرے سے ملتے تو وہ بتاتے کہ بہن آہ بھر کے کہتی ہے کہ کاش ایک دفعہ میرا بھائی میرے پاس آ جائے تو میری بھی عید ہوجائے مگر محترم خان صاحب نے ارادہ کیا کہ وہاں نہیں جانا تو پھر ہرگز نہیں گئے۔ بہن کا ذکر آتا تو آبدیدہ ہوتے جاتے مگر پھر تبلیغی رنگ میں باتیں شروع کر دیتے۔ آخر وقت تک یہی کیفیت رہی …..

محترم خان صاحب اپنی سروس کے ابتدائی ایام میں صوبیدار میجر تھے اور وہاں سے اپنی ملازمت پوری کر کے سیالکوٹ میں آباد ہوئے اور سنگر مشین کمپنی کی ایجنسی لے لی۔ نہایت جفاکش، محنتی اور انتہائی سادہ مزاج تھے۔ اپنے عزیزوں اور بچوں سے بے حد پیار اور شفقت کا سلوک رکھتے تھے …..‘‘

(الفضل ربوہ 15؍نومبر 1967ء صفحہ5)

آپ کی اولاد میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹے ناصر احمد تھے۔ بڑی بیٹی محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالمنان راشدی صاحب ایک لمبا عرصہ سیالکوٹ شہر کی صدر لجنہ رہیں۔ ایک بیٹی محترمہ شوکت اختر صاحبہ اہلیہ مکرم عبدالسلام اختر صاحب نے 19؍مئی 2002ء کو وفات پائی۔

(الفضل 15؍جون 2002ء)

(نوٹ: آپ کی تصویر محترم ندیم طاہر صاحب آف مسی ساگا، ٹورنٹو نے فراہم کی ہے۔ فَجَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا)

(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

سورۃ الحجر اور النّحل کا تعارف ازحضرت خلیفۃ المسیح الرابع

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2021