بد رسوم کی طرف جانے کا بہانہ
’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
ایک دفعہ خاکسار نے ایک احمدی با علم اور صاحبِ قلم شاعر و ادیب خاتون سے رسومات اور بدعات کے حوالے سے ایک تحریر لکھنے کی درخواست کی تو انہوں نے حوالوں سے آراستہ ایک مختصر سا کتابچہ بعنوان ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ تحریر کر کے مجھے پڑھنے کو دیا۔ آغاز میں تو مجھے یہ عنوان عجیب سا محسوس ہوا کہ کہا کیا تھا اور لکھ کر کیا لے آئی ہیں؟گویا سوال گندم جواب چنا والی بات ہوگئی ۔ لیکن جب میں نے مضمون پڑھنا شروع کیا تو دل میں اُترتا گیا اور عنوان کی اہمیت و افادیت بڑھتی چلی گئی۔ اس سارے مضمون کا لُب لباب یہ تھا کہ ہم میں سے اکثر لوگ رسومات اور بدعات کو اس لئے اپناتے اور بجا لاتے ہیں کہ اگر ہم نے ان کو نہ اپنایا اور شادی بیاہ کے مواقع پران پرعمل نہ کیا تو ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ معاشرے میں ہماری عزت دو کوڑی کی نہیں رہے گی۔ اپنی عزت بچاتے بچاتے اور صرف اپنی موم کی ناک اونچی رکھنے کے لئے ایسا کرجاتے ہیں۔ پھر اس نام سے یہ کتابچہ شائع بھی ہو گیا۔ فَجَزَاھَا اللّٰہُ خَیْرًا۔
اب میرے ایک قابلِ احترام دوست ’’ابن منور‘‘ نے از راہ تفنن ایک عبارت مجھے بھجوائی جوکسی قبر کے ایک کتبہ پر لکھی ہوئی تھی۔ عبارت یوں ہے ’’ساری زندگی اسی فکر میں گزر جاتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ آخر میں لوگ صرف اتنا ہی کہتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ‘‘
در اصل کتبہ پر لکھے ان الفاظ میں انسان کی اصلیت اور آخری انجام بیان ہوا ہے۔ انسان کی تو اوقات ہی یہ ہے کہ وہ جب پیدا ہوا تو کپڑوں کے بغیرتھا اور وفات کے بعدبھی صرف اَن سلے دو کپڑوں میں واپسی کی راہ لیتا ہے، اس کا ساز و سامان، اس کا زرو دولت، اس کی جائیداداور مال و متاع کسی کام نہیں آتا۔ ہاں اگر کام آئیں گے تو اس کے اعمال و اخلاق۔ اگر اچھے ہوئے تو جنت میں لے جائیں گے اور اگر بُرے ہوئے تو بغرض علاج جہنم کے ہسپتال میں داخل کر دیا جائے گا۔
اس میں یہ سبق ہے کہ امیر و غریب، اچھے اور بُرے عمل والے کی آخری آرام گاہ یہی دو گز لمبی اور ایک گز چوڑی قبر ہے۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا انجام سنوارنے کے لئے اعمالِ صالحہ بجا لانے چاہئیں اور غیر اسلامی رسومات اور ہندوانہ بدعات سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ جو آخر کار شرک کی طرف لے جاتی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اصل بات یہ ہے کہ جبتک اللہ تعالےٰ کسی کی آنکھ نہ کھولے آنکھ کُھلتی نہیں۔ ان لوگوں نے دین صرف چند رسُوم کا نام سمجھ رکھا ہے حالانکہ دین رسُوم کا نام نہیں ہے۔ ایک زمانہ وہ ہوتا ہے جبکہ یہ باتیں محض رسم اور عادت کے طور پر سمجھی جاتی ہیں۔ یہ لوگ اسی قسم کے ہو رہے ہیں۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جن کو نماز اور روزہ سکھایا گیا تھا ان کا اَور مذاق تھا وہ حقیقت کو لیتے تھے اور اسی لئے جلد مستفیض ہوتے تھے۔ پھر مدت کے بعد وہی نماز اور روزہ جو اعلیٰ درجہ کی طہارت اور خدارسی کا ذریعہ تھا ایک رسم اور عادت سمجھا گیا۔ پس اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اصل امر دین کو جو مغز ہے تلاش کرے۔
یاد رکھو! انسان کو اللہ تعالیٰ نے تعبّدِ ابدی کے لئےپیدا کیا ہے۔ اس لئے اس کو چاہیئے کہ اسی میں لگا رہے۔ اس جہان کی جس قدر چیزیں ہیں۔ بیوی، بچّے، احباب، رشتہ دار، مال و دولت اور ہر قسم کے املاک ان کا تعلق اسی جہان تک ہے۔ اس جہان کو چھوڑنے کے ساتھ ہی یہ سارے تعلقات قطع ہو جاتے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ ہے اور اس جہان میں بھی اور اس جہان میں بھی اس کی ضرورت ہے اس لئے سچا تعلق اسی کے ساتھ ہونا چاہیئے کیونکہ نجات ابدی اسی کے ساتھ وابستہ ہے جو خدا تعالےٰ کی معرفت، محبت اور صدق، وفاداری کے تعلق پیدا کرنے سے ملتی ہے۔ یہانتک تو سب مذاہب متفق ہیں وہ نجات کا یہی ذریعہ سمجھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ باتیں حاصل کیونکر ہوں؟ یہی وہ مقام ہے جہاں سے مذاہب کا تفرقہ شروع ہوتا ہے۔ اب جس مذہب نے حصول نجات کے عمدہ وسائل پیدا کئے ہیں اور جو مذہب تاثیر اور جذب اور کشش اپنے اندر رکھتا ہے وہ سچا ہے لیکن جس مذہب کے اندر وہ تاثیر اور جذب نہیں جس کی عملی تاثیروں کا کوئی نمونہ پایا نہیں جاتا وہ خواہ خدا تعالیٰ کو واحد ہی کہے لیکن جُھوٹا ہے۔ یہ توحید اس کی محض قال کے رنگ میں ہے حالی کیفیت اس میں پائی نہیں جاتی۔ حالی کیفیت تو اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ غیر کا وجود بالکل نابود ہو جاوے۔ اللہ تعالےٰ ہی پر بھروسہ کرنے والا ہو۔ اسی سے ہر ایک امید و خوف ہو۔ جب تک یہ بات عملی طور پر پیدا نہ ہو نِرے قال سے کچھ نہیں بنتا۔ مثلًا اللہ تعالیٰ کو واحد سمجھتا ہے پھر دوسرے سے بھی تعلق رکھتا ہے تو توحید کہاں رہی؟ یا خدا تعالیٰ کو رازق مانتا ہے مگر کسی دوسرے پر بھی بھروسہ کرتا ہے یا دوسرے سے محبت کرتا ہے یا کسی سے امید اور خوف رکھتا ہے تو اس نے واحد کہاں مانا؟ غرض ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے سے توحید حقیقی متحقق ہوتی ہے مگر یہ اپنے اختیار میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی ہستی پر کامِل یقین سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد7 صفحہ449-448 ایڈیشن 1984ء)
پھر فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے مَا یَفۡعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمۡ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ یعنی اگر تم شکریہ ادا کرو اور ایمان لاؤ تو خدا نے تمہیں عذاب کر کے کیا لینا ہے۔ یہ تمہارے بد اعمال ہی تم کو عذاب میں گراتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد9 صفحہ226 ایڈیشن 1984ء)
پھر فرمایا:
’’یہ بھی ان لوگوں کی غلطی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم نماز روزہ ادا کرتے ہیں اور تمام اعمالِ حسنہ بجا لاتے ہیں، ہمیں کیا ضرورت ہے؟ یہ نہیں جانتے کہ اعمالِ حسنہ کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ ہر قسم کے شرک انفسی آفاقی کا نکالنا، خلوص لذّت اور احسان کے ساتھ عبادت بجا لانا یہ کوئی اختیاری بات نہیں ہے۔ اس کے واسطے آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم کی پیروی نہایت ہی ضروری ہے۔ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے محبوب بن جائیں تو آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرو۔ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ نیک اعمال کی توفیق فضلِ الہٰی پر موقوف ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو اندر کی آلودگیاں دور نہیں ہو سکتیں۔ جب کوئی شخص نہایت درجہ کے صدق اور اخلاص کو اختیار کرتا ہے تو ایک طاقت آسمانی اس کے واسطے نازل ہوتی ہے۔ اگر انسان سب کچھ خود کر سکتا تو دُعاؤں کی ضرورت نہ ہوتی۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں اس شخص کو راہ دکھاؤں گا جو میری راہ میں مجاہدہ کرے۔ یہ ایک باریک رمز ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ تم سب اندھے ہو مگر وہ جس کو خدا آنکھیں دے۔ اور تم سب مُردے ہو مگر وہ جس کو خدا تعالےٰ زندگی دے۔‘‘
(ملفوظات جلد8 صفحہ202-201 ایڈیشن 1984ء)
عمل میں بدی کی آمیزش نہ ہو۔ کے حوالہ سے فرمایا۔
’’اللہ تعالےٰ فرماتا ہے۔ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا (پ 16رکوع 3) عمل صالح سے یہاں یہ مراد ہے کہ اس میں کسی قسم کی بدی کی آمیزش نہ ہو۔ صلاحیت ہی صلاحیت ہو۔ نہ عُجب ہو۔ نہ کبر ہو۔ نہ نخوت ہو۔ نہ تکبر ہو۔ نہ نفسانی اغراض کا حصّہ ہو۔ نہ رو بخلق ہو۔ حتّٰی کہ دوذخ اور بہشت کی خواہش بھی نہ ہو۔ صرف خدا تعالےٰ کی محبت سے وہ عمل صادر ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد8 صفحہ107 ایڈیشن1984ء)
پھر فرمایا:
’’کہتے ہیں کہ کوئی محدِّث وعظ کرتا تھا۔ ایک صُوفی نے بھی سُنا اور اس کو کہا کہ محدِّث صاحب زکوٰۃ بھی دیا کرو۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو مال ہی نہیں۔ زکوٰۃ کس چیز کی دُوں؟ صُوفی بولا۔ چالیس حدیثیں لوگوں کو سُنایا کرو تو ایک پر آپ بھی عمل کر لیا کرو۔‘‘
(ملفوظات جلد8 صفحہ107 ایڈیشن 1984ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام صوفیوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ صاحبِ حال (یعنی عمل کرنے والے ہوتے ہیں۔ ناقل) صاحبِ قال نہیں۔ نیز فرمایا:
’’صوفی تو ایسے ہیں جیسے ہر وقت کوئی مرنے کو تیار رہتا ہے۔ ان کی کتابوں کو پڑھ کر طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔ ان سے خوشبو آتی ہے کہ وہ صاحبِ حال ہیں صاحبِ قال نہیں۔ اگر فراستِ صحیحہ ہو تو انسان ان باتوں کو سمجھ لیتا ہے۔ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فتوح الغیب بڑی ہی عمدہ کتاب ہے۔ میں نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا ہے۔ بدعات سے پاک ہے۔ بعض کتابیں صوفیوں کی اس قسم کی بھی ہیں کہ ان میں بدعات بھی داخل ہو گئی ہیں۔ لیکن یہ کتاب بہت ہی عمدہ ہے۔ فقیروں میں بھی ایک آفت پڑی ہے یعنی بعض فقیر تو ہوئے مگر وحدت وجودی ہو گئے اور خودہی خدا بن بیٹھے۔‘‘
(ملفوظات جلد8 صفحہ52 ایڈیشن 1984ء)
ایک موقع پر فرماتے ہیں:
’’قول اور عمل کی مثال دانہ کی ہے۔ اگر کسی کو ایک دانہ دیا جاوے اور وہ اسے لیجا کر رکھ چھوڑے اور استعمال نہ کرے تو آخر اُسے پڑے پڑے گُھن لگ جاوے گا۔ ایسے ہی اگر قول ہو اور اس پر عمل نہ ہو تو آہستہ آہستہ وہ قول بھی نہ رہے گا۔ اس لئے اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیئے۔‘‘
(ملفوظات جلد7 صفحہ117 ایڈیشن 1984ء)
پس آج ضرورت اس امر کی ہے کہ روز مرہ زندگی گزارنے کے لئے جو بھی عمل ہم کریں۔ اس وقت ہمیں اسلامی تعلیم مد نظر رکھنی چاہیئے اور یہ خیال رہے کہ اگر ہمارا فعل اسلامی تعلیم کے خلاف ہو تو فوراً یہ ذہن میں آئے کہ خدا کیا کہے گا؟ نہ یہ کہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہم غیر دینی رسومات اور بدعات کی طرف بھاگیں اور ان پر صرف اس لئے عمل کریں کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل توقع پر پورا اُتریں۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’ہماری جماعت میں عمدہ اور اعلیٰ درجہ کے نیک چال چلن کے لوگ ہیں۔ اور وہ سب حسنہ صفات سے متصف ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ163 ایڈیشن 2016ء)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی تعلیم کی صفات حسنہ سے متصف فرمائے۔ آمین۔
(ابو سعید)