• 27 اپریل, 2024

جواں بزرگ، سید طالع احمد شہید!!

؎خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپرد خاک کیا

محترم سید طالع احمد شہید کا ذکر خیر پیارے آقا کے خطبے میں سن کر ہر احمدی کا دل گداز اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔ سب ایسے فدائی اور گوناگوں خوبیوں کے حامل جوان بزرگ کی خوبیوں کو سن کر ششدر تھے کہ کیسے اتنی چھوٹی عمر میں وہ ایسی مثالیں قائم کر گیا جو ہمیشہ دوسروں کے لیے مشعل راہ بنتی رہیں گی۔

جماعت احمدیہ کی تاریخ ایسی بے مثال ہستیوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کیا، جنہوں نے ایسی کامل وفا اور اطاعت گزاری کا نمونہ دکھایا کہ وہ ہمیشہ تاریخ احمدیہ میں زندہ و جاوید رہیں گے۔ سید طالع ایک ایسا ہی قیمتی وجود تھا جسے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے ہیرے سے تشبیہ دے کر جماعت کو اس کی قدروقیمت سے بخوبی آگاہ کردیا۔ خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسرا شہید سید طالع احمد پہلے شہید مرزا غلام قادر شہید صاحب کا داماد تھا۔

اس ضمن میں تذکرہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کے ایک کشف کا ذکر کرنا چاہوں گی۔ صاحبزادہ پیر سراج الحق رضی اللہ تعالی نے بیان کیا کہ ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’ایک گھنٹہ ہوا ہو گا ہم نے دیکھا کہ والدہ محمود قرآن شریف آگے رکھے ہوئے پڑھتی ہیں۔ جب یہ آیت پڑھی:

وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ والرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا

(النساء: 70)

جب اُولٰٓئِکَ پڑھا تو محمود سامنے آکھڑا ہوا۔ پھر دوبارہ اُولٰٓئِکَ پڑھا تو بشیر آکھڑا ہوا۔ پھر شریف آگیا۔ پھر فرمایا جو پہلے ہے وہ پہلے ہے۔‘‘

( تذکرہ المہدی مصنفہ پیر سراج الحق حصہ دوم جدید ایڈیشن صفحہ 274)( تذکرہ صفحہ نمبر679)

یعنی نبوت کے مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے اور صدیقیت کے درجے پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ تعالیٰ تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ کے حصے میں شہادت کا انعام آیا اور حضرت مرزا شریف احمد رضی اللہ تعالیٰ کے حصے میں صالحین کا درجہ آیا۔ کشوف اور الہامات کا سلسلہ محض ایک انسان کے لیے نہیں ہوا کرتا بلکہ بسا اوقات یہ نسل در نسل چلتے ہیں۔ بڑی مدت بعد بھی بعض الہامات پورے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بے شمار رنگوں میں پورے ہوتے ہیں اور بہت جگہوں پر ان کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ کشف بھی حضرت مرزا غلام قادر شہید کی شہادت کے وقت بعینہ پورا ہوتا نظر آیا اور حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی امۃ اللطیف بیگم صاحبہ کے پوتے سید طالع احمد کی شہادت کے بعد یہ کشف دوبارہ اس رنگ میں پورا ہوتا دکھائی دیا۔ مرزا غلام قادر شہید جو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے شہید تھے حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے تھے اور طالع احمد شہید حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پر نواسے۔ ان کا ایک خواب کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب آپ کو ذبح کرنے کے لیے بلا رہے ہیں بھی اسی الہام کے ذریعے پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ شہادت کا درجہ حضرت مرزا بشیر احمد کے حصے میں آیا تھا۔ اور ان دونوں شہادتوں نے اس کشف کو پورا کر دیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسی خطبہ جمعہ میں سید طالع احمد شہید کے والد مکرم سید ہاشم اکبر کے ایک خواب کا بھی ذکر فرمایا جو انہوں نے اپنی شہادت کے بارے میں دیکھا تھا اور ویسا ہی خواب طالع احمد نے بھی دیکھا۔ تذکرہ میں اس بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خواب موجود ہے جو آپ نے مرزا مبارک احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات سے قبل دیکھا تھا:
’’تخمیناً اگست میں خواب دیکھا ہے آپ بہشتی مقبرہ میں ہیں اور قبر کھدواتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بعض اوقات اگر باپ خواب دیکھے تو اُس سے بیٹا مراد ہوتا ہے اور اگر بیٹا خواب دیکھے تو اس سے باپ مراد ہوتا ہے۔ ایک دفعہ میں خواب میں یہاں (بہشتی مقبرہ) آیا اور قبر کھودنے والوں کو کہا کہ میری قبر دوسروں سے منفرد ہونی چاہیے۔ دیکھو جو میری نسبت تھا وہ میرے بیٹے کی نسبت پورا ہو گیا۔

(تذکرہ صفحہ نمبر517)

سید طالع احمد شہید جوانی میں ہی بزرگی پا گئے تھے۔ عموما سمجھا جاتا ہے کہ بزرگی کا تعلق عمر سے ہوتا ہے لیکن اصل بزرگ وہ ہوتا ہے جو خدا سے اپنا مضبوط ایسا تعلق جوڑ لیتا ہے جیسا محترم شہید کا تھا۔ جیسا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’خلافت سے وفا اور اخلاص کا ایسا ادراک، دین کا گہرا علم رکھنے والے بھی نہیں سمجھتے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3ستمبر 2021)

بزرگی صرف عمر سے نہیں ہوتی۔ بزرگی تو عطا ہوتی انہیں ہے جو اسے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، مجاہدہ کرتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر

مبارک وہ جو اَب ایمان لایا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا

ایسے بزرگی رکھنے والے افراد کے متعلق ہی ہے جو آپ کے عہد بیعت میں آکر عشق و وفا کی ایک نئی تاریخ رقم کر گئے ہیں۔ اکثر ہم جب بزرگان ِاحمدیت یا اصحاب کے واقعات سنتے تھے تو یہی سوچتے تھے کہ وہ اُس دور کی باتیں ہیں، اس وقت الگ حالات تھے لیکن طالع ہمیں بتا گیا کہ نہیں نیکی کا یہ میدان تو کھلا ہے۔ خدا کا در تو ہمیشہ ہمیش اپنے مقربین کے لیے وا ہے۔ وہ زندہ خدا اب بھی توکل کرنے والوں کو ایسے ہی پاونڈ دے دیتا ہے جیسے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے چندہ مانگنے پر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے دیا تھا، جس کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا کہ اس کو کسی اور کا ہاتھ نہیں لگا۔ ہمارے یقین کرنے کی، توکل کرنے کی دیر ہے۔ و افوض امری الی اللّٰہ پر عمل کرنے کی بات ہے۔وہ اب بھی مشکلات میں آسانیاں پیدا کر سکتا ہے۔ وہ جو عسر و یسر کا مالک ہے، وہ جو قادر وتوانا ہے، وہ جو رحیم و رحمان ہے اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔ مغربی ممالک میں رہنے والوں کی اکثریت بھی یہی سوچ رکھتی ہے کہ ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے بچوں کی تربیت بھی کچھ الگ نہج پر کرنی پڑتی ہے۔ یہاں کے بچے یہ نہیں کر سکتے،یہاں کے بچے وہ نہیں کر سکتے۔ طالع احمد اپنے عمل سے یہ بتا گئےکہ ان ممالک میں رہنے والے بھی اگرخدائی احکامات پر، قرآنی تعلیمات پر،خلیفۂ وقت کے فرمودات پر عمل پیرا ہونا چاہیں تو ہر گز مشکل نہیں ہے۔ اصل شرط نیت کرنے کی ہے۔ اصل زادِ راہ اھدنا الصراط المستقیم ہے۔ جس کو یہ زادِ راہ حاصل ہو گیاوہ جلد یا بدیر قُرب الہٰی کی منزل پر پہنچ کر ہی دم لے گا۔ اور اس منزل کے انعامات کے نتیجے میں باقی سب دینی اور دنیاوی افضال بارش کی طرح اس پر برسیں گے۔ ان شاءاللہ

اب ہمیں انفرادی طور پر اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے اندر ایک عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار، خلافت کا اطاعت گزار، اسلامی تعلیمات پر پوری طرح سے کاربند، خدمتِ دین کا سچا جذبہ رکھنے والا طالع احمد موجود ہے۔ اگر نہیں تو اسے ڈھونڈنے، اسے بیدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اجتماعی طور پر ہر گھر کا سربراہ اپنے افرادِ خانہ کے جائزے لے کہ کیا ان کے گھروں میں کوئی طالع احمد رہ رہا ہے۔ اسی طرح ہر ماں یہ جائزہ لے کہ کیا اس کی گود میں کوئی طالع احمد پل رہا ہے۔ فی الوقت ہمیں ایسے بہت سے طالع احمد جماعت کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو تب ہی ہم اس قربانی کی قدر کرنے والےہوں گے۔ ورنہ محض لفظ کچھ حقیقت نہیں رکھتے جس قدر بھی لکھ لیے جائیں۔ اگر ان کو پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو انہیں ضبطِ تحریر میں لانے کا مقصد فوت ہو جایا کرتا ہے۔

طالع احمد اپنی جسمانی آنکھیں بند کرکے بہت سوں کی روحانی آنکھیں کھول گئے۔ وہ ہمیں بتا گئے کہ ایک حقیقی احمدی کا کیا مقام ہے ایک واقفِ زندگی کو تقوٰی اور اطاعتِ خلافت کے کس درجے پر فائز ہونا چاہیے کہتے ہیں کہ شہید کی موت قوم کی حیات ہوتی ہے تو اللہ کرے کہ طالع احمد کی شہادت ہمارے ایمان کو دوام بخشنے والی ہو۔ ہماری سستیوں، کمیوں، نااہلیوں کو دور کرنے والی ہو۔ ہمیں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا بنانے والی ہو۔ ہم صرف زبان سے We love Huzoor کہنے والے نہ ہوں بلکہ طالع کی طرح اپنے ہر ہر عمل سے یہ ثابت کر رہے ہوں کہ We love Huzoor ۔ ہم بھی توکل علی اللہ میں نور الدین بننے کی کوشش کریں۔ ہم بھی تہجد میں رو رو کر صراط مستقیم پر چلنے کی دعائیں مانگنے والے ہوں۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری روحوں میں جذب ہو۔ ایسا جذب ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک آتے ہی قطرات محبت ہماری آنکھوں سے رواں ہوں۔ ہمارا عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کامل ہو کہ جب اپنی جان خالق ِحقیقی کے سپرد کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے نام سے ہمیں پکارا جائے۔ وہ حقیقی امتی جس کی شفاعت کا وعدہ آپؐ سے کیا گیا ہے۔ آخر میں پیارے طالع کو اپنے پیارے امامِ وقت کے الفاظ میں خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گی۔

آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے پیارے طالع! میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارے ان آخری الفاظ سے پہلے بھی مجھے پتہ تھا کہ تمہیں خلافت سے پیار اور محبت کا تعلق تھا۔ ہر حرکت و سکون سے جب تمہارے ہاتھ میں کیمرہ ہوتا تھا اور میں سامنے ہوتا تھا تب بھی اور جب تم کیمرے کے علاوہ ملتے تھے۔ چاہے ذاتی ملاقات ہو یا دفتر کے کام سے تمہاری آنکھوں کی چمک سے اس محبت کا اظہار ہوتا تھا۔ تمہارے چہرے کی ایک عجیب قسم کی رونق سے اس محبت کا اظہار ہوتا تھا۔‘‘

پھر مزید فرمایا کہ
’’ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہو گیا ہے۔ لیکن اس کا نقصان ایسا ہے جس نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اے میرے پیارے طالع! میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا تم نے اپنے وقف کے اعلیٰ ترین معیاروں کو قائم کر لیا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3ستمبر 2021)

اس سے بڑھ کر فی زمانہ کون سا اعزاز ہو گا جو کسی کو اس کی خدمات پر ملتا ہو گا۔ کون سا تمغہ اس عزت، محبت سے بڑھ کر ہو گا۔ ایسی مقبول خدمت ِدین جس کو نصیب ہو جائے کہ خلیفۂ وقت اتنے خوبصورت الفاظ میں خراج تحسین پیش کر دیں۔ اسے یہ یقین دلا دیں کہ تم نے وقف کے اعلیٰ ترین معیار کو حاصل کر لیا ہے۔ تم ہر امتحان میں پاس ہو گئے۔ تمہیں قبول کر لیا گیا ان لوگوں کی فہرست میں جو چنیدہ ہوتے ہیں، مقربین ہوتے ہیں۔تم جس نے تمام زندگی خلافت کی اطاعت میں گزاری، جاتے جاتے بھی تمہاری زبان پر وہی محبت تھی کیونکہ تم جانتے تھے کہ اسی محبت سے تمام تر ترقیات جڑی ہوئی ہیں۔ اسی سے ہم سب کی بقا ہے۔ خدا کرے کہ تمہارے خدا کی راہ میں بہے ہوئے تمام قطرات ِخون جماعت ِاحمدیہ کے ترقی کے چمن میں آبیاری کرنے والے ثابت ہوں۔ آمین اللھم، آمین۔


(صدف علیم صدیقی ۔ریجائنا کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

نماز جنازہ حاضر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2021