• 23 جولائی, 2025

خلفائے حضرت مسیح موعودؑ سے منسلک چند یادیں

حضرت مسیح موعود ؑ اپنی کتاب رسالہ الوصیت میں تحریرفرماتے ہیں:
سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلاوے۔ سو اب ممکن نہیں کہ خدا اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے اس لئے تم اس بات سے جو میں نےتمہارےپاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جسکا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔ اور دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔

(رسالہ الوصیت صفحہ10)

حضرت مسیح موعود ؑکی اس تحریر کی صداقت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ میں نظام خلافت جاری فرمایا دیگر باتوں کے علاوہ ایک اہم بات جو آج کے اس مضمون سے متعلق ہےوہ یہ ہے کہ ایک خلیفہ کی وفات کے بعد جونہی نئے خلیفہ کا انتخاب ہوتا ہےتو جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ جماعت مومنین کے دلوں میں اس سے محبت اور جانثاری کے جذبات پیدا کر دیتا ہےوہیں نو منتخب خلیفہ کے دل میں بھی ہرفرد جماعت سے محبت کا بیج بو دیتا ہے۔ آج ان سطورمیں اسی روحانی اور قلبی تعلق کے چند واقعات بیان کرنا مقصود ہے۔ اسی تعلق کے ضمن میں خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے وصال کے بعد خلافت خامسہ کے انتخاب والی رات اور انتخاب خلافت کے حوالہ سے ایک نظم لکھی تھی جسکا ایک شعر یوں تھا:

؎ اک عجب اہل جنوں میں ہے تغیر ساجد
کل جوعاشق تھا وہ معشوق ہوا آج کی رات

جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم کے دوران درجہ ثانیہ کا امتحان دینےکے بعد غالبا ً 1977ء میں ہماری کلاس ہائیكنگ کے لئے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی طرف گئی ان دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اسلام آباد میں رونق افروز تھے۔ چنانچہ ہم مری روڈ راولپنڈی والی مسجد سے حضور رحمہ اللہ کی اقتدا میں نماز ادا کرنے اسلام آباد گئے اور حضور رحمہ اللہ کو بتایا اور دعا کی درخواست کی کہ ہم ہائیکنگ کے لئے جا رہے ہیں۔ ہائیکنگ سے واپس آنے تک حضور رحمہ اللہ ابھی اسلام آباد میں ہی مقیم تھے۔ چنانچہ ہم مغرب کی نماز ادا کرنے اسلام آباد گئے نماز کے بعد جب حضور رحمہ اللہ اپنی رہائش گاہ جانے کے لئے کھڑے ہوئے تو امیر صاحب اسلام آباد نے کسی خدمت کی وجہ سے ایک نوجوان کا تعارف حضور رحمہ اللہ سے کروایا۔ خاکسار اس نوجوان کے ہی ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ حضور رحمہ اللہ نے خاکسار سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا کیا آپ اس کے بھائی ہیں خاکسار نے عرض کیا حضور! نہیں میں جامعہ کا طالب علم ہوں اور ہم ہائیکنگ سے واپس آئے ہیں۔ اسی دوران میں میں نے محسوس کیا کہ نور کی ایک شعاع حضور رحمہ اللہ کے چہرہ پر نور سے نکل کر میرے بدن میں سرایت کر گئی ہے اسی دوران حضور رحمہ اللہ سیڑھیوں سے اوپر کی منزل پر اپنی رہائش گاہ تشریف لے گئے۔ ہائیکنگ پر جانے سے قبل ہم نے درجہ ثانیہ کا امتحان دیا تھا۔ اس نظارے کے بعد یہ بات میخ کی طرح میرے دل میں گڑھ گئی کہ میں امتحان میں پاس ہو گیا ہوں۔ چانچہ ربوہ پہنچ کر پہلا کام یہ کیا کہ سیدھا ناصر ہوسٹل میں آویزاں اس نوٹس بورڈ کی طرف گیا جہاں ہمارے امتحان کا نتیجہ چسپاں کیا گیا تھا۔ نتیجہ کو دیکھ کر میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ہماری کلاس جو کہ تقریبا ً بیس سے زائد طلباء پر مشتمل تھی اس میں سے صرف سات طلباء پاس ہوئے تھے اور ترتیب کے لحاظ سے پاس ہونے والوں میں میرا ساتواں اور آخری نمبر تھا اور بہت سے طلباء جو کلاس میں مجھ سے زیادہ ذہین تھے اور ممہدہ اور اولیٰ کلاسیں اچھے نمبروں سے پاس کر چکے تھے۔ پاس نہ ہو سکے تھے بلکہ ان کی ایک یا دو مضامین میں کمپارٹمنٹ تھی۔ مجھے اس وقت بھی یقین تھا اور آج بھی ہے کہ یہ محض اور محض میرے پیارے آقا کی نظر کرم کا معجزہ تھا۔

1981ء میں جب ہم شاہد کلاس پاس کر چکے تھے تو ہماری کلاس کی ملاقات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ سے ہوئی جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران غالباً بہت زیادہ والی بال کھیلنے کی وجہ سے مجھے ایک تکلیف ہو گئی تھی کہ کئی دفعہ اچانک میرے بائیں بازو اورکندھے میں شدید ارتعاش پیدا ہو جاتا تھا جس سے بازو اور کندھا کانپنا شروع کر دیتے تھے۔ حضور رحمہ اللہ سے ملاقات کے دوران جبکہ ہم لائن میں حضوررحمہ اللہ کے سامنے کھڑے تھے میرے کندھے اور بازو میں ارتعاش شروع ہو گیا۔ حضور رحمہ اللہ نے یہ چیز نوٹ کرتے ہوئے اچانک مجھے پوچھا:

’’جب تم سوئے ہوتے ہو اس وقت بھی تمہارا بازو اور کندھا ہلتا ہے؟‘‘

یہ سوال اتنا اچانک تھا کہ میں نے عرض کیا حضور! نہیں میرے جواب پر حضور نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور ملاقات بھی ختم ہو گئی۔ حضور رحمہ اللہ کے دفتر سے باہر آ کر عملہ حفاظت خاص میں سے ایک دوست محترم چوہدری محبوب احمد صاحب مرحوم نے مجھے کہا کہ جب آپ سوئے ہوتے ہیں تو اس وقت آپ کو کیسے علم ہوتا ہے کہ آپ کا بازو اور کندھا ہلتا ہے کہ نہیں۔ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ خاکسار کے جواب پر حضور رحمہ اللہ نے ہلکا سا قہقہہ کیوں لگایا تھا۔ لیکن وہ دن اور آج کا دن باوجودیکہ پاکستان میں خدمت کے دوران خاکسار والی بال بھی کھیلتا رہا اور دیگر گیموں میں بھی حصہ لیتا رہا، مانچسٹر اور گلاسگو میں قیام کے دوران بیڈمنٹن بھی کھیلی نیز میں کھیلتا بھی بائیں ہاتھ سے ہوں اس کے باوجود آج تک وہ تکلیف عود کر نہیں آئی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

جماعت احمدیہ کے ممبران کے دل میں خلفاء سے محبت اور عقیدت ایک فطری چیز ہے اس کے علاوہ بہت سے غیر احمدی اور غیر مسلم بھی خلفاء مسیح موعودؑسے عقیدت رکھتے ہیں۔ جون 1982ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا وصال ہوا۔ اس وقت خاکسار کو عنایت پور بھٹیاں ضلع جھنگ میں خدمت کی توفیق مل رہی تھی چنانچہ حضور رحمہ اللہ کے وصال کی خبر سن کر خاکسار بھی ربوہ آگیا۔ جب حضور رحمہ اللہ کا جسد خاکی اسلام آباد سے ربوہ پہنچا اور آخری دیدار شروع ہوا تو جب خاکسارحضور رحمہ اللہ کے چہرے کا دیدار کرکے مسجد مبارک کے باہر والے گیٹ کی طرف آ رہا تھا تو اس وقت خاکسار کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب خاکسار نے دیکھا کہ عنایت پور بھٹیاں کے ایک بڑے زمیندار رائے محمد اسلم بھٹی صاحب جو کہ احمدی نہیں تھے بھی دیدار کرنے کے لئے انتظار کرنے والوں کی لائن میں کھڑے تھے اور پسینہ سے شرابور تھے۔ یہ دوست عنایت پور بھٹیاں کی ایک بڑی بھٹی فیملی سے تعلق رکھتے تھے عنایت پور میں ہماری مسجد سے قریب ہی ان کی بہت وسیع حویلی تھی جس میں ہم اکثر والی بال کھیلا کرتے تھے اور یہ خود بھی والی بال کے اچھے کھلاڑی تھے نیز یہ اور ان کی فیملی کے دیگر افراد خاکسار کا بڑا احترام کرتے تھے اور جب کبھی خاکسار والی بال کھیلنے نہ جاتا تو یہ یا ان کے بڑے بھائی جو خود تو والی بال نہیں کھیلتے تھے لیکن ہماری گیم بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ اپنے کسی ملازم کو یا کسی احمدی لڑکے کو بھیج کرمجھے بلواتے تھے۔ بہر حال میں نے انہیں سلام کیا اور حال پوچھا۔ وہ کہنے لگے مربی صاحب میں نے ایک دفعہ حضور کا چہرہ دیکھ لیا ہے لیکن دل کو تسکین نہیں ہوئی اس لئے دوسری دفعہ چہرہ دیکھنے جا رہا ہوں۔

اسی طرح مولانا عبدالوہاب آدم صاحب مرحوم (امیر و مشنری انچارج گھانا) مالی قربانی کی اہمیت بیان کرتے ہوئےایک واقعہ بیان کیا کرتے تھے کہ گھانا کی ایک جماعت کے ایک ممبر نے اپنے مالی حالات کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں قرضہ حسنہ کی درخواست بھجوائی۔ حضور رحمہ اللہ نے اس کی درخواست منظور فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ اس دوست کو قرضہ حسنہ دے دیں لیکن اسے کہیں اس میں سے اپنا چندہ ضرور ادا کرے۔

1996ء میں خاکسار کو معہ اہلیہ گھانا سے رخصت پر پاکستان جاتے ہوئے جلسہ سالانہ یو۔ کے میں شمولیت کا موقع ملا جلسہ کے ایام میں اسلام آباد میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ملاقات کے اختتام پر جب تصویر بنوانے کے لئے کھڑے ہوئے تو خاکسار کی اہلیہ حضور رحمہ اللہ کے دا ئیں طرف کھڑی تھیں اور خاکسار حضور کے بائیں طرف کھڑا تھا اسی دوران حضور رحمہ اللہ نے اپنےدائیں ہاتھ سے خاکسار کا دائیاں ہاتھ مصافحہ کے رنگ میں پکڑ لیا اور خاکسار کو اپنے بالکل قریب کرتے ہوئےگردن کے پیچھے سے اپنا بائیاں ہاتھ خاکسار کے بائیں کندھے پر رکھ کر اپنے اور قریب کر لیا وہ لمحہ اتنا پر سرور تھا کہ وہ احساس آج بھی محسوس ہوتا ہے نیز خاکسار کو یاد نہیں کہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے کب تصویر بنائی۔ حضور رحمہ اللہ کے دفتر سے باہر آنے تک وہ کیفیت خاکسارپرطاری رہی اور اس کی چاشنی بڑی دیر تک محسوس ہوتی رہی

؎ایں سعادت بزور بازو نیست

اپریل 2003ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی رحلت کے بعد اللہ تعالیٰ نے خلافت خامسہ کی شکل میں جماعت کو اسی طرح محبت اور دعائیں کرنے والا ایک اور وجود عطا کر دیا اور محبتوں اور شفقتوں کا وہ سلسلہ جو چند دنوں کے لئے رک گیا تھا دوبارہ شروع ہو گیا۔

خاکسار کو ایک عرصہ سے پِتَہ میں پتھری کی وجہ سے کافی تکلیف تھی جس کی وجہ سے بعض اوقات معدہ میں شدید درد ہوتا تھا پہلے تو ڈاکٹر حضرات السر سمجھتے رہے۔ لیکن پِتَہ میں پتھری کا علم ہونے کے بعد بھی آپریشن کی دو تین دفعہ تاریخ ملنے کے باوجود بعض وجوہات کی بنا پر آپریشن نہ ہو سکا۔ اِس دوران خاکسار کو انفیکشن کے باعث کئی کئی دن ہسپتال میں داخل بھی رہنا پڑا 10مئی 2011ء کو خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز سے مُلاقات کی اور حضور ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے عرض کیا کہ حضور اس بیماری کی وجہ سے شدید تکلیف ہوتی ہے۔ حضور ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے فرمایا :
’’مجھے علم ہے‘‘

پھر چند لمحوں کے توقف کے بعد فرمایا:
’’ہسپتال والوں سے بات کریں اگر وہ پندرہ دن میں اپریشن کر دیں تو ٹھیک ہے ورنہ پرائیویٹ آپریشن کروا لیں اور ڈاکٹر شبیر بھٹی صاحب سے بھی بات کر لیں‘‘

جن احباب کو یورپین ممالک کے نیشنل ہیلتھ سروس کے بارے میں علم ہے وہ جانتے ہیں کہ اِن ممالک میں تو بعض اوقات اپنے ذاتی مُعالج سے ملنے کے لئے بھی کئی دفعہ دو دو ہفتے لگ جاتے ہیں نیز آپ کو ہسپتال والوں یا سرجن کے پاس بھی آپ کا ذاتی مُعالج ہی بھجواتا ہے جو کہ لمبا Procedure ہے۔

حضورایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اِرشاد کی تکمیل میں خاکسار نے ڈاکٹر شبّیر بھٹی صاحب سے بھی بات کی اُنہوں نے کہا ٹھیک ہے۔

اگلے روز خاکسار لندن سے گلاسگو واپس آیا تو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ ذاتی مُعالج یا ہسپتال والوں سے بات کیسے کی جائے۔ اِسی کشمکشں میں 12 مئی 2011ء کو معدے میں شدید درد شروع ہو گئی جس کے باعث خاکسار کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ ہسپتال میں پہلے چند روز تو اِنفیکشن کے باعث کافی تکلیف رہی، ایک دن صبح ڈاکٹر صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ راؤنڈ پر آئے تو خاکسار نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کیا آپ آپریشن نہیں کر سکتے کیونکہ مجھے یہ تکلیف بہت عرصہ سے ہے اور کئی دفعہ آپریشن مُلتوی بھی ہو چُکا ہے۔ وہ ایک Russian ڈاکٹر تھے۔ کہنے لگے ابھی اِنفیکشن بہت زیادہ ہے اس کو ٹھیک ہونے میں دو تین ہفتے لگ سکتے ہیں اس کے بعد کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد خاکسار نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ کیا میں پرائیویٹ آپریشن کروا سکتا ہوں؟ اس پر وہ کہنے لگے کہ آپ پرائیویٹ آپریشن کیوں کروانا چاہتے ہیں؟

میں نے اُن سے کہا کہ مجھے یہ تکلیف کافی عرصہ سے ہے اور اِس کی وجہ سے مجھے شدید درد اور پریشانی ہوتی ہے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میں تو پرائیویٹ آپریشن نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو جانتا ہوں جو پرائیویٹ آپریشن کرتا ہو۔

اگلے روز وہ ڈاکٹر صاحب صُبح راؤنڈ پر آئے اور نارمل چیک اَپ کے بعد چلے گئے، اُدھر خاکسار کے ذِہن میں مُسلسل حضور ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ گردش کرتے تھے لیکن دُعا کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا، اُسی روز دوپہر کے بعد اچانک وہ ڈاکٹر صاحب وارڈ میں آئے اور میرے ساتھ مصافحہ کیا اور کہنے لگے کہ میں نے آپ کے اسکین کا انتظام کیا ہے اور ابھی اسکین کے بعد بیہوش کرنے والی ٹیم کا آدمی آپ کو بریف کرے گا کیونکہ میں نے آج آپ کے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ دیر کے بعد پورٹر آ گیا اور مجھے اسکین کے لئے لے گیا، لیکن اُس وقت خاکسار کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب خاکسار نے دیکھا کہ اسکین کے شُعبہ کی طرف جانے والے راستہ پر اسکین کے شُعبہ سے پہلے ڈاکٹر صاحب خود کھڑے تھے اُنہوں نے پورٹر سے وہیل چئیر لے لی اور خود مجھے اسکین والے کمرہ میں لیکر گئے نیز وہیں بیٹھ کر اسکین دیکھا۔ اس کے بعد خاکسار بیہوش کرنے والی ٹیم کے آدمی کے آنے کا انتظار کرنے لگا، لیکن کوئی نہ آیا جس وجہ سے فطرتی طور پر کچھ پریشانی ہوئی، ابھی خاکسار اِسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ رات کے گیارہ بجے کے قریب ڈاکٹر صاحب آگئے اور معذرت کرنے لگے اور کہا کہ ایک ایمرجنسی کی وجہ سے ہم کافی لیٹ ہو گئے تھے اور بیہوش کرنے والی ٹیم بھی کافی تھکی ہوئی تھی اس لئے میں کوئی رِسک نہیں لینا چاہتا تھا، لیکن کل صُبح سب سے پہلے آپ کا آپریشن ہو گا۔

چنانچہ اگلے روز خاکسار کا آپریشن ہو گیا، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

آپریشن کے بعد وہ ڈاکٹر صاحب روزانہ دو دفعہ راؤنڈ پر آتے تھے، ایک اہم بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ اُس وارڈ میں ہم سات یا آٹھ مریض تھے لیکن ڈاکٹر صاحب جب بھی آتے تو صرف مجھ سے مُصافحہ کرتے تھے۔

25 مئی کو خاکسار کا ایک اور اسکین ہوا تاکہ پتہ چل سکے کہ پِتے سے معدہ میں آنے والی شریان میں کوئی روک تو نہیں۔

26 مئی کو ڈاکٹر صاحب نے خاکسار کو گھر جانے کی اجازت دے دی لیکن دوپہرک و ڈیوٹی پر موجود ایک نوجوان انڈین ڈاکٹر آیا اور کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب نے آپ کو گھر جانے کی اجازت تو دے دی تھی لیکن اسکین کا رزلٹ ابھی نہیں آیا اس لئے ہو سکتا ہے کہ آج رات آپ کو اِدھر ہی روکنا پڑے۔

خاکسار کے ذہن میں خیال آیا کہ حضورایدہ الله تعالیٰ نے پندرہ دن فرمایا تھا اور ہسپتال آئے ہوئے آج مجھے پندرواں روز ہے لیکن ڈاکٹر مجھے کہہ رہا ہے کہ شاید آج رات آپ کو اِدھر ہی روکنا پڑے۔

خاکسار کو اُس ذات کی قَسم جِس کے قبضۂ قُدرت میں میری جان ہے، یہ خیال گُزرے ابھی نصف گھنٹہ بھی نہ گُزرا ہو گا کہ وہی انڈین ڈاکٹر آ کر مجھے کہنے لگا کہ اگر آج اسکین کا رزلٹ آ بھی گیا تو ہم نے کُچھ بھی نہیں کرنا، اس لیے آپ گھر جا سکتے ہیں۔ میں آپ کو فون کرکے اسکین کے بارہ میں بتا دوں گا۔

تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اُس نے فون کر کے بتایا کہ آپ کے اسکین کا رزلٹ کلئیر آیا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

چند سال قبل خاکسار نے معہ فیملی حضور ایدہ الله تعالی بنصرہ العزیز سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران خاکسار کی دونوں بیٹیوں نے حضور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کی خدمت میں یونیورسٹیوں میں اپنے داخلہ کے سلسلہ میں دعا کی درخواست کی۔ خاکسار کی چھوٹی بیٹی نے عرض کیا کہ حضور مجھے تین یونیورسٹیوں کی طرف سے میڈیکل میں داخلہ کے لئے مشروط آفر ہوئی ہے اور مجھے اگلے امتحان میں تین بی گریڈ چاہیں حضور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئے ہلکے سے مزاح کے رنگ میں اس سے پوچھا کہ آپ کو بی چاہیے یا ہنی بی۔ (hony bee) ملاقات کے بعد واپسی پر خاکسار کی بیٹی نے مجھے کہا کہ میں تو حضور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کو دعا کے لئے کہہ رہی تھی اور حضور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز مسکرا رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ مجھے بی چاہیے یا ہنی بی۔ خاکسار نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ایک تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گفتگو کےساتھ ساتھ دعا بھی کرتے ہیں نیز حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کو بی چاہیے یا ہنی بی تو ہنی (شہد) میں شفاء اور مٹھاس ہوتی ہے چنانچہ یہ بڑی اچھی دعا ہے۔ چنانچہ ملاقات کے چند ہفتوں کے بعد اسے یونیورسٹی کی طرف سےبذریعہ ای میل بتایا گیا کہ اب آپ کی بی گریڈ کی شرط ختم کر دی گئی ہے اور آپ کو غیر مشروط داخلہ کی آفر ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کی دعاؤں کے طفیل اگلے امتحان میں تین اے گریڈ حاصل کئے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اور ہماری آہندہ نسلوں کو بھی خلافت کا فرمانبردار بنائے رکھے اور خلفائے کرام کی دعاؤں کا وارث بناتا چلا جائے۔ آمین

(قریشی داؤد احمد ساجدؔ۔ مبلغ سلسلہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اکتوبر 2021