خلفائے احمدیت کی تحریکات
بابت سیرت النبیؐ
رسول کریم ﷺ سے محبت و عشق کے اظہار اور آپ کی ناموس کا خیال جماعت احمدیہ کا طرۂ امتیاز ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی رسول کریم ﷺ سے محبت ہر کس ناکس سے ڈھکی چھپی نہیں اور آپ نے اپنی جماعت میں بھی اس محبت اور عشق کے جذبات کو تحریری و زبانی، نثر اور نظم ہر طور پر جاگزیں کرنے کے لئے سعی فرمائی۔ انہی جذبات کو افرادِ جماعت میں راسخ کرنے کے لئے آپ کے خلفاء نے بھی ہر زمانہ میں یہ کوشش فرمائی کہ بنی نوع کا اپنے آقاﷺ سے محبت و عشق کا گہرا رشتہ پیداہو جائے۔ اسی لئے انہوں نے مخالفین کی مخفی و ظاہری کارروائیوں کے جواب میں مختلف حکمت عملی بطور تحریک بھی پیش فرمائی۔ جن میں سے چند کا تذکرہ مقصود ہے۔
تحفظ ناموس رسالت کی تحریک
خلافت ثانیہ میں بعض بد زبان اور دریدہ دہن آریہ ہمارے پیارے آقا کی ذات بابرکات پر خاص طور پر حملے کررہے تھے۔ آریہ سماج کے ممبرراجپال نام کے ایک شخص نے ’’رنگیلا رسول‘‘ نامی کتاب شائع کی جس میں آنحضور ﷺ کی نسبت نہایت درجہ دلخراش اور اشتعال انگیز باتیں شامل تھیں۔ اس کتاب کے خلاف ایک حکومتی مقدمہ قائم ہوا جو ابھی زیر سماعت تھا کہ امرتسر کے ہندو رسالہ ’’ورتمان‘‘ نے بھی مئی 1927ء کے شمارہ میں ایک بے حد دلآزار مضمون شائع کیا۔ اشتعال انگیز مضمون کے سامنے آتے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک پوسٹر شائع فرمایا جس کا عنوان تھا۔ ’’رسول کریم کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے‘‘۔ جس میں حضور نے نہایت جلالی پُرشوکت انداز میں تحریر فرمایا:
’’ہماری جنگل کے درندوں اور بن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہر گز نہیں ہوسکتی جو رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے والے ہیں۔ بیشک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کرلیں۔۔۔ جس قدر چاہیں ہمارے رسول ﷺ کو گالیاں دے لیں۔ لیکن وہ یاد رکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا ایک اور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے وہ اپنی طاقت کی بناء پر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانون قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے اور قانون قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوئی ہے اسے برا بھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا‘‘۔
پھر تمام مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے بھائیو! میں دردمند دل سے پھر آپ کو کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جو لڑ پڑتا ہے جو لڑ پڑتا ہے وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کرلیتا ہے اور جب تک اس کو پورا نہ کرلے اس سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ پس اسلام کی ترقی کے لئے اپنے دل میں تینوں باتوں کا عہد کرلو۔
اول یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔ دوسرے یہ کہ آپ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے اور اس کام کے لئے اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے اور اس وقت تک بس نہیں کریں گے جب تک کہ مسلمان اس کچل دینے والی غلامی سے بکلی آزاد نہ ہو جائیں اور جب آپ یہ عہد کرلیں تو پھر ساتھ ہی اس کے مطابق اپنی زندگی بھی بسر کرنے لگیں۔ یہی وہ سچا اور حقیقی بدلہ ہے ان گالیوں کا جو اس وقت بعض ہندو مصنفین کی طرف سے رسول کریم ﷺ فَدَتُہُ نَفْسِیْ وَ اَھْلِیْ کو دی جاتی ہیں اور یہی وہ سچا اور حقیقی علاج ہے جس سے بغیر فساد اور بدامنی پیدا کرنے کے مسلمان خود طاقت پکڑ سکتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں ورنہ اس وقت تو وہ نہ اپنے کام کے ہیں نہ دوسرے کے کام کے اور وہ قوم ہے بھی کس کام کی جو اپنے سب سے پیارے رسول کی عزت کی حفاظت کے لئے حقیقی قربانی نہیں کرسکتی؟
کیا کوئی دردمند دل ہے جو اس آواز پر لبیک کہہ کر اپنے علاقہ کی درستی کی طرف توجہ کرے اور خداتعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو‘‘۔
(انوارالعلوم جلد9 صفحہ552-556)
اس مقدمہ کے سبب ہندوستان کے مسلمانوں کے اشتعالی جذبات اور فساد فی الارض کے خطرہ پیدا ہوا تو حضور ؓ نے کامیاب حکمتِ عملی سے مسلمانانِ ہند اور انگریز حکومت میں کوئی تصادم نہ ہوا۔
سیرت النبیؐ کے جلسوں
اور سیرت نگاری کی تحریک
سال 1928ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھوں سیرت النبیؐ کے جلسوں کی بنیادرکھی گئی۔ یہ تحریک ہندوستان سے نکل کر اب ایک عالمگیر تحریک کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں:
’’لوگوں کو آپﷺ پر حملہ کرنے کی جرأت اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں۔ یا اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دیئے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپؐ کی پاکیزگی سے آگاہ ہوجائے اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرأت نہ رہے جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کر دے گا۔ پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے بہترین طریق یہی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے اور ہر سال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے تاکہ سارے ملک میں شور مچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہوجائیں‘‘۔
(الفضل 10 جنوری 1928ء خطبات محمود جلد11 صفحہ271-272)
جس کے بعد ایک مضبوط سکیم کے تحت ہندوستان بھر میں عظیم الشان جلسوں کا انعقاد حضرت مصلح موعود ؓ کا ایک نہایت عظیم اور شاندار کارنامہ ہے۔
یوم پیشوایان مذاہب کی بنیاد
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً مذہبی نفرت و حقارت اور کشیدگی کم کرنے کے لئے 1928ء میں سیرت النبیؐ کے مبارک جلسوں کی بنیاد رکھی جو عوامی فضا کو درست کرنے اور مسلم و غیر مسلم حلقوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بہت ممد و معاون ثابت ہوئی۔ اس سلسلہ میں حضور نے دوسرا قدم قیام امن و اتحاد عالم کے لئے یہ اٹھایا کہ اپریل 1939ء کی جماعتی مجلس شوریٰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دیرینہ خواہش کے مدنظر آئندہ کے لئے پیشوایان مذاہب کی سیرت بیان کرنے کے لئے بھی سال میں ایک دن مقرر فرمادیا اور ہدایت فرمائی کہ اس دن تمام لوگوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں یا اپنے بانی مذہب کے حالات اس موقع پر بیان کریں۔
(رپورٹ مجلس مشاورت 1939ء صفحہ95۔96)
اس فیصلہ کی تعمیل میں جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا بھر میں پہلا یوم پیشوایان مذاہب نہایت جوش و خروش سے 3دسمبر 1939ء کو منایا گیا اور بہت سے غیر مسلم معززین نے ان جلسوں میں شمولیت کی اور بعض جگہ تو خود غیر مسلموں نے جلسوں کا انتظام کیا اور اشتہار وغیرہ شائع کرائے اور حضرت امام جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس جلسہ کی بناء رکھ کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔
(رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ1940-41ء صفحہ167)
غرض یہ جلسے ہر طرح کامیاب رہے اور آئندہ کے لئے ’’جلسہ سیرت النبیؐ‘‘ کی طرح ہر سال باقاعدگی کے ساتھ ان کا انعقاد ہونے لگا۔ جو اب تک کامیابی سے جاری ہے۔
رسول اللہ ﷺ پر ہونے والے اعتراضات
کے جوابات دینے کی تحریک
حضور نے خطبہ جمعہ 11فروری میں اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
آج کل بھی بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں بعض کتابیں لکھی ہیں اور وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں۔ اسلام کے بارے میں، اسلام کی تعلیم کے بارے میں یا آپؐ کی ذات کے بارے میں بعض مضامین انٹرنیٹ یا اخبارات میں بھی آتے ہیں، کتب بھی لکھی گئی ہیں۔ ایک خاتون مسلمان بن کے ان سائیڈ سٹوری (Inside Story) بتانے والی بھی آجکل کینیڈا میں ہیں۔ جب احمدی اس کو چیلنج دیتے ہیں کہ آؤ بات کرو تو بات نہیں کرتی اور دوسروں سے ویسے اپنے طور پر جو مرضی گند پھیلا رہی ہے۔ تو بہرحال آج کل پھر یہ مہم ہے۔ ہر احمدی کو اس بات پہ نظر رکھنی چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا تقاضا یہی ہے کہ آپؐ کی سیرت کے ہر پہلو کو دیکھا جائے اور بیان کیا جائے، اظہار کیا جائے۔ …… بلکہ مستقل ایسے الزامات جو آپؐ کی پاک ذات پر لگائے جاتے ہیں ان کا ذ کرکرنے کے لئے، آپؐ کی سیرت کے مختلف پہلو بیان کئے جائیں ان اعتراضات کو سامنے رکھ کر آپؐ کی سیرت کے روشن پہلو دکھائے جا سکتے ہیں۔ کوئی بھی اعتراض ایسا نہیں جس کا جواب موجود نہ ہو۔ جن جن ملکوں میں ایسا بیہودہ لٹریچر شائع ہوا ہے یا اخباروں میں ہے یا ویسے آتے ہیں وہاں کی جماعت کا کام ہے کہ اس کو دیکھیں اور براہ راست اگر کسی بات کے جواب دینے کی ضرورت ہے یعنی اس اعتراض کے جواب میں، تو پھر وہ جواب اگر لکھنا ہے تو پہلے مرکز کو دکھائیں۔ نہیں تو جیسا کہ مَیں نے کہا سیرت کا بیان تو ہر وقت جاری رہنا چاہئے۔ یہاں بھجوائیں تاکہ یہاں بھی اس کا جائزہ لیا جاسکے او ر اگر اس کے جواب دینے کی ضرورت ہو تو دیا جائے۔ جماعت کے افراد میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں جس طرح مَیں نے کہا مضامین اور تقاریر کے پروگرام بنائے جائیں۔ ہر ایک کے بھی علم میں آئے۔ نئے شامل ہونے والوں کوبھی اور نئے بچوں کو بھی۔ تاکہ خاص طور پر نوجوانوں میں، کیونکہ جب کالج کی عمر میں جاتے ہیں تو زیادہ اثر پڑتے ہیں۔ تو جب یہ باتیں سنیں تو نوجوان بھی جواب دے سکیں۔ پھر یہ ہے کہ ہر احمدی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے۔ تاکہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ یہ پاک تبدیلیاں آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی وجہ سے ہیں جو چودہ صدیوں سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اسی طرح تازہ ہے۔‘‘
(الفضل 14جون 2005ء)
سیرت النبیﷺ پر مضامین
اور خطوط کی پہلی تحریک
اسی ضمن میں حضور نے خطبہ جمعہ 18فروری 2005ء میں فرمایا :
بہرحال ایسے لوگ جو یہ لغویات، فضولیات اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے گزشتہ ہفتے بھی میں نے کہا تھا کہ جماعتوں کو انتظام کرنا چاہئے۔ مجھے خیال آیا کہ ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کو بھی کہوں کہ وہ بھی ان چیزوں پہ نظر رکھیں کیونکہ لڑکوں، نوجوانوں کی آج کل انٹرنیٹ اور اخباروں پر توجہ ہوتی ہے، دیکھتے بھی رہتے ہیں اور ان کی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ نظر رکھیں اور جواب دیں۔ اس لئے یہاں خدام الاحمدیہ بھی کم از کم 100 ایسے لوگ تلاش کرے جو اچھے پڑھے لکھے ہوں جو دین کا علم رکھتے ہوں۔ اور اسی طرح لجنہ اپنی 100 نوجوان بچیاں تلاش کرکے ٹیم بنائیں جو ایسے مضمون لکھنے والوں کے جواب مختصر خطوط کی صورت میں ان اخبارات کو بھیجیں جن میں ایسے مضمون آتے ہیں یا خطوط آتے ہیں۔
آج کل پھر اخباروں میں مذہبی آزادی کے اوپر ایک بات چیت چل رہی ہے۔ اسی طرح دوسرے ملکوں میں بھی جہاں جہاں یہ اعتراضات ہوتے ہیں۔ وہاں بھی اخباروں میں یا انٹرنیٹ پر خطوط کی صورت میں لکھے جا سکتے ہیں۔ یہ خطوط گو ذیلی تنظیموں کے مرکزی انتظام کے تحت ہوں گے لیکن یہ ایک ٹیم کی Effort نہیں ہو گی بلکہ لوگ اکٹھے کرنے ہیں۔ انفرادی طور پر ہر شخص خط لکھے یعنی 100خدام اگر جواب دیں گے تو اپنے اپنے انداز میں۔خط کی صورت میں کوئی تاریخی، واقعاتی گواہی دے رہا ہو گا اور کوئی قرآن کی گواہی بیان کرکے جواب دے رہا ہو گا۔ اس طرح کے مختلف قسم کے خط جائیں گے تو اسلام کی ایک تصویر واضح ہو گی۔ ایک حسن ابھرے گا اور لوگوں کو بھی پتہ لگے گا کہ یہ لوگ کس حسن کو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے ماند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(الفضل 21جون 2005ء)
سیرت النبیﷺ پر مضامین
اور خطوط کی دوسری تحریک
2005ء کے آخر میں ڈنمارک اور دیگر یورپی ملکوں میں رسول کریم ﷺ کے متعلق ناپاک کارٹون شائع کئے گئے جس پر عالم اسلام میں شدید ردعمل ہوا۔ اور 2006ء کے شروع میں پُر تشدد ہنگامے شروع ہو گئے۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 10فروری 2006ء سے خطبات کا سلسلہ شروع کیا جس میں اسلام اور رسول کریم ﷺ کے خلاف سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے صحیح ردعمل کے لئے عالم اسلام کی راہنمائی کی۔ جماعت نے اس سلسلہ میں ماضی میں اور حالیہ واقعات پر جو خدمات سرانجام دیں ان کا تذکرہ کیا اور احمدیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہ وہ پوری دنیا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے آشنا کریں اور قلم اور زبان سے آپ کی شان کو دنیا میں اجاگر کریں۔ چنانچہ خطبہ جمعہ 10فروری 2006ء میں فرمایا :
’’خلافت رابعہ کا دور تھا جب رُشدی نے بڑی توہین آمیز کتاب لکھی تھی۔ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خطبات بھی دئیے تھے اور ایک کتاب بھی لکھوائی تھی۔ پھر جس طرح کہ مَیں نے کہا یہ حرکتیں ہوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ سال کے شروع میں بھی اس طرح کا ایک مضمون آیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں۔اس وقت بھی مَیں نے جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی توجہ دلائی تھی کہ مضامین لکھیں خطوط لکھیں، رابطے وسیع کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی خوبیاں اور ان کے محاسن بیان کریں۔ تویہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حسین پہلوؤں کو دنیا کو دکھانے کا سوال ہے یہ توڑ پھوڑ سے تو نہیں حاصل ہو سکتا۔ اس لئے اگر ہر طبقے کے احمدی ہر ملک میں دوسرے پڑھے لکھے اور سمجھدار مسلمانوں کو بھی شامل کریں کہ تم بھی اس طرح پرامن طور پر یہ ردّ عمل ظاہر کرو اپنے رابطے بڑھاؤ اور لکھو تو ہر ملک میں ہر طبقے میں اتمام حجت ہو جائے گی اور پھر جو کرے گا اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔
(الفضل 7؍اپریل 2006ء)
صحافت کے ذریعہ جواب دینے کی تحریک
حضور نے اسی خطبہ جمعہ میں فرمایا:
ہر ملک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ … …پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی کثرت سے لکھیں۔ اخباروں کو،لکھنے والوں کو سیرت پر کتابیں بھی بھیجی جا سکتی ہیں۔
پھر یہ بھی ایک تجویز ہے آئندہ کے لئے، یہ بھی جماعت کو پلان (Plan) کرنا چاہئے کہ نوجوان جرنلزم (Journalism) میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کریں جن کو اس طرف زیادہ دلچسپی ہو تاکہ اخباروں کے اندر بھی ان جگہوں پر بھی، ان لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا نفوذ رہے۔ کیونکہ یہ حرکتیں وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں۔ اگر میڈیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وسیع تعلق قائم ہو گا تو ان چیزوں کو روکا جا سکتا ہے، ان بیہودہ حرکات کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر پھر بھی اس کے بعد کوئی ڈھٹائی دکھاتا ہے تو پھر ایسے لوگ اس زمرے میں آتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی۔
…… آپ میں سے ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جوان، ہر مرد اور ہر عورت بیہودہ کارٹون شائع ہونے کے ردعمل کے طور پر اپنے آپ کوایسی آگ لگانے والوں میں شامل کریں جو کبھی نہ بجھنے والی آگ ہو، جو کسی ملک کے جھنڈے یا جائیدادوں کو لگانے والی آگ نہ ہو جو چند منٹوں میں یا چند گھنٹوں میں بجھ جائے۔…… ہماری آگ تو ایسی ہونی چاہئے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو۔ وہ آگ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی آگ جو آپؐ کے ہر اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو۔ جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر لگی رہے۔ یہ آگ ایسی ہو جو دعاؤں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسماں تک پہنچتے رہیں۔
پس یہ آگ ہے جو ہر احمدی نے اپنے دل میں لگانی ہے اور اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالنا ہے۔ لیکن اس کے لئے پھر وسیلہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بننا ہے۔ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھینچنے کے لئے، دنیا کی لغویات سے بچنے کے لئے، اس قسم کے جو فتنے اٹھتے ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دلوں میں سلگتا رکھنے کے لئے، اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پربے شمار درود بھیجنا چاہئے۔ کثرت سے درود بھیجنا چاہئے۔ اس پُر فتن زمانے میں اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈبوئے رکھنے کے لئے اپنی نسلوں کو احمدیت اور اسلام پر قائم رکھنے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے کہ اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ … (الاحزاب: 57) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجا کرو کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔
پس جہاں ایسے وقت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی مچا ہواہے یقینا ًاللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر درُود بھیجتے ہوں گے، بھیج رہے ہوں گے، بھیج رہے ہیں۔ ہمارا بھی کام ہے جنہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اورامام الزمان کے سلسلے اور اس کی جماعت سے منسلک کیا ہوا ہے کہ اپنی دعاؤں کو درود میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا درود صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے اور ہماری تمام دعائیں اس درود کے وسیلے سے خداتعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں۔ یہ ہے اس پیار اور محبت کا اظہار جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہونا چاہئے اور آپ ؐ کی آل سے ہونا چاہئے۔
(الفضل 7؍اپریل 2006ء)
(ذیشان محمود۔ مبلغ سلسلہ سیرالیون)