عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ
اسلامی کیلنڈر کا تیسرا بابرکت مہینہ ربیع الاول ہے جس میں ہمارے آقا سرور کائنات حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ جو دنیا کے لئے رَحۡمَۃٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ بن کر نازل ہوئے اور آپ کا پیغام رحمت، محبت اور امن و سلامتی سارے جہاں کے لئے ہے۔
یسا کہ میں نے عرض کی کہ ربیع الاول کے اس بابرکت مہینہ میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی لیکن تاریخوں میں اختلاف ہے کہ کس تاریخ کو ہوئی۔
علامہ شبلی نعمانی اور علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب سیرت النبی جلد اول میں آنحضرت ﷺ کی ولادت کی تاریخ کے بارے میں لکھا ہے کہ:
’’تاریخ ولادت کے متعلق مصر کے مشہور ہیئت دان عالم محمود پاشا فلکی نے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں انہوں نے ریاضی سے ثابت کیا ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت 9ربیع الاول بروز دو شنبہ مطابق 20اپریل 571ء میں ہوئی تھی۔‘‘
مصنف مزید لکھتے ہیں کہ محمود فلکی نے جو استدلال کیاہے وہ کئی صفحوں میں آیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
تاریخ ولادت میں اختلاف ہے لیکن اس قدر متفق علیہ ہے کہ وہ ربیع الاول کا مہینہ اور دو شنبہ کا دن تھا اور تاریخ 8سے لے کر 12تک میں منحصر ہے۔ ربیع الاول مذکور کی ان تاریخوں میں دو شنبہ کا دن نویں تاریخ کو پڑتا ہے ان وجوہ کی بناء پر تاریخ ولادت قطعاً 20اپریل 571ء تھی۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی تصنیف سیرت خاتم النبیین ﷺ میں ولادت آنحضرت ﷺ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’واقعہ اصحاب الفیل کے 25روز بعد 12ربیع الاوّل مطابق 20اگست 570ء کو یا ایک جدید اور غالباً صحیح تحقیق کی رو سے 9ربیع الاول مطابق 20اپریل571ء بروز پیر بوقت صبح آنحضرت ﷺ کی ولادت ہوئی۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحہ93)
ظہور قدسی کے عنوان سے علامہ شبلی نعمانی اپنی تالیف میں مزید لکھتے ہی کہ:
ارباب سیر اپنے محدود پیرایۂ بیان میں لکھتے ہیں کہ:
’’آج کی رات ایوان کسریٰ کے 14کنگرے گر گئے آتش کدہ فارس بجھ گیا، دریائے ساوہ خشک ہو گیا۔‘‘ لیکن اس کے بارے میں جب سیرت خاتم النبیین (ﷺ) کامطالعہ کیا گیا تو انہوں نے تحقیق سے یہ بات لکھی کہ
’’مؤرخین نے آنحضرت ﷺ کی ولادت کے متعلق بعض عجیب عجیب واقعات لکھے ہیں مثلاً یہ کہ اس وقت کسریٰ شہنشاہ ایران کے محلات میں سخت زلزلہ آیا اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے اور فارس کا مقدس آتشکدہ جو صدیوں سے برابر روشن چلا آتا تھا دفعۃً بجھ گیا اور بعض دریا اور چشمے خشک ہو گئے اور یہ کہ آپ کے اپنے گھر میں بھی رنگ رنگ کے کرشمے ظاہر ہوئے وغیرہ ذالک۔ مگر یہ روایتیں عموماً کمزور ہیں۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین ﷺ جلد اول صفحہ93)
ربیع الاول جو اسلامی مہینوں کا تیسرا مہینہ ہے اور جس میں لوگ عید میلاد النبی اور جلسہ ہائے ولادت نبی ﷺ کرتے ہیں کی وجہ سے جب اخبارات، TV میں خبریں دیکھے اور سنتے ہیں تو جستجو پیدا ہوتی ہے کہ آیا یہی مقاصد تھے رسول اللہ کی ولادت کے؟
خاکسار نے گزشتہ اخبارات میں شائع ہونے والے چند کالم بھی پڑھے اور گوگل پر جا کر کچھ علماء کی تقاریر اور فیس بک پر کچھ ویڈیو Clipings بھی سنیں اور دیکھیں تو معلوم ہوا کہ بعض دانشمند لوگوں نے اس قسم کے عید میلاد النبیﷺ اور اس قسم کی روایات جو آج کل برصغیر پاک و ہند میں رائج ہو گئی کو نظر استحسان سے نہیں دیکھا بلکہ اس کے برعکس اسے غلط اور ناجائز قرار دیا اور کچھ عمدہ عمدہ نصائح بھی سننے کو ملیں مثلاً ایک ویڈیو کلپ جو ڈاکٹر قاری عبدالباسط صاحب کی ہے اور یہ ان کا پیغام Message ٹی وی پر آیا تھا جسے Facebook والوں نے چڑھایا ہوا تھا وہ کہتے ہیں کہ
سیرت پاک کا عملی پہلو اپنانے کی بجائے اور آپ کی زندگی کو اسوہ بنانے کی بجائے ہم میں بنیادی کمزوری یہ واقع ہو گئی ہے کہ ہم چراغاں کرتے ہیں، قمقمے لگاتے ہیں، جھنڈیاں لگانے میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ اب جلسے جلوس نکالنے تک ہی ہو کر رہ گئے ہیں، سیرت منانے میں پوری قوم میدان میں نکل آئی ہے۔ انہیں یہ بنیادی نقطہ سمجھ لینا چاہئے کہ سیرت منانے کی چیز نہیں بلکہ سیرت اپنانے کی چیز ہے۔ انہوں نے ایک مثال سے اس کو واضح کیا کہ اگر کسی کی والدہ بیمار ہے اور آخری وقت ہو اور وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو کہے کہ مجھے پانی پلا دو بیٹا یا بیٹی آکر ان کے ہاتھ چومنے لگ جائیں، پاؤں چومنے لگ جائیں اور یہ کہتے جائیں کہ امی جان ہمیں آپ سے بے حد محبت ہے، لیکن پانی نہ پلائیں۔ پھر وہ پانی مانگے تو اسے آکر چومنے لگ جائیں، اور اپنی محبت الفاظ میں بیان کرنے لگ جائیں تو کیا والدہ کی پیاس بجھ جائے گی وغیرہ۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ لوگ سیرت تو خوب مناتے ہیں محبت و عقیدت کا تو خوب اظہار کرتے ہیں مگر جب سیرت پر عمل کرنے کا موقع آتا ہے کہ جھوٹ بولنا حرام ہے، قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہ جائے گا، غیبت نہیں کرنی، سود نہیں کھانا۔ الکحل کے بارے میں کہیں گے کہ ایسی دوائی نہ لو جس میں الکحل ہو، ایسی خوشبو لگانا جائز نہیں جس میں الکحل ہو مگر صبح سے شام تک غیبت کر کے منوں اور ٹنوں مردہ بھائیوں کا گوشت کھاتے جائیں گے انہیں ایک قطرہ الکحل کا نظر آتا ہے مگر یہ چیزیں نظر نہیں آتیں آج ہمارے علماء، سیاستدان اور ہمارے گھروں میں سوائے غیبت کے اور کیا ہے؟
اس طرح ایک عالم دین کا ویڈیو کلپ دیکھا۔ انہوں نے عید میلاد النبی ﷺکے بارہ میں کہ منانا چاہئے جو جواب دیا اس کا خلاصہ بھی لکھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ
یہ لوگ جو 12ربیع الاول کو آپ ﷺ کا یوم ولادت مناتے ہیں یہ لوگ دراصل آپ کی وفات کا دن مناتے ہیں۔ آپ کی پیدائش کا دن اور تاریخ کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ یہ لوگ بس اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں، وہ مزید کہتے ہیں کہ صحابہ بھی تو آنحضرت ﷺ سے محبت کرتے تھے انہوں نے تو کبھی یہ دن نہ منایا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے بھی نہ منایا تھا۔ وہ اپنی تحقیق سے مزید کہتے ہیں کہ یہ آنحضرت ﷺ کی وفات سے 500ھ سال بعد تک کسی ملک میں بھی نہ منایا گیا تھا پہلا حکمران فاطمی جس نے مصر میں یہ کام شروع کیا تھا، انہوں نے یعنی فاطمی حکمران نے جب یہ دیکھا کہ عیسائی کرسمس مناتے ہیں تو آنحضرت ﷺ کا مقام تو حضرت عیسیٰ سے بڑھ کر ہے تو انہوں نے یہ منانا شروع کر دیا وہ کہتے ہیں کہ فقہ کے 4بڑے امام گزرے ہیں امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل۔ ان میں سے کسی نے بھی نہ یہ دن منایا نہ منانے کی تلقین کی۔ آنحضرت ﷺ کا مقام ان سے زیادہ اور کون جانتا تھا مگر کسی نے بھی اس بارے میں سوچا تک نہ تھا۔
اسی طرح ایک اور عالم کی ویڈیو کلپ دیکھی جن کا نام مولانا اسحاق تھا انہوں نے اس بارے میں وضاحت کی اور کہا کہ
600ھ سے پہلے اس قسم کی کوئی بات کہیں نہ ملتی ہے نہ پائی جاتی ہے الملک المظفر کے زمانہ میں جو عراق میں تھا ابن دحیہ نے پہلا مولود لکھا اور اس کے سامنے پڑھ کر سنایا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اب اس سے آگے یہ جلوسوں تک نوبت جاپہنچی ہے۔ جب کہ اس کی کوئی سند ملتی ہی نہیں تو پھر جلوس نکالے جائیں یا کوئی خاص دن منایا جائے یہ سب غیررسمی باتیں ہیں جو بات ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جو دین، جو پیغام اور جو تعلیم آپ لائے تھے اس پر عمل کیا جائے جن کوسال بعد یاد کرنا ہے وہ بے شک مناتے رہیں ہمیں تو ہر وقت یاد رہتا ہے، اور رہنا چاہئے۔
محترمہ سعدیہ قریشی صاحبہ نے ایک روزنامے میں ’’امکان‘‘ کے تحت اپنے کالم میں لکھا:
’’آج مسلمانوں کی بے وقعتی دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ہم تو دنیا کے سب سے پرامن، متوازن اور قابل عمل مذہب کے ماننے والے ہیں لیکن ہم نے اپنی بے علمی اور بے عملی کی بدولت دین روشن کو محض روایتوں اور ملوکیت میں الجھا کر رکھ دیا ہے ہم نے تو نعتِ رسول ؐ کے تقدس کو بھی خالص رہنے نہیں دیا۔‘‘
انہوں نے اپنے کالم میں چند شعراء کے نعتیہ کلام کے نمونے بھی پیش کئے انہوں نے جن شعراء کا ذکر کیا ان میں عرفی، حفیظ تائب، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر بھی انہوں نے نقل کیا کہ
؎ یہ کہیں خامیٔ ایمان نہ ہو
میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں
آخر میں انہوں نے آنحضرت ﷺ کی مدح میں ایک نعت کے کچھ اشعار بھی لکھے ہیں۔
ان معلومات سے ایک بات تو بہرحال سمجھ آجانی چاہئے کہ ہمیں آنحضرت ﷺ کی سیرت کو اپنانا چاہئے۔ آپ کی تعلیمات سے اپنے دلوں کو روشن کر کے اعمال کو زینت بخشنی چاہئے، تقدس کے ساتھ ساتھ عملی پہلو جس میں سارے مسلمان بہت کمزور ہیں، کو مضبوط کرنا چاہئے۔ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دیں کہ اسلام پیار، امن، محبت، کا مذہب ہے اور یہ ہر ایک کا احترام سکھاتا ہے۔ اور اختلافِ عقیدہ، اختلاف رائے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے کی جان ہی لے لی جائے۔ یہ رسول اللہ کا اسوہ نہ تھا۔ نہ آپ کی تعلیم تھی۔
آپ کی سیرت پر سارا سال لیکچر ہوں، سارا سال آپ کی تعلیمات پر آگاہی دینی چاہئے، تلقین کرنی چاہئے کہ لوگ آپ کے بارے میں سیرت کی کتب پڑھیں اور پھر قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ اگر یہ نہیں تو جلسے اور جلوس خواہ خشکی پر، خواہ سمندر میں، خواہ فضاؤں میں کئے جائیں وہ سب بے معنیٰ ہیں۔ آئیے یہ عہد کریں کہ آپ ﷺ کے اسوہ پر عمل کریں گے۔ ان شاء اللہ۔
مضمون کو میں حضرت علامہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؒ کے نعتیہ کلام پر ختم کرتا ہوں:
سلام بحضور سید الانام صلی اللہ علیہ وسلم
بہ درگاہِ ذی شان خیر الانام
شفیع الوریٰ، مرجع خاص و عام
بصد عجز و منت بصد احترام
یہ کرتا ہے عرض آپ کا اک غلام
کہ اے شاہِ کونین عالی مقام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ
حسینان عالم ہوئے شرمگیں
جو دیکھا وہ حسن اور وہ نور جبیں
پھر اس پر وہ اخلاق اکمل تریں
کہ دشمن بھی کہنے لگے۔ آفریں
زہے خلق کامل۔ زہے حسن تام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ
خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی
بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی
ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھا رہی
کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی
ہوا آپؐ کے دم سے اس کا قیام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ
محبت سے گھائل کیا آپؐ نے
دلائل سے قائل کیا آپؐ نے
جہالت کو زائل کیا آپؐ نے
شریعت کو کامل کیا آپؐ نے
بیان کر دیئے سب حلال و حرام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ
نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال
وہ سب جمع ہیں آپؐ میں لامحال
صفات جمال اور صفات جلال
ہر اک رنگ ہے بس عدیم المثال
لیا ظلم کا عفو سے انتقام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ
مقدس حیات اور مطہر مذاق
اطاعت میں یکتا، عبادت میں طاق
سوارِ جہانگیرِ یکراں بُراق
کہ بگُزَشْت از قصرِ نیلی رَواق
محمدؐ ہی نام اور محمدؐ ہی کام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ
علمدار عُشّاق ذات یگاں
سپہدارِ افواج قدوسیاں
معارف کا اک قلزُم بیکراں
اِفاضات میں زندۂ جاوداں
پلا ساقیا آبِ کوثر کا جام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ
(الفضل 12جون 1928ء)
(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)